صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
20. بَابُ مَنْ أَحَبَّ تَعْجِيلَ الصَّدَقَةِ مِنْ يَوْمِهَا:
باب: خیرات کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔
حدیث نمبر: 1430
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَن عُقْبَةَ بْنَ الْحَارِثِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ , قَالَ:" صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ فَأَسْرَعَ، ثُمَّ دَخَلَ الْبَيْتَ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ خَرَجَ فَقُلْتُ أَوْ قِيلَ لَهُ: فَقَالَ: كُنْتُ خَلَّفْتُ فِي الْبَيْتِ تِبْرًا مِنَ الصَّدَقَةِ فَكَرِهْتُ أَنْ أُبَيِّتَهُ فَقَسَمْتُهُ".
ہم سے ابوعاصم نبیل نے عمر بن سعید سے بیان کیا ‘ ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز ادا کی پھر جلدی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد باہر تشریف لے آئے۔ اس پر میں نے پوچھا یا کسی اور نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں گھر کے اندر صدقہ کے سونے کا ایک ٹکڑا چھوڑ آیا تھا مجھے یہ بات پسند نہیں آئی کہ اسے تقسیم کئے بغیر رات گزاروں پس میں نے اس کو بانٹ دیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1430 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1430
حدیث حاشیہ:
(حدیث سے ثابت ہوا کہ)
خیرات اور صدقہ کرنے میں جلدی کرنا بہتر ہے۔
ایسا نہ ہو کہ موت آجائے یا مال باقی نہ رہے اور ثواب سے محروم رہ جائے۔
باب کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صاحب نصاب سال تمام ہونے سے پہلے ہی اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردے۔
اس بارے میں مزید وضاحت اس حدیث میں ہے۔
عَنْ عَلِيٍّ، «أَنَّ الْعَبَّاسَ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تَعْجِيلِ صَدَقَتِهِ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ، فَرَخَّصَ لَهُ فِي ذَلِكَ» (رواہ أبوداود، والترمذي وابن ماجة والدارمي)
یعنی حضرت عباس ؓ نے رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ کیاوہ اپنی زکوٰۃ سال گزرنے سے پہلے بھی ادا کرسکتے ہیں؟ اس پر آپ نے ان کو اجازت بخش دی۔
قال ابن مالك هذا یدل علی جواز تعجیل الزکوة بعد حصول النصاب قبل تمام الحول الخ (مرعاۃ)
یعنی ابن مالک نے کہا کہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ نصاب مقررہ حاصل ہونے کے بعد سال پورا ہونے سے پہلے بھی زکوٰۃ ادا کی جاسکتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1430
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1430
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ خیرات اور صدقہ کرنے میں جلدی کرنا بہتر ہے، مبادا موت آ جائے یا مال باقی نہ رہے اور انسان اسے روک کر ثواب سے محروم رہ جائے، اس لیے نیکی کے کام میں جلدی کرنی چاہیے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں صدقہ کرنے میں جلدی کرنے کے استحباب کو بیان کیا ہے، حالانکہ حدیث سے واضح طور پر تو تاخیر کی کراہت معلوم ہو رہی ہے، لہذا امام صاحب کو کراہت تاخیر کا عنوان قائم کرنا چاہیے تھا جو کہ حدیث سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ امام بخاری ؒ حسب عادت دقیق نظری کو پسند کرتے اور باریک بینی کو ظاہر بات پر ترجیح دیتے ہیں، اس بنا پر امام بخاری نے استحبابِ تعجیل کا عنوان قائم کیا ہے۔
(فتح الباري: 377/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1430
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1366
´امام کے لیے لوگوں کی گردنیں پھلانگنے کی رخصت کا بیان۔`
عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں نماز عصر پڑھی، پھر آپ تیزی سے لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے گئے یہاں تک کہ لوگ آپ کی تیزی سے تعجب میں پڑ گئے، کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے پیچھے گئے (کہ کیا معاملہ ہے) آپ اپنی ایک بیوی کے حجرہ میں داخل ہوئے، پھر باہر نکلے اور فرمایا: ”میں نماز عصر میں تھا کہ مجھے سونے کا وہ ڈلا یاد آ گیا جو ہمارے پاس تھا، تو مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ رات بھر وہ ہمارے پاس پڑا رہے، لہٰذا جا کر میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔“ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1366]
1366۔ اردو حاشیہ:
➊ اللہ! اللہ! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے نفسی کہ اللہ کے مال کو ایک رات کے لیے بھی اپنے گھر رکھنے کو تیار نہیں۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ فجزاہ اللہ عنا خیر الجزاء۔
➋ معلوم ہوا کہ نماز کے اندر اتفاقاً کسی خیال کا آجانا نماز کو ختم نہیں کرتا۔
➌ اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کی عادت مبارکہ نماز کے بعد کچھ دیر بیٹھنے ہی کی تھی ورنہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو تعجب نہ ہوتا، نیز کسی عذر کی بنا پر ایسے کرسکتے ہیں، اسے عادت نہیں بنانا چاہیے۔
➍ امام جب کوئی خلاف معمول کام کرے تو اسے اپنے ساتھیوں کے سامنے اس کی وضاحت کر دینی چاہیے تاکہ ان کے دلوں میں شکوک و شبہات جنم نہ لیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1366
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 851
851. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے ایک دفعہ نماز عصر نبی ﷺ کے پیچھے مدینہ منورہ میں ادا کی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو جلدی سے کھڑے ہو گئے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے اپنی بیویوں کے کسی حجرے کی طرف تشریف لے گئے۔ لوگ آپ کی اس سرعت سے گھبرا گئے۔ بہرحال آپ ان کے پاس واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ آپ کی عجلت کی وجہ سے تعجب میں ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”مجھے سونے کا ایک ٹکڑا جو ہمارے پاس تھا یاد آ گیا، میں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ مبادا مجھے وہ اللہ کی یاد سے روک دے، لہذا میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:851]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فرض کے بعد امام کو اگر کوئی فوری ضرورت معلوم ہوجائے تو وہ کھڑا ہو کر جاسکتا ہے کیونکہ فرضوں کے سلام کے بعد امام کو خواہ مخواہ اپنی جگہ ٹھہرے رہنا کچھ لازم یا واجب نہیں ہے۔
اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آں حضرت ﷺ کو اپنی پیغمبرانہ ذمہ داریوں کا کس شدت سے احساس رہتا تھا کہ سونے کا ایک تولا بھی گھر میں محض بطور امانت ہی ایک رات کے لیے رکھ لینا ناگوار معلوم ہوا۔
پھر ان معاندین پر پھٹکار ہو جو ایسے پاک پیغمبر فداہ ابی وامی کی شان میں گستاخی کرتے اور نعوذباللہ آپ ﷺ پر دنیاداری کاغلط الزام لگاتے رہتے ہیں۔
ھداھم اللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 851
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1221
1221. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے ہمراہ نمازِ عصر ادا کی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی کسی بیوی کے گھر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد باہر تشریف لائے، آپ نے جلدی کرنے کی وجہ سے لوگوں کے چہروں پر تعجب و حیرت کے اثرات دیکھے تو فرمایا: ”مجھے دوران نماز میں یاد آیا کہ ہمارے پاس سونے کا ٹکڑا ہے۔ میں نے شام یا رات تک اس کا گھر میں رکھنا پسند نہ کیا، اس لیے میں نے اسے (لوگوں میں) تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1221]
حدیث حاشیہ:
نماز میں آنحضرت ﷺ کو سونے کا وہ بقایا ڈلا تقسیم کے لیے یاد آگیا، یہیں سے باب کا مطلب ثابت ہوا
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1221
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:851
851. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے ایک دفعہ نماز عصر نبی ﷺ کے پیچھے مدینہ منورہ میں ادا کی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو جلدی سے کھڑے ہو گئے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے اپنی بیویوں کے کسی حجرے کی طرف تشریف لے گئے۔ لوگ آپ کی اس سرعت سے گھبرا گئے۔ بہرحال آپ ان کے پاس واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ آپ کی عجلت کی وجہ سے تعجب میں ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”مجھے سونے کا ایک ٹکڑا جو ہمارے پاس تھا یاد آ گیا، میں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ مبادا مجھے وہ اللہ کی یاد سے روک دے، لہذا میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:851]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے مندرجہ ذیل احکام ثابت ہوتے ہیں:
٭ نماز سے فراغت کے بعد مصلے پر ٹھہرنا ضروری نہیں، ضرورت کے وقت فوراً اٹھ کر جانا جائز ہے۔
٭ گردنیں پھلانگ کر آنے جانے میں اگر لوگوں کو کوئی تکلیف نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
عام حالات میں اس کی ممانعت ہے۔
(مسند أحمد: 424/3)
٭ دوران نماز میں جائز امور کو بجا لانے کا عزم کیا جا سکتا ہے۔
٭ جو کام خود کر سکتا ہے اگر کسی دوسرے کو اس کے متعلق کہہ دیا جائے تو جائز ہے۔
(فتح الباري: 436/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 851
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1221
1221. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے ہمراہ نمازِ عصر ادا کی۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی کسی بیوی کے گھر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد باہر تشریف لائے، آپ نے جلدی کرنے کی وجہ سے لوگوں کے چہروں پر تعجب و حیرت کے اثرات دیکھے تو فرمایا: ”مجھے دوران نماز میں یاد آیا کہ ہمارے پاس سونے کا ٹکڑا ہے۔ میں نے شام یا رات تک اس کا گھر میں رکھنا پسند نہ کیا، اس لیے میں نے اسے (لوگوں میں) تقسیم کرنے کا حکم دیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1221]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران نماز میں کسی چیز کا خیال آ جانا نماز کے منافی نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کو دوران نماز میں سونے کے ٹکڑے کا خیال آیا جو تقسیم نہیں کیا گیا تھا، پھر آپ نے نماز کے بعد اس کے متعلق عمل درآمد کرنے میں جلدی کی لیکن نماز کا اعادہ نہیں فرمایا، کیونکہ ایسا کرنا نماز کے منافی نہیں تھا۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیکی کے کاموں میں جلدی کرنی چاہیے۔
(فتح الباري: 118/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1221