Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ
کتاب: طہارت کے مسائل
118. باب مَنْ قَالَ تَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلاَةٍ
باب: مستحاضہ ہر نماز کے لیے وضو کرے۔
حدیث نمبر: 304
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو، حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ أَبِي حُبَيْشٍ، أَنَّهَا كَانَتْ تُسْتَحَاضُ، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا كَانَ دَمُ الْحَيْضِ فَإِنَّهُ دَمٌ أَسْوَدُ يُعْرَفُ، فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ فَأَمْسِكِي عَنِ الصَّلَاةِ، فَإِذَا كَانَ الْآخَرُ فَتَوَضَّئِي وَصَلِّي"، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: وَحَدَّثَنَا بِهِ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ حِفْظًا، فَقَالَ: عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ فَاطِمَةَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرُوِيَ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَشُعْبَةَ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، قَالَ الْعَلَاءُ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَوْقَفَهُ شُعْبَةُ عَلَى أَبِي جَعْفَرٍ: تَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ.
فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہیں استحاضہ کی شکایت تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: جب حیض کا خون ہو (جو کہ بالکل سیاہ ہوتا ہے اور پہچان لیا جاتا ہے) تو تم نماز سے رک جاؤ اور جب دوسری طرح کا خون آنے لگے تو وضو کرو اور نماز پڑھو۔ ابوداؤد کہتے ہیں کہ ابن مثنی نے کہا ہے کہ ابن ابی عدی نے اسے ہم سے زبانی بیان کیا تو اس میں انہوں نے «عن عروة عن عائشة أن فاطمة» کہا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نیز یہ حدیث علاء بن مسیب اور شعبہ سے مروی ہے انہوں نے حکم سے اور حکم نے ابو جعفر سے روایت کیا ہے مگر علاء نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً اور شعبہ نے ابو جعفر سے موقوفاً بیان کیا ہے، اس میں یہ ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے وضو کرے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم:281، (تحفة الأشراف: 18019) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
تقدم (286)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 25

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 304 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 304  
304. اردو حاشیہ:
 یہ روایت سنداً ضعیف ہے جو پیچھے تفصیل سے گزر چکی ہے۔ دیکھئے سنن ابی داود حدیث:286۔ تاہم اس میں بیان کردہ بات دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ البتہ اس میں اختصار ہے اور طہارت حاصل ہونے کے بعد غسل کا ذکر نہیں ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کی تحسین کی ہے، یہ اور اسی قسم کی دیگر احادیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ مستحاضہ ایک وضو سے دو نمازیں نہیں پڑھ سکتی، بلکہ ہر نماز کے لیے اسے وضو کرنا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 304   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 118  
´استحاضہ کا خون`
«. . . عن عائشة رضي الله عنها: ان فاطمة بنت ابي حبيش كانت تستحاض فقال لها رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إن دم الحيض دم اسود يعرف فإذا كان ذلك فامسكي عن الصلاة فإذا كان الآخر فتوضئي وصلي . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا استحاضہ کی دائمی مریضہ تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا کہ حیض کے خون (کی رنگت) سیاہ ہوتی ہے، آسانی سے پہچان ہو سکتی ہے۔ جن ایام میں یہ خون آ رہا ہو تو ان ایام میں نماز چھوڑ دو اور جب کوئی دوسرا ہو تو وضو کر کے نماز پڑھ لیا کرو . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 118]
لغوی تشریح:
«بَابُ الْحَيْضِ» حیض اس خون کو کہتے ہیں جو بالغ ہونے پر عورت کے رحم سے ہر مہینے خارج ہوتا ہے۔ یہ چند مخصوص ایام میں ہوتا ہے، اولاد سے ناامیدی کی زندگی تک یہ آتا رہتا ہے۔ اور یہ کسی بیماری یا ولادت کی وجہ سے نہیں ہوتا۔
«يُعْرَفُ» معرفت سے ماخوذ ہے اور صیغہ مجہول ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ خواتین اسے جانتی اور پہچانتی ہیں کہ کون سا خون ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ «يُعْرَفُ» باب افعال سے ماخوذ، صیغۂ معروف ہے۔ اس صورت میں یا پر ضمہ اور را مکسور ہو گی۔ معنی یہ ہوں گے کہ یہ بدبودار ہوتا ہے۔
«فَإِذَا كَانَ ذٰلِكِ» کاف کے نیچے کسرہ ہے، یعنی جب تیری حالت ایسی ہو۔
«فَأَمْسِكِي» امر کا صیغہ واحد مؤنث ہے اور اس کے معنی ہیں: نماز سے رک جا۔
«فَإِذَا كَانَ الْاخَرُ» جب خون کا وصف مذکورہ بالا نہ ہو۔
«مِرْكَنٍ» بہت بڑا پیالہ نما برتن (ٹب کی قسم کا۔) اس میں میم کے نیچے کسرہ اور کاف پر فتحہ ہے۔
«فَإِذا رَأَتْ صُفْرَةً فَوْقَ الْمَاءِ» جب وہ پانی پر زردی دیکھے تو اسے جان لینا چاہیے کہ یہ حیض کے جانے اور اس کے اختتام کی علامت ہے۔
«فَلْتَغْتَسِلْ لِلظُّهْرِ وَالْعَصْرِ غُسْلًا وَاحِدًا» تو اسے ظہر اور عصر کی نمازوں کے لیے ایک ہی غسل کر لینا چاہیے۔ اس کی عملی صورت اس طرح ہو گی کہ ظہر کے وقت کو مؤخر کرے اور عصر کے وقت کو ذرا مقدم کرے، اس طرح دونوں نمازیں اپنے اصلی وقت میں ادا بھی ہو جائیں گی اور جمع صوری بھی بن جائے گی۔ اور اسی طرح مغرب و عشاء کی نمازوں کے لیے کر لے۔
«وَ تَتَوَضَّأُ فِيمَا بَيْنَ ذٰلِكَ» ان دونوں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کے درمیان وضو کر لے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ نماز ظہر کے وضو سے نماز عصر ادا نہیں کر سکتی اور اسی طرح مغرب کی نماز کے وضو سے عشاء کی نماز نہیں پڑھ سکتی۔ یہ مستحاضہ عورت کے لیے ہے۔ اگر دو نمازیں مستحاضہ اکٹھی پڑھنا چاہے تو وہ ایک وضو کے ساتھ صرف ایک فرض نماز ہی ادا کرے گی۔

فوائد و مسائل:
➊ نوجوان عورت کو تین طرح کے خون سے واسطہ پڑتا ہے: ایک حیض (ایام ماہواری)، دوسرا خون نفاس جو بچے کی پیدائش سے لے کر چالیس ایام یا کم و بیش جاری رہتا ہے اور تیسرا خون استحاضہ۔
➋ استحاضہ کا خون اسے کہتے ہیں جو ایام ماہواری اور نفاس کے چالیس دنوں کے علاوہ جاری رہے۔
➌ حیض کی اقل مدت امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک ایک دن اور زیادہ سے زیادہ پندرہ دن تک ہے۔ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ تین روز سے لے کر دس روز تک ہو سکتا ہے۔ ملکی، موسمی اور عورتوں کی طبائع کے اعتبار سے دونوں ائمہ کی رائے اپنی اپنی جگہ درست ہو سکتی ہے۔ ویسے ہر عورت کو اپنی طبیعت اور عادت کی روشنی میں علم ہوتا ہے کہ اس کے ایام کی تعداد کتنی ہے۔ اس تعداد سے زیادہ خون جاری رہے تو اسے استحاضہ قرار دے کر اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔

راوی حدیث: (سیدہ اسماء بنت عميس رضي اللھ عنہا) آپ سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ تھیں۔ اپنے خاوند کے ساتھ ہجرت حبشہ کی، وہاں اللہ تعالیٰ نے انہیں اولاد سے نوازا، جن میں سے ایک لڑکے کا نام عبداللہ ہے۔ غزوہ موتہ میں سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد انہیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجیت میں لے لیا۔ اب ان کے بطن سے محمد نے جنم لیا جو محمد بن ابی بکر کے نام سے مشہور ہیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد انہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی زوجیت میں لے لیا اور ان کے بطن سے بچہ پیدا ہوا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان سے خوابوں کی تعبیر دریافت فرمایا کرتے تھے۔ ان کی وفات سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ہوئی۔ ذہن نشین رہے کہ «عُمَيْس» عربی قواعد کی رو سے «عَمِيْس» کی تصغیر ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 118