سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ
کتاب: طہارت کے مسائل
43. باب أَيُصَلِّي الرَّجُلُ وَهُوَ حَاقِنٌ
باب: کیا آدمی پیشاب و پاخانہ روک کر نماز پڑھ سکتا ہے؟
حدیث نمبر: 90
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ شُرَيْحٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِي حَيٍّ الْمُؤَذِّنِ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثٌ لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يَفْعَلَهُنَّ: لَا يَؤُمُّ رَجُلٌ قَوْمًا فَيَخُصُّ نَفْسَهُ بِالدُّعَاءِ دُونَهُمْ فَإِنْ فَعَلَ فَقَدْ خَانَهُمْ، وَلَا يَنْظُرُ فِي قَعْرِ بَيْتٍ قَبْلَ أَنْ يَسْتَأْذِنَ فَإِنْ فَعَلَ فَقَدْ دَخَلَ، وَلَا يُصَلِّي وَهُوَ حَقِنٌ حَتَّى يَتَخَفَّفَ".
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین چیزیں کسی آدمی کے لیے جائز نہیں: ایک یہ کہ جو آدمی کسی قوم کا امام ہو وہ انہیں چھوڑ کر خاص اپنے لیے دعا کرے، اگر اس نے ایسا کیا تو اس نے ان سے خیانت کی، دوسرا یہ کہ کوئی کسی کے گھر کے اندر اس سے اجازت لینے سے پہلے دیکھے، اگر اس نے ایسا کیا تو گویا وہ اس کے گھر میں گھس گیا، تیسرا یہ کہ کوئی پیشاب و پاخانہ روک کر نماز پڑھے، جب تک کہ وہ (اس سے فارغ ہو کر) ہلکا نہ ہو جائے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 148 (357)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 31 (923)، (تحفة الأشراف: 2089)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/280) (ضعیف)» (اس حدیث کا ایک راوی یزید ضعیف ہے، نیز وہ سند میں مضطرب بھی ہوا ہے، ہاں اس کے دوسرے ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
مشكوة المصابيح (1070)
اسماعيل بن عياش صرح بالسماع من شيخ الشامي عند الترمذي (357) وروايته عن الشاميين مقبولة عند الجمهور ويزيد بن شريح: حسن الحديث وثقه ابن حبان والترمذي وغيرھما، وانظر الحديث الآتي وابن ماجه (619، 923)
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 90 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 90
فوائد و مسائل:
شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے۔
اس میں آخری دو باتیں تو دوسری احادیث سے بھی ثابت ہیں۔ لیکن اول الذکر بات محل نظر ہے، اس لیے کہ نماز میں بعض دعائیں ایسی بھی ہیں جن میں صیغۂ واحد ہی استعمال ہوا ہے اور امام سمیت ہر شخص انہیں صیغۂ واحد ہی کے ساتھ پڑھتا ہے۔ اس لیے اسے امام کی خیانت سے تعبیر کرنا کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے؟
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 90
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 357
´امام کا دعا کو اپنے لیے خاص کرنے کی کراہت کا بیان۔`
ثوبان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی کے گھر کے اندر جھانک کر دیکھے جب تک کہ گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ لے لے۔ اگر اس نے (جھانک کر) دیکھا تو گویا وہ اندر داخل ہو گیا۔ اور کوئی لوگوں کی امامت اس طرح نہ کرے کہ ان کو چھوڑ کر دعا کو صرف اپنے لیے خاص کرے، اگر اس نے ایسا کیا تو اس نے ان سے خیانت کی، اور نہ کوئی نماز کے لیے کھڑا ہو اور حال یہ ہو کہ وہ پاخانہ اور پیشاب کو روکے ہوئے ہو۔“ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 357]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں ”یزید بن شریح“ ضعیف ہیں،
مگر اس کے ((وَلَا يَقُومُ إِلَى الصَّلَاةِ وَهُوَ حَقِنٌ)) ”اور نہ کوئی نماز کے لیے کھڑا ہو اور حال یہ ہو کہ وہ پاخانہ اور پیشاب کو روکے ہوئے ہو“ والے ٹکڑے کے صحیح شواہد موجود ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 357