سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
85. باب الإِسْبَالِ فِي الصَّلاَةِ
باب: نماز میں کپڑا ٹخنے سے نیچے لٹکانے کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 637
حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ أَسْبَلَ إِزَارَهُ فِي صَلَاتِهِ خُيَلَاءَ، فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي حِلٍّ وَلَا حَرَامٍ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا جَمَاعَةٌ، عَنْ عَاصِمٍ، مَوْقُوفًا عَلَى ابْنِ مَسْعُودٍ، مِنْهُمْ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، وَأَبُو الْأَحْوَصِ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ”جس نے نماز میں تکبر کرتے ہوئے اپنا تہبند ٹخنوں کے نیچے لٹکایا، اللہ اس کے گناہ معاف نہیں فرمائے گا، نہ برے کاموں سے اسے بچائے گا“۔ (یا اس کے لیے جنت کو حلال اور جہنم کو حرام نہیں فرمائے گا یا جب وہ اللہ کی طرف سے کسی حلال کام میں نہیں تو اس کے لیے بھی کوئی احترام نہ ہو گا)۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ محدثین کی ایک جماعت مثلاً حماد بن سلمہ، حماد بن زید، ابو الاحواص اور ابومعاویہ رحمہ اللہ علیہم نے اس حدیث کو عاصم سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 9379) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 637 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 637
637۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ حدیث صحیح ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے دین اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے عمداً انحراف اور اس کی مخالفت کا عذاب انتہائی شدید ہے۔ جسے «فَلَيْسَ مِنْ اللَّهِ فِي حِلٍّ وَلَا حَرَامٍ» سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ شارحین حدیث نے اس کی وضاحت کی ہے کہ ایسے شخص کے گناہ معاف نہیں ہوتے، برے کاموں سے بچنے کی توفیق چھین لی جاتی ہے، اس کے لیے جنت حلال نہیں ہوتی اور جہنم حرام نہیں کی جاتی۔ اللہ کی طرف سے کسی احترام کا مستحق نہیں رہتا۔ «والعياز بالله»
➋ تہ بند، چادر اور شلوار کا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا کبیرہ گناہوں میں سے ہے اور اسے تکبر کی علامت قرار دیا گیا ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے۔
➌ جہالت یا نسیان تو شاید کسی اعتبار سے اللہ کے ہاں معاف ہو جائے مگر علم ہو جانے کے بعد ایسے عمل کا ارتکاب ”تکبر“ میں شامل ہوتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 637