سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
37. باب مَا يَقُولُ إِذَا سَمِعَ الإِقَامَةَ
باب: آدمی جب اقامت (تکبیر) سنے تو کیا کہے؟
حدیث نمبر: 528
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَابِتٍ، حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَوْ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" أَنَّ بِلَالًا أَخَذَ فِي الْإِقَامَةِ، فَلَمَّا أَنْ، قَالَ: قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَقَامَهَا اللَّهُ وَأَدَامَهَا"، وقَالَ فِي سَائِرِ الْإِقَامَةِ كَنَحْوِ حَدِيثِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي الْأَذَانِ.
ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے یا بعض صحابہ کرام سے روایت ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت شروع کی، جب انہوں نے «قد قامت الصلاة» کہا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أقامها الله وأدامها» اللہ اسے قائم رکھے اور اس کو دوام عطا فرمائے اور باقی اقامت کے جواب میں وہی کہا جو اذان کے سلسلے میں عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4888) (ضعیف)» (اس کے راوی محمد بن ثابت اور شہر ضعیف ہیں اور دونوں کے درمیان ایک مبہم راوی ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
قال النووي: ”فھو حديث ضعيف،لأن الرجل مجهول و محمد بن ثابت العبدي ضعيف بالإتفاق‘‘ إلخ
(مجموع شرح المھذب 3/ 122)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 32
َدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 528 کے فوائد و مسائل
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 528
فوائد و مسائل: سوال: قد قامت الصلاۃ کا جواب دینا کیسا ہے؟
اقامت کے دوران جب
«قد قامت الصلاة» کہا جاتا ہے، تو اس کے جواب میں بعض لوگ
«اقامها الله و ادامها» کہتے ہیں. یہ جائز نہیں، کیونکہ ایسا کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ اس کے متعلق جو حدیث وارد ہے، وہ سخت
”ضعیف
“ اور ناقابل عمل و ناقابل حجت ہے . ملاحظہ فرمائیے:
مروی ہے کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہنا شروع کی۔ جب انہوں نے «قد قامت الصلاة» کہا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں «اقامها الله و ادامها» کہا۔ [سنن ابي داود: 528، عمل اليوم واليله لا بن السني: 105]
تبصرہ: یہ روایت دو وجہ سے
”ضعیف
“ ہے:
➊ اس کا راوی محمد بن ثابت عبدی جمہور محدثین کرام کے نزدیک
”ضعیف
“ ہے، جیسا کہ:
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«وليس هو بالقوي عند اكثر المحدثين» ”اکثر محدثین کرام کے نزدیک یہ مضبوط راوی نہیں.
“ [خلاصه الاحكام:217/1 ح: 559، نصب الرايه للزيلعي: 5/1، 6] ➋
«رجل من اهل الشام» نامعلوم اور
”مبہم
“ ہے۔
دین ثقہ راویوں کی بیان کردہ صحیح روایات کا نام ہے۔ پھر اس مسئلہ کا تعلق بھی احکام شرعیہ سے ہے، نہ کہ فضائل سے۔
ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 61-66، حدیث/صفحہ نمبر: 242
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 528
528۔ اردو حاشیہ:
یہ روایت سنداً ضعیف ہے، تاہم پچھلے باب کی احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اقامت کا جواب بھی دیا جائے اور «قد قامت الصلوة» کے جواب میں بھی یہی الفاظ دہرائے جایئں۔ تفصیل کے لئے دیکھیں: [فتح الباري: 92/2]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 528