Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
18. بَابُ لاَ صَدَقَةَ إِلاَّ عَنْ ظَهْرِ غِنًى:
باب: صدقہ وہی بہتر ہے جس کے بعد بھی آدمی مالدار ہی رہ جائے (بالکل خالی ہاتھ نہ ہو بیٹھے)۔
حدیث نمبر: 1429
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ , قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ:" وَذَكَرَ الصَّدَقَةَ , وَالتَّعَفُّفَ , وَالْمَسْأَلَةَ الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، فَالْيَدُ الْعُلْيَا هِيَ الْمُنْفِقَةُ، وَالسُّفْلَى هِيَ السَّائِلَةُ".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب نے ‘ ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ (دوسری سند) اور ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ‘ ان سے مالک نے ‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کہ آپ منبر پر تشریف رکھتے تھے۔ آپ نے صدقہ اور کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے کا اور دوسروں سے مانگنے کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر کا ہاتھ خرچ کرنے والے کا ہے اور نیچے کا ہاتھ مانگنے والے کا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1429 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1429  
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری نے باب منعقدہ کے تحت ان احادیث کو لاکر یہ ثابت فرمایا کہ ہر مرد مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ صاحب دولت بن کر اور دولت میں سے اللہ کا حق زکوٰۃ ادا کرکے ایسا رہنے کی کوشش کرے کہ اس کا ہاتھ ہمیشہ اوپر کا ہاتھ رہے اور تازیست نیچے والا نہ بنے، یعنی دینے والا بن کر رہے نہ کہ لینے والا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا۔
حدیث میں اس کی بھی ترغیب ہے کہ احتیاج کے باوجود بھی لوگوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا چاہیے، بلکہ صبرو استقلال سے کام لے کر اپنے توکل علی اللہ اور خود داری کو قائم رکھتے ہوئے اپنی قوت بازو کی محنت پر گزارہ کرناچاہیے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1429   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1429  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں اوپر والے اور نیچے والے ہاتھ کی تفسیر بھی بیان ہوئی ہے۔
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تفسیر راوی حدیث حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی ہے، اس بنا پر یہ تفسیر مدرج ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ ہی سے یہ تفسیر مروی ہے۔
مسند احمد میں حضرت حکیم بن حزام ؓ سے مرفوع روایت ہے کہ اللہ کا ہاتھ دینے والے کے اوپر اور دینے والے کا ہاتھ لینے والے کے اوپر اور لینے والے کا ہاتھ سب سے نیچے ہوتا ہے۔
(مسندأحمد: 402/3)
ایک روایت میں ہے کہ ہاتھ تین طرح کے ہیں:
اللہ کا ہاتھ سب سے اونچا، دینے والے کا ہاتھ اس سے متصل اور سوال کرنے والے کا ہاتھ تو سب سے نیچے ہے۔
(سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: 1649)
ان تمام روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ صدقہ وصول کرنے والا ہے۔
(فتح الباري: 375/3) (2)
امام بخاری ؒ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلمان کو صاحب دولت بن کر رہنا چاہیے۔
اپنے مال سے حق زکاۃ ادا کر کے کوشش کرے کہ اس کا ہاتھ اوپر رہے اور زندگی بھر کسی کے سامنے دست سوال پھیلا کر ذلت و رسوائی مول نہ لے، احتیاج اور ضرورت کے باوجود بھی دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے بلکہ صبر و استقلال سے کام لے کر اپنی خودداری کو قائم رکھے اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنی قوت بازو کی محنت پر گزارہ کرے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1429   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 478  
´سائل کو دینے کو ترغیب`
«. . . 255- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال وهو على المنبر وهو يذكر الصدقة والتعفف عن المسألة: اليد العليا خير من اليد السفلى، واليد العليا المنفقة، والسفلى السائلة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر صدقے اور مانگنے سے اجتناب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا مانگنے والا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 478]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1429، ومسلم 94/1033، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ شرعی عذر کے بغیر مانگنا ممنوع ہے۔
➋ مستحق شخص کی امداد کرنے والا شخص افضل ہے۔
➌ لوگوں کی اصلاح کے لئے منبر پر مسائل بیان کرنا جائز بلکہ بہتر ہے۔
➍ اللہ کے راستے میں صدقات دیتے رہنا اہل ایمان کی نشانی ہے۔
➎ محنت کر کے مال و دولت کمانا تاکہ اس میں سے اللہ کے راستے میں، اپنے آپ پر، اپنے اہل وعیال اور دوست احباب پر خرچ کیا جائے، یہ بہت پسندیدہ کام ہے۔
➏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لايفتح الانسان عليٰ نفسه باب مسالته، الا فتح الله عليه باب فقر، يأخذ الرجل حبله فيعمد إلى الحبل فيحتطب عليٰ ظهره فيأكل به خير له من أن يسأل الناس معطيً أو ممنوعًا۔» جو شخص اپنے آپ پر سوال (لوگوں سے مانگنے) کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ اس پر فقر (غربت) کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ آدمی اپنی رسی لے کر پہاڑ پر چڑھے پھر اپنی پیٹھ پر لکڑیاں (رکھ کر) لے آئے تو اُس سے (یعنی انھیں بیچ کر) کھائے۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے مانگتا پھرے، کوئی اسے دے اور کوئی دھتکار دے۔ [مسند أحمد 2/418 ح9421 وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 255   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1648  
´سوال سے بچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور آپ منبر پر تھے صدقہ کرنے کا، سوال سے بچنے اور مانگنے کا ذکر کر رہے تھے کہ: اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اور اوپر والا ہاتھ (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے والا ہاتھ ہے، اور نیچے والا ہاتھ سوال کرنے والا ہاتھ ہے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث میں ایوب کی نافع سے روایت پر اختلاف کیا گیا ہے ۱؎، عبدالوارث نے کہا: «اليد العليا المتعففة» (اوپر والا ہاتھ وہ ہے جو مانگنے سے بچے)، اور اکثر رواۃ نے حماد بن زیدی سے روایت میں: «اليد العليا المنفقة» نقل کیا ہے (یعنی اوپر والا ہاتھ دینے والا ہاتھ ہے) اور ایک راوی نے حماد سے «المتعففة» روایت کی ۲؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1648]
1648. اردو حاشیہ: نیچے والے ہاتھ کو اعلیٰ اور افضل قراردینا بعض صوفیاء کی خود ساختہ بات ہے۔بقول ان کے اس کی تفصیل یہ ہے کہ چونکہ غنی پر اپنے مال کا حق (صدقہ) دینا واجب ہوتا ہے۔اور جب تک وہ دے نہ چکے اور کوئی لے نہ لے وہ اپنے اس حق لازم سے بُری نہیں ہوسکتا۔چونکہ لینے والا اس کا مال لے کر گویا احسان کرتا اور اسے اس کے حق واجب سے بری کرتا ہے۔ اس لئے وہ افضل ہوا مگر بقول علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ یہ بات فطرت عرف اور شرع سب لہاظ سے باطل ہے۔الف)خود رسول اللہ ﷺنے دینے والے ہاتھ کو افضل فرمایا ہے۔جو اس رائے کے باطل ہونے کی صریح دلیل ہے۔(ب) آپ نے اسے نیچے والے ہاتھ کے بالمقابل خیر اور افضل فرمایا ہے۔ اور بلاشبہ دینا افضل ہے۔ نہ کہ لینا۔(ج)عرف ومعنی کے اعتبار سے بھی دینے والے کا ہاتھ سائل کے مقابلے میں افضل ہوا کرتا ہے۔(د)عطا ایک صفت مدح ہے۔جو انسان کے غنا کرم اور احسان کی دلیل ہے۔اس کے بالمقابل لینا ایک صفت نقص وعیب ہے جو فقر وحاجت مندی کا مظہر ہوتی ہے۔لہذا ان لوگوں کا یہ معنی کہ لینے والا ہاتھ افضل ہوتا ہے۔کسی طرح بھی معقول نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1648