سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ
کتاب: طہارت کے مسائل
99. باب الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ
باب: غسل جنابت کے طریقے کا بیان۔
حدیث نمبر: 249
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ تَرَكَ مَوْضِعَ شَعْرَةٍ مِنْ جَنَابَةٍ لَمْ يَغْسِلْهَا، فُعِلَ بِهِ كَذَا وَكَذَا مِنَ النَّارِ"، قَالَ عَلِيٌّ: فَمِنْ، ثَمَّ عَادَيْتُ رَأْسِي ثَلَاثًا، وَكَانَ يَجُزُّ شَعْرَهُ.
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے غسل جنابت میں ایک بال برابر جگہ دھوئے بغیر چھوڑ دی، تو اسے آگ کا ایسا ایسا عذاب ہو گا“۔ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اسی وجہ سے میں نے اپنے سر (کے بالوں) سے دشمنی کر رکھی ہے، اس جملے کو انہوں نے تین مرتبہ کہا، وہ اپنے بال کاٹ ڈالتے تھے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطھارة 106 (599) مسند احمد (1/101، سنن الدارمی/الطھارة 69(778)، (تحفة الأشراف: 10090) (ضعیف)» (عطاء بن سائب اخیر عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے، اور حماد بن سلمہ نے ان سے دونوں حالتوں میں روایت کی ہے، اب پتہ نہیں یہ روایت اختلاط سے پہلے کی ہے یا بعد کی؟)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
مشكوة المصابيح (444)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 249 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 249
فوائد و مسائل:
➊ مذکورہ روایات کے مجموعے سے واضح ہے کہ انسان غسل جنابت میں اہتمام و احتیاط سے اپنے پورے جسم کے تمام حصوں تک پانی پہنچائے، کسی بال برابر جگہ کا خشک رہ جانا بھی باعث عذاب ہے البتہ عورتوں کو اپنی مینڈھیاں نہ کھولنے کی شرعاً رعایت ہے، جیسے کہ آگے آ رہا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 249
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث599
´ہر بال کے نیچے جنابت ہے۔`
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے غسل جنابت کے وقت اپنے جسم سے ایک بال کی مقدار بھی چھوڑ دیا اور اسے نہ دھویا، تو اس کے ساتھ آگ سے ایسا اور ایسا کیا جائے گا۔“ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے میں نے اپنے بالوں سے دشمنی کر لی، وہ اپنے بال خوب کاٹ ڈالتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 599]
اردو حاشہ:
سر کے بال رکھنا اگرچہ افضل ہے بشرطیکہ انگریزی طریقے سے نہ ہوں بلکہ پٹے بال ہوں، تاہم بال منڈا دینے بھی جائز ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 599