سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
49. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ الْمَشْىِ إِلَى الصَّلاَةِ
باب: نماز کے لیے مسجد چل کر جانے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 560
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الصَّلَاةُ فِي جَمَاعَةٍ تَعْدِلُ خَمْسًا وَعِشْرِينَ صَلَاةً، فَإِذَا صَلَّاهَا فِي فَلَاةٍ فَأَتَمَّ رُكُوعَهَا وَسُجُودَهَا بَلَغَتْ خَمْسِينَ صَلَاةً"، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي الْفَلَاةِ تُضَاعَفُ عَلَى صَلَاتِهِ فِي الْجَمَاعَةِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”باجماعت نماز (کا ثواب) پچیس نمازوں کے برابر ہے، اور جب اسے چٹیل میدان (بیابان میں) میں پڑھے اور رکوع و سجدہ اچھی طرح سے کرے تو اس کا ثواب پچاس نمازوں تک پہنچ جاتا ہے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عبدالواحد بن زیاد کی روایت میں یوں ہے: ”آدمی کی نماز چٹیل میدان میں (بیابان میں) باجماعت (شہر اور آبادی کے اندر) نماز سے ثواب میں کئی گنا بڑھا دی جاتی ہے“، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المساجد 16 (788)، مسند احمد (3/55) (كلهم إلى قوله: ’’خمسا وعشرين صلاة‘‘)، (تحفة الأشراف: 4157)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 30 (646) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح خ الشطر الأول منه
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
أبو معاوية الضرير صرح بالسماع عند ابن حبان (الإحسان: 1746)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 560 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 560
560. اردو حاشیہ:
یعنی بیابان میں نماز کی فضیلت دوچند ہو جاتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بیابان میں انسان اکیلا ہوتے ہوئے بھی اذان و اقامت کہہ کر نماز پڑھے تو وہ جماعت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 560
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:646
646. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جماعت کی نماز اکیلے شخص کی نماز سے پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:646]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی حدیث اور اس روایت میں درجات کی تعداد کے متعلق بظاہر تعارض ہے۔
محدثین کرام نے اس میں کئی ایک انداز سے تطبیق دی ہے:
٭امام ترمذی ؒ نے پچیس درجات والی روایت کو راجح قرار دیا ہے اور ستائیس درجات والی روایت کو حضرت ابن عمر ؓ کے منفردات و غرائب میں شمار کیا ہے۔
٭کم تعداد والی روایت کو ابتدائی طور پر محمول کیا جائے اور زیادہ والی حدیث کو انتہا قرار دیاجائے، کیونکہ اللہ کی رحمت سے یہ بعید ہے کہ وہ کوئی چیز دے کر پھر اسے واپس لےلے۔
٭سری نمازوں میں پچیس درجات کی فضیلت ہے جبکہ جہری نمازوں میں ستائیس درجات کی برتری حاصل ہوگی۔
٭درجات کا یہ تفاوت نمازیوں کے قلیل و کثیر ہونے کے پیش نظر ہے۔
اگر نمازی کم ہیں تو پچیس درجے اور زیادہ ہیں تو ستائیس درجے زیادہ ثواب ہوگا۔
٭نماز باجماعت پڑھنے والے کے اخلاص وتقویٰ اور خشوع خضوع میں تفاوت کی وجہ سے ثواب میں بھی کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، یعنی درجات کا تفاوت اختلاف احوال پر مبنی ہے۔
٭چونکہ حضرت ابن عمر ؓ کی روایت میں اضافہ ہے اور ثقہ کی زیادتی قبول ہوتی ہے، لہٰذا ستائیس درجے والی ابن عمر ؓ کی روایت راجح قرار دیاجائے۔
٭ہر نماز میں پچیس اور فجر وعصر میں ستائیس درجے ہوں کیونکہ ان دونوں نمازوں میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔
٭درجات کا یہ تفاوت مسجد کے دور اور قریب ہونے پر مبنی ہے کیونکہ مسجد جتنی دور ہوگی، اس میں نماز پڑھنے کے لیے جانا زیادہ ثواب کا باعث ہے۔
(فتح الباري: 173/2)
والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 646