صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
9. بَابُ الصَّدَقَةِ قَبْلَ الرَّدِّ:
باب: صدقہ اس زمانے سے پہلے کہ اس کا لینے والا کوئی باقی نہ رہے گا۔
حدیث نمبر: 1411
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ خَالِدٍ , قَالَ: سَمِعْتُ حَارِثَةَ بْنَ وَهْبٍ , قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:"تَصَدَّقُوا، فَإِنَّهُ يَأْتِي عَلَيْكُمْ زَمَانٌ يَمْشِي الرَّجُلُ بِصَدَقَتِهِ فَلَا يَجِدُ مَنْ يَقْبَلُهَا، يَقُولُ الرَّجُلُ: لَوْ جِئْتَ بِهَا بِالْأَمْسِ لَقَبِلْتُهَا، فَأَمَّا الْيَوْمَ فَلَا حَاجَةَ لِي بِهَا".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید بن خالد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ صدقہ کرو ‘ ایک ایسا زمانہ بھی تم پر آنے والا ہے جب ایک شخص اپنے مال کا صدقہ لے کر نکلے گا اور کوئی اسے قبول کرنے والا نہیں پائے گا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1411 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1411
حدیث حاشیہ:
جس کے پاس صدقہ لے کر جائے گا وہ یہ جواب دے گا کہ اگر تم کل اسے لائے ہوتے تو میں قبول کرلیتا۔
آج تو مجھے اس کی ضرورت نہیں۔
قیامت کے قریب زمین کی ساری دولت باہر نکل آئے گی اور لوگ کم رہ جائیں گے۔
ایسی حالت میں کسی کو مال کی حاجت نہ ہوگی۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت کو غنیمت جانو جب تم میں محتاج لوگ موجود ہیں اور جتنی ہوسکے خیرات دو۔
اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ قیامت کے قریب ایسے جلد جلد انقلاب ہوں گے کہ آج آدمی محتاج ہے کل امیر ہوگا۔
آج اس دور میں ایسا ہی ہورہا ہے۔
ساری روئے زمین پر ایک طوفان برپا ہے مگر وہ زمانہ ابھی دور ہے کہ لوگ زکوٰۃ وصدقات لینے والے باقی نہ رہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1411
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1411
حدیث حاشیہ:
(1)
معلوم ہوا کہ قرب قیامت ایسے انقلابات آئیں گے کہ آج کا محتاج آدمی کل امیر کبیر بن جائے گا، اس لیے وقت کو غنیمت خیال کرتے ہوئے محتاج لوگوں کی موجودگی میں صدقہ و خیرات کرنا چاہیے۔
اس لیے ”ابھی حساب نہیں کیا، کل دیں گے۔
“ کی روش ترک کر دی جائے، کیونکہ اللہ کے ہاں صدقے کا بڑھنا اسی صورت میں ہو گا کہ اسے جلدی حقداروں تک پہنچا دیا جائے۔
مذکورہ روش بعض اوقات ایسے حالات میں پہنچنے کا ذریعہ بن سکتی ہے جن میں اسے کوئی بھی قبول کرنے والا نہ مل سکے۔
صدقے کا مقصود اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے کہ محتاج اور اسے لینے والا موجود ہو۔
(2)
کہا جا سکتا ہے کہ اگر محتاج مفقود ہو جائیں تو دینے والے کو نیت کا ثواب تو ضرور ملے گا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں اسے صرف حسن نیت ہی کا ثواب ملے گا جو محض اللہ کا فضل ہے، لیکن صدقہ اپنے محل تک پہنچا دینے سے حسن نیت اور صدقہ دونوں کا ثواب ملتا ہے، اس لیے صدقہ دینے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔
(فتح الباري: 356/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1411
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2556
´صدقہ پر ابھارنے کا بیان۔`
حارثہ بن وہب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ صدقہ کرو کیونکہ تم پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی اپنا صدقہ لے کر دینے چلے گا تو جس شخص کو وہ دینے جائے گا وہ شخص کہے گا: اگر تم کل لے کر آئے ہوتے تو میں لے لیتا، لیکن آج تو آج نہیں لوں گا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2556]
اردو حاشہ:
(1) ”ایسا زمانہ“ واقعتا رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد ایسا زمانہ آیا۔ قرب قیامت بھی ایسی صورت حال پیدا ہوجائے گی کہ دولت عام ہو جائے گی۔ صدقہ تو ایک طرف رہا، کوئی دولت (سونا وغیرہ) نہ اٹھائے گا۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الزكاة، حدیث: 1013)
(2) ”کل“ ضروری نہیں حقیقتاً گزشتہ کل ہی مراد ہو، بلکہ مراد اس سے پہلے کا زمانہ بھی ہو سکتا ہے، چاہے وہ سال دو سال یا اس سے کم و بیش ہی ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2556
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1424
1424. حضرت حارثہ بن وہب بن خزاعی ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا:”صدقہ وخیرات کیاکرو،عنقریب تم پر ایک وقت آنے والا ہے کہ آدمی اپنا صدقہ اٹھائے پھرے گا، دوسرا آدمی کہے گا:اگر تو گزشتہ کل میرے پاس لے آتا تو میں تجھ سے یہ صدقہ قبول کرلیتا، لیکن آج مجھے تو اس کی ضرورت نہیں ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1424]
حدیث حاشیہ:
ثابت ہوا کہ مرد مخلص اگر صدقہ زکوٰۃ علانیہ لے کر تقسیم کے لیے نکلے بشرطیکہ خلوص وللہیت مد نظر ہوتو یہ بھی مذموم نہیں ہے۔
یوں بہتر یہی ہے کہ جہاں تک ہوسکے ریا ونمود سے بچنے کے لیے پوشیدہ طورپر صدقہ زکوٰۃ خیرات دی جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1424
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1424
1424. حضرت حارثہ بن وہب بن خزاعی ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا:”صدقہ وخیرات کیاکرو،عنقریب تم پر ایک وقت آنے والا ہے کہ آدمی اپنا صدقہ اٹھائے پھرے گا، دوسرا آدمی کہے گا:اگر تو گزشتہ کل میرے پاس لے آتا تو میں تجھ سے یہ صدقہ قبول کرلیتا، لیکن آج مجھے تو اس کی ضرورت نہیں ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1424]
حدیث حاشیہ:
(1)
باب سے اس حدیث کی مطابقت یہ ہے کہ پہلی حدیث میں بھی حامل صدقہ کا ذکر تھا اور اس میں بھی حامل صدقہ کا ذکر ہے، کیونکہ جب وہ اپنے ہاتھ سے کرے گا تو زیادہ مخفی ہو گا، گویا اس حدیث میں مطلق صدقہ لا تعلم شماله ما تنفق يمينه کے معنی میں ہو گا۔
اس حدیث میں اگر پھر مطلق طور پر بیان ہوا ہے، تاہم پہلی حدیث کے پیش نظر اسے مقید کیا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 370/3) (2)
ہمارے نزدیک اس میں امام بخارى ؒ نے خود صدقہ دینے کی اہمیت کو بیان کیا ہے، کیونکہ آئندہ باب میں کسی دوسرے کو اپنی طرف سے صدقہ تقسیم کرنے پر مقرر کرنے کا بیان ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1424
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7120
7120. سیدنا حارثہ بن وہب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”صدقہ کرو کیونکہ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ایک شخص اپنا صدقہ لے کر پھرے گا اور کوئی اسے قبول کرنے والا نہیں ملے گا۔“ مسدد نے کہا: عبیداللہ بن عمر کا مادری بھائی ہے۔ یہ بات ابو عبداللہ (امام بخاری ؓ) نے بیان کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7120]
حدیث حاشیہ:
1۔
بڑی بڑی فتوحات کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں یہ صورت حال پیدا ہوگئی تھی، اسی طرح حضرت عمربن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں بھی یہی حالت تھی کہ مال ودولت کی اس قدر فراوانی تھی کہ کوئی صدقہ لینے والا نہیں ملتا تھا۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے وقت بھی یہی صورت ہوگی کہ صدقہ لینے والا کوئی شخص نہیں ملے گا۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3448)
2۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں مال ودولت کی اس قدر بہتات، عدل وانصاف اور مستحقین کو ان کے حقوق دینے کی وجہ سے تھی جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے عہد میں مال کی فراوانی لوگوں کی کمی او قرب قیامت کی وجہ سے ہو گی۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 104/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7120