Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
تفرح أبواب السترة
ابواب: سترے کے احکام ومسائل
111. باب مَا يُنْهَى عَنْهُ مِنَ الْمُرُورِ بَيْنَ يَدَىِ الْمُصَلِّي
باب: نمازی کے سامنے سے گزرنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 701
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ أَرْسَلَهُ إِلَى أَبِي جُهَيْمٍ يَسْأَلُهُ مَاذَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَارِّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي، فَقَالَ أَبُو جُهَيْمٍ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيِ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ، لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ"، قَالَ أَبُو النَّضْرِ: لَا أَدْرِي قَالَ: أَرْبَعِينَ يَوْمًا أَوْ شَهْرًا أَوْ سَنَةً.
بسر بن سعید کہتے ہیں کہ زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے انہیں ابوجہیم رضی اللہ عنہ کے پاس یہ پوچھنے کے لیے بھیجا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نمازی کے آگے سے گزرنے والے کے بارے میں کیا سنا ہے؟ تو ابوجہیم رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا یہ جان لے کہ اس پر کس قدر گناہ ہے، تو اس کو نمازی کے سامنے گزرنے سے چالیس (دن یا مہینے یا سال تک) وہیں کھڑا رہنا بہتر لگتا۔ ابونضر کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے چالیس دن کہا یا چالیس مہینے یا چالیس سال۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الصلاة 101 (510)، صحیح مسلم/الصلاة 48 (507)، سنن الترمذی/الصلاة 139 (336)، سنن النسائی/القبلة 8 (757)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 37 (945)، (تحفة الأشراف: 11884)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ قصر الصلاة 10 (34)، مسند احمد (4/169)، سنن الدارمی/الصلاة 130 (1456) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جان بوجھ کر نمازی کے آگے سے گزرنا کتنا سخت گناہ ہے۔ نماز خواہ فرض ہو یا نفل۔ چالیس کے عدد کے بعد دن، مہینے یا سال کا ذکر نہ ہونا اس سزا کی شدت کے لیے ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (510) صحيح مسلم (507)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 701 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 701  
701۔ اردو حاشیہ:
➊ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جان بوجھ کر نمازی کے آگے سے گزرنا کتنا سخت گنا ہ ہے۔ نماز خواہ فرض ہو یا نفل۔
➋ چالیس کے عدد کے بعد دن، مہینے یا سال کا ذکر نہ ہونا اس سزا کی شدت کے لیے ہے۔ تاہم بعض ضعیف طرق میں «خريف» سال کا لفظ آیا ہے، اس سے گناہ کی شناعت و قباحت واضح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 701   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 180  
´نمازی کے سترے کا بیان`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه من الإثم لكان ان يقف اربعين خيرا له من ان يمر بين يديه . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو یہ معلوم ہو جائے کہ ایسا کرنے کا کتنا گناہ ہے تو اس کو نمازی کے آگے سے گزرنے کے مقابلے میں چالیس (برس) تک وہاں کھڑا رہنا زیادہ پسند ہ . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 180]
لغوی تشریح:
«بَابُ سُتْرَةِ الْمُصَلِّي» سترہ کے سین پر ضمہ اور تا ساکن ہے۔ جسے نمازی اپنی سجدہ گاہ کے آگے نصب کر لے یا کھڑا کر لے یا رکاوٹ بنا لے، خواہ دیوار ہو، ستون ہو، نیزہ ہو یا لکڑی وغیرہ، تاکہ یہ سترہ گزرنے والے اور اس نمازی کے درمیان حائل رہے۔
«اَلْمَارُّ»، «مُرُور» سے اسم فاعل ہے۔ گزرنے والا۔
«خَرِيفًا» بمعنی سال۔ خریف، ربیع کے بالمقابل ایک فصل کا نام ہے اور یہ سال بھر میں ایک ہی مرتبہ وصول ہوتی ہے، اس لیے یہاں جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے۔ یہ مجاز مرسل ہے۔

راویٔ حدیث:
(سیدنا ابوجہیم بن حارث رضی اللہ عنہ) کہا گیا ہے کہ ان کا نام عبداللہ بن حارث بن صمّہ انصاری ہے۔ خزرج قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ مشہور صحابی ہیں۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت تک زندہ رہے۔ «جُهَيْم»، «جَهْم» کی تصغیر ہے اور «الصِمَّة» صاد کے نیچے کسرہ اور میم کی تشدید کے ساتھ ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 180   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 757  
´نمازی اور سترہ کے درمیان گزرنے کی شناعت کا بیان۔`
بسر بن سعید سے روایت ہے کہ زید بن خالد نے انہیں ابوجہیم رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، وہ ان سے پوچھ رہے تھے کہ انہوں نے نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا کہتے سنا ہے؟ تو ابوجہیم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جانتا کہ اس پر کیا گناہ ہے تو وہ چالیس (دن، مہینہ یا سال) تک کھڑا رہنے کو بہتر اس بات سے جانتا کہ وہ اس کے سامنے سے گزرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 757]
757 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس روایت میں چالیس کے بعد سال کا ذکر نہیں۔ مسند بزار میں خریف کا لفظ ہے، اس کے معنی سال کے ہیں لیکن یہ لفظ سنداً ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [تمام المنة للألباني، ص: 302، و فتح الباري: 585/1، حدیث: 510]
ایک حدیث میں «مائة عام» سو سال کھڑے رہنے کا ذکر ہے، لیکن اس کی سند میں عبیداللہ بن عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن موہب ضعیف ہے اور اس کا چچا عبیداللہ بن عبداللہ بن موہب مجہول ہے۔ دیکھیے: [تھذیب الکمال: 80/19]
شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف ابن ماجہ میں ضعیف کہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ معدود کی صراحت درست نہیں ہے۔ معدود مبہم رکھا گیا ہے۔ عربی میں اس طریقے سے زجرو توبیخ اور معاملے کی سنگینی کا بیان مقصود ہوتا ہے بہرحال مقصود عدد نہیں کثرت اور مبالغہ ہے۔ واللہ أعلم۔
➋ چالیس یا سو سال تک رکے رہنے کی بات بھی یفرض محال ہے ورنہ اتنی دیر تک ایک انسان کا نماز پڑھنا ایک جگہ رکے رہنا قابل تصور نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 757   

  الشيخ محمد حسین میمن حفظہ الله، احادیث تطبیق، صحیح مسلم 1132  
... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والا جان لے کہ اس پر کس قدر (گناہ) ہے تو اسے چالیس (سال) تک کھڑے رہنا، اس کے آگے گزرنے سے بہتر (معلوم) ہو۔ ... [صحیح مسلم، ح: 1132]
نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کے متعلق احادیث تطبیق۔
«عن أبى جهيم الأنصاري قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم لأن يقوم أحدكم أربعين خير له من ان يمر بين يديه، قال: ما أدرى أربعين يوماً أو أربعين شهراً أو أربعين سنة»
سیدنا ابوجہیم انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اگر تم میں سے ایک (شخص) چالیس تک کھڑا رہے تو یہ اس کے لئے نمازی کے آگے سے گزرنے سے بہتر ہے۔ راوی حدیث کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ چالیس سے چالیس دن مراد ہیں یا چالیس مہینے یا چالیس سال۔
[تخريج: رواه مسلم 507، وابن ماجه، والبخارى، وأبوداؤد، والترمذي، والنسائي، والدارمي، وأحمد، والبهيقي، والبغوى، وعبدالرزاق 2322 ش]
جبکہ دوسری روایت میں اس طرح ہے کہ:
«عن أبى هريرة. قال: قال رسول صلى الله عليه وسلم لويعلم الذى يمر بين يدى أخيه معترضاً وهوينا جي ربه لكان ان يقف مكانه مئة عام خير له من الخطوة التى خطا .»
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر اپنے رب سے سرگوشی کرنے والے نمازی بھائی کے آگے سے گزرنے والا جان لے کہ (اس پر کتنا گناہ ہے) تو وہ اپنی اس جگہ سو سال ٹہرا رہے یہ اس کے لئے بہتر ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرے۔
[تخريج: رواه أحمد 371/2، وابن ماجه، و ابن حبان، وابن خزيمه]
تطبيق:
➊ دونوں روایتیوں میں فیصلہ کن روایت ابو جہیم رضی اللہ عنہ کی ہے جس میں چالیس کا عدد مذکور ہے جس کی مزید تفصیل مسند بزار میں موجود ہے۔ «اربعين خريفاً» یعنی چالیس سال اور رہی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت اس کو ابن ماجہ وغیرہ نے روایت کیا ہے اس کی سند انتہائی ضعیف ہے اس کی سند میں عبدالرحمن بن موہب ہے جو کہ ضعیف ہے۔ [تهذيب التهذيب جلد 5 ص 395]
➋ امام طحاوی شرح مشکل الآثار 1/48 میں فرماتے ہیں: مجموعہ احادیث سے پتا چلتا ہے کہ اربعین میں موجود جو اخفاء ہے اس سے مراد سال ہے نہ کہ مہینہ یا دن۔
اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہمارے نزدیک ابو جہیم کی حدیث سے متاخر ہے اس لئے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نمازی کے آگے سے گزرنے والے کے لئے جو وعید ہے وہ ابو جہیم والی روایت کی وعید سے زیادہ ہے اور ابو جہیم کی روایت میں تخفیف ہے۔ نیز ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث چونکہ سخت ضعیف ہے اس لئے استدلال کے قابل نہیں ہے۔
سیدنا ابو جہیم رضی اللہ عنہ کی حدیث بالکل صحیح اور واضح ہے۔ اور راوی حدیث نے اس حدیث کے بعد ایک شک بیان کیا ہے کہ چالیس سے کیا مراد ہے؟ آیا چالیس سال یا چالیس مہینے یا چالیس دن۔ تو یہ شک والی بات مرفوع روایت میں نہیں ہے بلکہ راوی حدیث کا ایک گمان ہے۔ البتہ مسند بزار کی روایت سے واضح ہو جاتا ہے کہ چالیس سے مراد چالیس سال ہے۔
   احادیث متعارضہ اور ان کا حل، حدیث/صفحہ نمبر: 7   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:836  
836-بسربن سعید بیان کرتے ہیں: ابوجہم نے مجھے بھیجا تاکہ میں سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے یہ دریافت کروں کہ آپ نے نمازی کے آگے سے گزرنے والے شخص کے بارے میں کیا حدیث سنی ہے، تو انہوں نے بتایا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: کسی ایک شخص کا چالیس تک ٹھہرے رہنا اس کے لیے اس زیادہ بہتر ہے کہ وہ نمازی کے آگے سے گز ر جائے۔ تاہم یہ پتہ نہیں ہے، اس سے مراد چالیس سال ہیں، چالیس دن ہیں، یا چالیس گھڑیاں ہیں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:836]
فائدہ:
نمازی کے آگے سے گزرنا منع ہے نیز اگر کوئی گزرنے کی کوشش کرے تو اسے نمازی روکے۔ افسوس کہ لوگوں نے سترہ کا اہتمام کرنا چھوڑ دیا۔ سترہ کا اہتمام کرنے سے بہت زیادہ فائدے حاصل ہوتے ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 837   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:510  
510. حضرت بسر بن سعید بیان کرتے ہیں کہ حضرت زید بن خالد نے انہیں حضرت ابوجہیم ؓ کی طرف بھیجا کہ ان سے نمازی کے سامنے سے گزرنے والے کے متعلق پوچھیں کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی بابت کیا سنا ہے؟ انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا یہ جانتا کہ اس پر کس قدر گناہ ہے تو آگے سے گزرنے کے بجائے وہاں چالیس تک کھڑے رہنے کو پسند کرتا۔ (راوی حدیث) ابوالنضر نے کہا: مجھے یاد نہیں رہا کہ بسر بن سعید نے چالیس دن کہے یا مہینے یا سال۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:510]
حدیث حاشیہ:

اس سے پہلی حدیث میں نمازی کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ سترہ قائم کرنے کے بعد آگے سے گزرنے والے کو پہلے نرمی پھر سختی سے منع کرے۔
اب گزرنے والے کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اس عمل کا نتیجہ انتہائی خطرناک ہے۔
اس لیے اگر اسے روکا جائے تو اسے نماز کا مضمون ہونا چاہیے کہ اس نے مجھے گناہ اور عذاب آخرت سے بچا لیا ہے۔
واضح رہے کہ اصل روایت میں کوئی ابہام نہیں، بلکہ بسربن سعید نے تو دن مہینہ یا سال کی تعیین کی تھی، آگے راوی کو یا د نہیں رہا مطلب یہ ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنا سخت گناہ ہے۔
اگر اس کی سنگینی کا گزرنے والے کو ادراک ہو جائے تو وہ مدتوں کھڑا رہنے کو گزرنے سے بہترخیال کرے۔
(فتح الباري: 756/1)

صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں (مِنَ الإِثمِ)
کے الفاظ بھی ہیں، لیکن دیگر معتبر کتب حدیث کی جملہ روایات اس اضافے کے بغیر ہی مروی ہیں، صرف مصنف ابن ابی شیبہ میں (مِنَ الإِثمِ)
کے الفاظ ہیں۔
یہ بھی کسی راوی کی تفسیر ہے، حدیث کے الفاظ نہیں۔
ممکن ہے کہ بخاری ؒ کے حاشیے میں یہ الفاظ درج ہوں، پھر کسی نسخہ لکھنے والے نے انھیں متن کا حصہ بنا دیا ہو، نیز روایت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سنگین گناہ اس شخص کو ملے گا جسے اس کا علم ہو، پھر جان بوجھ کر اس کا مرتکب ہو اس کے علاوہ یہ وعید اس شخص کے حق میں ہے جو نمازی کے آگے سے گزرے۔
لیکن اگر کوئی نمازی کے اگے کھڑا ہو جائے یا بیٹھ جائے یا سو جائے تو ظاہر الفاظ کا تقاضا ہے کہ مذکورہ وعید ان حضرات کے لیے نہیں ہوگی، ہاں اگر ہم امتناعی کی علت نمازی کی تشویش و قراردیا جائے تو پھر تمام صورتیں گزرنے والے کے معنی ہوں گی۔
(فتح الباري: 757/1)

علامہ تقی الدین ابن دقیق العید ؒ نے گزرنےوالے اور نمازی کے حالات کے متعلق کچھ تفصیل بیان کی ہے جس کا خلاصہ ہدیہ قارئین ہے:
نمازی عام گزر گاہ سے ہٹ کر اپنے سامنے سترے کا اہتمام کر کے نماز پڑھتا ہے اور گزرنے والے کے لیے متبادل راستہ موجود ہے، لیکن وہ دانستہ طور پر نمازی کے آگے سے گزرتا ہے، اس صورت میں آگے سے گزرنے والا مجرم اور خطا کار ہے۔
نمازی عام گزر گاہ سترے کا اہتمام کے بغیر نماز شروع کردیتا ہے، گزرنے والے کے لیے کوئی متبادل راستہ بھی نہیں اور کسی وجہ سے گزرنابھی ضروری ہے، وہ انتظار نہیں کر سکتا تو اس صورت میں تمام تر ذمے داری نمازی پر عائد ہوتی ہے گزرنے والا مجبور ہے، اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔
عام گزرگاہ سترے کے بغیر نماز شروع کر دیتا ہے۔
متبادل راستہ بھی موجود ہے، لیکن گزرنے والا نمازی کے آگے سے گزرتا ہے تو جس طرح نمازی سترے کے بغیر نماز شروع کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہے، اسی طرح گزرنے والا بھی متبادل راستہ ہونے کے باوجود نمازی کے آگے سے گزرنے کی بنا پر مجرم ہے۔
نمازی نے عام راستے سے ہٹ کراور سترہ قائم کر کے نماز شروع کی، لیکن گزرنے والے کے لیے کوئی اور متبادل راستہ موجود نہیں، کیونکہ گزرگاہ پر بھی کوئی رکاوٹ کھڑی ہے تو ایسی صورت میں نہ نمازی گناہ گار ہے اور نہ گزرنے والا مجرم ہے، کیونکہ نمازی نے سترہ کر رکھا تھا اور گزرنے والے کے لیے کوئی اور راستہ نہیں تھا جس بنا پر وہ نمازی کے آگے سے گزرنے پر مجبور تھا۔
(فتح الباري: 757/1)
لیکن اس حدیث کے ظاہری مفہوم کا تقاضا ہے کہ مطلق طور پر نمازی کے آگے سے گزرنا منع ہے، خواہ گزرنے والے کوکوئی متبادل راستہ ملے یا نہ ملے۔
وہ انتظار کرے تاآنکہ نمازی اپنی نماز سے فارغ ہو جائے۔
حضرت ابو سعید خدری ؒ والے واقعے سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 758/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 510