سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
86. باب فِي كَمْ تُصَلِّي الْمَرْأَةُ
باب: عورت کتنے کپڑوں میں نماز پڑھے؟
حدیث نمبر: 640
حَدَّثَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ دِينَارٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ:عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّهَا سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتُصَلِّي الْمَرْأَةُ فِي دِرْعٍ وَخِمَارٍ لَيْسَ عَلَيْهَا إِزَارٌ؟ قَالَ: إِذَا كَانَ الدِّرْعُ سَابِغًا يُغَطِّي ظُهُورَ قَدَمَيْهَا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَبَكْرُ بْنُ مُضَرَ، وَحَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، وَابْنُ إِسْحَاقَ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، لَمْ يَذْكُرْ أَحَدٌ مِنْهُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَصَرُوا بِهِ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا عورت کرتہ اور اوڑھنی میں جب کہ وہ ازار (تہبند) نہ پہنے ہو، نماز پڑھ سکتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(پڑھ سکتی ہے) جب کرتہ اتنا لمبا ہو کہ اس کے دونوں قدموں کے اوپری حصہ کو ڈھانپ لے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو مالک بن انس، بکر بن مضر، حفص بن غیاث، اسماعیل بن جعفر، ابن ابی ذئب اور ابن اسحاق نے محمد بن زید سے، محمد بن زید نے اپنی والدہ سے، اور محمد بن زید کی والدہ نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے، لیکن ان میں سے کسی نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا ہے، بلکہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا پر ہی اسے موقوف کر دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: 18291) (ضعیف)» (مذکورہ سبب سے یہ مرفوع حدیث بھی ضعیف ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
أم محمد مجهولة الحال
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 36
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 640 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 640
640۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ دونوں روایات ضعیف ہیں۔ بنابریں نماز کی حالت میں عورت کے لیے پیروں کا ڈھانپنا ضروری نہیں، اسے زیادہ سے زیادہ پردے کے عمومی حکم کے اعتبار سے بہتر کہا جا سکتا ہے۔ بعض علماء پیروں کی پشت کے ڈھانپنے کے لیے ایک اور روایت سے استدلال کرتے ہیں جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ اگر عورت کے پیر مردوں کے لباس سے ایک بالشت سے زیادہ لٹکانے پر ننگے رہتے ہوں، تو پھر عورتیں اپنا لباس ایک ہاتھ اور لٹکا لیا کریں۔ [ترمذي، حديث: 1831]
اس سے وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ عورت کو پاؤں کی پشتوں سمیت نماز میں اپنا پورا جسم ہی ڈھانپ کر رکھنا چاہئے۔ لیکن حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا تعلق پردے کے عمومی حکم سے ہے، نمازی عورت کے لیے بھی اس کو ضروری قرار دینا غلط ہے۔ اس طرح تو پھر نماز پڑھتے وقت عورت کے لیے چہرے کو بھی ڈھانپنا ضروری قرار دینا پڑہے گا۔ کیونکہ پردے کے حکم میں عورت کا چہرہ بھی شامل ہے۔ اگر عورت کے لیے نماز کی حالت میں چہرہ ڈھانپنا ضروری نہیں ہے، تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے نماز کی حالت میں پیروں کی پشت کے ڈھانپنے کو بھی ضروری قرار دینا غلط ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتاوي شيخ الاسلا م ابن تيميه: 11؍ 426- 430 طبع جديد، 1998ء الرياض]
➋ ان احادیث کا مرفوع (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی) ہونا ثابت نہیں، مگر بہتر ہے کہ عورت نماز میں اپنا تمام جسم ڈھانپے (کیونکہ اسے سر سمیت سارا جسم ڈھانپنے کا حکم ہے) قابل غور امر یہ ہے کہ جب مسجد جیسے پاکیزہ ماحول اور نماز جیسی عبادت کے دوران میں عورت پر پردے کی اس قدر پابندی ہے تو دیگر کھلے مقامات اور اجنبیوں میں نکلتے ہوئے اسے اپنے پردے کا کس قدر اہتمام کرنا چاہیے!۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 640