Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
3. بَابُ إِثْمِ مَانِعِ الزَّكَاةِ:
باب: زکوٰۃ نہ ادا کرنے والے کا گناہ۔
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ {34} يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ {35} سورة التوبة آية 34-35.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ براۃ میں) فرمایا کہ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے آخر آیت «فذوقوا ما كنتم تكنزون‏» تک۔ یعنی اپنے مال کو گاڑنے کا مزہ چکھو۔
حدیث نمبر: 1402
حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ هُرْمُزَ الْأَعْرَجَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَأْتِي الْإِبِلُ عَلَى صَاحِبِهَا عَلَى خَيْرِ مَا كَانَتْ، إِذَا هُوَ لَمْ يُعْطِ فِيهَا حَقَّهَا تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَأْتِي الْغَنَمُ عَلَى صَاحِبِهَا عَلَى خَيْرِ مَا كَانَتْ، إِذَا لَمْ يُعْطِ فِيهَا حَقَّهَا تَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا، وَقَالَ: وَمِنْ حَقِّهَا أَنْ تُحْلَبَ عَلَى الْمَاءِ، قَالَ: وَلَا يَأْتِي أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِشَاةٍ يَحْمِلُهَا عَلَى رَقَبَتِهِ لَهَا يُعَارٌ، فَيَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ بَلَّغْتُ وَلَا يَأْتِي بِبَعِيرٍ يَحْمِلُهُ عَلَى رَقَبَتِهِ لَهُ رُغَاءٌ، فَيَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا قَدْ بَلَّغْتُ".
ہم سے ابولیمان حکم بن نافع نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا کہ عبدالرحمٰن بن ہرمز اعرج نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹ (قیامت کے دن) اپنے مالکوں کے پاس جنہوں نے ان کا حق (زکوٰۃ) نہ ادا کیا کہ اس سے زیادہ موٹے تازے ہو کر آئیں گے (جیسے دنیا میں تھے) اور انہیں اپنے کھروں سے روندیں گے۔ بکریاں بھی اپنے ان مالکوں کے پاس جنہوں نے ان کے حق نہیں دئیے تھے پہلے سے زیادہ موٹی تازی ہو کر آئیں گی اور انہیں اپنے کھروں سے روندیں گی اور اپنے سینگوں سے ماریں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا حق یہ بھی ہے کہ اسے پانی ہی پر (یعنی جہاں وہ چراگاہ میں چر رہی ہوں) دوہا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص قیامت کے دن اس طرح نہ آئے کہ وہ اپنی گردن پر ایک ایسی بکری اٹھائے ہوئے ہو جو چلا رہی ہو اور وہ (شخص) مجھ سے کہے کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے عذاب سے بچائیے میں اسے یہ جواب دوں گا کہ تیرے لیے میں کچھ نہیں کر سکتا (میرا کام پہنچانا تھا) سو میں نے پہنچا دیا۔ اسی طرح کوئی شخص اپنی گردن پر اونٹ لیے ہوئے قیامت کے دن نہ آئے کہ اونٹ چلا رہا ہو اور وہ خود مجھ سے فریاد کرے ‘ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے بچائیے اور میں یہ جواب دے دوں کہ تیرے لیے میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میں نے تجھ کو (اللہ کا حکم زکوٰۃ) پہنچا دیا تھا۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1402 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1402  
حدیث حاشیہ:
مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ منہ سے کاٹیں گے۔
پچاس ہزار برس کا جو دن ہوگا اس دن یہی کرتے رہیں گے۔
یہاں تک کہ اللہ بندوں کا فیصلہ کرے اور وہ اپنا ٹھکانا دیکھ لیں۔
(بہشت میں یا دوزخ میں)
اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو تنبیہ فرمائی ہے کہ جو لوگ اپنے اموال اونٹ یا بکری وغیرہ میں سے مقررہ نصاب کے تحت زکوٰۃ نہیں ادا کریں گے، قیامت کے دن ان کا یہ حال ہوگا جو یہاں مذکور ہوا۔
فی الواقع وہ جانور ان حالات میں آئیں گے اور اس شخص کی گردن پر زبردستی سوار ہوجائیں گے۔
وہ حضور ﷺ کو مدد کے لیے پکارے گا مگر آپ کا یہ جواب ہوگا جو مذکور ہوا۔
بکری کو پانی پر دوہنے سے غرض یہ کہ عرب میں پانی پر اکثر غریب محتاج لوگ جمع رہتے ہیں، وہاں وہ دودھ نکال کر مساکین فقراء کو پلایا جائے۔
بعضوں نے کہا یہ حکم زکوٰۃ کی فرضیت سے پہلے تھا‘ جب زکوٰۃ فرض ہوگئی تو اب کوئی صدقہ یا حق واجب نہیں رہا۔
ایک حدیث میں ہے کہ زکوٰۃ کے سوا مال میں دوسرا حق بھی ہے۔
اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ اونٹوں کا بھی یہی حق ہے کہ ان کا دودھ پانی کے کنارے پر دوہا جائے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
وإنما خص الحلب بموضع المآء لیکون أسهل علی المحتاج من قصد المنازل وأرفق بالماشیة۔
یعنی پانی پر دودھ دوہنے کے خصوص کا ذکر اس لیے فرمایا کہ وہاں محتاج اور مسافر لوگ آرام کے لیے قیام پذیر رہتے ہیں۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قیامت کے دن گناہ مثالی جسم اختیار کرلیں گے۔
وہ جسمانی شکلوں میں سامنے آئیں گے۔
اسی طرح نیکیاں بھی مثالی شکلیں اختیار کرکے سامنے لائی جائیں گی۔
ہر دو قسم کی تفصیلات بہت سی احادیث میں موجود ہیں۔
آئندہ حدیث میں بھی ایک ایسا ہی ذکر موجود ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1402   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1402  
حدیث حاشیہ:
(1)
آیت کریمہ میں لفظ کنز سے مراد وہ مال ہے جس کی زکاۃ ادا نہ کی جائے۔
جیسا کہ آئندہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
اکثر صحابہ کرام ؓ اور تابعین عظام کا یہی موقف ہے کہ یہ آیت کریمہ اہل کتاب مشرکین اور اہل ایمان سب کو شامل ہے۔
امام بخاری ؒ نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے۔
(فتح الباري: 339/3) (2)
صحیح مسلم میں ہے کہ اونٹوں کے مالک کو ایک کھلے اور چٹیل میدان میں گرا دیا جائے گا۔
اونٹ پہلے سے زیادہ موٹے تازے اور کثیر تعداد میں ہوں گے۔
ان میں سے کوئی بچہ بھی غائب نہیں ہو گا، چنانچہ وہ اپنے مالک کو اپنے پاؤں سے روندیں گے اور اپنے دانتوں سے کاٹیں گے۔
جب اس پر سے پہلا دستہ گزر جائے گا، پھر اس پر سے دوسرا دستہ گزرے گا (یہ تسلسل)
ایک روز تک قائم رہے گا جس کی مدت پچاس ہزار سال کے برابر ہے یہاں تک کہ انسانوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا، ہر شخص اپنا ٹھکانا دیکھ لے گا کہ جنت میں ہے یا دوزخ میں ہے۔
(صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2290(987) (3)
واضح رہے کہ مذکورہ عذاب ہر اس شخص کو دیا جائے گا جو اپنے حیوانات کی زکاۃ نہیں دے گا، خواہ انکار کرتے ہوئے زکاۃ نہ دے یا بخل کے طور پر اسے ادا نہ کرے۔
(فتح الباري: 339/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1402   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1658  
´مال کے حقوق کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس مال ہو وہ اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے روز اللہ اسے اس طرح کر دے گا کہ اس کا مال جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا پھر اس سے اس کی پیشانی، پسلی اور پیٹھ کو داغا جائے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا ایک ایسے دن میں فیصلہ فرما دے گا جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، اس کے بعد وہ اپنی راہ دیکھے گا وہ راہ یا تو جنت کی طرف جا رہی ہو گی یا جہنم کی طرف۔ (اسی طرح) جو بکریوں والا ہو اور ان کا حق (زکاۃ) ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے روز وہ بکریاں اس سے زیادہ موٹی ہو کر آئیں گی، جتنی وہ تھیں، پھر اسے ایک مسطح چٹیل میدان میں ڈال دیا جائے گا، وہ اسے اپنی سینگوں سے ماریں گی اور کھروں سے کچلیں گی، ان میں کوئی بکری ٹیڑھے سینگ کی نہ ہو گی اور نہ ایسی ہو گی جسے سینگ ہی نہ ہو، جب ان کی آخری بکری مار کر گزر چکے گی تو پھر پہلی بکری (مارنے کے لیے) لوٹائی جائے گی (یعنی باربار یہ عمل ہوتا رہے گا)، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے اس دن میں جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، اس کے بعد وہ اپنی راہ دیکھ لے گا یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔ (اسی طرح) جو بھی اونٹ والا ہے اگر وہ ان کا حق (زکاۃ) ادا نہیں کرتا تو یہ اونٹ قیامت کے دن پہلے سے زیادہ طاقتور اور موٹے ہو کر آئیں گے اور اس شخص کو ایک مسطح چٹیل میدان میں ڈال دیا جائے گا، پھر وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، جب آخری اونٹ بھی روند چکے گا تو پہلے اونٹ کو (روندنے کے لیے) پھر لوٹایا جائے گا، (یہ عمل چلتا رہے گا) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا اس دن میں جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، پھر وہ اپنی راہ دیکھ لے گا یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1658]
1658. اردو حاشیہ: سونے چاندی کی اگر زکواۃ ادا نہ کی جائے۔تو وہ باعث وبال کنز بن جاتا ہے۔ جس کازکر سورۃ توبہ میں ہے۔ <قرآن> (وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣٤﴾ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ)(التوبہ۔3
➍ 35)
اور جو لوگ سونا اور چاندی جوڑ جوڑ کررکھتے ہیں۔اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ان کو دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیں۔جس دن کے اسے جہنم کی آگ سے تپایاجائے گا۔پھر ان سے ان کی پیشانیاں ان کے پہلو اور ان کی کمریں داغی جایئں گی۔ (اور کہا جائے گا) یہی ہے وہ جو تم اپنے لئے سینت سینت کر رکھتے تھے۔اب اسے جوڑنے کا مزہ چکھو
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1658   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2444  
´زکاۃ نہ دینے والوں پر وارد وعید کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جس شخص کے پاس اونٹ ہوں اور وہ ان کی تنگی اور خوشحالی میں ان کا حق ادا نہ کرے (لوگوں نے) عرض کیا: اللہ کے رسول! «نجدتها ورسلها» سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: تنگی اور آسانی ۱؎ تو وہ اونٹ جیسے کچھ تھے قیامت کے دن اس سے زیادہ چست، فربہ اور موٹے تازے ہو کر آئیں گے۔ اور یہ ایک کشادہ اور ہموار چٹیل میدان میں اوندھا لٹا دیا جائے گا، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2444]
اردو حاشہ:
(1) ایسے دن میں۔ ہمارے لحاظ سے تو دن کی مدت کا تعین سورج کے طلوع اور غروب سے ہوتا ہے مگر ظاہر ہے کہ روز محشر کا تعین سورج سے نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ جس طریقے سے چاہے گا دن کا تعین ہوگا۔ ممکن ہے مطلق مدت کو دن کہہ دیا گیا ہو۔
(2) پہلی کو واپس لایا جائے گا۔ گویا جانور اس پر سے دائرے میں گزریں گے۔ أعاذنا اللہ من ذلك
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2444   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2450  
´اونٹ کی زکاۃ نہ دینے والے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹ اپنے مالک کے پاس جب اس نے ان میں ان کا حق نہ دیا ہو گا اس سے بہتر حالت میں آئیں گے جس میں وہ (دنیا میں) تھے، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، اور بکریاں اپنے مالک کے پاس جب اس نے ان میں ان کا حق نہ دیا ہو گا، اس سے بہتر حالت میں آئیں گی جس حالت میں وہ (دنیا میں) تھیں۔ وہ اسے اپنی کھروں سے روندیں گی، اور اپنی سینگوں سے ماریں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2450]
اردو حاشہ:
(1) یہ حق بھی ہے۔ اور یہ حق زکاۃ کے علاوہ ہے۔ یہ اگرچہ واجب تو نہیں مگر اس کی ادائیگی بھی اہم ہے۔ قیامت کے دن عذاب تو زکاۃ نہ دینے ہی پر ہوگا، مگر اس قسم کے حقوق کو ادا نہ کرنا بھی مروت اور انسانیت کے خلاف ہے جو دنیا میں قابل مذمت ہے، خصوصاً اگر کوئی فقیر اس قدر بھوکا ہو کہ یہ دودھ اس کی مجبوری ہو تو پھر اس کی جان بچانا فرض ہے۔ ایسے موقع پر یہ حق بھی فرض بن جائے گا۔
(2) خزانہ جس کی زکاۃ ادا نہ کی گئی ہو۔ اگر زکاۃ ادا کر دی جائے تو وہ خزانہ رکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ دوسرے ضروری حقوق بھی پورے کیے جائیں، مثلاً: والدین سے حسن سلوک، مہمان کی خدمت، فقیر کی حاجت برآری وغیرہ۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا موقف ہے کہ روز مرہ کی ضروریات سے زائد جمع شدہ بھی کنز ہی ہے جس کے بارے میں مذکورہ بالا وعید نازل ہوئی ہے۔ ان کا اس سلسلے میں تشدد، نصوص اور صحابہ کے اجماعی طرز عمل سے مطابقت نہیں رکھتا، البتہ اسے ورع اور اولیٰ ہونے پر محمول کیا جائے گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2450   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2484  
´اپنے مال کی زکاۃ نہ دینے والے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو اللہ تعالیٰ مال دے اور وہ اس مال کی زکاۃ ادا نہ کرے، تو قیامت کے دن اس کا مال گنجا سانپ بن جائے گا، اس کی آنکھ کے اوپر دو سیاہ نقطے ہوں گے، وہ قیامت کے دن اس کے دونوں کلّے پکڑے گا، اور اس سے کہے گا: میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔‏‏‏‏ پھر آپ نے آیت کریمہ کی تلاوت کی: «ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم اللہ من فضله» اللہ تعالیٰ نے جنہیں مال دیا ہے وہ بخ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2484]
اردو حاشہ:
اس قسم کا سانپ بہت زہریلا ہوتا ہے اور اس کا ڈسا ہوا بچتا نہیں۔ ڈراؤنا بھی بہت ہوتا ہے۔ مزید دیکھیے، حدیث: 2433، 2450۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2484   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1786  
´زکاۃ نہ دینے پر وارد وعید کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جن اونٹوں کی زکاۃ نہیں دی گئی وہ آئیں گے اور اپنے مالک کو اپنے پاؤں سے روندیں گے، اور گائیں اور بکریاں آئیں گی وہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندیں گی اور اسے سینگوں سے ماریں گی، اور اس کا خزانہ ایک گنجا سانپ بن کر آئے گا، اور اپنے مالک سے قیامت کے دن ملے گا، اس کا مالک اس سے دور بھاگے گا، پھر وہ اس کے سامنے آئے گا تو وہ بھاگے گا، اور کہے گا: آخر تو میرے پیچھے کیوں پڑا ہے؟ وہ کہے گا: میں تیرا خزانہ ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، آخر مالک اپنے ہاتھ کے ذریعہ اس سے اپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1786]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خزانے سے مراد سونا چاندی وغیرہ ہے جس کی زکاۃ ادا نہیں کی گئی۔

(2)
انسان دنیا میں روپے پیسےکا لالچ کرتا ہے۔
اس کو حاصل کرنے میں حلال و حرام کی پروا نہیں کرتا اور لالچ کی وجہ سے زکاۃ نہیں دیتا۔
اس قسم کا مال قیامت کو عذاب کا باعث ہوگا کہ انسان اس سے جان چھڑانا چاہے گا لیکن وہ نہیں چھوڑے گا۔

(3)
انسان ہاتھ سے مال لیتا ہے لیکن اسی ہاتھ سے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرنا چاہتا، اس لیے ہاتھ کو عذاب ہوگا کہ اس کا خزانہ سانپ بن کر اس کا ہاتھ کاٹ کھائے گا۔
اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے۔
آمین
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1786   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1095  
1095- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: خرچ کرنے والے اور بخیل شخص کی مثال دو ایسے آدمیوں کی طرح ہے جنہوں نے لوہے کی بنی ہوئی دو زرہیں پہنی ہوئی ہوں۔ (راوی کو شک ہے شائد یہ الفاظ ہیں) دو جبے پہنے ہوئے ہوں۔ جوان کے سینے سے لے کر گردن تک ہوں۔ جب خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے، تو اس کی گرہ کشادہ ہوجاتی ہے (یانیچے ہوجاتی ہے)۔ یہاں تک کہ اس کے پاؤں کے پوروں کو چھپا لیتی ہے اور اس کے قدموں کے نشان کو ڈھانپ لیتی ہے۔ (یعنی زمین پر گرجاتی ہے) اور جب کنجوس شخص خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے، تواس کی زرہ اس کے لیے تنگ ہوجاتی ہے اس کا ہر حلقہ ج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1095]
فائدہ:
اس حدیث میں سخی اور کنجوس کی مثال دے کر سمجھایا گیا ہے کہ جب بھی خرچ کرتا ہے تو اس کا سینہ کھل جاتا ہے، اور ایمان سے اس کا دل تازہ ہو جاتا ہے لیکن کنجوس جس وقت خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا دل تنگ ہو جاتا ہے، وہ وسوسوں کا شکار ہو جاتا ہے، اور اس کے دل و دماغ پر سناٹا چھا جاتا ہے کیونکہ اس کی زندگی کا مقصد ہی پیسہ جمع کرنا ہوتا ہے، اس کو آخرت کی فکر نہیں ہوتی، اس کے دل و دماغ میں قرآن و حدیث سے کہیں زیادہ مال دولت سے محبت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ مال خرچ نہیں کرتا، کنجوس کے مقابلے میں حقیقی مومن جب مال خرچ کرتا ہے تو اس کو خوشی محسوس ہوتی ہے، دل تر و تازہ ہو جاتا ہے، اور وہ اپنے لیے سعادت سمجھتا ہے کہ اے اللہ! تو نے میرے پیسے اچھی جگہ پر لگائے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے انسان سے خوش ہو جاتے ہیں اور رہا کنجوس تو اس کے پیسے سے نہ وہ خود فائدہ اٹھاتا ہے اور نہ اس کی اولاد، اور نہ دین کے کام آتے ہیں، بلکہ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے، اور اس کی جمع شدہ پونچی پانی کی طرح بہہ جاتی ہے، اور پھر وہ یہ سب کچھ گوارا کر لیتا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1094   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2290  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی سونے اور چاندی کا مالک ان میں سے ان کا حق (زکاۃ) ادا نہیں کرتا، تو جب قیامت کا دن ہوگا، اس کے لئے آگ سے پرت (سلیٹیں، تختیاں اورپترے) بنائے جائیں گے انھیں جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور پھران سے اس کے پہلو، اس کی پیشانی اور اس کی پشت کو داغا جائےگا، جب وہ بھی وہ (پرت، تختیاں) ٹھنڈی ہو جائیں گی، اس کے لئے انہیں دوبارہ آگ میں تپایا جائے گا۔ اس دن... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2290]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
الصَفَائِحُ:
صحیفة کی جمع ہے۔
پلیٹ،
تختی،
یعنی اس کے سونے،
چاندی کو سلیٹ یا تختی کی طرح چوڑا کیا جائے گا۔
(2)
مِنْ نَارٍ:
وہ آگ کی طرح گرم ہوں گی۔
(3)
بَرَدَتْ:
ان تختیوں کی مدت و تپش میں کمی ہو گی (تو انہی پھر گرم کیا جائے گا) (4)
حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ:
لوگوں کے حساب،
کتاب کے اختتام تک،
مانعین زکاۃ کو مسلسل اور پیہم عذاب ہوتا رہے گا۔
(5)
يَرَى سَبِيلَهُ:
يَرَى کو معروف اور مجہول دونوں طریقہ سے پڑھا گیا ہے،
کہ وہ جنت یا دوزخ کا راستہ اپنے عملوں کے نتیجہ کے طور پر دیکھ لے گا،
یا اسے عملوں کی پاداش میں اس کے اختیار و ارادہ کے بغیر جنت یا دوزخ کا راستہ دکھا دیا جائے گا۔
(6)
حَلَبُهَا:
حا اور لام دونوں پر زبر ہے،
دودھ دوہنا۔
(7)
يَوْمَ وَرودِهَا:
جب تیسرے یا چوتھے دن انہیں پانی پلانے کے لیے پانی کے گھاٹ پر لے جایا جاتا ہے۔
(8)
بُطِحَ:
انہیں زمین پر بچھایا یا لٹایا جائے گا (اوندھے منہ یا پشت کے بل) (9)
قَاعٍ:
کھلا میدان،
وسیع زمین۔
(10)
قَرْقَرٍ:
ہموار اور وسیع میدان یا چٹیل زمین۔
(11)
أَوْفَرَ مَا كَانَتْ:
انتہائی تعداد میں اور موٹے،
فربہ حالت میں۔
(12)
فَصِيل:
ٹوڈا،
اونٹ کا بچہ۔
(13)
كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولَاهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا:
بقول قاضی عیاض،
امام نوویٰ،
امام قرطبی،
ان الفاظ میں تقدیم و تاخیر ہو گئی،
صحیح ترتیب وہی ہے جو اگلی حدیث میں آ رہی ہے کہ كلما مضي عليه اخراها رد عليه اولاهاء کہ آخری اونٹ گزرنے کے وقت پہلا اونٹ بھی گزرنے کے لیے واپس آ چکا ہو گا،
درمیان میں وقفہ نہیں ہو گا،
مسلسل چکر کی شکل برقرار رہے گی،
یا یہ معنی کرنا پڑے گا کہ جب پہلا اونٹ آخر میں پہنچے گا تو آخری اونٹ شروع سے گزرنا چاہے گا۔
پھر دوسرے چکر میں،
جب پہلا آغاز کرے گا تو آخری اونٹ انتہا پر پہنچ کر آغاز کرنے کے لیے آ چکا ہو گا۔
(14)
عَقْصَاءُ:
مڑے ہوئے سینگوں والی۔
(15)
جَلْحَاءُ:
بے سینگوں کے،
عضبا،
ٹوٹے سینگوں والی۔
(16)
اخفاف:
اونٹ کا پوڈ،
کھر۔
(17)
أَظْلَافِہم:
ظلف گائے،
بکری اور ہرن وغیرہ کے پاؤں (18)
سُم:
انسان کے لیے قدم،
گھوڑے،
خچر کے لیے حافر کا لفظ استعمال ہوتا ہے،
نواءً:
دشمنی اور عداوت۔
(19)
مَرْجِ:
چراگاہ۔
(20)
رَّوْضَةِ:
باغ۔
(21)
طول:
رسی جس کے ساتھ گھوڑے کے پاؤں کو باندھا جاتا ہے،
تاکہ گھوڑا کھونٹی کے گرد چلتا پھرتا رہے اور سبزہ چر لے۔
(22)
اسْتَنَّتْ:
دوڑا،
بھاگا،
چکر لگایا۔
شَرَفَ اونچی جگہ،
ٹیلہ،
مراد شوط (چکر)
ہے۔
فوائد ومسائل:

حقوق کی دو قسمیں ہیں: 1۔
حقوق لازمہ،
جن کی ادائیگی کے بغیر چارہ نہیں ہے۔
اور وہ مستقل اور دائمی ہیں جیسا کہ فرض زکاۃ اور فطرانہ ہے۔

حقوق منتشرہ۔
جو وقتی اور عارضی ہوتے ہیں اور حوادث وواقعات سے تعلق رکھتےہیں جن کو قرآن مجید میں سورۃ بقرہ آیت البر نمبر 177 میں:
﴿وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ﴾ کے تحت میں بیان فرمایا ہے اور اس کے بعد ہے۔
﴿وَآتَى الزَّكَاةَ﴾ جب کوئی انسان لاچار اور مضطر ہو اور بھوکا مر رہا ہو تو یہ فرض ولازم ہوں گے اور عام حالات میں اخلاق حسنہ فضائل حمیدہ یا مکارم اخلاق شمار ہوں گے مثلاً کسی کو جفتی کےلیے نردینا،
پانی پلانے کے لیے ڈول دینا،
کسی کو دودھ پینے کے لیے دودھ دینے والا جانور دینا،
اونٹوں کو پانی کے گھاٹ پر دوھنا،
یا کسی فقیر مسکین کو مفت دودھ دینا،
کسی محتاج کوعاریتاً سواری دینا۔

مانعین زکاۃ کے لیے پچاس ہزار سال کا حساب وکتاب کا دن،
عذاب کا دن ہوگا،
اگر اتناعذاب اس کے گناہوں اور جرائم کے لیے کافی ہو گیا۔
تو وہ جنت کا راستہ لے گااور اگر یہ سزا اور عذاب دوسرے گناہوں کے سبب ناکافی ہوا تو پھر مزید عذاب اور سزا کے لیے دوزخ کی راہ لے گا،
اورتکمیل سزا یا شفاعت کے نتیجہ میں جنت میں آجائے گا۔

عملوں کے ثواب وعقاب میں نیت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
ایک انسان گھوڑا اسی لیے رکھتا ہے کہ وہ فخر وغرور یا گھمنڈ وعجب کا اظہار کرسکے یا اپنے مال ودولت کی نمائش کرے یا مسلمانوں کے خلاف اس سے کام لے سکے تو اس کے لیے یہ گھوڑا گناہ اور سزا کا باعث ہو گا۔
ایک انسان گھوڑا اسی لیے پالتا ہے کہ وہ اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھ سکے۔
دوسروں سے مانگنے کی ذلت سے بچ سکے۔
ضرورتمندوں کی بوقت ضرورت عارضی طور پر سواری کے لیے دے سکے،
تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہو گا،
اور سزا وعذاب سے ستر کا باعث بھی بنے گا۔
اور اگر انسان اہل اسلام کے تعاون کے لیے اور جہاد میں حصہ لینے یا مجاہدین کو وقف کرنے کے لیے گھوڑا پالتا تھا۔
تو اس کی ہر چیز،
کھانا،
پینا،
بھاگنا،
دوڑنا،
نیکیوں کے حصول کا باعث بنے گا۔

جن کاموں کے لیے کسی مخصوص اجرثواب کی صراحت موجود نہیں ہے وہ تمام امور اور اعمال اس ضابطہ اور اصول کے تحت آتے ہیں۔
﴿فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ﴾
جن اموال اور حیوانات کی محبت میں گرفتار ہوکر زکاۃ دینے سے گریز کیا گیا ہو گا قیامت کے دن وہی مال اورحیوانات اپنی کامل ترین شکل وحالت میں عذاب اورتکلیف کا باعث بنیں گے اور وہ ان سے جان نہیں چھڑا سکے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2290   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2292  
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی خزانے کا مالک اس کی زکاۃ ادا نہیں کرے گا اس کے خزانہ کو جہنم کی آگ میں میں تپایا جائے گا اور اس کی تختیاں بنائی جائیں گی اور ان سے اس کے دونوں پہلوؤں اور پیشانی کو داغا جائےگا حتیٰ کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا، اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے، پھر وہ اپنا راستہ جنت یا جہنم کی طرف اس کا راستہ دیکھ لے گا۔... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2292]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
نوَاص:
نَاصِيَةکی جمع ہے پیشانی۔
(2)
الخير:
مال،
نیکی و بہتری،
مراد اجر و غنیمت ہے۔
(3)
تكرماً و تجملاً:
دوسروں سے اپنی عزت و شرف کو بچانے کے لیے اور اپنے حسنِ خصال اور خوبی کے اظہار کے لیے کہ سواری کسی سے مانگنی نہ پڑے اور ضرورت کے وقت کسی کو دے سکے۔
(4)
اشراً:
اترانا۔
(5)
بطراً:
حق سے سرکشی اور طغیان اختیار کرنا۔
(6)
البذخ:
فخر و گھمنڈ اور بڑائی کا اظہار کرنا۔
فوائد ومسائل:
گھوڑا ایک اعلیٰ اور بہترین سواری ہے اس سے جائز وناجائز ہر قسم کے کام لیے جا سکتے ہیں اور اس کا سب سے بہتر استعمال یہ کہ اسے جہاد میں استعمال کیا جائے اور قیامت تک اس کا یہ استعمال برقرار رہے گا۔
گویا قیامت تک جہاد میں استعمال ہو کر مالک کے لیے اجر وغنیمت کا باعث بنتا رہے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2292   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1403  
1403. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے،انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ جسے مال و دولت سے نواز ے اور وہ اس کی زکاۃ ادا نہ کرے تو اس کا یہ مال قیامت کے دن ایک گنجے سانپ کی شکل میں لایا جائے گا جس کے دونوں جبڑوں سے زہریلی جھاگ بہہ رہی ہو گی اور وہ طوق کی طرح اس کی گردن میں پڑا ہوگا اور اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا:میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی:(جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نوازا اور) پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس خیال میں نہ رہیں (کہ یہ بخیلی ان کے حق میں اچھی ہے،نہیں بلکہ یہ ان کے حق میں انتہائی بری ہے۔ جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کر رہے ہیں وہی قیامت کے روز ان کے گلے کا طوق بن جائے گا۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1403]
حدیث حاشیہ:
نسائی میں یہ الفاظ اور ہیں۔
ویکون کنز أحدکم یوم القیامة شجاعا أقرع یفرمنه صاحبه ویطلبه أنا کنزك فلا یزال حتی یلقمه أصبع۔
یعنی وہ گنجا سانپ اس کی طرف لپکے گا اور وہ شخص اس سے بھاگے گا۔
وہ سانپ کہے گا کہ میں تیرا خزانہ ہوں۔
پس وہ اس کی انگلیوں کا لقمہ بنالے گا۔
یہ آیت کریمہ ان مالداروں کے حق میں نازل ہوئی جو صاحب نصاب ہونے کے باوجود زکوٰۃ ادا نہ کرتے، بلکہ دولت کو زمین میں بطور خزانہ گاڑتے تھے۔
آج بھی اس کا حکم یہی ہے جو مالدار مسلمان زکوٰۃ ہضم کرجائیں ان کا یہی حشر ہوگا۔
آج سونا چاندی کی جگہ کرنسی نے لے لی ہے جو چاندی اور سونے ہی کے حکم میں داخل ہے۔
اب یہ کہا جائے گا کہ جو لوگ نوٹوں کی گڈیاں بنابناکر رکھتے اور زکوٰۃ نہیں ادا کرتے، ان کے وہی نوٹ ان کے لیے دوزخ کا سانپ بن کر ان کے گلوں کا ہار بنائے جائیں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1403   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4565  
4565. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو اللہ تعالٰی مال عطا فرمائے، پھر وہ اس میں سے زکاۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس کا مال ایک گنجے سانپ کی شکل میں ہو گا۔ اس کی آنکھوں پر دو کالے نقطے ہوں گے۔ قیامت کے دن وہ سانپ اس کے گلے کا طوق بن جائے گا اور اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا: میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔ پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: جنہیں اللہ تعالٰی نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں کنجوسی کو اپنے لیے بہتر خیال نہ کریں۔۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4565]
حدیث حاشیہ:
آیت میں ان مالداروں کا بیان ہے جو زکٰوۃ نہیں ادا کرتے بلکہ سونے چاندی کو بطور خزانہ جمع کر کے رکھتے ہیں۔
ان کا حال قیامت کے دن یہ ہوگا کہ ان کا وہ خزانہ زہریلا سانپ بن کر ان کی گردنوں کا ہار بنے گا اور ان کے جبڑوں کو چیر ے گا۔
یہ وہ دولت کے پجاری لوگ ہوںگے جنہوں نے دنیا میں خزانہ گاڑ گاڑ کر رکھا اور اس کی زکٰوۃ تک ادا نہیں کی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4565   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1403  
1403. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے،انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ جسے مال و دولت سے نواز ے اور وہ اس کی زکاۃ ادا نہ کرے تو اس کا یہ مال قیامت کے دن ایک گنجے سانپ کی شکل میں لایا جائے گا جس کے دونوں جبڑوں سے زہریلی جھاگ بہہ رہی ہو گی اور وہ طوق کی طرح اس کی گردن میں پڑا ہوگا اور اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا:میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی:(جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نوازا اور) پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس خیال میں نہ رہیں (کہ یہ بخیلی ان کے حق میں اچھی ہے،نہیں بلکہ یہ ان کے حق میں انتہائی بری ہے۔ جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کر رہے ہیں وہی قیامت کے روز ان کے گلے کا طوق بن جائے گا۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1403]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ کا اس وعید کو بیان کرنے کے بعد مذکورہ آیت کو تلاوت کرنا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ یہ آیات منکرین زکاۃ کے متعلق نازل ہوئی ہیں، (فتح الباري: 342/3)
یعنی یہ آیت کریمہ ان دولت مند اور مال دار حضرات کے متعلق نازل ہوئی ہے جو صاحب نصاب ہونے کے باوجود زکاۃ ادا نہیں کرتے، بلکہ اپنی دولت کو بطور خزانہ جمع کرتے ہیں۔
آج سونے چاندی کی جگہ کرنسی نے لے لی ہے۔
اب یہ کہا جائے گا کہ جو لوگ نوٹوں کی گڈیاں بنا بنا کر رکھتے ہیں اور زکاۃ ادا نہیں کرتے، تو یہ نوٹ ان کے لیے دوزخ کے سانپ بن جائیں گے اور پھر انہیں گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔
ایک روایت میں ہے کہ جس شخص کے پاس بھی سونا چاندی ہے اور وہ زکاۃ ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس کے لیے سونے چاندی کے پترے آگ کے بنائے جائیں گے، پھر دوزخ کی آگ میں انہیں خوب گرم کیا جائے گا اس کے بعد اس کے پہلوؤں، اس کی پیشانی اور اس کی کمر کو داغا جائے گا۔
(صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2292(987)
ابن حبان کی روایت میں ہے کہ وہ سانپ اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے کہے گا کہ میں وہی خزانہ ہوں جسے تو دنیا میں چھوڑ آیا تھا حتی کہ وہ اس کی انگلیوں کو پھر اس کے پورے بازو کو چبائے گا حتی کہ اس کا پورا جسم نگل لے گا۔
(صحیح ابن حبان (ابن بلبان)
: 49/8، طبع مؤسسةالرسالة)
(2)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اپنے مال سے زکاۃ نہ دینے والوں کو دونوں قسم کے عذاب سے دوچار کیا جائے گا۔
اس کا خزانہ کبھی سانپ کی شکل میں اسے ڈسے گا اور سونے چاندی کے پتروں کو بھی گرم کر کے اس کے جسم کو داغا جائے گا۔
(فتح الباري: 341/3) (3)
جو سانپ انہیں ڈسے گا وہ اس قدر زہریلا ہو گا کہ اس کے سر کا چمڑا اڑ چکا ہو گا۔
اس وجہ سے اسے گنجا کہا جائے گا، کیونکہ سانپ کے بال نہیں ہوں گے جو زہر کی وجہ سے اڑ چکے ہوں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1403   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2378  
2378. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اونٹنیوں کا حق یہ ہے کہ ان کا دودھ چشموں پر دوہا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2378]
حدیث حاشیہ:
(1)
عربوں کے ہاں یہ بات متعارف تھی کہ جب اونٹوں کو پانی پلانے کے لیے تالابوں یا چشموں پر لے جاتے تو وہاں اونٹنیوں کو دوہتے اور دودھ فقراء و مساکین میں تقسیم کرتے۔
ضرورت مند لوگ چشموں پر جمع رہتے تاکہ دودھ پئیں۔
حدیث میں اسی حق کو نشاندہی کی گئی ہے۔
(2)
اسی طرح اگر پھل توڑا جا رہا ہے یا فصل کاٹی جا رہی ہے تو اس وقت بھی غرباء کو کچھ نہ کچھ ضرور دیا جائے۔
یہ باقاعدہ زکاۃ ادا کرنے سے الگ معاملہ ہے۔
ہمارے دور میں دیہاتوں کے اندر یہ حق متعارف تھا کہ جب گندم کا ڈھیر اٹھایا جاتا تو ریوڑی کے نام سے آخر میں ہاتھ بھر بھر کر گندم تقسیم کی جاتی تھی۔
واضح رہے کہ یہ حق واجب یہ فرض نہیں بلکہ ایک پسندیدہ عمل ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2378   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4565  
4565. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو اللہ تعالٰی مال عطا فرمائے، پھر وہ اس میں سے زکاۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس کا مال ایک گنجے سانپ کی شکل میں ہو گا۔ اس کی آنکھوں پر دو کالے نقطے ہوں گے۔ قیامت کے دن وہ سانپ اس کے گلے کا طوق بن جائے گا اور اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا: میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔ پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: جنہیں اللہ تعالٰی نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں کنجوسی کو اپنے لیے بہتر خیال نہ کریں۔۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4565]
حدیث حاشیہ:
واحدی نے کہا ہے۔
یہ آیت زکاۃ روکنے والوں کے متعلق نازل ہوئی اس بات پر تمام مفسرین کا اجماع ہے۔
یہ بات درست نہیں ہےبلکہ اس میں مفسرین کے کئی ایک اقوال ہیں:
مثلاً:
یہ آیت یہودیوں کے متعلق نازل ہوئی جنھوں نے آئندہ آنے والے نبی کی صفات کو چھپایا تھا۔
یہ آیت جہاد میں خرچ کرنے سے بخل کرنے والوں کے متعلق نازل ہوئی۔
اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے اہل و عیال اور رشتے داروں پر خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں۔
ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث کے پیش نظر پہلی شان نزول راجح ہے۔
(فتح الباري: 289/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4565   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4659  
4659. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: تمہارا خزانہ قیامت کے دن گنجے سانپ کی شکل اختیار کرے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4659]
حدیث حاشیہ:

یہ روایت مختصر ہے۔
دوسری روایت میں اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اس سے زکاۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال ایک گنجے سانپ کی شکل اختیار کرے گا جس کی دو زبانیں ہوں گی اور وہ اس کے گلے کا ہار بن کر دونوں جبڑوں کو پکڑ لے گا اورکہے گا:
میں تیرا مال ہوں اور میں تیرا خزانہ ہوں، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
"جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لیے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لیے نہایت بدتر ہے۔
جس مال میں انھوں نے کنجوسی کی،قیامت کے دن اسی کے انھیں طوق پہنائے جائیں گے۔
" (آل عمران: 180: 3۔
وصحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1403)


گنجے سانپ سے مراد انتہائی خوفناک اورزہریلا ناگ ہے جو اسے بار بار ڈسے گا۔
اس کی مزید وضاحت آئندہ آئے گی۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4659