صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
97. بَابُ مَا يُنْهَى مِنْ سَبِّ الأَمْوَاتِ:
باب: اس بارے میں کہ مردوں کو برا کہنے کی ممانعت ہے۔
حدیث نمبر: 1393
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَة، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا , قَالَتْ: قَالَ الّنَبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّمُوا"، وَرَوَاهُ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الْقُدُّوسِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، تَابَعَهُ عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، وَابْنُ عَرْعَرَةَ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے اعمش نے بیان کیا ‘ ان سے مجاہد نے بیان کیا اور ان سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ مردوں کو برا نہ کہو کیونکہ انہوں نے جیسا عمل کیا اس کا بدلہ پا لیا۔ اس روایت کی متابعت علی بن جعد ‘ محمد بن عرعرہ اور ابن ابی عدی نے شعبہ سے کی ہے۔ اور اس کی روایت عبداللہ بن عبدالقدوس نے اعمش سے اور محمد بن انس نے بھی اعمش سے کی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1393 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1393
حدیث حاشیہ:
یعنی مسلمان جو مرجائیں ان کا مرنے کے بعد عیب نہ بیان کرنا چاہیے۔
اب ان کو برا کہنا ان کے عزیزوں کو ایذا دینا ہے
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1393
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1393
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے گزرنے والے جنازے کی برائی کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”واجب ہو گئی۔
“ حضرت عمر فاروق ؓ نے دریافت کیا کہ کیا چیز واجب ہو گئی؟ آپ نے فرمایا:
”اس کی برائی کرنے سے اس پر آگ واجب ہو گئی، کیونکہ تم زمین پر اللہ کی طرف سے گواہی دینے والے ہو۔
“ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1367)
میت کی برائی بیان کرنا اسے گالی دینا نہیں، لہذا مذکورہ حدیث پہلی حدیث کے منافی نہیں۔
(فتح الباري: 327/3)
میت کو برا بھلا کہنے کی دو قسمیں ہیں:
٭ کافر میت کو اگر برا بھلا کہنے سے کسی زندہ مسلمان کو تکلیف ہوتی ہو تو ایسا کرنا سخت منع ہے۔
٭ اگر کسی مسلمان کو ضرورت کے پیش نظر برا بھلا کہا جائے تو یہ ایک شہادت ہے جسے ادا کیا جا سکتا ہے۔
خود رسول اللہ ﷺ نے بعض مرنے والوں کو برا بھلا کہا ہے۔
(فتح الباري: 328/3) (2)
حضرت عائشہ ؓ نے ایک واقعے کے پس منظر میں یہ حدیث بیان کی:
حضرت علی ؓ نے جنگ جمل کے موقع پر یزید بن قیس ارجی کے ہاتھ حضرت عائشہ ؓ کے نام ایک خط روانہ کیا جس کا انہوں نے جواب نہ دیا۔
حضرت عائشہ ؓ کو یہ بات پہنچی کہ اس (یزید)
نے آپ کے متعلق حرف گیری کی ہے تو آپ نے اس پر لعنت کی۔
جب آپ کو پتہ چلا کہ وہ مر گیا ہے تو آپ نے أستغفراللہ پڑھا اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مردوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے۔
(فتح الباري: 328/3) (3)
عام حکم تو یہی ہے کہ مردوں کو برا بھلا نہ کہا جائے۔
اگر کوئی لعین ابو لہب جیسا بدبخت و بدکردار ہو تو اسے برائی سے یاد کرنا جائز ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے خود اس کے متعلق عنوان قائم کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1393
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 482
´مرنے والوں کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے`
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مردوں کو گالی مت دو کیونکہ وہ اس تک پہنچ چکے ہیں جو انہوں نے آگے بھیجا۔“ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 482]
لغوی تشریح:
«لَا تَسُبُّوا» «سَبٌّ» سے ماخوذ ہے۔
باب «نَصَر» «يَنْصُرُ» ہے۔ گالی گلوچ، سب و شتم، برے اور قبیح وصف بیان کرنا۔
«أفْضَوْا» «إفضاء» سے ماخوذ ہے۔ پہنچ گئے ہیں، پا چکے ہیں۔
«إلٰي مَاقَدّٰمُوا» جو اعمال و افعال وہ آگے بھیج چکے ہیں۔ یہ تقدیم سے ماخوذ ہے۔
«فَتُؤدُو الّٔاحْيَاءَ» «إيذاء» سے ماخوذ ہے، یعنی تمہارا مردوں کو برا بھلا کہنا اور سب و شتم کرنا اس کے زندہ ورثاء و اقرباء کے لیے باعث اذیت ہے کیونکہ مرنے والوں کا ان سے قرابت داری کا تعلق ہے۔
«فائده:»
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مرنے والوں کو برا بھلا نہیں کہنا چاہیے کیونکہ کسی فوت ہونے والے کا اس انداز سے تذکرہ کرنا، بالخصوص مسلمان کا، جو اس کے عزیز و اقارب کے لیے اذیت اور تکلیف کا باعث ہو، باہمی لڑائی جھگڑے کا باعث بنتا ہے، اس لیے شریعت اسلامیہ نے اسے ممنوع قرار دیا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 482
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1300
´برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روايت ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” فوت شدگان کو گالی نہ دو کیونکہ انہوں نے جو کچھ کیا تھا اس تک وہ پہنچ چکے ہیں۔“ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 1300»
تخریج: «أخرجه البخاري، الرقاق، باب سكرات الموت، حديث:6516.»
تشریح:
اس حدیث میں کسی بھی مرنے والے کو برا کہنے اور گالی دینے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ مردے کو گالی دینے کی وجہ سے اس کے لواحقین کو اذیت پہنچتی ہے جو باہمی دشمنی اور عداوت کا باعث بن سکتی ہے۔
ویسے بھی یہ لغو اور فضول سی بات ہے کیونکہ مرنے والا اپنے مالک کے پاس پہنچ چکا‘ اب اس کا معاملہ اس کے سپرد ہے‘ سزا دے یا نہ دے۔
کسی کے گالی دینے سے اسے کیا فرق پڑے گا۔
پھر یہ کون سی شرافت ہے کہ جو جوابی کارروائی کی حالت میں نہیں اسے گالی دی جائے۔
اسے گالی گلوچ کرنے سے سوائے اپنے نفس کو جلانے کے کیا حاصل؟
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1300
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1300
فوت شدہ لوگوں کو گالی مت دو۔
«وعن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: لا تسبوا الاموات فإنهم قد افضوا إلى ما قدموا . اخرجه البخاري»
”عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مردوں کو گالی مت دو کیونکہ یقیناً وہ اس چیز کی طرف پہنچ چکے جو انہوں نے آگے بھیجی۔“ اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1300]
تخریج:
[بخاري 6516]،
تحفۃ الاشراف [2/293 ]
مفردات:
«لَا تَسُبُّوا» «سَبَّ» «يَسُبُّ» ( «نصر» «ينصر») سے نہی کا صیغہ ہے یہ دراصل «سَبَّةٌ» سے مشتق ہے جس کا معنی ( «است») دبر ہوتا ہے «سَبَّهُ اَيْ طَعَنَهُ فِى اِسْتِهِ» یعنی اس نے اسے دبر میں کچوکا لگایا۔ اسی طرح یہ قبیح گالی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے کیونکہ اس میں بھی مخفی اعضاء کا تذکرہ صاف لفظوں میں یا کنائے کے ساتھ کر کے کسی کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔
فوائد:
➊ مردوں کو گالی دینا کیوں منع ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوت شدہ لوگوں کو گالی دینے سے منع فرمایا خواہ مسلمان ہوں یا کافر اور اس کی دو وجہیں بیان فرمائیں۔ ایک تو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا اس کے پاس پہنچ چکے اب انہیں اس کا بدلہ مل رہا ہے۔ انہیں گالی دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ان کا مالک خود ہی ان سے نمٹ لے گا۔
دوسری وجہ ترمذی میں مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”مردوں کو گالی مت دو کیونکہ ایسا کرنے سے تم زندہ لوگوں کو ایذاء دو گے۔“ [ ترمذي: 1982 ]
البانی نے اسے صحیح کہا ہے، دیکھئے السلسلہ الصحیحہ [2397] کیونکہ کوئی شخص بھی پسند نہیں کرتا کہ اس کے عزیزوں کو گالی دی جائے خواہ وہ کافر ہی ہوں۔
➋ قرآن وحدیث میں کفار کی برائیاں کیوں بیان کی گئی ہیں:
مردوں کو گالی دینے کی حرمت کے باوجود قرآن و حدیث میں بہت سے فوت شدہ کفار کی برائیاں بیان کی گئی ہیں۔ بعض علماء نے ”اسے مردوں کو گالی مت دو“ کے منافی سمجھ کر اس کی توجیہ کی ہے کہ یہ اس حکم سے مستثنیٰ صورت ہے جیسا کہ غیبت کی بعض صورتیں حرمت سے مستثنیٰ ہیں۔
مگر اصل بات یہ ہے کہ کسی کافر کی غیبت سے منع کیا ہی نہیں گیا نہ ہی اس کی برائی بیان کرنا منع ہے بلکہ اگر مقصد کسی کو کسی شخص کے شر سے بچانا ہو یا شہادت ادا کرنا ہو تو مسلمان کی برائی بھی بیان کر سکتا ہے۔ اس حدیث میں جس چیز سے منع کیا گیا ہے وہ سب و شتم ہے۔ گندی گالی دینا۔ مردوں کو گالی دینا حرام ہے خواہ وہ مسلمان یوں یا کافر، کیونکہ انہیں گالی دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہاں اگر کوئی شخص زندہ ہے اور وہ گالی دینے میں پہل کرتا ہے تو اسے جواب میں اتنی ہی گالی دینا جائز ہے گو صبر افضل ہے۔ اسی طرح زندہ کافر کو ذلیل کرنے کے لیے گالی دینا جائز ہے۔ جیسا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حدیبیہ کے موقع پر کہا تھا:
«امصص بظر اللات انحن نفر عنه؟»
”جاؤ لات کی شرم گاہ کو چوسو کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟“
اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے احد کے دن سباع کو کہا تھا:
«يا ابن ام انمار مقطعة البطور» [صحيح بخاري، المغازي 25]
”اے عورتوں کی شرم گاہوں کا ختنہ کرنے والی ام انمار کے بیٹے۔“
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 210
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1938
´مردوں کو برا بھلا کہنا منع ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے مردوں کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ انہوں نے جو کچھ آگے بھیجا تھا، اس تک پہنچ چکے ہیں“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1938]
1938۔ اردو حاشیہ: فوت شدگان کے معاملے کواللہ کے سپرد کر دیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہی صحیح ہے۔ ہم کسی ایسے شخص کو برا کہیں جواللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھا ہو تو اس میں بہت گناہ ہے، لہٰذا خاموشی بہتر ہے، البتہ وہ کافر یا منافق یا فاجر جو علانیہ عوام الناس کے نزدیک ان اوصاف میں معروف اور بدنام ہیں، ان کی موت اگر انھی اوصاف پر ہوئی تو انہیں ان اوصاف کے ساتھ ذکر کیا جا سکتا ہے تاکہ لوگ ان کی اقتدا نہ کریں۔ اسی طرح ائمہ مضلین (اہل بدعت) کی گمراہیوں کی ضواحت کرنی بھی جائز بلکہ ضروری ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1938
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6516
6516. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو لوگ مر گئے ہیں انہیں برا بھلا نہ کہو کیونکہ انہوں نے جو کچھ اپنے آگے بھیجا تھا اس کے پاس وہ خود پہنچ چکے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6516]
حدیث حاشیہ:
اب برا کہنے سے کیا فائدہ۔
لوگ ان مردوں کو برا کہا کرتے تھے جو موت کے وقت بہت سختی اٹھاتے تھے جو ہونا تھا ہوا اب برا کہنے کی ضرورت نہیں ہے ہاں جو برے ہیں وہ برے ہی رہیں گے، کفار مشرکین وغیرہ وغیرہ جن کے لئے خلود فی النار کا فیصلہ قطعی ہے۔
حدیث میں یہ بھی ارشاد ہے کہ مرنے کے بعد برے لوگوں کو بھی گالی گلوچ سے یاد کرنا نہیں چاہیئے کیونکہ وہ کئے عملوں کا بدلہ پا چکے ہیں۔
سبحان اللہ کیا پاکیزہ تعلیم ہے۔
اللہ عمل کی توفیق دے آمین۔
خاتمہ:
الحمد للہ والمنة کہ آج بخاری شریف ترجمہ اردو کے پارہ نمبر26 کی تسوید سے فراغت حاصل ہو رہی ہے یہ پارہ کتاب الاستیذان کتاب الدعوات اور کتاب الرقاق پر مشتمل ہے جس میں تہذیب واخلاق اوردعاؤں اور پندونصائح کی بہت سی قیمتی باتیں جناب فخر بنی آدم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بیان میں آئی ہیں جن کے بغورمطالعہ کرنے اور جن پر عمل پیرا ہونے سے دین ودنیا کی بے شمار سعادتیں حاصل ہو سکتی ہیں۔
اس پارے کی تسوید پر بھی مثل سابق بہت سا قیمتی وقت صرف کیا گیا ہے۔
متن وترجمہ وتشریحات کے لفظ لفظ کو بہت ہی غور وخوض کے بعد حوالہ قلم کیا گیا ہے اور سفر وحضر ورنج وراحت وحوادث کثیرہ وامراض قلبی کے باوجود نہایت ہی ذمہ داری کے ساتھ اس عظیم خدمت کو انجام دیا گیا ہے پھر بھی بہت سی خامیوں کا امکان ہے اس لئے ماہرین فن سے با ادب چشم عفو سے کام لینے کے لئے امید وار ہوں اگر واقعی لغزشوں کے لئے اہل علم حضرات میری حیات مستعار میں مطلع فرمائیں گے تو بصد شکریہ طبع ثانی کے موقع پر اصلاح کر دی جائے گی اورمیرے دنیا سے چلے جانے کے بعد اگر ویسے اغلاط کو معلوم فرمانے والے بھائی اپنی قلم سے درستگی فرما لیں گے اور مجھ کو دعائے خیر سے یاد کریں گے تو میں بھی ان کا پیشگی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
یاللہ! حیات مستعار بہت تیزی کے ساتھ خاتمہ کی طرف جا رہی ہے جس طرح یہاں تک تونے مجھے پہنچایا ہے اسی طرح بقایا خدمت کو بھی پورا کرنے کی توفیق عطا فرما اور اس خدمت کو نہ صرف میرے لئے بلکہ میرے والدین اور اولاد اور جملہ معاونین کرام وقدردانان عظام کے حق میں قبول فرما کر بطور ایصال ثواب اس عظیم نیکی کو قبول عام اور حیات دوام عطا فرمائیو آمین۔
ربنا تقبل منا إنك أنت السمیع العلیم وتب علینا إنك أنت التواب الرحیم و صلی اللہ علی خیر خلقه محمد وعلی آله وأصحابه أجمعین برحمتك یا أرحم الراحمین آمین۔
خادم محمد داؤد راز السلفی ساکن موضع رہپوہ۔
نزد قصبہ پنگواں ضلع گوڑگاؤں ہریانہ بھارت۔
(10جمادی الثانی 1396ھ)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6516
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6516
6516. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جو لوگ مر گئے ہیں انہیں برا بھلا نہ کہو کیونکہ انہوں نے جو کچھ اپنے آگے بھیجا تھا اس کے پاس وہ خود پہنچ چکے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6516]
حدیث حاشیہ:
(1)
مرنے والوں نے جو برے بھلے عمل کیے تھے، اس کے مطابق بدلہ پا لیا ہے، اب انہیں برا بھلا کہنے سے کیا فائدہ حاصل ہو گا۔
(2)
مرنے کے بعد دفن سے پہلے پہلے کسی مصلحت کے پیش نظر مرنے والے کی کوئی اخلاقی کمزوری بیان کی جا سکتی ہے لیکن جب دفن کر دیا جائے تو اس کے متعلق لب کشائی نہیں کرنی چاہیے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے یزید بن قیس الارجی کو برا بھلا کہا لیکن جب انہیں اس کی موت کا پتا چلا تو انہوں نے أستغفراللہ پڑھا اور فرمایا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مرنے والوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے۔
(فتح الباري: 383/3) (3)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اس لیے ذکر کیا ہے کہ یہ ان مرنے والوں کے متعلق ہے جو سکرات موت سے دوچار ہوئے ہیں۔
(عمدة القاري: 589/15)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6516