Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ
کتاب: طہارت کے مسائل
37. باب الْوُضُوءِ بِسُؤْرِ الْكَلْبِ
باب: کتے کے جھوٹے سے وضو کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 74
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو التَّيَّاحِ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ ابْنِ مُغَفَّلٍ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِ الْكِلَابِ، ثُمَّ قَالَ مَا لَهُمْ وَلَهَا، فَرَخَّصَ فِي كَلْبِ الصَّيْدِ، وَفِي كَلْبِ الْغَنَمِ، وَقَالَ: إِذَا وَلَغَ الْكَلْبُ فِي الْإِنَاءِ، فَاغْسِلُوهُ سَبْعَ مِرَارٍ، وَالثَّامِنَةُ عَفِّرُوهُ بِالتُّرَابِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَكَذَا قَالَ ابْنُ مُغَفَّلٍ.
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا پھر فرمایا: لوگوں کو ان سے کیا سروکار؟ ۱؎، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری کتوں اور بکریوں کے نگراں کتوں کے پالنے کی اجازت دی، اور فرمایا: جب کتا برتن میں منہ ڈال دے، تو اسے سات بار دھوؤ اور آٹھویں بار مٹی سے مانجھو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن مغفل نے ایسا ہی کہا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الطھارة 27 (280)، سنن النسائی/الطھارة 53 (67) المیاہ 7 (337، 338)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 31 (365)، الصیدا (3200، 3201)، (تحفة الأشراف: 9665)، وقد أخرجہ:حم (4/86، 5/56)، سنن الدارمی/الصید 2 (2049) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس میں سابق حکم کی منسوخی اور کتوں کے قتل سے باز رہنے کی دلیل ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (280)

سنن ابی داود کی حدیث نمبر 74 کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 74  
فوائد و مسائل:
➊ کتا جس برتن میں منہ مار جائے اس میں موجود چیز (بشکل طعام و شراب) کو گرا دیا جائے اور برتن کو سات یا آٹھ بار دھویا جائے اور ایک بار مٹی سے ضرور مانجا جائے۔
➋ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بعض شاگردوں نے مٹی سے مانجنے کا ذکر چھوڑ دیا ہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اصل روایت میں یہ ہے ہی نہیں۔ احتمال ہےکہ انہوں نے اختصار سےکام لیا ہو۔ جبکہ محمد بن سیرین، ابوایوب سختیانی، حسن بصری اور ابورافع رحمها اللہ نے مٹی سے مانجنے کا ذکر کیا ہے۔ اور ثقہ کی زیادت مقبول ہوا کرتی ہے . . . . اسی قاعدے کے تحت سیدنا عبداللہ بن مغفل کی روایت آٹھویں بار کی قابل قبول ہے۔
➌ جدید تحقیقات مؤید ہیں کہ کتے کے جراثیم کے لیے مٹی ہی کماحقہ قاتل ہے۔
➍ کتا خواہ شکاری ہو اس کا لعاب نجس ہے۔ شکار کے معاملے میں خاص استثنا معلوم ہوتا ہے۔
➎ کتوں کو بالعموم قتل کرنا منسوخ ہے تاکہ ان کی نسل کلی طور پر تباہ نہ ہو جائے۔
➏ شکار اور حفاظت کے لیے کتے کا رکھنا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 74