سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
73. باب الإِمَامِ يَتَطَوَّعُ فِي مَكَانِهِ
باب: امام اپنی جگہ پر نفل پڑھے اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 616
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الْقُرَشِيُّ، حَدَّثَنَا عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يُصَلّيِ الْإِمَامُ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي صَلَّى فِيهِ حَتَّى يَتَحَوَّلَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: عَطَاءٌ الْخُرَاسَانِيُّ لَمْ يُدْرِكْ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ.
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”امام نے جس جگہ نماز پڑھائی ہو، اسی جگہ (سنت یا نفل) نہ پڑھے، حتیٰ کہ وہاں سے ہٹ جائے“۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں: عطاء خراسانی کی مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 203 (1428)، (تحفة الأشراف: 11517) (صحیح)» (شواہد سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ مؤلف کی سند میں دو علتیں ہیں: عطاء خراسانی اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع، اور عبدالعزیز قرشی مجہول ہیں)
وضاحت: دیگر روایات سے اس کا اثبات ہوتا ہے۔ جیسے صحیح مسلم میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ”جب تم جمعہ پڑھ لو تو اس کے بعد اسے دوسری نماز سے مت ملاؤ حتی کہ بات کر لو یا وہاں سے نکل جاؤ“۔ اسی روایت میں آگے یہ بھی ہے ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ ہم کسی نماز کو کسی نماز کے ساتھ نہ ملائیں، حتی کہ ہم گفتگو کر لیں یا اس جگہ سے نکل جائیں“۔ حکمت اس میں یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ جگہوں پر سجدہ ثبت ہو، یہ مقامات قیامت کے روز گواہی دیں گے جیسے کہ آیت کریمہ «يومئذ تحدث أخبارها» ”زمین اس دن اپنی خبریں بتائے گی“ (سورة الزلزلة، ۴)۔ کی تفسیر میں آتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ابن ماجه (1428)
سنده مرسل،عطاء الخراساني لم يدرك المغيرة بن شعبة قاله أبو داود
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 35
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 616 کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، ابوداود616
محدثین کرام اور ضعیف جمع ضعیف کی مروّجہ حسن لغیرہ کا مسئلہ؟
جلیل القدر محدثین کرام نے ایسی کئی احادیث کو ضعیف وغیر ثابت قرار دیا، جن کی بہت سی سندیں ہیں اور ضعیف جمع ضعیف کے اُصول سے بعض علماء انھیں حسن لغیرہ بھی قرار دیتے ہیں، بلکہ بعض ان میں سے ایسی روایات بھی ہیں جو ہماری تحقیق میں حسن لذاتہ ہیں۔
اس مضمون میں ایسی دس روایات پیش خدمت ہیں جن پر اکابر علمائے محدثین نے جرح کی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ ضعیف جمع ضعیف والی مروّجہ حسن لغیرہ کو حجت نہیں سمجھتے تھے:
— نمبر 9 —
ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
امام جہاں (فرض) نماز پڑھے تو وہاں نفل نماز نہ پڑھے۔
یہ روایت اس مفہوم کے ساتھ درج ذیل اسانید سے مروی ہے:
1: عبد العزیز بن عبد الملک القرشي عن عطاء الخراساني عن المغیرۃ بن شعبۃ رضي اللہ عنہ (ابوداود: 616 وقال الألبانی:صحیح)
٭ ابن وھب عن عثمان بن عطاء الخرساني عن أبیہ عن المغیرۃ رضي اللہ عنہ (ابن ماجہ: 1428)
2: عن أبي ھریرۃ رضي اللہ عنہ (صحیح البخاری ح 848 وضعفہ البخاری رحمہ اللہ)
ومفھومہ في سنن أبي داود (1006) وسنن ابن ماجہ (1427) وقال الألباني:”صحیح“!
3: عن علي رضي اللہ عنہ قال: من السنۃ أن لایتطوع الإمام حتی یتحول من مکانہ (ابن ابی شیبہ بحوالہ فتح الباری 2/ 335 تحت ح 848 وقال ابن حجر:”بإسنادحسن“!)
4:عن أبی رمثۃ رضي اللہ عنہ (ابوداود:1007، وسند ہ ضعیف، انوار الصحیفہ ص 48)
اس روایت کی تمام سندیں ضعیف ومردود ہیں۔
اور امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا:
”ولم یصح“
اور (یہ حدیث) صحیح نہیں ہے۔
(صحیح بخاری مع الفتح 2/ 334 ح 848)
اور فرمایا:
”ولم یثبت ھذا الحدیث“
اور یہ حدیث ثابت نہیں ہے۔
(التاریخ الکبیر 1/ 341 ت 1073، اسماعیل بن ابراہیم السلمی)
جو لوگ اس روایت کو صحیح سمجھتے ہیں، اُن پر امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کا صحیح و ثابت اثر پیش کر کے لطیف رد کیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ جہاں فرض پڑھتے، وہیں (نفل) نماز پڑھتے تھے۔ (صحیح بخاری: 848)
تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 72
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 616
616۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ روایت گو سنداً ضعیف ہے، لیکن یہ مسئلہ صحیح ہے، کیونکہ دیگر رویات سے اس کا اثبات ہوتا ہے۔ جیسے صحیح مسلم میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ”جب تم جمعہ پڑھ لو تو اس کے بعد اسے دوسری نماز سے مت ملاؤ، حتی کہ بات کر لو وہاں سے نکل جاؤ۔“ اسی روایت میں آگے یہ بھی ہے: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ ہم کسی نماز کو کسی نماز کے ساتھ نہ ملائیں، حتی کہ ہم گفتگو کر لیں یا اس جگہ سے نکل جائیں۔“ اس حدیث کے الفاظ میں عموم ہے جس سے مسئلہ زیربحث کے لیے استدلال کرنا صحیح ہے۔ [صحيح مسلم, حديث: 883]
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتح الباري: 2؍ 335]
➋ حکمت اس میں یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ جگہوں پر سجدہ ثبت ہو۔ یہ مقامات قیامت کے روز گواہی دیں گے جیسے کہ آیت کریمہ «يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا» [الزلزال: 4]
”زمین اس دن خبریں بتائے گی۔“ کے تفسیر میں آتا ہے۔
➌ ابوداؤد کی سند میں انقطاع ہے مگر دیگر شواہد کی روشنی میں حدیث صحیح ہے۔ [شيخ الباني]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 616