Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
تفرح أبواب ما يقطع الصلاة وما لا تقطعها
ابواب: ان چیزوں کی تفصیل، جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور جن سے نہیں ٹوٹتی
114. باب مَنْ قَالَ الْمَرْأَةُ لاَ تَقْطَعُ الصَّلاَةَ
باب: نمازی کے آگے سے عورت کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی، اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔
حدیث نمبر: 714
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ. ح قَالَ أَبُو دَاوُد، حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ وَهَذَا لَفْظُهُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ:" كُنْتُ أَنَامُ وَأَنَا مُعْتَرِضَةٌ فِي قِبْلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيُصَلِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَمَامَهُ، إِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ، زَادَ عُثْمَانُ: غَمَزَنِي ثُمَّ اتَّفَقَا، فَقَالَ: تَنَحَّيْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سمت میں لیٹی رہتی، آپ نماز پڑھتے اور میں آپ کے آگے ہوتی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھنا چاہتے (عثمان کی روایت میں یہ اضافہ ہے: تو آپ مجھے اشارہ کرتے، پھر عثمان اور قعنبی دونوں روایت میں متفق ہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: سرک جاؤ۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17754)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/182) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
محمد بن عمرو بن علقمة الليثي وثقه الجمھور وانظر مسند الحميدي بتحقيقي (178)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 714 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 714  
714۔ اردو حاشیہ:
ان روایات سے معلوم ہوا کہ نمازی کے آگے کسی کا لیٹا ہوا ہونا اور اس کے آگے سے گزرنا، یہ دو الگ الگ باتیں ہیں، آگے لیٹا ہوا ہونا نماز میں «قادح» (خراب کرنے والا عمل) نہیں۔ البتہ گزرنا خشوع کے منافی ہے، اسی لیے یہ ممنوع ہے اور آگے گزرنے والا سخت گناہ گار۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 714   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 511  
´آدمی کا آدمی کے سامنے نماز پڑھنا `
«. . . رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَإِنِّي لَبَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ وَأَنَا مُضْطَجِعَةٌ عَلَى السَّرِيرِ، فَتَكُونُ لِي الْحَاجَةُ فَأَكْرَهُ أَنْ أَسْتَقْبِلَهُ فَأَنْسَلُّ انْسِلَالًا . . .»
. . . ‏‏‏‏ حالانکہ میں جانتی ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلہ کے درمیان (سامنے) چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی۔ مجھے ضرورت پیش آتی تھی اور یہ بھی اچھا نہیں معلوم ہوتا تھا کہ خود کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کر دوں۔ اس لیے میں آہستہ سے نکل آتی تھی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ: 511]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ ایک شخص نماز پڑھ رہا ہو اور دوسرا (شخص) اس کی طرف منہ کر کے بیٹھے تو کیسا ہے اور ذیل میں حدیث پیش کرتے ہیں کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹی رہتی حالانکہ باب کے مطابق آدمی کا آدمی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی حدیث پیش کرتے ہیں مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پیش فرمائی جس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹے رہنا مضر نہ ہوا تو آدمی کے سامنے آدمی کا لیٹنا سامنے منہ کر کے کیوں کر مضر ہو گا؟ حالانکہ یہ بات بھی «ضوء النهار» کی طرح واضح ہے کہ جو احکام نماز کے لیے مردوں پر ہیں وہی عورتوں کے لیے ہیں، الا یہ کہ چند چیزوں کو شارع علیہ السلام نے عورتوں کے لیے مخصوص فرمایا جیسا کہ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے نہ ہو گی وغیرہ۔

صاحب اوجزالمسالک رقمطراز ہیں:
«في الحديث استقبال الرجل المراة فقيل هما سواء، وقيل لمالم يريها باسا، فالرجل بالاولي» [ابواب والتراجم لصحيح البخاري، ج 2، ص 782]
حدیث میں مرد عورت کے استقبال کا ذکر ہے۔ پس دونوں (اس حکم میں) یکساں ہیں (کیونکہ) یہ بھی کہا گیا ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے امی عائشہ تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت نہیں فرمائی تو پھر (آدمی) کا آدمی کے سامنے نماز پڑھنا بالاولی جائز ہے۔

◈ امام کرمانی فرماتے ہیں:
«بان حكم الرجل والمراة واحد فى احكام الشريعة» [فتح الباري ج 1 س 772]
یقیناً مردوں اور عورتوں کا حکم شریعت میں یکساں ہیں۔

◈ ابن رشید فرماتے ہیں:
«قصد البخاري ان شغل المصلي بالمراة اذا كانت فى قبلته على اي حالة كانت اشد من شغله بالرجل» [فتح الباري ج 1 س 773]
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ جب نمازی کے آگے عورت لیٹی ہوئی ہو تو اس کا دل اس کی طرف زیادہ مشغول ہوتا ہے بنسبت مرد کے (یعنی جب عورت کا لیٹنا درست ٹھہرا تو مرد کا لیٹنا کیوں درست نہ ہو گا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے)۔

فائدہ:
صحیح مسلم میں حدیث موجود ہے کہ عورت، گدھا اور کتّے کی وجہ سے نمازی کی نماز ٹوٹ جاتی ہے، لہٰذا امام الطحاوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو منسوخ گردانا ہے لیکن یہاں پر نسخ ثابت نہ ہو گا کیوں کہ عدم علم تاریخ کے بغیر نسخ کا دعوی بےکار ہے اور اگر تطبیق ممکن ہو تو منسوخ قرار دینے کا تکلف باقی نہیں رہتا جمہور اسی طرف گئے ہیں کہ نماز کسی چیز سے نہیں ٹوٹتی ہاں البتہ جن احادیث میں نماز ٹوٹنے کا ذکر ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ کا اس میں یہ قول ملتا ہے:
«ومال الشافعي وغيره الي تاويل القطع فى حديث ابي ذربان المراد به نقص الخشوع لا الخروج من الصلاة .» [فتح الباري ج 1 ص 774]
امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کا میلان اس حدیث (جس میں نماز کے قطع کا حکم ہے کچھ اس طرح سے ہے کہ) قطع کرنے والی جس کو ابوذر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے مراد یہ ہے کہ خشوع میں کمی واقع ہو جاتی ہے جس سے آدمی نماز سے خارج نہیں ہوتا۔

◈ امام نوی رحمہ اللہ رقمطراظ ہیں:
«وتاول هولاء حديث ابي ذر رضى الله عنه على ان المراد بالقطع نقص الصلاة تشغل القلب بهذه الاشياء وليس المراد ايطالها .» [شرح صحيح مسلم ج 4 ص 220]
یعنی جو حدیث ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے (کہ نماز عورت، گدھا اور کتے سے ٹوٹ جاتی ہے) اس سے مراد نماز میں کمی ہونے کے ہیں (کیوں کہ ان اشیاء کا گزرنا) شغل قلب کا باعث ہے اور اس سے مراد نماز کا باطل ہونا نہیں ہے (بلکہ خشوع اور خضوع میں فرق آنا ہے)۔

◈ علامہ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جو احادیث اس باب پر دلالت کرتی ہیں کہ کتا، عورت اور گدھا نماز کو قطع کر دیتے ہیں تو اس سے مراد نماز کا قطع ہونا (خشوع و خضوع) میں باطل ہونا ہے اور اسی طرح صحابہ کی ایک جماعت گئی ہے جن میں ابوہریرہ، انس بن مالک اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ [نيل الاوطار۔ ج3 ص 17]

◈ جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و ان المراد بالقطع فى الحديث نقص الصلاة يشغل القلب بهذه الاشياء» [الديباج شرح صحيح مسلم بن الحجاج ج1 ص640]
نماز کے قطع سے مراد یہاں حدیث میں نماز کی کمی ہے کیوں کہ دل ان اشیاء کی وجہ سے شغل میں پڑ جاتا ہے۔

◈ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یعنی نماز کا قطع ہونا عورت اور گدھے کی وجہ سے تو یہ مبالغہ ہے اس سبب کہ نماز کا قطع ہونا اور اس کی وجہ سے ان اشیاء کے شغل کے سبب کیوں کہ عورت فتنہ میں ڈالتی ہے اور گدھے کا ہینگنا (وہ بھی خرابی کا باعث بنتا ہے) اور کتا ڈراتا ہے۔ نمازی کو یہاں تک کہ اسے تشویش میں ڈالتا ہے حتیٰ کہ اس کی نماز ختم ہو جاتی ہے یا (خشوع خضوع میں) بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ [المفهم شرح صحيح مسلم ج2 ص109]

صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں!:
اور جو تخصیص کی گئی ہے کہ عورت، کتا اور گدھا (نماز کو باطل کر دیتے ہیں) تو پس اس کا معنی یہ نہیں کہ ان تینوں اشیاء کے علاوہ کوئی اور چیز نماز کی برکت کو ختم نہیں کر سکتی۔ اگر یہ حکمتیں نہ ہوتیں (یعنی عورت، کتا اور گدھے کی گزرنے کی) تو مرد کے لیے کوئی گناہ نہ ہوتا۔ بلکہ یہ تینوں چیزیں شیطان کے وجود اور فتنہ کی جگہیں ہیں۔ تاکہ (نماز) ختم ہو جائے اور شیطان کی وجہ سے (نمازی) سخت پریشان ہو جائے۔ ترمذی نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً نکالا ہے کہ عورت یقیناًً پردے کی جگہ ہے اور جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف اشارہ کرتا ہے اور صحیح مسلم میں جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ یقیناًً جب عورت آتی اور جاتی ہے شیطان کی صورت میں اور گدھے کے ہینگنے کے بارے میں بھی موجود ہے کہ وہ شیطان کو دیکھ کر اپنی آواز نکالتاہے (یعنی ہینگنا ہے) اور جہاں تک کتے کے بارے میں ہے تو حدیث کالے کتے کے ساتھ مخصوص ہے۔ کیونکہ کالے کتے کو شیطان کہا گیا ہے۔ یقیناًً کتے کا مطلب خبث ہونا موجود ہے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس گھر میں کتّے ہوں۔ [منة المنعم شرح صحيح مسلم ج1ص328]

◈ محمد بن خلیفۃ الوشتانی الابی رقمطراز ہیں:
«وحمل القطع فى هٰذا الحديث على انه مبالغة فى خوف الافساد بالشغل بها» [اكمال اكمال المعلم۔ ج2ص401]
یعنی نماز کے قطع کرنے کا مقصد اس حدیث میں مبالغہ کے لیے آیا ہے۔ (کیونکہ ان تین اشیاء سے) فساد کے خوف کی وجہ سے اور (ان تین اشیاء میں) شغل بھی ہے۔

ان اقتباسات سے واضح ہوا کہ عورت، کتا اور گدھے سے نماز ٹوٹنے سے مراد نماز میں خشوع اور خضوع کا باطل ہونا ہے۔
مزید تفصیل کے لیے ان کتب کی طرف مراجعت مفید رہے گی۔
➊ فتح الباری شرح صحیح البخاری لابن حجر رحمہ اللہ
➋ نيل الاوطار شرح منتقي الاخبار للشوكاني رحمہ الله
➌ سبل السلام شرح بلوغ المرام للصنعانی رحمہ اللہ
➍ نصب الراية في تخريج احاديث الهداية للذيلعي رحمہ اللہ
➎ اختلاف الحديث للامام الشافعي رحمہ اللہ
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 168   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 370  
´عورتوں کے کپڑوں میں نماز پڑھنے کی اجازت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں نماز پڑھتے، میں حالت حیض میں آپ کے پہلو میں ہوتی، اور میرے اوپر میری ایک چادر ہوتی جس کا کچھ حصہ آپ پر ہوتا تھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 370]
370۔ اردو حاشیہ:
➊ اس باب اور پچھلے باب کی احادیث میں تعارض نہیں ہے بلکہ یہ معنی کہ آپ اکثر زوجات کے کپڑوں میں نماز نہ پڑھتے تھے، مگر کبھی کبھی پڑھ لیا کرتے تھے جب کہ یقین ہوتا تھا کہ کپڑا پاک ہے۔
➋ بیوی اگر مصلے کے قریب بیٹھی ہو، لیٹی ہو یا آگے سوئی ہوئی بھی ہو تو کوئی حرج نہیں، نماز جائز اور صحیح ہے۔
➌ یہ اور دیگر احادیث اشارہ کرتی ہیں کہ خیرالقرون میں مسلمان مادّی اعتبار سے کشادہ نہ ہوتے تھے۔ میاں بیوی کے پاس ایک ہی کمبل ہوتا تھا مگر دینی اور عملی اعتبار سے وہ اس قدر ممتاز ہیں کہ پوری امت کے مقتدا ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 370   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 711  
´نمازی کے آگے سے عورت کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی، اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی رات کی نماز پڑھتے اور وہ آپ کے اور قبلے کے بیچ میں اس بچھونے پر لیٹی رہتیں جس پر آپ سوتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر پڑھنے کا ارادہ کرتے تو انہیں جگاتے تو وہ بھی وتر پڑھتیں۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب ما يقطع الصلاة وما لا تقطعها /حدیث: 711]
711۔ اردو حاشیہ:
معلوم ہوا کہ بیوی اگر شوہر کے قریب یا سامنے لیٹی ہوئی ہو تو نماز صحیح ہے۔ گذشتہ حدیث: (694) کا اشکال بھی اس سے دور ہو جاتا ہے۔ یعنی اگر سامنے کوئی سویا ہوا ہو تو نمازی کی نماز صحیح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 711   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 712  
´نمازی کے آگے سے عورت کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی، اس کے قائلین کی دلیل کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ تم لوگوں نے بہت برا کیا کہ ہم عورتوں کو گدھے اور کتے کے برابر ٹھہرا دیا، حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ نماز پڑھتے تھے اور میں آپ کے سامنے عرض میں لیٹی رہتی تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرنے کا ارادہ کرتے تو میرا پاؤں دبا دیتے، میں اسے سمیٹ لیتی پھر آپ سجدہ کرتے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب ما يقطع الصلاة وما لا تقطعها /حدیث: 712]
712۔ اردو حاشیہ:
یہ صورت جگہ کی تنگی اور حجرے کی تاریکی کے باعث ہوتی تھی اور یہ کیفیت نماز کے لیے کوئی حارج نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 712   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 756  
´نمازی کے سامنے سترہ نہ ہو تو کون سی چیز نماز توڑ دیتی ہے اور کون سی نہیں توڑتی؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھی، آپ نماز پڑھ رہے تھے تو جب میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو مجھے یہ بات ناگوار لگی کہ میں اٹھ کر آپ کے سامنے سے گزروں تو میں دھیرے سے سرک گئی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 756]
756 ۔ اردو حاشیہ: اس سے معلوم ہوا کہ نمازی کے آگے عورت کا لیٹا ہوا ہونا اور بات ہے اور گزرنا اور بات۔ اول الذکر سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، البتہ گزرنے سے نماز ٹوٹ جائے گی۔ گزرنے سے مراد کسی کا نمازی کے آگے سے اس کی ایک جانب سے دوسری جانب، پار کرتا ہے، حدیث میں وارد مرور کی ممانعت سے یہی مقصود ہے، لہٰذا نمازی کے سامنے بیٹھے یا لیٹے انسان کے ایک طرف کھسکنے کو مرور (گزرنا) نہیں کہتے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 756   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 760  
´سونے والے کے پیچھے نماز پڑھنے کی رخصت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے تھے، اور میں آپ کے اور قبلہ کے بیچ آپ کے بستر پر چوڑان میں سوئی رہتی تھی، تو جب آپ وتر پڑھنے کا ارادہ کرتے تو مجھے جگاتے، تو میں (بھی) وتر پڑھتی۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 760]
760 ۔ اردو حاشیہ: جگہ کی تنگی کے پیش نظر ایسا ہوتا ہو گا ورنہ بہتر تو یہی ے کہ سجدہ گاہ تک کوئی چیز سامنے نہ ہو کیونکہ اس سے خیالات منتشر ہوں گے مگر چونکہ یہ رات کا وقت ہوتا تھا، کچھ نظر نہ آتا تھا، لہٰذا کوئی حرج نہیں۔ دن کے وقت بھی اگر اس قسم کی صورت پیش آ جائے، تب بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ اگر شرعاً کوئی قباحت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا قطعاً نہ کرتے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 760   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 769  
´مرد کا ایسے کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان جس کا کچھ حصہ اس کی بیوی پر ہو۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے تھے، اور میں آپ کے پہلو میں ہوتی، اور میں حائضہ ہوتی، اور میرے اوپر ایک چادر ہوتی جس کا کچھ حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر (بھی) ہوتا۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 769]
769 ۔ اردو حاشیہ: سردیوں میں کپڑوں کی قلت کی وجہ سے ایسے ہوتا ہو گا۔ اگر نماز کے دوران میں حائضہ عورت کا جسم نمازی سے لگ جائے تو نماز میں خرابی نہ آئے گی، خصوصا جب کہ مجبوری بھی ہو۔ حائضہ عورت کا جسم ظاہراً پلید نہیں ہوتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 769   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث652  
´حائضہ عورت کے کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کرتے تھے، اور میں حیض کی حالت میں آپ کے پہلو میں ہوتی تھی، اور میرے اوپر ایک چادر ہوتی جس کا کچھ حصہ آپ پر ہوتا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 652]
اردو حاشہ:
کوئی کپڑا محض حائضہ کے پہننے یا اوڑھنے سے ناپاک نہیں ہو جاتا جب تک اسے خون نہ لگ جائے اگر خون لگ جائے تو اتنی جگہ سے کپڑا دھوکر پہنایا یا اوڑھا جا سکتا ہےاور اسی کے ساتھ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 652   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث956  
´نمازی اور قبلہ کے درمیان کوئی چیز حائل ہو تو نماز جائز ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں نماز پڑھتے تھے، اور میں آپ کے اور قبلہ کے درمیان جنازہ کی طرح آڑے لیٹی ہوتی تھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 956]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جنازے کی طرح لیٹنے کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح جنازہ نمازیوں کے سامنے رکھا ہوتا ہے۔
کہ ایک طرف سر اور ایک طرف پاؤں ہوتے ہیں۔
میں بھی اسی طرح لیٹی ہوتی تھی۔
کہ ایک طرف سر ہوتا تھا اور پاؤں اس جگہ ہوتے تھے جہاں نبی کریمﷺ نے سجدہ کرنا ہوتا تھا۔
جب آپﷺ سجدہ کرنا چاہتے تو ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا پاؤں سمیٹ لیتی تھیں۔
دیکھئے۔ (صحیح البخاري، الصلاۃ، باب التطوع خلف المرأۃ، حدیث: 513)

(2)
اگر نمازی کے سامنے کوئی لیٹا ہو تو اس کا وہ حکم نہیں جو آگے سے گزرنے والے کا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 956   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:171  
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سوئے ہوئے مرد یا عورت کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا درست ہے، جبکہ وہ قبلہ اور نمازی کے درمیان حائل ہو۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 171   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1142  
حضرت عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا، کون سی چیز نماز قطع کر دیتی ہے؟ تو ہم نے کہا: عورت اور گدھا۔ اس پر انہوں نے کہا: عورت برا چوپایہ ہے! میں نے آپنے آپ کو رسول اللہﷺ کے سامنے جنازہ کی طرح عرض میں لیٹے ہوئے دیکھا جبکہ آپﷺ نماز پڑھ رہے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1142]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر نمازی کے سامنے عورت اس انداز سے لیٹی ہو کہ اس سے نمازی کی توجہ نہ بٹے اور وہ اس سے متاثر نہ ہو تو اس کی نماز پر اثر نہیں پڑتا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رات کو آپﷺ کے سامنے لیٹی ہوتی تھیں اور رات کی تاریکی اور اندھیرے کی بنا پر کیونکہ ان دنوں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت میں آ رہا ہے گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے آپﷺ کی نظر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر نہیں پڑتی تھی اس لیے آپﷺ ان کے سامنے ہونے کے باوجود نماز پڑھتے رہتے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1142   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1143  
حضرت مسروق بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سامنے ان چیزوں کا تذکرہ کیا گیا جن کے سامنے گزرنے سے نماز ٹوٹتی ہے کتا، گدھا اور عورت تو عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: تم نے ہمیں گدھوں اور کتوں کے مشابہ بنا دیا ہے، اللہ کی قسم میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس حال میں نماز پڑھتے دیکھا کہ میں چارپائی پر آپﷺ کے قبلہ کے درمیان لیٹی ہوتی تھی، مجھے کوئی ضرورت پیش آتی تو میں بیٹھ کر رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دینا پسند نہیں کرتی، اس لیے (چارپائی) کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1143]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بعض حضرات نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے قول تم نے ہمیں گدھوں اور کتوں کے مشابہ کر دیا سے استدلال کرتے ہوئے صراط مستقیم کی عبارت کو نشانہ بنایا ہے حالانکہ اس سے استدلال بے محل ہے کیونکہ یہ بات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جذباتی انداز میں فرمائی ہے وگرنہ یہاں مشابہت ہے ہی نہیں،
حدیث کا مقصد تو صرف ان چیزوں کا تذکرہ کرنا ہے جن سے نماز کا ذہن اور دل و دماغ متاثر ہو سکتے ہیں۔
اور اگر بالفرض یہاں مشابہت ہے تو اس میں بیان کرنے والوں کا کیا قصور یہ بات تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اور آپﷺ کی فرمائی ہوئی بات کیسے قابل اعتراض ہو سکتی ہے جس چیز کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم برا خیال نہیں کرتے یا اس کو توہین آمیز نہیں سمجھتے ہم اس کو برا خیال کیوں کر سکتے ہیں مزید برآں اگر عورت کے سامنے آنے سے انسان متاثر نہیں ہوتا تو پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپﷺ کے سامنے بیٹھنے کو آپ کے لیے اذیت کا باعث کیوں سمجھتی تھیں؟ اور چار پائی کے پایوں سے کھسک کر کیوں نکلتی تھیں؟
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1143   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1145  
ہمیں یحییٰ بن یحییٰ نے بتایا کہ میں نے امام مالک کو ابو نضر کی ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن سے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت سنائی کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے سو جاتی اور میرے پاؤں آپ کے قبلہ میں ہوتے جب آپﷺ سجدہ کرتے تو میرا پاؤں دبا دیتے تو میں اپنے پاؤں سکیڑ لیتی اور جب آپ کھڑے ہو جاتے تو میں ان کو پھیلا لیتی۔ انہوں نے (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) بتایا ان دنوں گھروں کے اندر چراغ نہیں ہوتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1145]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ کے گھر میں رات کو چراغ نہیں جلتا تھا اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دیکھ کر یہ پتہ نہ چل سکتا تھا کہ آپﷺ سجدہ کرنا چاہتے ہیں اس لیے وہ اپنے طور پر پاؤں نہیں سکیڑ سکتی تھیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1145   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1147  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رات کو نماز پڑھتے اور میں حیض کی حالت میں آپﷺ کے پہلو میں ہوتی، مجھ پر چادر ہوتی اور آپﷺ کے پہلو میں ہونے سے کچھ حصہ آپﷺ پر بھی ہوتا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1147]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر عورت نمازی کے پہلو میں کھڑی ہو تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔
جمہور کا موقف یہی ہے امام ابو حنیفہ کے نزدیک نماز باطل ہو جائے گی۔
(2)
عورت اگر حیض کی حالت میں ہو تو اس نے جو کپڑا اوڑھا ہو وہ پلید نہیں ہوتا۔
اس لیے ایک ہی کپڑا اگر اس کا کچھ حصہ حائضہ پر ہو اور کچھ نمازی پر تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1147   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6276  
6276. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ چار پائی یا تخت کے درمیان میں نماز پڑھتے تھے جبکہ میں آپ کے اور قبیلے کے درمیان لیٹی ہوتی تھی مجھے کوئی ضرورت ہوتی تو میں یہ پسند نہ کرتی کہ میں کھڑی ہوں اور آپ کے سامنے آؤں اس لیے میں آہستہ سے سرک جاتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6276]
حدیث حاشیہ:
قبلہ رخ میں عورت کا لیٹنا مصلی کی نماز کو باطل نہیں کرتا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6276   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 383  
383. حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اہل کے بستر پر نماز پڑھتے جبکہ وہ خود آپ کے اور قبلے کے درمیان جنازے کی طرح لیٹی ہوتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:383]
حدیث حاشیہ:
اوپر والی حدیث میں بچھونے کا لفظ نہ تھا، اس حدیث سے وضاحت ہوگئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 383   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 511  
511. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، ان کے سامنے تذکرہ ہوا کہ نماز کو کیا چیز توڑ دیتی ہے، لوگوں نے کہا: کتے، گدھے اور عورت کے (نمازی کے) سامنے سے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ اس پر حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: تم لوگوں نے ہم عورتوں کو تو کتوں کے برابر بنا دیا ہے، حالانکہ میں نے نبی ﷺ کو اس طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے کہ میں آپ کے اور قبلے کے درمیان چار پائی پر لیٹی ہوتی تھی، پھر اگر مجھے کوئی ضرورت ہوتی اور میں بحالت نماز آپ کے سامنے آنے کو ناپسند سمجھتی تو آہستہ سے کھسک کر نکل جاتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:511]
حدیث حاشیہ:
حضرت عائشہ ؓ کے بیان میں الفاظ أکرہ أن أستقبله سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔
یعنی حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں آپ کے سامنے لیٹی رہتی تھی۔
مگرمیں اسے مکروہ جان کر ادھر ادھر سرک جایا کرتی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 511   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:382  
382. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے سوئی ہوتی تھی جبکہ میرے دونوں پاؤں آپ کے سجدے کی جگہ ہوتے۔ جب آپ سجدہ کرتے تھے تو مجھے دبا دیتے اور میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی۔ پھر جب آپ کھڑے ہو جاتے تو میں انہیں دراز کر لیتی۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں: ان دنوں گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:382]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے اس باب میں ثابت کیا ہے کہ جس طرح نماز زمین یا اس کی جنس پر درست ہے غیر جنس ارض پر بھی درست ہے، خواہ وہ بستر ہو یا کوئی فرش قطع نظر اس سے کہ وہ بہترین ہو یا گھٹیا، چونکہ بعض اسلاف سے ان پر نماز پڑھنے کا انکار ثابت ہے، وہ عمدہ قالین یا وہ بستر جس میں روئی زیادہ ہو ان پر نماز ادا کرنا مکروہ قراردیتے تھے۔
اس لیے امام بخاری ؒ نے یہ روایت لا کر ان کے موقف کی تردید كی ہے۔
نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
اگرچہ بعض حضرات تاویل کرتے ہیں کہ پاؤں کو دباتے وقت اس پر کپڑا ہوتا تھا، لیکن یہ تاویل بعید ہے۔
پہلی حدیث میں بستر پر نماز پڑھنے کی صراحت نہ تھی۔
اس لیے دوسری روایت پیش کی کہ آپ بستر پر نماز پڑھتے تھے۔
اگرچہ اُم المومنین عائشہ ؓ کے آگے لیٹنے میں اشارہ موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ سونے کے بستر پر نماز پڑھ رہے تھے، تاہم تیسری روایت میں اس کی بھی صراحت موجود ہے۔
مقصد یہ ہے کہ پیشانی زمین پر رکھنا ضروری نہیں، البتہ پاؤں کا جمانا اور ہاتھوں اور پیشانی کا کسی پاک چیز پر ٹکانا ضروری ہے، ہاں ایسے بستر یا قالین جو زیب و زینت کی وجہ سے دل کو اپنی طرف متوجہ کردیں ان پر نماز ادا کرنا پسندیدہ نہیں، تاہم اگر ان پر نماز پڑھ لی جائے تو فرض ادا ہو جائے گا۔
حضرت عائشہ ؓ اپنے اس معمول کے متعلق ایک عذر پیش کرتی ہیں کہ اس وقت مکانوں میں چراغ نہ تھے، کیونکہ چراغ ہونے کی صورت میں مجھے پتہ چل جاتا کہ آپ کس وقت سجدے میں جا رہے ہیں، اس وقت میں خود ہی پاؤں سمیٹ لیتی، لیکن اندھیرے کے سبب کچھ نظر ہی نہ آتا تھا، اس لیے آپ کو پاؤں دبانے کی ضرورت پیش آتی۔

بعض احادیث کے مطابق حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے بستروں میں نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 368)
امام بخاری ؒ نے یہ روایت پیش کر کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
چنانچہ امام ابو داؤد ؒ نے اس روایت کے بعد اس کے ناقابل حجت ہونے کی علت بھی بیان کی ہے۔
اگر ایسی روایات صحیح ہیں تو امام بخاری ؒ کی پیش کردہ روایات کے مقابلے میں وہ شاذ اور مردود قرارپائیں گی۔
(فتح الباري: 637/1)

ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سوئے ہوئے آدمی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا مکروہ نہیں بلکہ جائز ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 382   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:383  
383. حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے، انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اہل کے بستر پر نماز پڑھتے جبکہ وہ خود آپ کے اور قبلے کے درمیان جنازے کی طرح لیٹی ہوتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:383]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے اس باب میں ثابت کیا ہے کہ جس طرح نماز زمین یا اس کی جنس پر درست ہے غیر جنس ارض پر بھی درست ہے، خواہ وہ بستر ہو یا کوئی فرش قطع نظر اس سے کہ وہ بہترین ہو یا گھٹیا، چونکہ بعض اسلاف سے ان پر نماز پڑھنے کا انکار ثابت ہے، وہ عمدہ قالین یا وہ بستر جس میں روئی زیادہ ہو ان پر نماز ادا کرنا مکروہ قراردیتے تھے۔
اس لیے امام بخاری ؒ نے یہ روایت لا کر ان کے موقف کی تردید كی ہے۔
نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
اگرچہ بعض حضرات تاویل کرتے ہیں کہ پاؤں کو دباتے وقت اس پر کپڑا ہوتا تھا، لیکن یہ تاویل بعید ہے۔
پہلی حدیث میں بستر پر نماز پڑھنے کی صراحت نہ تھی۔
اس لیے دوسری روایت پیش کی کہ آپ بستر پر نماز پڑھتے تھے۔
اگرچہ اُم المومنین عائشہ ؓ کے آگے لیٹنے میں اشارہ موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ سونے کے بستر پر نماز پڑھ رہے تھے، تاہم تیسری روایت میں اس کی بھی صراحت موجود ہے۔
مقصد یہ ہے کہ پیشانی زمین پر رکھنا ضروری نہیں، البتہ پاؤں کا جمانا اور ہاتھوں اور پیشانی کا کسی پاک چیز پر ٹکانا ضروری ہے، ہاں ایسے بستر یا قالین جو زیب و زینت کی وجہ سے دل کو اپنی طرف متوجہ کردیں ان پر نماز ادا کرنا پسندیدہ نہیں، تاہم اگر ان پر نماز پڑھ لی جائے تو فرض ادا ہو جائے گا۔
حضرت عائشہ ؓ اپنے اس معمول کے متعلق ایک عذر پیش کرتی ہیں کہ اس وقت مکانوں میں چراغ نہ تھے، کیونکہ چراغ ہونے کی صورت میں مجھے پتہ چل جاتا کہ آپ کس وقت سجدے میں جا رہے ہیں، اس وقت میں خود ہی پاؤں سمیٹ لیتی، لیکن اندھیرے کے سبب کچھ نظر ہی نہ آتا تھا، اس لیے آپ کو پاؤں دبانے کی ضرورت پیش آتی۔

بعض احادیث کے مطابق حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے بستروں میں نماز نہیں پڑھا کرتے تھے۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 368)
امام بخاری ؒ نے یہ روایت پیش کر کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
چنانچہ امام ابو داؤد ؒ نے اس روایت کے بعد اس کے ناقابل حجت ہونے کی علت بھی بیان کی ہے۔
اگر ایسی روایات صحیح ہیں تو امام بخاری ؒ کی پیش کردہ روایات کے مقابلے میں وہ شاذ اور مردود قرارپائیں گی۔
(فتح الباري: 637/1)

ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سوئے ہوئے آدمی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا مکروہ نہیں بلکہ جائز ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 383   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:508  
508. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: تم لوگوں نے ہمیں کتوں اور گدھوں کے برابر کر دیا، حالانکہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ چارپائی پر لپٹی ہوتی، رسول اللہ ﷺ تشریف لاتے اور چارپائی کو (اپنے اور قبلے کے) درمیان کر لیتے، پھر نماز پڑھ لیتے تھے۔ مجھے آپ کے سامنے ہونا برا معلوم ہوتا، اس لیے میں پائنتی کی طرف سے کھسک کر لحاف سے باہر ہو جاتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:508]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ سترے کے متعلق مزید توسع بیان کرتے ہیں کہ گھر کے استعمال کی چیزوں کو بھی سترہ بنایا جا سکتا ہے، خواہ وہ زمین میں نصب ہوں یا زمین سے اٹھی ہوئی ہوں، جیسے چارپائی وغیرہ کو درمیان میں لے کر نماز پڑھنا۔
روایت میں (يَتَوَسَّطُ السَّرِيرَ)
کے الفاظ ہیں جن کے معنی چارپائی کے درمیان کھڑے ہونا ہیں، چنانچہ علامہ اسماعیلی ؒ نے اعتراض کیا کہ مذکورہ روایت قائم کردہ عنوان کے مطابق نہیں، کیونکہ عنوان یہ ہے کہ چار پائی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا، لیکن اس کے متبادر معنی یہ ہیں کہ چارپائی کے وسط میں کھڑے ہوکر نماز پڑھنا، پھرخود ہی اس کا جواب دیا ہے کہ امام بخاری ؒ نے خود اس سلسلے میں مسروق عن عائشہ ؓ کی روایت آئندہ بیان کی ہے جو اس عنوان کے مطابق ہے۔
اس کے الفاظ ہیں:
میں نے نبی کریم ﷺ کو اس طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے کہ میں آپ کے اور قبلے کے درمیان چارپائی پر تھی۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 511)
اس لیے امام بخاری ؒ کو مسروق عن عائشة والی روایت یہاں بیان کرنی چاہیے تھی۔
علامہ کرمانی ؒ نے اصل اعتراض کا جواب بایں الفاظ دیا ہے کہ حروف جرایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوجاتے ہیں۔
لہذا امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان میں (الصلاة إلى السرير)
کے معنی (الصلاة على السرير)
ہیں۔
صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں (الصلاة على السرير)
کے الفاظ بھی موجود ہیں۔
(شرح الکرماني: 160/2)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ (يَتَوَسَّطُ)
کے دو معنی ہیں۔
چارپائی پر اس کے وسط میں نماز پڑھنا اور چارپائی کو سامنے کرکے اس سے نیچے نماز پڑھنا۔
مسروق عن عائشة ؓ کی روایت نے وضاحت کردی کہ اس مقام پر دوسرے معنی مراد ہیں۔
(فتح الباري: 751/1)

دراصل جب تک کسی حدیث کے تمام طرق اور جملہ کلمات ماثورہ سامنے نہ ہوں، حدیث کا صحیح مفہوم متعین نہیں ہوسکتا۔
مذکورہ حدیث کے متعلق بھی راقم کافی دن تذبذب کا شکار رہا کیونکہ بعض روایات میں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے جنازے کی طرح لیٹی ہوتی جبکہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ میرے پاؤں کو سجدے کے وقت ہاتھ لگاتے تو میں انھیں سمیٹ لیتی۔
چارپائی سے نیچے اترکر نماز پڑھنے کی صورت میں پاؤں کو ہاتھ لگانے اور پھر انھیں سمیٹنے کی قطعاً ضرورت نہیں، اس لیے جنازے کی طرح لیٹنا اور پاؤں سمیٹنا باہم متضاد ہیں۔
روایات کے تتبع سے معلوم ہوا کہ یہاں دوواقعات ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
ایک واقعہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ چارپائی پر ہوتیں اور رسول اللہ ﷺ نیچے اتر کر نماز پڑھتے۔
اس صورت میں حضرت عائشہ ؓ کا جنازے کی طرح لیٹنا صحیح ہے۔
اس میں پاؤں کو ہاتھ لگانے اور انھیں سمیٹنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس صورت کو اپنی صحیح میں متعدد مقامات پر بیان کیا ہے اور اس صورت کو حضرت عائشہ ؓ سے حضرت اسود ؓ، حضرت مسروق ؒ اور حضرت عروہ بیان کرتے ہیں۔
ملاحظہ ہو: 383۔
384۔
508۔
511۔
512۔
514۔
519۔
997اور 6276۔
۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اسی بستر پر نماز پڑھتے جہاں سیدہ عائشہ ؓ لیٹی ہوتی تھیں۔
اس صورت میں سجدے کے وقت آپ حضرت عائشہ ؓ کے پاؤں کو ہاتھ لگاتے تو وہ انھیں سمیٹ لیتیں۔
اس صورت کو حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمان اور حضرت قاسم، حضرت عائشہ ؓ سے بیان کرتے ہیں۔
نماز کی یہ کیفیت امام بخاری ؒ نے مندرجہ ذیل احادیث میں بیان کی ہیں۔
ملاحظہ ہو حدیث: 383۔
513۔
519۔
اور1209۔
واضح رہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو اس حدیث جس میں ہے کہ عورت، گدھا اور کتا اگرنمازی کے آگے سے گزر جائیں تو نماز ٹوٹ جاتی ہے، کے اندازِ بیان اور طرز ادا کے متعلق شکایت ہے کہ اس اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت، گدھا اور کتا سب برابر ہیں۔
حالانکہ عورت اور دیگر دونوں چیزوں میں بہت فرق ہے۔
راوی کو بیان کرتے وقت اس فرق کی نزاکت کو ملحوظ رکھنا چاہیے تھا۔
ہم آئندہ اصل مقام پر اس کی وضاحت کریں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 508   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:511  
511. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، ان کے سامنے تذکرہ ہوا کہ نماز کو کیا چیز توڑ دیتی ہے، لوگوں نے کہا: کتے، گدھے اور عورت کے (نمازی کے) سامنے سے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ اس پر حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: تم لوگوں نے ہم عورتوں کو تو کتوں کے برابر بنا دیا ہے، حالانکہ میں نے نبی ﷺ کو اس طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے کہ میں آپ کے اور قبلے کے درمیان چار پائی پر لیٹی ہوتی تھی، پھر اگر مجھے کوئی ضرورت ہوتی اور میں بحالت نماز آپ کے سامنے آنے کو ناپسند سمجھتی تو آہستہ سے کھسک کر نکل جاتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:511]
حدیث حاشیہ:

اس روایت کے مطابق سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز پڑھتے تو میں اس بات کو ناپسند کرتی کہ آپ کی طرف منہ کروں، اس لیے میں آہستہ سے کھسک کر پائنتی کی طرف آتی پھر اٹھتی۔
حضرت عائشہ ؓ کی طرف سے استقبال اور مواجہت کا طریقہ چھوڑ کر آہستہ سے کھسک جانے کا طریقہ اختیار کرنا عنوان کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے، لیکن یہاں ایک اشکال ہے کہ امام بخاری ؒ نے عنوان میں وضاحت کی ہے کہ اس کا دارومدار انتشار طبیعت پر ہے۔
اگر دوسرے آدمی کے نمازی کی طرف رخ کرنے سے خیالات میں تکدار اور طبیعت میں انتشار پیدا ہو تو ایسا کرنا مکروہ ہے بصورت دیگرمکروہ نہیں جبکہ یہ وضاحت مذکورہ روایت میں نہیں ہے۔
لیکن روایت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ استقبال کے طریقے سے ہٹ کر آہستگی کے ساتھ کھسک جانے کے طریقے کو اسی لیے تو اختیار کرتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کی طبیعت میں انتشار کا باعث نہ ہو اگرچہ رسول اللہ ﷺ ایسی باتوں سے مامون اور بے خوف تھے تاہم حضرت عائشہ ؓ کا احتیاط فرمانا مذکورہ اشکال کو دور کر نے کے لیے کافی ہے۔

آخر میں امام بخاری ؒ نے ایک اسنادی نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اس روایت کو علی بن مسہر نے امام اعمش سے دو سندوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔
عن مسلم عن مسروق عن عائشة ؓ جیسا کہ روایت کا متن ہے۔
عن إبراهیم عن الأسود عن عائشة ؓ یہ روایت بالمعنی ہے، جیسا کہ امام بخاریؒ نے خود پہلے (حدیث نمبر508 میں)
بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 759/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 511   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:512  
512. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ نماز پڑھتے رہتے اور میں (آپ کے سامنے) بستر پر عرض کے بل سوئے رہتی۔ اور جب آپ وتر پڑھنا چاہتے تو مجھے بیدار کر دیتے، چنانچہ میں بھی وتر پڑھ لیتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:512]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے والے اور باتیں کرنے والے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 694)
حضرت امام مالک ؒ سے بھی سونے والے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی کراہت منقول ہے۔
امام بخاری ؒ کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی طور پر اس میں کوئی قباحت نہیں۔
جن روایات میں اس طرح نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، وہ صحیح نہیں، چنانچہ امام ابو داؤد ؒ لکھتے ہیں کہ ابن عباس ؓ کی جس روایت میں سونے والے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی ممانعت آئی ہے، اس کی تمام سندیں اور طرق ضعیف ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس سلسلے میں جتنی بھی احادیث وارد ہیں سب کمزور ہیں جن حضرات نے اس طرح نماز پڑھنے کو مکروہ کہا ہے، وہ اس لیے کہ شاید سونے والا ایسی حرکت کرے جس سے نمازی کا خشوع خراب ہو۔
(فتح الباري: 759/1)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی قریب سو رہا ہو تو بذات خود اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے میں کوئی خرابی نہیں۔
لیکن اگر اس کے خراٹوں سے بے اطمینانی کی صورت پیدا ہو جائے یا کسی اور بات سے خشوع متاثر ہوتو اس صورت میں اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے، لیکن اگر اس قسم کا کوئی اندیشہ نہ ہوتو کسی کی کراہت نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 512   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:513  
513. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس طرح سویا کرتی تھی کہ میرے پاؤں آپ کے قبلے کی جگہ میں ہوتے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو میرے پاؤں کو چھوتے، میں انہیں سمیٹ لیتی۔ پھر جب آپ کھڑے ہوتے تو میں انہیں پھیلا دیتی۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: ان دنوں گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:513]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ جس طرح نمازی کے سامنے مرد کے بیٹھے رہنے یا لیٹے رہنے سے نماز میں کوئی نقصان واقع نہیں ہوتا۔
اسی طرح اگر طبیعت میں کوئی انتشار یا نماز میں خضوع خشوع متاثر ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو عورت کے سامنے لیٹے رہنے یا بیٹھے رہنے سے کوئی نقصان نہیں ہو گا۔
اس عنوان سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح فرض نماز پڑھنے کی اجازت نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرض نماز تو مسجد میں ادا کرتے تھے۔
گھر میں نوافل و سنن پڑھنے کا اہتمام ہوتا تھا، لیکن اس کا یہ مفہوم نہیں۔
چونکہ حدیث تطوع نماز سے متعلق تھی اس لیے باب میں اس کا ذکر کر دیا۔
البتہ فرض نماز پڑھنے کا بھی یہی حکم ہے۔
(فتح الباري: 760/1)

علامہ کرمانی ؒ نے لکھا ہے:
عنوان کا تقاضا ہے کہ عورت کی پشت نمازی کی طرف ہو لیکن حدیث سے اس کا ثبوت نہیں ملتا، کیونکہ اس کے الفاظ میں عموم ہے، پھر انھوں نے خود ہی جواب دیا کہ سونے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان قبلہ رخ ہو کر سوتا ہے اور حضرت عائشہ ؓ بھی اس پر عمل کرتی ہوں گی، اس بنا پر یہ حدیث عنوان کے مطابق ہے۔
(شرح الکرماني: 166/2)
اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس جواب میں تکلف ہے، کیونکہ سنت پر عمل کرنا (قبلہ رخ سونا)
تو نیند کے آغاز میں ہے، ہمیشہ اسی حالت پر رہنا ضروری نہیں۔
سوتے وقت انسان غیر شعوری طور پر کروٹ بدلتا رہتا ہے، اس لیے میرے نزدیک جواب یہ ہے کہ عنوان میں "خلف المراة " کے الفاظ ہیں، ''خلف ظهر المرأة'' کے الفاظ نہیں کہ ہمیں اس کی جواب دہی میں تکلف کرنا پڑے، لہٰذا عورت کا سامنے ہونا کافی ہے خواہ وہ کسی حالت میں ہو۔
(فتح الباري: 760/1)

حافظ ابن حجر ؒ نے تنبیہ کا عنوان دے کر لکھا ہے کہ اس حدیث میں جو واقعہ بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ اسی بستر پر نماز پڑھتے جس پر حضرت عائشہ ؓ سوئی ہوتیں۔
اس صورت میں آ پ ﷺ ان کے پاؤں کو چھودیتے تو وہ پیچھے کر لیتیں۔
اور جس میں ہے کہ آپ کے اور قبلے کے درمیان ہوتی تو وہ دوسرا واقعہ ہے جس میں حضرت عائشہ ؓ چار پائی پر ہوتیں اور رسول اللہ ﷺ نیچے نماز پڑھ رہے ہوتے۔
اس حالت میں پاؤں چھونے کی ضرورت نہیں گویا یہ دو الگ الگ واقعات ہیں۔
(فتح الباري: 760/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 513   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:514  
514. حضرت مسروق سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ے سامنے چند چیزوں کا ذکر کیا گیا جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، یعنی کتا، گدھا اور عورت، تو حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: تم لوگوں نے ہم عورتوں کو گدھوں اور کتوں کے مشابہ قرار دے دیا ہے، جبکہ میں نے نبی ﷺ کو اس حالت میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ میں آپ کے اور قبلے کے درمیان چارپائی پر لیٹی رہتی تھی، پھر مجھے کوئی ضرورت پیش آتی اور میں آپ ﷺ کے سامنے بیٹھنے کو پسند نہ کرتی، مبادا آپ کی اذیت یا ناگواری کا باعث بنوں تو آپ کی پائنتی کی طرف سے کھسک کر نکل جاتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:514]
حدیث حاشیہ:
پیش کردہ روایات میں اختصار ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے قبل ازیں علی بن مسہر کے طریق سے بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے ہاں ذکر ہوا کہ کون سی چیزیں نماز کی قاطع ہیں؟ تو لوگوں نے کہا:
کتا، گدھا اور عورت، اس کے بعد آپ نے مذکورہ جواب دیا۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1142 (512)
صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے خود سوال کیا کہ نماز کوکون سی چیز توڑتی ہے؟ تو حضرت عروہ بن زبیر نے جواب دیا:
عورت اور گدھا۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1137(510)
ایک روایت میں ہے حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:
اے اہل عراق! تم نے ہمیں کتوں اور گدھوں کے برابر کر دیا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ کا اشارہ اس روایت کی طرف تھا جسے حضرت ابو ذر ؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عورت، گدھا اور کتا نماز کو توڑ دیتا ہے۔
ایک روایت میں سیاہ فام کتے کی قید ہے اور اسے آپ نے شیطان قراردیا ہے۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1139(511)
صحیح مسلم ہی میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہی روایت مروی ہے، لیکن وہاں مطلق کتے کا ذکر ہے، اس کے سیاہ ہونے کا ذکر نہیں ہے۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1139 (511)
سنن ابی داؤد میں عورت کے ساتھ حائضہ ہونے کا اضافہ ہے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 703)
ان روایات میں نماز کوتوڑدینے سےکیا مراد ہے؟ ہم اس سے قبل اس کی وضاحت کر آئے ہیں کہ اس کا راجح مفہوم نماز کا باطل ہوجانا اور نماز کا دو بار دہرایا جانا ہے۔
اگرچہ بعض حضرات نے اس سے خشوع خضوع کی کمی مراد لی ہے اور بعض حضرت ابو ذر ؓ کی حدیث کو منسوخ کہتے ہیں، لیکن پہلے مفہوم کی تائید حدیث سے ہوتی ہے۔
اس لیے وہی مفہوم راجح ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو اصل مضمون کے متعلق شکایت نہیں تھی، کیونکہ وہ خود بھی نماز کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیٹھنے کو پسند نہیں کرتی تھیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ اصل مضمون کے پیش نظر وہ کھسک جانے کا عمل کرتی تھیں۔
حضرت عائشہ ؓ کو روایت بیان کرنے کے انداز اور لب و لہجے پر اعتراض تھا کہ بیان کرنے والوں نے عورت گدھے اور کتے کو ایک ہی فہرست میں شمار کیا ہے، اس کی تعبیر یوں بھی ہو سکتی تھی کہ کتے اور گدھے کے سامنے سے گزرنے پر نماز قطع ہو جاتی ہے۔
اسی طرح عورتوں کا بھی یہی حکم ہے۔
یعنی حضرت عائشہ کتے، گدھے اور عورت کے مسئلے میں فرق کر رہی ہیں کہ خشوع صلاۃ کو ختم یا کمزور کرنے کے سلسلے میں کتے، گدھے اور عورت تینوں کو شیطان سے تعلق رکھنے کی بنا پر مؤثر مان لیا جائے تب بھی عورت کے متعلق عموم کی بات صحیح نہیں، مثلاً:
کتے کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ شیطان ہے اور گدھے کے متعلق ہے کہ جب تم اس کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو کیونکہ وہ شیطان کو دیکھ کر آواز نکالتا ہے، جبکہ عورت کا یہ معاملہ نہیں۔
بہرحال یہ حضرت عائشہ ؓ کا خیال تھا۔
اس خیال کی وجہ یہی قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو مذکورہ حدیث:
(تُعادُ الصَّلاَةُ مِنْ مَمَرِّ الحِمَارِ، وَالمرْأةِ، وَالكَلْبِ الأسْوَدِ) (سلسلة الأحدیث الصحیحة، رقم: 3323)
کا علم نہیں ہو گا جس میں گدھے، عورت اور سیاہ فام کتے، تینوں کے گزرنے پر نماز کو دہرانے کا حکم دیا گیا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 514   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:515  
515. حضرت ابن شہاب کے بھتیجے نے اپنے چچا (امام زہری) سے سوال کیا: نماز کو کوئی چیز توڑ دیتی ہے؟ انھوں نے فرمایا: نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی۔ مجھ سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: نبی ﷺ رات کو کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے جبکہ میں آپ کے اور قبلے کے درمیان آپ کے گھر کے بستر پر عرض میں (جنازے کی طرح) لیٹی رہتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:515]
حدیث حاشیہ:
پیش کردہ روایات میں اختصار ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے قبل ازیں علی بن مسہر کے طریق سے بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے ہاں ذکر ہوا کہ کون سی چیزیں نماز کی قاطع ہیں؟ تو لوگوں نے کہا:
کتا، گدھا اور عورت، اس کے بعد آپ نے مذکورہ جواب دیا۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1142 (512)
صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے خود سوال کیا کہ نماز کوکون سی چیز توڑتی ہے؟ تو حضرت عروہ بن زبیر نے جواب دیا:
عورت اور گدھا۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1137(510)
ایک روایت میں ہے حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:
اے اہل عراق! تم نے ہمیں کتوں اور گدھوں کے برابر کر دیا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ کا اشارہ اس روایت کی طرف تھا جسے حضرت ابو ذر ؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عورت، گدھا اور کتا نماز کو توڑ دیتا ہے۔
ایک روایت میں سیاہ فام کتے کی قید ہے اور اسے آپ نے شیطان قراردیا ہے۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1139(511)
صحیح مسلم ہی میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہی روایت مروی ہے، لیکن وہاں مطلق کتے کا ذکر ہے، اس کے سیاہ ہونے کا ذکر نہیں ہے۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1139 (511)
سنن ابی داؤد میں عورت کے ساتھ حائضہ ہونے کا اضافہ ہے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 703)
ان روایات میں نماز کوتوڑدینے سےکیا مراد ہے؟ ہم اس سے قبل اس کی وضاحت کر آئے ہیں کہ اس کا راجح مفہوم نماز کا باطل ہوجانا اور نماز کا دو بار دہرایا جانا ہے۔
اگرچہ بعض حضرات نے اس سے خشوع خضوع کی کمی مراد لی ہے اور بعض حضرت ابو ذر ؓ کی حدیث کو منسوخ کہتے ہیں، لیکن پہلے مفہوم کی تائید حدیث سے ہوتی ہے۔
اس لیے وہی مفہوم راجح ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو اصل مضمون کے متعلق شکایت نہیں تھی، کیونکہ وہ خود بھی نماز کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیٹھنے کو پسند نہیں کرتی تھیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ اصل مضمون کے پیش نظر وہ کھسک جانے کا عمل کرتی تھیں۔
حضرت عائشہ ؓ کو روایت بیان کرنے کے انداز اور لب و لہجے پر اعتراض تھا کہ بیان کرنے والوں نے عورت گدھے اور کتے کو ایک ہی فہرست میں شمار کیا ہے، اس کی تعبیر یوں بھی ہو سکتی تھی کہ کتے اور گدھے کے سامنے سے گزرنے پر نماز قطع ہو جاتی ہے۔
اسی طرح عورتوں کا بھی یہی حکم ہے۔
یعنی حضرت عائشہ کتے، گدھے اور عورت کے مسئلے میں فرق کر رہی ہیں کہ خشوع صلاۃ کو ختم یا کمزور کرنے کے سلسلے میں کتے، گدھے اور عورت تینوں کو شیطان سے تعلق رکھنے کی بنا پر مؤثر مان لیا جائے تب بھی عورت کے متعلق عموم کی بات صحیح نہیں، مثلاً:
کتے کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ شیطان ہے اور گدھے کے متعلق ہے کہ جب تم اس کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو کیونکہ وہ شیطان کو دیکھ کر آواز نکالتا ہے، جبکہ عورت کا یہ معاملہ نہیں۔
بہرحال یہ حضرت عائشہ ؓ کا خیال تھا۔
اس خیال کی وجہ یہی قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو مذکورہ حدیث:
(تُعادُ الصَّلاَةُ مِنْ مَمَرِّ الحِمَارِ، وَالمرْأةِ، وَالكَلْبِ الأسْوَدِ) (سلسلة الأحدیث الصحیحة، رقم: 3323)
کا علم نہیں ہو گا جس میں گدھے، عورت اور سیاہ فام کتے، تینوں کے گزرنے پر نماز کو دہرانے کا حکم دیا گیا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 515   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:519  
519. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: تم لوگوں نے بہت برا کیا کہ ہم عورتوں کو کتے اور گدھے کے برابر کر دیا۔ بےشک میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس حالت میں نماز پڑھتے دیکھا ہے کہ میں آپ کے اور قبلے کے درمیان لیٹی رہتی۔ جب آپ سجدہ کرنا چاہتے تو میرے پاؤں کو ٹٹول کر دبا دیتے اور میں انہیں سمیٹ لیتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:519]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ ان ابواب میں ان لوگوں کی تردید کرتے ہیں جنھوں نے عورت کے معاملے میں تشدد سے کام لیا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجرؒ امام بخاری ؒ کے مقصد کو بایں الفاظ واضح کرتے ہیں:
پہلے باب میں آپ نے ثابت کیا تھا کہ نمازی کا کپڑا اگر دوران نماز میں عورت سے مس کرے تو اس کی نماز کے لیے نقصان دہ نہیں اور اس عنوان میں آپ نے مزید ترقی کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر خود نمازی عورت کے بدن کو ہاتھ لگا دے تو بھی نماز کے لیے ضرررساں نہیں۔
(فتح الباي: 767/1)

پیش کردہ حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سجدے میں جاتے تو حضرت عائشہ ؓ کے پاؤں کو دبا دیتے۔
حضرت عائشہ ؓ اپنے پاؤں سمیٹ لیتیں تو آپ سجدہ کرتے۔
اگرچہ شوافع نے اسے کپڑے کے اوپر سے چھونے پر محمول کیا ہے، تاہم روایت میں اس کی صراحت نہیں ہے۔
اس لیے امام بخاری ؒ اس مسئلے میں ان کے مؤید نہیں ہیں۔

امام بخاری ؒ پر اس سلسلے میں اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب روایت میں عورت کے پاؤں کو چھونے کی صراحت موجود ہے تو آپ نے عنوان میں لفظ (هَل)
کیوں استعمال کیا ہے؟ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ کے اصول موضوعہ میں سے ہے کہ جس مسئلے میں اختلاف ہوتا ہے، وہاں عنوان میں لفظ (هَل)
استعمال کر کے اس اختلاف کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں۔
(مَسِ مرأة)
سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ چونکہ اس کے متعلق آئمہ کرام کے مابین اختلاف تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے لفظ (هَل)
سے مذکورہ عنوان کا آغاز فرمایا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 519   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:997  
997. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، آپ نے فرمایا: نبی ﷺ تہجد کی نماز پڑھتے رہتے جبکہ میں آپ کے بستر پر لیٹی سوئی ہوتی۔ جب آپ وتر پڑھنے کا ارادہ کرتے تو مجھے بیدار کر دیتے تو میں وتر پڑھ لیتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:997]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخارى ؒ نے اس عنوان کو اوقات وتر کے بعد قائم کیا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ وتر کا پسندیدہ وقت رات کا آخری حصہ ہے، خواہ انسان تہجد پڑھے یا نہ پڑھے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اسے خود اپنے آپ پر اعتماد ہو کہ صبح بیدار ہو جائے یا کم از کم اسے کوئی بیدار کرنے والا ہو، بصورت دیگر اسے عشاء کے بعد نماز وتر پڑھ لینی چاہیے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز وتر کا معاملہ عام نوافل جیسا ہے، تاہم اس کی ادائیگی کے لیے خصوصی اہتمام کا حکم ہے۔
جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے لیکن یہ فرض نہیں ہے، چنانچہ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ وتر، فرض نماز کی طرح حتمی نہیں بلکہ سنت ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمایا ہے۔
(جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 453)
ایک روایت میں ہے کہ وتر حق ہے، لہٰذا جس نے وتر نہ پڑھا وہ ہم میں سے نہیں۔
(مسند أحمد: 357/5)
حافظ ابن حجر ؒ نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔
(التلخیص الحبیر: 20/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 997   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1209  
1209. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب (رات کے وقت) نبی ﷺ نماز پڑھتے تو میں آپ کی طرف پاؤں پھیلا کر لیٹی رہتی۔ جب آپ سجدہ کرتے تو میرا پاؤں دبا دیتے، میں انہیں اٹھا لیتی اور جب آپ کھڑے ہو جاتے تو میں پھر پاؤں دراز کر لیتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1209]
حدیث حاشیہ:

اس عنوان کے تحت امام بخاری نے ان امور کو بیان کیا ہے جو دوران نماز میں کیے جا سکتے ہیں اور ان سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔
یہ وہ امور ہیں جن کا ذکر پہلے نہیں ہوا۔
ان سے مراد معمولی عمل ہے۔
دوران نماز میں کسی ضرورت کے پیش نظر دوسرے کے پاؤں کو دبانا جائز ہے، البتہ ایسے کام نماز کی خرابی کا باعث ہیں جن میں درج ذیل چار شرطیں پائی جائیں:
٭وہ یقینی طور پر عمل کثیر کے دائرے میں شامل ہو۔
٭انہیں تسلسل کے ساتھ کیا جائے۔
٭ وہ کام بھاری بھر کم اور ثقیل ہوں۔
٭انہیں کسی ضرورتِ لازمہ کے بغیر کیا جائے۔
بھاری بھر کم کام سے شدت خوف کی نماز مستثنیٰ ہے۔
اسی طرح جب سواری پر نفل نماز پڑھی جائے تو اس وقت ہاتھوں کی بعض حرکات بھی غیر مضر ہیں۔

الغرض ہم نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ ایسے کاموں کی تحدید انتہائی مشکل ہے، اس لیے بہتر ہے کہ نبیﷺ کے افعال کا تتبع کیا جائے، البتہ دوران نماز ایسے کام نہ کیے جائیں جو نماز کا حصہ نہیں اور انہیں کرتے وقت انسان کو نمازی نہ کہا جا سکے، مثلا:
لیٹ کر سو جانا‘ بھاگنا شروع کر دینا‘ کپڑے سینے لگ جانا‘ کسی چیز کی طرف دیر تک دیکھتے رہنا‘ بوجھ اٹھا لینا اور کھانا پینا وغیرہ ایسے کام ہیں جنہیں کرتے وقت نماز پڑھنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1209   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6276  
6276. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ چار پائی یا تخت کے درمیان میں نماز پڑھتے تھے جبکہ میں آپ کے اور قبیلے کے درمیان لیٹی ہوتی تھی مجھے کوئی ضرورت ہوتی تو میں یہ پسند نہ کرتی کہ میں کھڑی ہوں اور آپ کے سامنے آؤں اس لیے میں آہستہ سے سرک جاتی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6276]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گھر میں تخت رکھنا اور اس پر نماز پڑھنا جائز ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کا اپنے شوہر کی موجودگی میں لیٹنا جائز ہے، اس کے علاوہ یہ بھی پتا چلا کہ عورت کا قبلے رخ میں لیٹنا آدمی کی نماز کو باطل نہیں کرتا۔
واللہ أعلم (2)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹنے کے دومختلف واقعات ہیں، ایک تو یہی واقعہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تھے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاؤں کو ہاتھ لگاتے تو وہ اپنے پاؤں سمیٹ لیتیں۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 382)
اور دوسرا واقعہ یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جنازہ کی طرح آپ سامنے لیٹی ہوتیں، اس صورت میں پاؤں سمیٹنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 383)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6276