حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ فِيهِ: ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ: وَقَالَ فِيهِ: ثُمَّ جِئْتُ بَعْدَ ذَلِكَ فِي زَمَانٍ فِيهِ بَرْدٌ شَدِيدٌ فَرَأَيْتُ النَّاسَ عَلَيْهِمْ جُلُّ الثِّيَابِ تَحَرَّكُ أَيْدِيهِمْ تَحْتَ الثِّيَاب
الشيخ ابو يحييٰ نورپوري حفظ الله ، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 957
´تشہد میں بیٹھنا اور انگلی سے اشارہ کرنا`
«. . . عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: قُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ إِلَى صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يُصَلِّي، " فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَكَبَّرَ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا بِأُذُنَيْهِ، ثُمَّ أَخَذَ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَهُمَا مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى، وَحَدَّ مِرْفَقَهُ الْأَيْمَنَ عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَقَبَضَ ثِنْتَيْنِ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً، وَرَأَيْتُهُ يَقُولُ هَكَذَا: وَحَلَّقَ بِشْرٌ الْإِبْهَامَ وَالْوُسْطَى وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ . . .»
”. . . وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: میں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ نماز کو دیکھوں گا کہ آپ کس طرح نماز پڑھتے ہیں؟ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے تو قبلہ کا استقبال کیا پھر تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہہ کر دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ انہیں پھر اپنے دونوں کانوں کے بالمقابل کیا پھر اپنا بایاں ہاتھ اپنے داہنے ہاتھ سے پکڑا، پھر جب آپ نے رکوع کرنا چاہا تو انہیں پھر اسی طرح اٹھایا، (رفع یدین کیا) وہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تو اپنے بائیں پیر کو بچھا لیا اور اپنے بائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر رکھا اور اپنی داہنی کہنی کو اپنی داہنی ران سے اٹھائے رکھا اور دونوں انگلیاں (یعنی چھنگلیا اور اس کے قریب کی انگلی) بند کر لی اور (بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے) حلقہ بنا لیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا۔ اور بشر (راوی) نے بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنا کر اور کلمے کی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا . . .“ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /باب كَيْفَ الْجُلُوسُ فِي التَّشَهُّدِ: 957]
تشریح:
تشھد میں دائیں ہاتھ کی کیفیات:
➊ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہے:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے، تو اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھتے اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر۔ انگشت شہادت سے اشارہ فرماتے اور اس دوران اپنے انگوٹھےکو درمیان والی انگلی پر رکھتے۔“ [صحیح مسلم 13/579]
➋ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہے:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے، تو اپنا دایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پر رکھتے، جبکہ بائیاں ہاتھ بائیں گھٹے پر۔ نیز 53 کی گرہ بناتے اور سبابہ کے ساتھ اشارہ فرماتے۔“ [صحیح مسلم: 115/580]
↰ عرب لوگ انگلیوں کے ساتھ ایک خاص طریقے سے گنتی کرتے تھے۔ اس طریقے میں 53 کے ہندسے پر ہاتھ کی ایک خاص شکل بنتی تھی، جس میں انگوٹھے اور شہادت والی انگلی کے علاوہ باقی تینوں انگلیوں کو بند کرتے ہیں اور شہادت کی انگلی کو کھول کر انگوٹھے کے سِرے کو اس کی جڑ میں لگاتے ہیں۔
➌ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
«رأيت النبى صلى الله عليه وسلم قد حلق بالابهام والوسطى، ورفع التى تليهما، يدعو بها فى التشهد.»
”میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے تشہد میں انگوٹھے اور درمیان والی انگلی کو ملا کر دائرہ بنایا ہوا تھا اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی مبارک کو اٹھا کر اس کے ساتھ دُعا فرما رہے تھے۔“ [سنن أبى داؤد: 957، سنن النسائي: 1266، سنن ابن ماجه:، 912 واللفظ لهٔ، وسندهٔ صحيح]
↰ معلوم ہوا کہ تشہد میں دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کی کئی کیفیات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ یہ تمام صورتیں جائز ہیں، ان میں سے کوئی بھی اختیار کی جا سکتی ہے۔ البتہ ان سب احادیث میں شہادت والی انگلی کے ساتھ اشارے کا ذکر یکساں موجود ہے۔
ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 61-66، حدیث/صفحہ نمبر: 45
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 896
´رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین`
«. . . ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ . . .»
”. . . پھر آپ نے چادر میں سے ہاتھ باہر نکال کے دونوں کانوں تک اٹھا کر تکبیر پڑھی اس کے بعد رکوع میں گئے۔ . . .“ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ: 896]
فقہ الحدیث
↰ رفع الیدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی سنت متواترہ ہے جس کا ترک یا نسخ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، بلکہ امت کا اسی پر عمل رہا ہے۔
↰ واضح رہے کہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ 9 ہجری میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ [عمدة القاري از عيني حنفي: 274/5]
↰ ایک وقت کے بعد موسم سرما میں دوبارہ آئے اور رفع الیدین کا مشاہدہ کیا۔ [سنن ابي داود: 727، وسنده حسن]
ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 11، حدیث/صفحہ نمبر: 9
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 723
´نماز میں رفع یدین (دونوں ہاتھ اٹھانے) کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، جب آپ نے تکبیر (تحریمہ) کہی تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑا، اور انہیں اپنے کپڑے میں داخل کر لیا، جب آپ نے رکوع کا ارادہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھ (چادر سے) نکالے پھر رفع یدین کیا، اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھانے کا ارادہ کیا تو رفع یدین کیا، پھر سجدہ کیا اور اپنی پیشانی کو دونوں ہتھیلیوں کے بیچ میں رکھا، اور جب سجدے سے اپنا سر اٹھایا تو رفع یدین ۱؎ کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہو گئے۔ محمد کہتے ہیں: میں نے حسن بصری سے اس کا ذکر کیا، تو انہوں نے کہا: یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے، کرنے والوں نے ایسا ہی کیا اور چھوڑنے والوں نے اسے چھوڑ دیا۔ أبوداود کہتے ہیں: اس حدیث کو ہمام نے بھی ابن جحادہ سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے سجدے سے اٹھتے وقت رفع یدین کا ذکر نہیں کیا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 723]
723۔ اردو حاشیہ:
اس حدیث میں «واذا رفع رأسه من السجود ايضا رفع يديه» ”یعنی سجدوں میں رفع یدین۔“ کے الفاظ شاذ ہیں۔ جیسے کہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے خود فرمایا ہے۔ نیز صحیح مسلم: حدیث: 390، سنن کبریٰ بیہقی: 672، معرفۃ السنن والآثار: 1؍ 543 اور مسند احمد: 4؍ 316 میں بھی یہ روایت آئی ہے۔ ان میں بھی یہ الفاظ نہیں ہیں۔ صحیح ابن حبان: 5؍ 173 (حدیث: 1862) میں بھی بطریق عبدالوارث بن سعد عن محمد بن جحاوہ روایت بیان بیان ہوئی ہے اس میں بھی سجدوں کے درمیان رفع الیدین کا ذکر نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 723
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 724
´نماز میں رفع یدین (دونوں ہاتھ اٹھانے) کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین کیا یہاں تک کہ آپ کے دونوں ہاتھ دونوں مونڈھوں کے بالمقابل ہوئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں انگوٹھے دونوں کانوں کے بالمقابل ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «الله أكبر» کہا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 724]
724۔ اردو حاشیہ:
اس سے معلوم ہوا کہ اسی طرح رفع الیدین کرنا کہ انگوٹھے کانوں کے برابر آ جائیں، صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ کسی بھی صحیح حدیث میں یہ بات بیان نہیں ہوئی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 724
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 725
´نماز میں رفع یدین (دونوں ہاتھ اٹھانے) کا بیان۔`
عبدالجبار بن وائل کہتے ہیں: مجھ سے میرے گھر والوں نے بیان کیا کہ میرے والد نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکبیر کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 725]
725۔ اردو حاشیہ:
یعنی «الله اكبر» کہنے اور ہاتھ اٹھانے کا عمل ایک ساتھ ہوتا تھا۔ اور اس میں توسع ہے کہ تلفظ تکبیر اور رفع الیدین اکٹھے ہوں یا آگے پیچھے سب ہی جائز ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 725
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 728
´نماز میں رفع یدین (دونوں ہاتھ اٹھانے) کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جس وقت آپ نے نماز شروع کی اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کے بالمقابل اٹھایا، پھر میں (ایک زمانہ کے بعد) لوگوں کے پاس آیا تو میں نے انہیں دیکھا کہ وہ نماز شروع کرتے وقت اپنے ہاتھ اپنے سینوں تک اٹھاتے اور حال یہ ہوتا کہ ان پر جبے اور چادریں ہوتیں۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 728]
728۔ اردو حاشیہ:
«برانس» «برنس» کی جمع ہے۔ «برنس» ہر وہ کپڑا ہے جس میں ٹوپی لگی ہو، جبّہ ہو، قیمیص یا بارانی کوٹ۔ بعض نے کہا، لمبی ٹوپی جس کو لوگ شروع اسلام میں پہنا کرتے تھے۔ [لغات الحديث، علامه وحيد الزمان]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 728
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 957
´تشہد میں کس طرح بیٹھے؟`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: میں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ نماز کو دیکھوں گا کہ آپ کس طرح نماز پڑھتے ہیں؟ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے تو قبلہ کا استقبال کیا پھر تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہہ کر دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ انہیں پھر اپنے دونوں کانوں کے بالمقابل کیا پھر اپنا بایاں ہاتھ اپنے داہنے ہاتھ سے پکڑا، پھر جب آپ نے رکوع کرنا چاہا تو انہیں پھر اسی طرح اٹھایا، (رفع یدین کیا) وہ کہتے ہیں: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تو اپنے بائیں پیر کو بچھا لیا اور اپنے بائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر رکھا اور اپنی داہنی کہنی کو اپنی داہنی ران سے اٹھائے رکھا اور دونوں انگلیاں (یعنی چھنگلیا اور اس کے قریب کی انگلی) بند کر لی اور (بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے) حلقہ بنا لیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا۔ اور بشر (راوی) نے بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنا کر اور کلمے کی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا ۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 957]
957۔ اردو حاشیہ:
الفاظ حدیث «وحد مرفقه الايمن على فخذه اليمني» کے دو ترجمے کئے گئے ہیں ایک یہ کہ ”کہنی کی ہڈی کو اپنی ران پر رکھا“۔ جیسے کہ آئندہ حدیث [991] میں ہے۔ نمیر ابومالک الخزاعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی داہنی کلائی اپنی دایئں ران پر رکھی ہوئی تھی . . . محدث عصر شیخ البانی رحمہ اللہ اسی طرف مائل ہیں، جبکہ ابن ارسلان اور سندھی وغیرہ کہنی کو ران سے اوپر اٹھائے رکھنا مراد لیتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 957
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 888
´نماز میں داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ نماز میں کھڑے ہوتے تو اپنے داہنے ہاتھ سے اپنا بایاں ہاتھ پکڑتے۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 888]
888 ۔ اردو حاشیہ:
➊ معلوم ہوا کہ نماز کے قیام میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھا جائے گا۔ جمہور اہل علم کا یہی مسلک ہے۔ مالکیہ اور اہل تشیع ہاتھ چھوڑنے کے قائل ہیں مگر ان کے پاس اس کی ایک بھی دلیل نہیں، ٹوٹی پھوٹی بھی نہیں۔
➋ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ہی سے صحیح ابن خزیمہ (1؍479) میں اور حضرت قبیصہ بن ہلب رضی اللہ عنہ سے مسند احمد: (5؍226) میں اور حضرت طاؤس رحمہ اللہ سے سنن ابی دائود [الصلاة، حدیث: 759]
میں روایات ہیں کہ ہاتھ سینے پر باندھے جائیں۔ یہ روایات صحیح ہیں۔ ابوداود کی روایت مرسل ہے جو حنفیہ اور مالکیہ کے نزدیک قابل حجت ہے۔ ناف سے نیچے کی روایات سب کی سب ضعیف ہیں، لہٰذا احادیث صحیحہ کی رو سے ہاتھ سینے ہی پر باندھے جائیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حالت ایک سائل کی سی ہے اور اس طرح نمازی فضول حرکات سے بھی محفوظ رہتا ہے اور یہ خشوع خضوع کے قریب تر ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [ذخیرة العقبٰی شرح سنن النسائي: 11؍135۔ 150، وسنن ابوداود (اردو) الصلاة، حدیث: 759، طبع دارالسلام]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 888
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 890
´نماز میں داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر کہاں رکھے؟`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ میں یہ ضرور دیکھوں گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کیسے پڑھتے ہیں ؛ چنانچہ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ کھڑے ہوئے تو اللہ اکبر کہا، اور اپنے دونوں ہاتھ یہاں تک اٹھائے کہ انہیں اپنے کانوں کے بالمقابل لے گئے، پھر آپ نے اپنا داہنا ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی (کی پشت)، کلائی اور بازو پر رکھا ۱؎، پھر جب رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو پھر اسی طرح اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھا، پھر جب آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا تو پھر اسی طرح اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، پھر آپ نے سجدہ کیا، اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اپنے دونوں کانوں کے بالمقابل رکھا، پھر آپ نے قعدہ کیا، اور اپنے بائیں پیر کو بچھا لیا، اور اپنی بائیں ہتھیلی کو اپنی بائیں ران اور گھٹنے پر رکھا، اور اپنی داہنی کہنی کا سرا اپنی داہنی ران کے اوپر اٹھائے رکھا، پھر آپ نے اپنی انگلیوں میں سے دو کو بند ۲؎ کر لیا، اور (بیچ کی انگلی اور انگوٹھے سے) حلقہ (دائرہ) بنا لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی اٹھائی، تو میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ اسے حرکت دے رہے تھے اور اس سے دعا کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 890]
890 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دائیں ہاتھ (ہتھیلی) کو بائیں ہاتھ کے جوڑ پر اس طرح رکھے کہ ہتھیلی کا اگلا حصہ (انگلیاں) بائیں کلائی پر اور پچھلا حصہ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر ہو۔ یہ تب ہے جب ہاتھ سے مراد صرف ہتھیلی ہو۔ ہاتھ سے کہنی تک بازو بھی مراد لیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں دائیں ہاتھ کی انگلیوں کے کنارے بائیں کہنی تک پہنچ جائیں گے۔ اگرچہ یہ طریقہ بھی درست ہے کیونکہ ایک روایت میں ذراع کو ذراع پر رکھنے کا ذکر ہے اور ذراع کہنی تک ہوتا ہے۔ لیکن وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث پر عمل سے اس حدیث پر بھی عمل ہو جاتا ہے۔ اگرچہ اس (ذراع والی) صورت کو اپنانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
➋ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں، جو کہ سنن نسائی میں نمبر 888 کے تحت گزری ہے، دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑنے کا بھی ذکر ہے۔ تو دونوں روایات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ مختلف اوقات میں دونوں پر عمل ممکن ہے، کبھی ایک پر عمل کر لے اور کبھی دوسری پر۔ دونوں طرح صحیح ہے۔ اس طرح دونوں روایات پر عمل ہو جائے گا۔ لیکن دونوں روایات میں اس طرح تطبیق دینا کہ دائیں ہاتھ کی درمیانی تین انگلیاں بائیں پر رکھے اور چھوٹی انگلی اور انگوٹھے سے جوڑ کو پکڑلے، باطل ہے کیونکہ اس صورت میں حدیث میں وارد دونوں طریقوں میں سے کسی پر بھی عمل نہیں ہوتا بلکہ ایک نئی تیسری شکل بن جاتی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں، لہٰذا ایسا کرنا درست نہیں۔ صحیح طریقہ یہی ہے کہ کبھی دایاں ہاتھ بائیں پر رکھ لے اور کبھی دائیں سے بائیں کو پکڑلے۔ واللہ أعلم۔
➌ ”دائیں کہنی کا کنارہ ران پر رکھا۔“ اس کنارے سے کہنی کا کلائی والا کنارہ مراد ہے۔ گویا کہنی کو ران کی جڑوالی طرف پر رکھ کر کھڑا کر لے اور کلائی کو ران پر بچھالے۔ مگر یہ صورت صرف تورک (قعدہ میں پاؤں کی بجائے زمین پر بیٹھنا اور پاؤں کو دائیں پنڈلی کے نیچے سے باہر نکال لینا) کی صورت میں ممکن ہے۔ پاؤں پر بیٹھنے کی صورت میں صرف ہتھیلیاں ران اور گھٹنوں پر ہوں گی اور بازو قوس کی تانت کی طرح ہوں گے۔
➍ تشہد میں بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر اس طرح رکھا جائے کہ انگلیاں گھٹنے پرہوں اور ہتھیلیاں ران پر مگر دایاں ہاتھ بند کر کے رکھا جائے۔ اس حدیث میں بند کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کنارے کی دو انگلیاں بند کرے۔ درمیانی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنا کر تشہد کی انگلی کو کھلا چھوڑ دے جس طرح کسی چیز کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
➎ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران تشہد میں سلام تک انگلی کو حرکت دینا مسنون ہے۔ «يُحَرِّكُ» فعل مضارع ہے جو یہاں استمرار کا فائدہ دے رہا ہے کیونکہ «يَدْعُو بِهَا» اس سے حال ہے، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انگلی کو حرکت دے رہے تھے، اور درآں حالیکہ آپ اس کے ساتھ دعا کر رہے تھے۔ نامور محدث شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وفیه تحریكھا دائما، اذ الدعاء بعد التشھد» ”اس حدیث سے پورے تشہد میں انگلی کو حرکت دینا ثابت ہوتا ہے، اس لیے کہ دعا تشہد کے بعد (سلام تک) ہوتی ہے۔“ [عون المعبود، الصلاة، باب الإشارة فی التشھد، حدیث: 898]
سنن ابی داود کی ایک روایت میں «لَايُحَرِّكُهَا» کے الفاظ ہیں۔ یہ الفاظ شاذ اور ضعیف ہیں۔ ان الفاظ کو روایت کرنے میں محمد بن عجلان سے زیاد بن سعد متفرد ہے۔ عامر بن عبداللہ سے ابن عجلان کے علاوہ باقی دو ثقہ راویان الفاظ کو بیان نہیں کرتے، نیز زیاد کے علاوہ محمد بن عجلان کے باقی چار ثقہ شاگرد یہ الفاظ بیان نہیں کرتے۔ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے مگر اس میں یہ اضافہ مذکور نہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ضعیف سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: 175]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبقات المدلسین میں محمد بن عجلان کو تیسرے طبقے کے مدلسین میں شمار کیا ہے اور ان الفاظ میں ابن عجلان کی عامر بن عبداللہ سے سماع کی تصریح نہیں ملی، لہٰذا «لَا يُحَرِّكُهَا» کے الفاظ صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ درست موقف یہی ہے کہ تشہد میں انگلی کو حرکت دیتے رہنا بھی جائز ہے۔ لیکن ایسا وقتاً فوقتاً کرنا چاہیے کیونکہ اکثر روایات میں صرف اشارے کا ذکر ہے جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی روایت میں ہے۔ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ نماز بیان کیا ہے انہوں نے اسے بیان نہیں کیا۔ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر عمل اشارے کا تھانہ کہ حرکت دینے کا۔ اور اشارے کا طریقہ یہ ہے کہ 53کی گرہ لگا کر مسنون تشہد سے لے کر آخر تک انگلی کو کھڑا رکھنا۔
➏ اشارہ اور حرکت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ لغت میں ان کے الگ الگ معانی ہیں۔ اس لیے یہ دو مختلف فعل ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔ کبھی آپ نے ایک طریقہ اختیار کیا اور کبھی دوسرا۔ یہی تطبیق ان شاء اللہ اقرب الی الصواب ہے۔ دونوں (اشارے اور حرکت) کو تطبیق کے ذریعے سے ایک ہی تشہد میں یکجا کرنا محل نظر لگتا ہے کیونکہ دونوں کلمات کا مصداق دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ واللہ أعلم۔
➐ احناف کے نزدیک لَا پر انگلی اوپر اٹھائے اور الا پر نیچے کرے۔ گویا اٹھانا نفی کی علامت ہے اور گرانا اثبات کی۔ یہی لا اور الا کے معنی ہیں۔ شوافع کے نزدیک الا اللہ پر انگلی اٹھائے اور پھر نیچے کرے کیونکہ الا اللہ میں توحید کا اثبات ہے، لہٰذا انگلی کے ساتھ فعلا بھی ایک اللہ کی توحید بیان کرے۔ تاہم ان میں سے کسی کے پاس اس مقام پر انگلی کے اٹھانے اور گرانے کی کوئی دلیل نہیں ہے جبکہ صحیح موقوف کی وضاحت اوپر ہو چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 890
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1056
´رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرنے کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، تو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے، اور جب رکوع کرتے، اور «سمع اللہ لمن حمده» کہتے تو بھی اسی طرح کرتے۔ قیس بن سلیم (راوی حدیث) نے دونوں کانوں تک اشارہ کر کے دکھایا۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1056]
1056۔ اردو حاشیہ: رفع الیدین کی بحث احادیث 1025، 1026، 1027 میں تفصیلاً گزر چکی ہے۔ یہ قطعاً سنت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1056
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1103
´سجدہ میں دونوں ہاتھ رکھنے کی جگہ کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا تو میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ضرور دیکھوں گا (کہ آپ کیسے نماز پڑھتے ہیں تو میں نے دیکھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ میں نے آپ کے دونوں انگوٹھوں کو آپ کی دونوں کانوں کے قریب دیکھا، اور جب آپ نے رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو ”اللہ اکبر“ کہا، اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا، اور «سمع اللہ لمن حمده» کہا، پھر آپ نے ”اللہ اکبر“ کہا، اور سجدہ کیا، آپ کے دونوں ہاتھ آپ کی دونوں کانوں کی اس جگہ تک اٹھے جہاں تک آپ نے شروع نماز میں انہیں اٹھایا تھا (یعنی انہیں دونوں کانوں کے بالمقابل اٹھایا)۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1103]
1103۔ اردو حاشیہ: آغاز نماز میں رفع الیدین کانوں کے برابر بھی کیا جا سکتا ہے اور کندھوں کے برابر بھی۔ اسی طرح سجدے میں ہاتھ کانوں کے برابر بھی رکھے جا سکتے ہیں اور کندھوں کے برابر بھی اور اس تطبیق کے مطابق بھی جو رفع الیدین کے بارے میں بیان ہو چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1103
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1160
´پہلے تشہد کے لیے بیٹھتے وقت دونوں ہاتھوں کے رکھنے کی جگہ کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو میں نے آپ کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل کر لیتے، اور جب رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تو بھی ایسے ہی اٹھاتے، اور جب دو رکعت پڑھ کر بیٹھتے تو بائیں پیر کو بچھا دیتے، اور دائیں کو کھڑا رکھتے، اور اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھتے، اور (شہادت کی) انگلی دعا کے لیے کھڑی رکھتے، اور اپنے بائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر رکھتے۔ وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر میں آئندہ سال ان لوگوں کے پاس آیا، تو میں نے لوگوں کو جبوں کے اندر اپنے ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1160]
1160۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ پہلی دفعہ غزوۂ تبوک کے بعد 9ھ میں آئے تھے اور مسلمان ہوئے۔ پھر دوبارہ (اس روایت کے مطابق) اگلے سال، یعنی 10ھ میں آئے۔ یہ رمضان یا شوال کی بات ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک چھ سات ماہ بنتے ہیں۔ گویا وفات سے اتنا عرصہ قبل تک تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ منسوخ کب ہوا؟ بینوا توجروا۔
➋ تشہد پڑھتے وقت انگشت شہادت سے اشارہ کرنا چاہیے اور یہ انگلی سلام پھیرنے تک اٹھی رہنی چاہیے اور بسا اوقات کسی نماز میں سلام پھیرنے تک پورے تشہد میں بدستور حرکت بھی دی جا سکتی ہے۔ اس کی تفصیل حدیث نمبر 890 اور اس کے فوائد و مسائل میں گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1160
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1264
´آخری رکعت میں بیٹھنے کی کیفیت (تورک) کا بیان؟`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے، اور جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے (تو بھی اسی طرح اٹھاتے) اور جب آپ (قعدہ میں) بیٹھتے تو بایاں (پاؤں) لٹاتے، اور دایاں (پاؤں) کھڑا رکھتے، اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر اور دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھتے، اور درمیان والی انگلی اور انگوٹھے دونوں کو ملا کر گرہ بناتے، اور اشارہ کرتے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1264]
1264۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں بیٹھنے کا عام طریقہ بیان کیا گیا ہے مگر اوپر والی روایت میں سلام والے تشہد میں بیٹھنے کا مخصوص طریقہ بیان کیا گیا ہے اور یہ اصول ہے کہ مفصل روایت پر عمل کیا جاتا ہے اور مبہم کو مفصل پر محمول کیا جاتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1264
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1266
´نماز میں بیٹھنے کی حالت میں کہنیوں کے رکھنے کی جگہ کا بیان۔`
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر رہوں گا کہ آپ نماز کیسے پڑھتے ہیں، تو (میں نے دیکھا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اور قبلہ رو ہوئے اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا اٹھایا کہ وہ آپ کے کانوں کے بالمقابل ہو گئے، پھر اپنے دائیں (ہاتھ) سے اپنے بائیں (ہاتھ) کو پکڑا، پھر جب رکوع میں جانے کا ارادہ کیا تو ان دونوں کو پھر اسی طرح اٹھایا، اور اپنے ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھا، پھر جب رکوع سے اپنا سر اٹھایا تو پھر ان دونوں کو اسی طرح اٹھایا، پھر جب سجدہ کیا تو اپنے سر کو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان اسی جگہ پر رکھا ۱؎، پھر آپ بیٹھے تو اپنا بایاں پاؤں بچھایا، اور اپنا بایاں ہاتھ اپنی بائیں ران پر رکھا، اور اپنی دائیں کہنی کو اپنی دائیں ران سے دور رکھا، پھر اپنی دو انگلیاں بند کیں، اور حلقہ بنایا، اور میں نے انہیں اس طرح کرتے دیکھا۔ بشر نے داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا، اور انگوٹھے اور درمیانی انگلی کا حلقہ بنایا۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1266]
1266۔ اردو حاشیہ: تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 890۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1266
الشيخ حافظ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 896
´رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین`
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدیں طور دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہا۔ اس حدیث کے راوی ہمام کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے پھر چادر اوڑھ لی اس کے بعد سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر رکھا پھر آپ نے چادر میں سے ہاتھ باہر نکال کے دونوں کانوں تک اٹھا کر تکبیر پڑھی اس کے بعد رکوع میں گئے۔ اور بحالت قیام «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» پڑھ کر رفع الیدین کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہتھیلیوں کے درمیان میں سجدہ کیا۔ [صحيح مسلم/كِتَاب الصَّلَاةِ: 896]
------------------
مرد اور عورت کی نماز میں فرق
------------------
عام طور پر حنفی علماء کی کتابوں میں جو مردوں اور عورتوں کی نماز کا فرق بیان کیا جاتا ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائیں اور عورتیں صرف کندھوں تک، مرد حالت قیام میں زیر ناف ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینے پر، حالت سجدہ میں مرد اپنی رانیں پیٹ سے دور رکھیں اور عورتیں اپنی رانیں پیٹ سے چپکا لیں، یہ فرق کسی بھی صحیح و صریح حدیث میں مذکور نہیں۔
چنانچہ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
➊ «وَاعْلَمْ اَنَّ هٰذِهِ السُّنَّةَ تَشْتَرِكُ فِيْهَا الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ وَلَمْ يَرِدْ مَا يَدُلُّ عَلَي الْفَرْقِ بَيْنَهُمَا فِيْهَا وَكَذَالَمْ يَرِدْ مَا يَدُلُّ عَلَي الْفَرْقِ بَيْنَ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ فِيْ مِقْدَارِ الرَّفْعِ رُوِيَ عَنِ الْحَنَفِيَّةِ اَنَّ الرَّجُلَ يَرْفَعُ اِلَي الْاُذُنَيْنِ وَالْمَرْأَةُ اِلَي الْمَنْكِبَيْنِ لِاَنَّهُ اَسْتَرُ لَهَاوَلَا دَلِيْلَ عَلٰي ذٰلِكَ كَمَاعَرَفْتَ» [نيل الأوطار 198/2]
”اور جان لیجیے کہ رفع الیدین ایسی سنت ہے جس میں مرد اور عورتیں دونوں شریک ہیں اور ایسی کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی جو ان دونوں کے درمیان اس کے بارے میں فرق پر دلالت کرتی ہو اور نہ کوئی ایسی حدیث ہی وارد ہے جو مرد اور عورت کے درمیان ہاتھ اٹھانے کی مقدار کے فرق پر دلالت کرتی ہو۔ احناف سے مروی ہے کہ مرد کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور عورت کندھوں تک کیونکہ یہ اس کے لیے زیادہ ساتر ہے، لیکن اس کے لیے ان کے پاس کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔“
شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اور علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لَمْ يَرِدْ مَا يَدُلُّ عَلَي التَّفْرِقَهِ فِي الرَّفْعِ بَيْنَ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ» [فتح الباري 222/2، عون المعبود 263/1]
”مرد اور عورت کے درمیان تکبیر کے لئے ہاتھ اٹھانے کے فرق کے بارے میں کوئی حدیث وارد نہیں۔“
➋ مردوں اور عورتوں کو حالت قیام میں یکساں طور پر حکم ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سینے پر باندھیں۔ خاص طور پر عورتوں کے لیے علیحدہ حکم دینا کہ صرف وہی سینے پر ہاتھ باندھیں اور مرد ناف کے نیچے باندھیں، اس کے متعلق حنفیوں کے پاس کوئی صریح اور صحیح حدیث موجود نہیں۔
علامہ عبد الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ ترمذی کی شرح میں فرماتے ہیں:
«فاعلم ان مذهب الامام ابي حنيفة ان الرجل يضع اليدين فى الصلاة تحت السرة و المرأة تضعهما علي الصدر ولم يرو عنه ولا عن اصحابه شيء خلاف ذٰلك» [تحفة الأحوذي 213/1]
”پس جان لو کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک یہ ہے کہ مرد نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے اور عورت سینہ پر، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور آپ کے اصحاب سے اس کے خلاف کوئی اور قول مروی نہیں۔“
محدث العصر علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وضعهما علي الصدر الذى ثبت فى السنة وخلافه اما ضعيف او لا اصل له» “ [صفة صلاة النبى ص/ 88]
”اور سینے پر ہاتھ باندھنا سنت سے ثابت ہے اور اس کے خلاف جو عمل ہے وہ یا تو ضعیف ہے یاپھر بے اصل ہے۔“
➌ حالت سجدہ میں مردوں کا اپنی رانوں کو پیٹ سے دور رکھنا اور عورتوں کا سمٹ کر سجدہ کرنا، یہ حنفی علماء کے نزدیک ایک مرسل حدیث کی بنیاد پر ہے، جس میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملا لیا کرو کیونکہ عورتوں کا حکم اس بارے میں مردوں جیسا نہیں۔“
علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مُرْسَلٌ لَا حُجَّةَ فِيْهِ رَوَاهُ اَبُوْ دَاؤُدَ فِي الْمَرَاسِيْلِ» [صفة صلاة النبى ص/89]
”یہ روایت مرسل ہے، جو قابل حجت نہیں۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اسے ”مراسیل“ میں یزید بن ابی حبیب سے روایت کیا ہے۔“
لیکن یہ روایت منقطع ہے اور اس کی سند میں موجود ایک راوی ”سالم“ محدثین کے نزدیک متروک ہے۔
علامہ ابن الترکمانی حنفی نے اس روایت کے متعلق تفصیل سے لکھا ہے۔ [الجوهر النقي على السنن الكبري للبيهقي 2/ 223]
اس کے متعلق حنفی علماء ایک اور روایت پیش کرتے ہیں، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں سے چپکا لے، اس طرح کہ اس کے لیے زیادہ سے زیادہ پردے کا موجب ہو۔“ [بيهقي فى السنن الكبريٰ 222/2، 223]
اس روایت کے متعلق خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے صراحت کر دی ہے کہ اس جیسی ضعیف روایت سے استدلال کرنا صحیح نہیں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک اثر یہ بھی پیش کیا جاتا ہے:
«اِنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ نِسَاءَهُ يَتَرَبَّعْنَ فِي الصَّلَاةِ» [مسائل أحمد لابنه عبدالله ص/71]
”وہ اپنی عورتوں کو حکم دیتے کہ وہ نماز میں چار زانوں بیٹھیں“۔
لیکن اس کی سند میں عبداللہ بن عمر العمری راوی ضعیف ہے۔ [تقريب التهذيب 182]
پس معلوم ہوا کہ احناف کے ہاں عورتوں کے سجدہ کر نے کا مروج طریقہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں مگر اس طریقے کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشاد مروی ہیں، چند ایک یہاں نقل کئے جاتے ہیں:
➊ «لَايَنْبَسِطْ اَحَدُكُمْ ذِرَعَيْهِ اِنْبِسَاطَ الْكَلْبِ» [بخاري، كتاب الأذان: باب لايفترش زراعيه فى السجود 822]
”تم میں سے کوئی بھی حالتِ سجدہ میں اپنے دونوں بازو کتے کی طرح نہ بچھائے۔“
➋ «اِعْتَدِلُوْا فِي السُّجُودِ، وَلَا يَفْتَرِشُ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ افْتِرَاشَ الْكَلْبِ» [أبوداؤد، كتاب الصلاة: باب صفة السجود 897]
”سجدہ اطمینان سے کرو اور تم میں سے کوئی بھی حالت سجدہ میں اپنے بازو کتے کی طرح نہ بچھائے۔“
غرض نماز کے اندر ایسے کاموں سے روکا گیا ہے جو جانوروں کی طرح کے ہوں۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں حیوانات سے مشابہت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ اس طرح بیٹھنا جس طرح اونٹ بیٹھتا ہے یا لومڑی کی طرح اِدھر اُدھر دیکھنا یا جنگلی جانوروں کی طرح افتراش یا کتے کی طرح اقعاء یا کوے کی طرح ٹھونگے مارنا یا سلام کے وقت شریر گھوڑوں کی دم کی طرح ہاتھ اٹھانا یہ سب افعال منع ہیں۔“ [زاد المعاد1/ 116]
پس ثابت ہوا کہ سجدہ کا اصل مسنون طریقہ وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا تھا اور کتب احادیث میں یوں مروی ہے:
«إِذَا سَجَدَ وَضَعَ يَدَيْهِ غَيْرَ مُفْتَرِشٍ وَلَا قَابِضِهِمَا» [بخاري، كتاب الأذان: باب سنة الجلوس فى التشهد 828]
“ جب آپ سجدہ کرتے تو اہنے ہاتھوں کو زمین پر نہ بچھاتے اور نہ اپنے پہلوؤں سے ہی ملاتے تھے۔“
قرآن مجید میں جس مقام پر نماز کا حکم وارد ہوا ہے اس میں سے کسی ایک مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کے طریقہ نماز میں فرق بیان نہیں کیا۔ دوسری بات یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کسی صحیح حدیث سے ہیت نماز کا فرق مروی نہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد رسالت سے جملہ امہات المؤمنین، صحابیات اور احادیث نبویہ پر عمل کرنے والی خواتین کا طریقہ نماز وہی رہا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوتا تھا۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بسند صحیح ام درداء رضی اللہ عنہا کے متعلق نقل کیا ہے:
«انهاكانت تجلس فى صلاتها جلسة الرجل و كانت فقيهة» [التاريخ الصغير للبخاري 90]
”وہ نماز میں مردوں کی طرح بیٹھتی تھیں اور وہ فقیہ تھیں۔“
چوتھی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم عام ہے:
“ اس طرح نماز پڑھو، جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔“ [بخاري: 6008]
اس حکم کے عموم میں عورتیں بھی شامل ہیں۔
پانچویں یہ کہ سلف صالحین یعنی خلفائے راشدین، صحاب کرام، تابعین، تبع تابعین، محدثین اور صلحائے امت میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو دلیل کے ساتھ یہ دعوٰی کرتا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق کیا ہے
بلکہ امام ابوحنیفہ کے استاد امام ابراہیم نخعی سے صحیح سند کے ساتھ مروی ہے:
«تَفْعَلُ الْمَرْأَةُ فِي الصَّلَاةِ كَمَا يَفْعَلُ الرَّجُلُ» [ابن أبى شيبة 2/75/1]
”نماز میں عورت بھی بالکل ویسے ہی کرے جیسے مرد کرتا ہے۔“
جن علماء نے عورتوں کا نماز میں تکبیر کے لیے کندھوں تک ہاتھ اٹھانا، قیام میں سینے پر ہاتھ باندھنا اور سجدے میں زمین کے ساتھ چپک جانا موجب ستر بیان کیا ہے وہ دراصل قیاس فاسد کی بنا پر ہے، کیونکہ جب اس کے متعلق قرآن و سنت خاموش ہیں تو کسی عالم کو یہ حق کہاں پہنچتا ہے کہ وہ اپنی من مانی کر کے ازخود دین میں اضافہ کرے؟ البتہ نماز کی کیفیت و ہئیت کے علاوہ چند چیزیں مرد و عورت کی نماز میں مختلف ہیں:
➊ عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سر پر اوڑھنی لیں اور اپنے پاؤں بھی ڈھانپیں۔ اس کے بغیر بالغہ عورت کی نماز قبول نہیں ہوتی، جیسا کہ حدیث نبوی ہے:
«لَا يَقْبَلُ اللهُ صَلَاةَ الْحَائِضٍ إِلَّا بِخِمَارٍ» [ابن ماجه، كتاب الطهارة: باب إذاحاضت الجارة لم تصل إلابخمار 655، أبوداؤد 641، أحمد 150/6]
”اللہ تعالیٰ کسی بھی بالغہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں کرتا۔“
لیکن مردوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر حال میں کپڑا ٹخنوں سے اوپر رکھیں جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے:
«مَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ مِنَ الْإِزَارِ فَفِي النَّارِ» [بخاري، كتاب اللباس: باب ما أسفل من الكعبين فهو فى النار 5787]
”تہ بند کاجو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو گا وہ آگ میں ہے۔“
➋ عورت جب عورتوں کی امامت کرائے تو ان کے ساتھ پہلی صف کے وسط میں کھڑی ہو جائے، مردوں کی طرح آگے بڑھ کر کھڑی نہ ہو۔
امام ابوبکر ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے مصنف میں اور امام حاکم رحمہ اللہ نے سیدنا عطا رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے:
«عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا اَنَّهَا كَانَتْ تَؤُمُّ النِّسَاءَ فَتَقُوْمُ مَعَهُنَّ فِي الصَّفِّ» [دارقطني 404/1]
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت کراتی تھیں اور ان کے ساتھ صف میں کھڑی ہوتی تھیں۔“
اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں آتا ہے:
«انها امت النساء فقامت و سطهن» مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: [عون المعبود2/ 212]
”انہوں نے عورتوں کی امامت کرائی اور ان کے درمیان میں کھڑی ہوئیں۔“
➌ امام جب نماز میں بھول جائے تو اسے متنبہ کرنے کے لیے مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتیں تالی بجائیں، جیسا کہ صحیح حدیث میں آتا ہے:
«التَّسْبِيْحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيْقُ لِلنِّسَاءِ» [بخاري، كتاب العمل فى الصلاة: بَابُ التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ 1203]
”مردوں کے لیے سبحان اللہ اور عورتوں کے لیے تالی بجانا ہے۔“
➍ مرد کو نماز کسی صورت میں بھی معاف نہیں لیکن عورت کو حالت حیض میں فوت شدہ نماز کی قضا نہیں ہوتی جیسا کہ یہ مسئلہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
➎ اسی طرح عورتوں کی سب سے آخری صف ان کی پہلی صف سے بہتر ہوتی ہے اور مردوں کی پہلی صف ان کی آخری صف سے بہتر ہوتی ہے۔ [مسلم، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف وإقامتها وفضل الأول فالأول 440]
یہ تمام مسائل اپنی جگہ درست ہیں مگر قرآن و سنت سے ثابت شدہ فرق کو غیر ثابت شدہ کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ تفریقات علمائے احناف کی خود ساختہ ہیں جن کا قرآن وسنت سے کوئی تعلق نہیں۔
احکام و مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 196
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:909
909- سیدنا وائل بن حجر حضرمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا آغاز کرتے تھے، تو رفع یدین کرتے تھے، جب رکوع میں جاتے تھے اور جب رکوع سے سراٹھاتے تھے اس وقت بھی رفع یدین کرتے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز نے دوران بیٹھتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بائیں ٹانگ کو بچھالیتے تھے اور دائیں پاؤں کو کھڑا ر کھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا بایاں ہاتھ بائیں زانوں پر رکھتے تھے اور اسے کھول کے رکھتے تھے، جبکہ دایاں ہاتھ دائیں زانوں پر رکھتے تھے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:909]
فائدہ:
اس حدیث میں نماز میں رفع الیدین کرنے کا ثبوت ہے کہ نماز کے شروع میں، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کر نی چا ہیے، اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ چادر کے اندر سے بھی رفع الیدین کرنا درست ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 908
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 896
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اس نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا، آپﷺ نے نماز میں داخل ہوتے وقت اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے تکبیر کہی (ہمام نے بیان کیا، کانوں کے برابر تک بلند کیے) پھر اپنا کپڑا اوڑھ لیا پھر اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا تو جب رکوع کرنا چاہا، اپنے دونوں ہاتھ کپڑے سے نکالے پھر بلند کیے، پھر تکبیر کہی اور رکوع کیا، جب سَمِعَ اللُّٰہ لمَِنْ حَمِدَہ کہا، اپنے ہاتھ بلند کیے، اور جب سجدہ کیا، اپنی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان سجدہ کیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:896]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے دائیں ہاتھ کا بائیں پر رکھنا یعنی ہاتھ باندھنا ثابت ہوتا ہے اور ہاتھ کہاں رکھے یہ صراحتاً ثابت نہیں ہو تا اگر ہاتھ کہنیوں کے برابر باندھے جائیں تو پھر سینہ کے نیچے اور ناف سے بہت اوپر آتے ہیں اور یہ گویا ایک طبعی اور فطری طریقہ ہے اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے مطابق باب باندھا ہے شوافع کا یہی موقف ہے مالکی عام طور پر موطا کی روایت کے برعکس ہاتھ نہیں باندھتے اور احناف حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جس روایت سے زیر ناف ہاتھ باندھنے کا استدلال کرتے ہیں وہ محدثین کے نزدیک ضعیف ہے اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ کی جو تفسیر کی ہے اس کے خلاف ہے،
اگرچہ قول بھی ضعیف ہےحضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت طاؤس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرسل روایت اور مختلف صحابہ کے تفسیری اقوال کو سامنے رکھا جائے تو صحیح بات یہ ہے کہ ہاتھ سینے کے اوپر باندھے جائیں گے۔
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ابن خزیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنیٰ عَلَی الْیُسْریٰ عَلیٰ صَدْرِہ اور مسند احمد میں حضرت قبیصہ بن ہلب کی روایت ہے رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ یَضَعُ یَدَہُ عَلیٰ صَدْرِہ اور وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری دور میں مسلمان ہوتے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 896