سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ
کتاب: طہارت کے مسائل
108. باب فِي الرَّجُلِ يُصِيبُ مِنْهَا مَا دُونَ الْجِمَاعِ
باب: حائضہ عورت سے جماع کے سوا آدمی سب کچھ کر سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 268
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ إِحْدَانَا إِذَا كَانَتْ حَائِضًا، أَنْ تَتَّزِرَ، ثُمَّ يُضَاجِعُهَا زَوْجُهَا"، وَقَالَ مَرَّةً: يُبَاشِرُهَا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کسی کو جب وہ حائضہ ہوتی ازار (تہبند) باندھنے کا حکم دیتے، پھر اس کا شوہر ۱؎ اس کے ساتھ سوتا، ایک بار راوی نے «يضاجعها» کے بجائے «يباشرها» کے الفاظ نقل کئے ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحیض 5 (299)، صحیح مسلم/الحیض 1 (293)، سنن الترمذی/الطھارة 99 (132)، سنن النسائی/الطھارة 180 (287)، والحیض 12 (373)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 121 (636)، (تحفة الأشراف: 15982) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «إحدانا» کے لفظ سے مراد یا تو ازواج مطہرات ہیں، ایسی صورت میں «زوجها» سے مراد خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے، یا «إحدانا» سے عام مسلمان عورتیں مراد ہیں، تو اس صورت میں «زوجها» سے اس مسلمان عورت کا شوہر مراد ہو گا، مؤلف کے سوا اور کسی کے یہاں یہ لفظ نہیں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (300، 2030) صحيح مسلم (293)