صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
1. بَابُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ:
باب: زکوٰۃ دینا فرض ہے۔
حدیث نمبر: 1397
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدِ بْنِ حَيَّانَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ إِذَا عَمِلْتُهُ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ؟ , قَالَ: تَعْبُدُ اللَّهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ، وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا، فَلَمَّا وَلَّى قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا".
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عفان بن مسلم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا ان سے یحییٰ بن سعید بن حیان نے ‘ ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ آپ مجھے کوئی ایسا کام بتلائیے جس پر اگر میں ہمیشگی کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کر ‘ اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرا ‘ فرض نماز قائم کر ‘ فرض زکوٰۃ دے اور رمضان کے روزے رکھ۔ دیہاتی نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ‘ ان عملوں پر میں کوئی زیادتی نہیں کروں گا۔ جب وہ پیٹھ موڑ کر جانے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو جنت والوں میں سے ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1397 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1397
حدیث حاشیہ:
مگر یحیٰی بن سعید قطان کی یہ روایت مرسل ہے۔
کیونکہ ابوزرعہ تابعی ہیں۔
انہوں نے آنحضرت ﷺ سے نہیں سنا اور وہیب کی روایت جو اوپر گزری وہ موصول ہے اور وہیب ثقہ ہیں۔
ان کی زیارت مقبول ہے۔
اس لیے حدیث میں کوئی علت نہیں (وحیدی)
اس حدیث کے ذیل حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
قَالَ الْقُرْطُبِيُّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ وَكَذَا حَدِيثُ طَلْحَةَ فِي قِصَّةِ الْأَعْرَابِيِّ وَغَيْرِهِمَا دَلَالَةٌ عَلَى جَوَازِ تَرْكِ التَّطَوُّعَاتِ لَكِنْ مَنْ دَاوَمَ عَلَى تَرْكِ السُّنَنِ كَانَ نَقْصًا فِي دِينِهِ فَإِنْ كَانَ تَرْكُهَا تَهَاوُنًا بِهَا وَرَغْبَةً عَنْهَا كَانَ ذَلِكَ فِسْقًا يَعْنِي لِوُرُودِ الْوَعِيدِ عَلَيْهِ حَيْثُ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي وَقَدْ كَانَ صَدْرُ الصَّحَابَةِ وَمَنْ تَبِعَهُمْ يُوَاظِبُونَ عَلَى السُّنَنِ مُوَاظَبَتَهُمْ عَلَى الْفَرَائِضِ وَلَا يُفَرِّقُونَ بَيْنَهُمَا فِي اغْتِنَامِ ثَوَابِهِمَا۔
(فتح الباري)
یعنی قرطبی نے کہا کہ اس حدیث میں اور نیز حدیث طلحہ میں جس میں ایک دیہاتی کا ذکر ہے‘ اس پر دلیل ہے کہ نفلیات کا ترک کردینا بھی جائز ہے مگر جو شخص سنتوں کے چھوڑنے پر ہمیشگی کرے گا وہ اس کے دین میں نقص ہوگا اور اگر وہ بے رغبتی اور سستی سے ترک کررہا ہے تو یہ فسق ہوگا۔
اس لیے کہ ترک سنن کے متعلق وعید آئی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو میری سنتوں سے بے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں ہے۔
اور صدر اول میں صحابہ کرام اور تابعین عظام سنتوں پر فرضوں ہی کی طرح ہمیشگی کیا کرتے تھے اور ثواب حاصل کرنے کے خیال میں وہ لوگ فرضوں اور سنتوں میں فرق نہیں کرتے تھے۔
حدیث بالا میں حج کا ذکر نہیں ہے‘ اس پر حافظ فرماتے ہیں۔
لم یذکر الحج لأنه کان حینئذ حاجا ولعله ذکرہ له فاختصرہ۔
یعنی حج کا ذکر نہیں فرمایا اس لیے کہ وہ اس وقت حاجی تھا یا آپ نے ذکر فرمایا مگر راوی نے بطور اختصار اس کا ذکر چھوڑ دیا۔
بعض محترم حنفی حضرات نے اہلحدیث پر الزام لگایا ہے کہ یہ لوگ سنتوں کا اہتمام نہیں کرتے‘ یہ الزام سراسر غلط ہے۔
الحمدللہ اہلحدیث کا بنیادی اصول توحید وسنت پر کاربند ہونا ہے۔
سنت کی محبت اہلحدیث کا شیوہ ہے، لہٰذا یہ الزام بالکل بے حقیقت ہے۔
ہاں معاندین اہلحدیث کے بارے میں اگر کہا جائے کہ ان کے ہاں اقوال ائمہ اکثر سنتوں پر مقدم سمجھے جاتے ہیں تو یہ ایک حد تک درست ہے۔
جس کی تفصیل کے لیے اعلام الموقعین از علامہ ابن قیم کا مطالعہ مفید ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1397
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1397
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ حدیث واضح طور پر فرضیت زکاۃ پر دلالت کرتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو زندگی ہی میں جنتی قرار دیا ہے۔
شاید رسول اللہ ﷺ کو اس کے متعلق بذریعہ وحی مطلع کر دیا گیا تھا یا اس میں کچھ عبارت محذوف ہے کہ اگر مامورات کو بجا لانے میں پابندی کرتا رہا تو ضرور جنت میں جائے گا۔
اس کی تائید ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”اگر ان کاموں کو پابندی سے ادا کرتا رہا تو ضرور جنت میں داخل ہو گا۔
“ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 106(13) (2)
علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے نوافل کو چھوڑ دینے کا جواز معلوم ہوتا ہے لیکن جو شخص ہمیشہ سنن و نوافل کو چھوڑنے کا عادی ہو گا اس کے دین میں ضرور نقص ہو گا۔
اگر سستی یا بے رغبتی کی وجہ سے انہیں چھوڑتا ہے تو فسق کی علامت ہے، اس لیے کہ ترک سنن کے متعلق وعید آئی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جو شخص میری سنت سے روگردانی کرتا ہے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔
“ (صحیح البخاري، النکاح، حدیث: 5063) (3)
صدر اول میں صحابہ کرام ؓ اور تابعین عظام سنتوں پر فرضوں کی طرح پابندی کرتے تھے اور ثواب حاصل کرنے کے لیے وہ لوگ فرائض اور سنن میں فرق نہیں کرتے تھے۔
(فتح الباري: 336/3) (4)
امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں ابو زرعہ کے حوالے سے ایک سند بیان کی ہے۔
یہ مرسل روایت ہے، کیونکہ ابو زرعہ تابعی ہیں اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے براہ راست اس روایت کو نہیں سنا، اس سے پہلے جو وہیب کی روایت ہے وہ موصول ہے، تاہم وہیب کی سند میں یحییٰ بن سعید ابو زرعہ سے عن کے ساتھ بیان کرتے ہیں جبکہ دوسری سند میں أخبرني کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
اس سے عدم سماع کا احتمال رفع کرنا مقصود ہے۔
والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1397
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 14
´ایک اعرابی کے سوال جواب`
«. . . وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: أَتَى أَعْرَابِيٌّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ إِذَا عَمِلْتُهُ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ. قَالَ: «تَعْبُدُ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ - [12] - وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ» . قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا شَيْئًا وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُ. فَلَمَّا وَلَّى قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجنَّة فَلْينْظر إِلَى هَذَا» . . .»
”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اعرابی (یعنی گاؤں کا رہنے والا گنوار) آیا اور اس نے عرض کیا کہ آپ مجھے کوئی ایسی بات بتا دیجئے کہ جب میں اسے کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اللہ کو ایک سمجھ کر اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور فرض نماز پڑھ لیا کرو اور فریضہ زکوٰۃ ادا کیا کرو اور رمضان کا روزہ رکھا کرو (ان کو ہمیشہ کرتے رہو گے تو جنت میں داخل ہو گے) یہ سن کر اس گنوار نے کہا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ و قبضہ میں میری جان ہے، نہ میں اس سے زیادہ کروں گا اور نہ اس سے کم کروں گا، جب وہ پشت پھیر کر چلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی کو اس بات سے خوشی ہو کہ کسی جنتی آدمی کو دیکھے تو اس آدمی کو دیکھ لے . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 14]
تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 1397]،
[صحيح مسلم؟]
فقہ الحدیث
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ارکان اسلام ادا کرنے والا شخص (اگر نواقص اسلام کا ارتکاب نہ کرے تو) ضرور جنت میں داخل ہو گا۔ چاہے ابتدا سے ہی اس کے سارے گناہ معاف کر کے اسے جنت میں داخل کر دیا جائے یا اسے گناہوں کی سزا دے کر آخر کار جنت میں داخل کیا جائے۔ کافر و مشرک اگر توبہ کے بغیر مر گیا تو ابدی جہنمی ہے، جیسا کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔
➋ حدیث میں مذکور اعرابی کے نام میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں سعد ہے اور بعض عبداللہ بن اخرم کہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی تحقیق میں اس سے مراد لقیط بن عامر یا ابن المنفق ہے۔ دیکھئے: [التوضيح لمبهمات الجامع التصحيح لابن الجمعي قلمي ص82]
اعرابی کے نام میں اختلاف چنداں مضر نہیں ہے اور نہ یہ ضروری ہے کہ ضرور بالضرور اس کا نام معلوم کیا جائے۔
➌ اللہ کی عبادت سے مراد اس پر ایمان، مکمل اطاعت اور شرک و کفر سے کلی اجتناب ہے۔
➍ اس حدیث میں حج کا ذکر نہ ہونے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس وقت حج فرض نہیں ہوا تھا۔
➎ احادیث سابقہ کی طرح یہ حدیث بھی مرجیہ کا زبردست رد ہے، جو اعمال کو ایمان سے خارج سمجھتے ہیں۔
➏ ایک روایت میں ایک چیز کا ذکر ہو اور دوسری میں ذکر نہ ہو تو اس حالت میں عدم ذکر نفی ذکر کی دلیل نہیں ہوتا۔
➐ بعض لوگ اس حدیث سے یہ استنباط کرتے ہیں کہ سنتیں اور نوافل ضروری نہیں ہیں۔ سیدنا سعید بن المسیب (تابعی) فرماتے ہیں:
«أوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم وليس عليك وضحى وليس عليك وصلى الضحى وليس عليك وصلى قبل الظهر وليس عليك»
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر پڑھا ہے اور یہ تجھ پر لازم نہیں ہے، آپ نے قربانی کی اور یہ تجھ پر واجب نہیں ہے، آپ نے چاشت کی نماز پڑھی یہ تجھ پر ضروری نہیں ہے، آپ نے ظہر سے پہلے نماز پڑھی اور یہ تجھ پر لازم نہیں ہے۔“ [مسند على بن الجعد: 945 وسنده صحيح]
تاہم بہتر اور افضل یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کیا جائے اور تمام سنن ثابتہ کو اپنی زندگی میں اپنایا جائے۔ قیامت کے دن فرائض کی کمی سنن و نوافل سے پوری کی جائے گی اور صحیح احادیث میں نوافل و سنت ادا کرنے کی ترغیب اور فضیلت بھی بہت زیادہ موجود ہے، لہٰذا انہیں بلاوجہ یا معمولی سمجھتے ہوئے ہمیشہ چھوڑنا ایک مذموم حرکت ہے۔
➑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرنے سے ہی انسان اپنے رب کے فضل سے جنت کا حق دار بن سکتا ہے۔
➒ مبشرین بالجنة کا عدد دس میں محصور نہیں ہے، بلکہ قرآن و حدیث سے جن کا جنتی ہونا ثابت ہے وہ جنتی ہیں۔
➓ اللہ پر ایمان اور عقیدہ توحید کے بعد ہی اعمال صالحہ فائدہ دے سکتے ہیں۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 14
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 107
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جب میں اس پر عمل کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”تم اللہ کی بندگی کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم کرو جو تم پر لکھ دی گئی ہے، فرض زکاۃ ادا کرو او ررمضان کے روزے رکھو۔“ وہ کہنے لگا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نہ کبھی اس پر کسی چیز کا اضافہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:107]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
دُلَّني:
میری رہنمائی کیجئے،
مجھے بتلائیے۔
(2)
الْمَكْتوبة:
لکھی گئی،
یعنی فرض و لازم ٹھہرائی گئی۔
(3)
المَفْرُوضَة:
فرض اور واجب قرار دی گئی۔
(4)
سَرَّ:
مسرت اور خوشی کا باعث بنا۔
فوائد ومسائل:
(لا ازید ولا انقص)
عربی زبان کا ایک محاورہ ہے جو کلام کے اندر حسن اور زور وتاکید پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ میں اعمال کی تعمیل میں کسی قسم کی کوتاہی یا کمی نہیں کروں گا،
یہ مقصد نہیں ہوتا کہ میں اس سے زائد عمل نہیں کروں گا۔
جب کہ ہم دوکاندار سے سودا سلف خریدتے وقت کہہ دیتے ہیں،
اس میں کمی،
بیشی ہو سکتی ہے،
بیشی کا لفظ محض حسن اور زور کلام میں اضافہ کے لیے بڑھا دیا جاتا ہے،
ہمارا مطلوب صرف کمی ہوتا ہے نہ ک بیشی،
اس کے لیے تو وہ دوکاندار فورا تیار ہوگا،
اسی محاورہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ﴾ (الأعراف: 34)
”جس وقت ان کا وقت مقررہ آجائے گا،
اس وقت نہ ایک گھڑی پیچھے رہ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے۔
“ جب وقت مقررہ آجائے تو اس میں تاخیر کا امکان تو موجود ہے،
مگر تقدیم تو عقلا ممکن ہی نہیں۔
یہاں مقصود صرف تاخیر ہی ہے لیکن کلام کے انداز وتاکید اور تحسین کےلیے تاخیر کے ساتھ اس کے مقابل،
تقدیم کو بھی لایا گیا ہے۔
اسی طرح،
اس حدیث میں مقصد لا انقص ہے لیکن کلام کی تحسین وتاکید کےلیے اس کے مقابل لا ازید کہہ دیا گیا ہے وگرنہ نفل تو مقصود ومطلوب ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 107