صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
1. بَابُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ:
باب: زکوٰۃ دینا فرض ہے۔
حدیث نمبر: 1396
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ ابْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ، قَالَ: مَا لَهُ، مَا لَهُ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَبٌ مَا لَهُ تَعْبُدُ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ"، وَقَالَ بَهْزٌ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ وَأَبُوهُ عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُمَا سَمِعَا مُوسَى بْنَ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، بِهَذَا , قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: أَخْشَى أَنْ يَكُونَ مُحَمَّدٌ غَيْرَ مَحْفُوظٍ إِنَّمَا هُوَ عَمْرٌو.
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے محمد بن عثمان بن عبداللہ بن موہب سے بیان کیا ہے ‘ ان سے موسیٰ بن طلحہ نے اور ان سے ابوایوب رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ آخر یہ کیا چاہتا ہے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو بہت اہم ضرورت ہے۔ (سنو) اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کوئی شریک نہ ٹھہراو۔ نماز قائم کرو۔ زکوٰۃ دو اور صلہ رحمی کرو۔ اور بہز نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ ہم سے محمد بن عثمان اور ان کے باپ عثمان بن عبداللہ نے بیان کیا کہ ان دونوں صاحبان نے موسیٰ بن طلحہ سے سنا اور انہوں نے ابوایوب سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی حدیث کی طرح (سنا) ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ محمد سے روایت غیر محفوظ ہے اور روایت عمرو بن عثمان سے (محفوظ ہے)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1396 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1396
حدیث حاشیہ:
(1)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ وجوب زکاۃ کے لیے اس حدیث کی دلالت بہت الجھن کا باعث ہے، پھر خود ہی چند ایک جواب دیے ہیں، مثلا:
اس حدیث سے فرضیت زکاۃ بایں طور ثابت ہوتی ہے کہ جنت میں جانا ادائیگی زکاۃ پر منحصر ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو زکاۃ نہیں دے گا وہ جہنم میں جائے گا اور جہنم میں جانا ایک ایسی چیز کے ترک سے ہوتا ہے جو واجب ہو۔
اس طرح اس حدیث سے فرضیت زکاۃ ثابت ہوتی ہے۔
(2)
واقعاتی طور پر دو احادیث کے مضامین میں گہری مماثلت اور یکسانیت ہو تو امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ ایک حدیث کے ذریعے سے دوسری حدیث کی تفسیر کرتے ہیں۔
اس مقام پر بھی حدیث ابو ایوب اور بعد میں آنے والی حدیث ابو ہریرہ میں بہت مماثلت ہے، اس لیے دوسری حدیث کو مذکورہ حدیث کے لیے تفسیر قرار دیا ہے۔
چونکہ دوسری حدیث میں ہے کہ فرض زکاۃ ادا کرو، اس لیے حدیث مذکورہ میں بھی فرض زکاۃ ہی مراد ہے۔
(فتح الباري: 333/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1396
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 469
´نماز قائم کرنے والے کے ثواب کا بیان۔`
ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کرے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکاۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو، اسے چھوڑ دو“ گویا آپ اپنی اونٹنی پر سوار تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 469]
469 ۔ اردو حاشیہ:
➊ «ذَرْهَا» میں اس چیز کی طرف اشارہ تھا کہ تیرے سوال کا جواب پورا ہو گیا ہے اب اس کو چھوڑ دے۔ اس نے سوال کرنے سے پہلے آپ کی اونٹنی کی مہار پکڑلی تھی۔
➋اس حدیث میں ارکانِ اسلام مذکور ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 469
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5983
5983. حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کی: اللہ کے رسول! کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے؟ لوگوں نے کہا: اسے کیا ہو گیا ہے اسے کیا ہو گیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ ضرورت مند ہے اور اسے کیا ہوا ہے۔“ نبی ﷺ نے (اسے) فرمایا: ”اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوۃ دو اور صلہ رحمی کرتے رہو، اب اسے (میری اونٹنی) کو چھوڑ دو۔“ گویا آپ اس وقت اپنی سواری پر تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5983]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ جنت حاصل کرنے کے لیے حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی ضروری ہے ورنہ جنت کا خواب دیکھنے والوں کے لیے جنت ہی ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5983
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5983
5983. حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کی: اللہ کے رسول! کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے؟ لوگوں نے کہا: اسے کیا ہو گیا ہے اسے کیا ہو گیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”وہ ضرورت مند ہے اور اسے کیا ہوا ہے۔“ نبی ﷺ نے (اسے) فرمایا: ”اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکوۃ دو اور صلہ رحمی کرتے رہو، اب اسے (میری اونٹنی) کو چھوڑ دو۔“ گویا آپ اس وقت اپنی سواری پر تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5983]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صلہ رحمی جنت میں داخل ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کی مدد صلہ رحمی کرنے والے کے شامل حال رہتی ہے، چنانچہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:
اللہ کے رسول! میرے چند ایک رشتے دار ہیں میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں لیکن وہ اس رشتے کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا ہوں لیکن وہ اس کا بدتمیزی کے ساتھ بدلہ دیتے ہیں۔
میں ان کی زیادتی کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ بدسلوکی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اگر تو صحیح کہتا ہے تو گویا ان کے منہ میں گرم راکھ ڈال رہا ہے۔
جب تک تو اپنے عمل کو قائم رکھے گا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیرے ساتھ ایک مددگار ہوگا۔
“ (صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث: 6525(2558) (2)
اللہ تعالیٰ کے ہاں صلہ رحمی کا مطلوبہ معیار حسب ذیل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے:
”کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں صلہ رحمی یہ ہے کہ جب اس سے رشتے داری توڑی جائے تو وہ اسے ملائے۔
“ (صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 5991)
رشتے داروں کے ساتھ معاملہ کرنے کے تین مراتب حسب ذیل ہیں:
٭ صلہ رحمی:
رشتے دار تعلقات ختم کر دیں تو ان سے میل ملاپ رکھے۔
٭مکافات:
رشتے دار اچھا سلوک کریں تو ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔
٭قطع رحمی، اپنے رشتے داروں سے قطع تعلق کرے۔
یہ آخری مرتبہ انتہائی بدترین درجہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5983