صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
15. بَابُ إِذَا تَصَدَّقَ عَلَى ابْنِهِ وَهُوَ لاَ يَشْعُرُ:
باب: اگر باپ ناواقفی سے اپنے بیٹے کو خیرات دیدے کہ اس کو معلوم نہ ہو؟
حدیث نمبر: 1422
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجُوَيْرِيَةِ، أَنَّ مَعْنَ بْنَ يَزِيدَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ، قَالَ:" بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا , وَأَبِي , وَجَدِّي , وَخَطَبَ عَلَيَّ فَأَنْكَحَنِي , وَخَاصَمْتُ إِلَيْهِ، وَكَانَ أَبِي يَزِيدُ أَخْرَجَ دَنَانِيرَ يَتَصَدَّقُ بِهَا فَوَضَعَهَا عِنْدَ رَجُلٍ فِي الْمَسْجِدِ فَجِئْتُ فَأَخَذْتُهَا فَأَتَيْتُهُ بِهَا، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا إِيَّاكَ أَرَدْتُ فَخَاصَمْتُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَكَ مَا نَوَيْتَ يَا يَزِيدُ وَلَكَ مَا أَخَذْتَ يَا مَعْنُ".
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم اسرائیل بن یونس نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوجویریہ (حطان بن خفاف) نے بیان کیا کہ معن بن یزید نے ان سے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے والد اور دادا (اخفش بن حبیب) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ آپ نے میری منگنی بھی کرائی اور آپ ہی نے نکاح بھی پڑھایا تھا اور میں آپ کی خدمت میں ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوا تھا۔ وہ یہ کہ میرے والد یزید نے کچھ دینار خیرات کی نیت سے نکالے اور ان کو انہوں نے مسجد میں ایک شخص کے پاس رکھ دیا۔ میں گیا اور میں نے ان کو اس سے لے لیا۔ پھر جب میں انہیں لے کر والد صاحب کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا کہ قسم اللہ کی میرا ارادہ تجھے دینے کا نہیں تھا۔ یہی مقدمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا اور آپ نے یہ فیصلہ دیا کہ دیکھو یزید جو تم نے نیت کی تھی اس کا ثواب تمہیں مل گیا اور معن! جو تو نے لے لیا وہ اب تیرا ہو گیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1422 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1422
حدیث حاشیہ:
امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا یہی قول ہے کہ اگر ناواقفی میں باپ بیٹے کو فرض زکوٰۃ بھی دے دے تو زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے اور دوسرے علماء کہتے ہیں کہ اعادہ واجب ہے اور اہلحدیث کے نزدیک بہر حال ادا ہوجاتی ہے۔
بلکہ عزیز اور قریب لوگوں کو جو محتاج ہوں زکوٰۃ دینا اور زیادہ ثواب ہے۔
سید علامہ نواب صدیق حسن خان صاحب مرحوم نے کہا کہ متعدد دلائل اس پر قائم ہیں کہ عزیزوں کو خیرات دینا زیادہ افضل ہے‘ خیرات فرض ہو یا نفل اور عزیزوں میں خاوند‘ اولاد کی صراحت ابوسعید کی حدیث میں موجود ہے۔
(مولانا وحید الزماں)
مضمون حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ نبی کریم ﷺ کس قدر شفیق اور مہربان تھے اور کس وسعت قلبی کے ساتھ آپ نے دین کا تصور پیش فرمایا تھا۔
باپ اور بیٹے ہر دو کو ایسے طور سمجھا دیا کہ ہر دو کا مقصد حاصل ہوگیا اور کوئی جھگڑا باقی نہ رہا۔
آپ کا ارشاد اس بنیادی اصول پر مبنی تھا۔
جو حدیث إِنمَا الأَعمالُ بِالنِیاتِ میں بتلایا گیا ہے کہ عملوں کا اعتبار نیتوں پر ہے۔
آج بھی ضرورت ہے کہ علماء وفقہاء ایسی وسیع الظرفی سے کام لے کر امت کے لیے بجائے مشکلات پیدا کرنے کے شرعی حدود میں آسانیاں بہم پہنچائیں اور دین فطرت کا زیادہ سے زیادہ فراخ قلبی کے ساتھ مطالعہ فرمائیں کہ حالات حاضرہ میں اس کی شدید ضرورت ہے۔
فقہاءکا وہ دور گزر چکا جب وہ ایک ایک جزئی پر میدان مناظرہ قائم کردیا کرتے تھے جن سے تنگ آکر حضرت شیخ سعدی کو کہنا پڑا:
فقیہاں طریق جدل ساختند لم لا نسلم درانداختند
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1422
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1422
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر نادانستہ طور پر باپ اپنے محتاج بیٹے کو زکاۃ دے دے تو ادا ہو جائے گی، اسے دوبارہ دینے کی ضرورت نہیں بلکہ عزیز و اقارب جو محتاج ہوں انہیں زکاۃ دینا زیادہ اجروثواب کا باعث ہے۔
خیرات فرض ہو یا نفل اپنے خاوند اور دیگر رشتہ داروں کو دینا دوسری احادیث سے ثابت ہے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ باپ اگر اپنی اولاد میں سے کسی حقدار کو صدقہ و خیرات دیتا ہے تو اسے رجوع کا حق نہیں، البتہ ہبہ وغیرہ میں باپ کو واپس لینے کا حق بدستور قائم رہتا ہے۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ خود دینا ضروری نہیں بلکہ کسی کو اپنی طرف سے وکیل بنانا بھی جائز ہے، کیونکہ اس میں اخفا ہے جو اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے اور ایسا کرنے سے انسان ریاکاری سے بھی محفوظ رہتا ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1422