سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ
کتاب: طہارت کے مسائل
7. باب كَرَاهِيَةِ الْكَلاَمِ عِنْدَ الْحَاجَةِ
باب: قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے وقت بات چیت مکرو ہے۔
حدیث نمبر: 15
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ عِيَاضٍ، قَالَ:حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لا يَخْرُجْ الرَّجُلَانِ يَضْرِبَانِ الْغَائِطَ كَاشِفَيْنِ عَنْ عَوْرَتِهِمَا يَتَحَدَّثَانِ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَمْقُتُ عَلَى ذَلِكَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا لَمْ يُسْنِدْهُ إِلا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ.
ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ”دو آدمی قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے وقت شرمگاہ کھولے ہوئے آپس میں باتیں نہ کریں کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو عکرمہ بن عمار کے علاوہ کسی اور نے مسنداً (مرفوعاً) روایت نہیں کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطھارة 24 (342)، (تحفة الأشراف: 4397)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/36) (صحیح لغیرہ) (الصحیحہ: 3120، وتراجع الألباني: 7،)» (لیکن دوسرے طریق کی وجہ سے حدیث صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ابن ماجه (342)
عكرمة بن عمار مدلس (طبقات المدلسين: 3/88) وصرح بالسماع (حلية الأولياء: 45/9) ولكنه مضطرب الحديث عن يحيي بن أبي كثير،وقيل: تابعه أبان بن يزيد،ولم أجده،وللحديث لون آخر عند الطبراني في الأوسط (1286) وسنده ضعيف،وطريق آخر عند ابن السكن (بيان الوھم والإيھام 5/ 260 ح 2460) وسنده ضعيف
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 13
سنن ابی داود کی حدیث نمبر 15 کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 15
فوائد و مسائل
یہ روایت اگرچہ سنداً ضعیف ہے، لیکن دوسری صحیح روایات سے قضائے حاجت کے وقت ایک دوسرے کے سامنے اپنی شرمگاہیں کھولنے اور باہم گفتگو کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے جیسے حدیث ہے: ” مرد، مرد کی شرم گاہ اور عورت، عورت کی شرم گاہ کی طرف نہ دیکھے۔“ [صحيح مسلم، الحيض، حديث: 338] دوسری حدیث میں ہے: ” ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے، اس نے آپ کو سلام کیا لیکن آپ نے سلام کا جواب نہیں دیا۔ [صحيح مسلم، الحيض، حديث: 370] حالانکہ سلام کا جواب دینا ضروری ہے، اس کے باوجود آپ نے جواب نہیں دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب سلام کا جواب دینا پسند نہیں، تو دوسری باتیں کرنا کس طرح جائز ہو گا؟ غالباً اسی وجہ سے بعض علماء نے ابوداؤد کی زیربحث حدیث کو صحیح لغیرہ قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو: [الموسوعة الحديثية، مسند الامام احمد، ج: 17، حديث: 11310۔ صحيح الترغيب، 1۔ 175]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 15
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 82
´قابلِ ستر اعضاء کو چھپانا واجب ہے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إذا تغوط الرجلان فليتوار كل واحد منهما عن صاحبه، ولا يتحدثا، فإن الله يمقت على ذلك . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو آدمی قضائے حاجت کریں تو ان کو ایک دوسرے سے پردہ میں ہونا چاہیئے اور اس حالت میں ایک دوسرے سے باہم گفتگو بھی نہ کریں اس لئے کہ ایسے فعل پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 82]
� لغوی تشریح:
«تَغَوَّطَ» قضائے حاجت کے لیے نکلے اور اپنی حاجت پوری کرے۔
«فَلْیَتَوَارَ» اس میں ”لام“ امر کا ہے اور ”را“ پر فتحہ ہے۔ معنی ہیں کہ چھپنا چاہیے، پردے میں ہونا چاہیے۔
«وَلَا یَتَحَدَّثَا» قضائے حاجت کے وقت دونوں کو بات چیت نہیں کرنی چاہیے۔
«یمقت» «مقت» سے ماخوز ہے، سخت ناراضی کو کہتے ہیں۔
«علی ذلک» اس کا مشار الیہ مذکورہ تمام چیزیں ہیں، یعنی دونوں کے مابین پردے کا نہ ہونا اور رفع حاجت کے وقت بات چیت کرنا مراد ہے۔
«وَھُوَ مَعْلُوْلٌ» کہا گیا ہے کہ اس حدیث میں علت یہ ہے کہ اسے عکرمہ بن عمار نے یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کیا ہے۔ عکرمہ منفرد ہے اور اس کی یحییٰ سے روایت میں کلام ہے، البتہ امام مسلم اور امام بخاری رحمہ اللہ رحمہما اللہ نے یحییٰ کی روایت کو بطور استشہاد ذکر کیا ہے۔
فوائد ومسائل:
➊ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو عکرمہ بن عمار عن یحییٰ بن ابی کثیر کی وجہ سے معلول قرار دیا ہے، تاہم دوسری صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قابل ستر اعضاء کو چھپانا واجب ہے، نیز قضائے حاجت، یعنی بول و براز کے وقت باہم گفتگو کرنا حرام ہے، اس لیے ایسے فعل پر اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور بغض شدید کی صورت میں وعید فرمائی گئی ہے۔
➋ اگر یہ فعل بقول بعض مکروہ ہوتا تو اتنی سخت وعید کی ضرورت نہیں تھی۔ ایسے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سلام کا جواب چھوڑنا بھی عملاً ثابت ہے جو اس کا مؤید ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 82
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث342
´ایک ساتھ بیٹھ کر پاخانہ کرنا اور اس میں بات چیت کرنی منع ہے۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قضائے حاجت کے وقت دو آدمی آپس میں کانا پھوسی نہ کریں کہ آپس میں ہر ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھ رہا ہو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس سے سخت ناراض ہوتا ہے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 342]
اردو حاشہ:
(1)
حدیث کی اس سند میں ضعف ہے البتہ یہی حدیث دوسری سندوں کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ دیکھیے: (صحیح الجامع الصغیر، حدیث: 6013)
(2)
جب انسان قضائے حاجت کےوقت اپنا ستر کھولے ہوئے ہو تو اسے بات چیت کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
یہ شرم و حیا کے منافی ہے۔
اسی لیے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے۔
(3)
باتیں کرنا اس لیے بھی منع ہے کہ باتیں کرتے وقت انھیں ایک دوسرے کے قریب بیٹھنا پڑے گا جس کی وجہ سے پردے کا اہتمام نہیں ہوسکے گا اور ایک دوسرے کے پوشیدہ اعضاء پر نظر پڑے گی اور کسی کے پردے کے اعضاء کو دیکھنا اور اپنے پوشیدہ اعضاء کسی کو دکھانا گناہ ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 342
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ : 71
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”دو شخص قضائے حاجت کے لیے اس حالت میں نہ نکلیں کہ اُنہوں نے اپنی شرم گاہیں کھولی ہوئی ہوں اور وہ باتیں کر رہے ہوں۔ بیشک اللہ عزوجل اس پر سخت ناراض ہوتا ہے... [صحيح ابن خزيمه: 71]
فوائد:
یہ حدیث دلیل ہے کہ دو یا دو سے زائد افراد کا ایک ساتھ بیٹھ کر پاخانہ کرنا کہ ان کے ستر کھلے ہوں اور پاخانہ کرتے وقت باہم گفتگو کرنا حرام اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب ہے لٰہذا اس فعل قبیح سے اجتناب کرنا چاہیے۔ بالخصوص دیہاتی عورتوں میں یہ مرض عام ہے۔ لٰہذا اس کی اصلاح کرنی چاہیے۔
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 71