سنن ابي داود
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
11. باب فِي مَنْ نَامَ عَنِ الصَّلاَةِ، أَوْ نَسِيَهَا
باب: جو نماز کے وقت سو جائے یا اسے بھول جائے تو کیا کرے؟
حدیث نمبر: 438
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ،حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ سُمَيْرٍ، قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَبَاحٍ الْأَنْصَارِيُّ مِنْ الْمَدِينَةِ وَكَانَتْ الْأَنْصَارُ تُفَقِّهُهُ، فَحَدَّثَنَا، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيُّ فَارِسُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشَ الْأُمَرَاءِ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: فَلَمْ تُوقِظْنَا إِلَّا الشَّمْسُ طَالِعَةً، فَقُمْنَا وَهِلِينَ لِصَلَاتِنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: رُوَيْدًا رُوَيْدًا، حَتَّى إِذَا تَعَالَتِ الشَّمْسُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَرْكَعُ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ فَلْيَرْكَعْهُمَا، فَقَامَ مَنْ كَانَ يَرْكَعُهُمَا وَمَنْ لَمْ يَكُنْ يَرْكَعُهُمَا فَرَكَعَهُمَا، ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُنَادَى بِالصَّلَاةِ فَنُودِيَ بِهَا، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِنَا، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: أَلَا إِنَّا نَحْمَدُ اللَّهَ أَنَّا لَمْ نَكُنْ فِي شَيْءٍ مِنْ أُمُورِ الدُّنْيَا يَشْغَلُنَا عَنْ صَلَاتِنَا، وَلَكِنَّ أَرْوَاحَنَا كَانَتْ بِيَدِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَأَرْسَلَهَا أَنَّى شَاءَ فَمَنْ أَدْرَكَ مِنْكُمْ صَلَاةَ الْغَدَاةِ مِنْ غَدٍ صَالِحًا فَلْيَقْضِ مَعَهَا مِثْلَهَا.
خالد بن سمیر کہتے ہیں کہ مدینہ سے عبداللہ بن رباح انصاری جنہیں انصار مدینہ فقیہ کہتے تھے ہمارے پاس آئے اور انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ مجھ سے ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہسوار تھے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کا ایک لشکر بھیجا (اور پھر یہی قصہ بیان کیا)، اس میں ہے: تو سورج کے نکلنے ہی نے ہمیں جگایا، ہم گھبرائے ہوئے اپنی نماز کے لیے اٹھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھہرو، ٹھہرو، یہاں تک کہ جب سورج چڑھ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو لوگ فجر کی دو رکعت سنت پڑھا کرتے تھے پڑھ لیں“، چنانچہ جو لوگ سنت پڑھا کرتے تھے اور جو نہیں پڑھتے تھے، سبھی سنت پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور سبھوں نے دو رکعت سنت ادا کی، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے اذان دینے کا حکم فرمایا، اذان دی گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو! ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم دنیا کے کسی کام میں نہیں پھنسے تھے، جس نے ہم کو نماز سے باز رکھا ہو، ہماری روحیں تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں تھیں، جب اس نے چاہا انہیں چھوڑا، تم میں سے جو شخص کل فجر ٹھیک وقت پر پائے وہ اس کے ساتھ ایسی ہی ایک اور نماز پڑھ لے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف: 12089) (شاذ)» (اس کے راوی خالد بن سمیر وہم کے شکار ہو جاتے تھے اور اس حدیث میں ان سے کئی جگہ وہم ہوا ہے جو بقیہ احادیث سے واضح ہے)
قال الشيخ الألباني: شاذ
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 438 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 438
438۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ روایت سنداً تو صحیح ہے، علاوہ ازیں دیگر صحیح روایات میں بھی یہ واقعہ بیان ہوا ہے۔ لیکن اس روایت میں اس کے راوی خالد بن سمیر کو بیان واقعہ میں تین مقامات پر وہم ہوا ہے۔
(الف) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیش الامراء روانہ فرمایا۔
(ب) جو تم میں سے سنتیں پڑھنا چاہتا ہے، پڑھ لے۔
(ج) اس کے ساتھ اس نماز کی قضا بھی دے۔ گویا اس لشکر کو «جيش الامراء»، قرار دینا، صبح کی سنتوں کے بارے میں اختیار دینا اور اسی طرح دوسرے دن فجر کی نماز کے ساتھ اس فجر کی نماز کی قضاء دینے کا حکم یہ تینوں باتیں صحیح نہیں ہیں۔ ان اوہام سے قطع نظر یہ روایت صحیح ہے۔ انہی اوہام کی وجہ سے غالباً شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے شاذ قرار دیا ہے۔ اس لیے فوت شدہ نماز جاگ آنے یا یاد آنے ہی پر ادا کی جانی چاہیے جیسا کہ صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے۔ اسے اگلے دن کی اسی نماز تک مؤخر کرنا درست نہیں۔
➋ ”جیش الامراء“ سے بالعموم غزوہ موتہ مراد لیا گیا ہے جبکہ صاحب بذل المجہود مولانا خلیل احمد سہارنپوری کا خیال ہے کہ غزوہ خیبر بھی ”جیش الامراء“ ہو سکتا ہے۔
➌ دنیا کے کسی کام میں مشغولیت کی وجہ سے نماز میں تاخیر کر دینا بہت بڑی نحوست ہے اور اپنی جان پر ایک بھاری ظلم، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر درد شقیقہ کے عارضہ میں مبتلا تھے تو پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا دیا گیا تھا۔ «والله أعلم»
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 438