صحيح مسلم
كِتَاب التَّفْسِيرِ
قران مجيد كي تفسير كا بيان
1ق. بَابٌ فِي تَفْسِيرِ آيَاتٍ مُّتَفَرِّقَةٍ
باب: متفرق آیات کی تفسیر کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 7545
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ أَبِي بَزَّةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ " أَلِمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا مِنْ تَوْبَةٍ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: فَتَلَوْتُ عَلَيْهِ هَذِهِ الْآيَةَ الَّتِي فِي الْفُرْقَانِ وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ سورة الفرقان آية 68 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، قَالَ: هَذِهِ آيَةٌ مَكِّيَّةٌ نَسَخَتْهَا آيَةٌ مَدَنِيَّةٌ، وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا سورة النساء آية 93. وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ هَاشِمٍ، فَتَلَوْتُ عَلَيْهِ هَذِهِ الْآيَةَ الَّتِي فِي الْفُرْقَانِ إِلا مَنْ تَابَ سورة الفرقان آية 70 ".
عبد اللہ بن ہاشم اور عبد الرحمٰن بن بشر عبدی نے مجھے حدیث بیان کی دونوں نے کہا: ہمیں یحییٰ بن سعید قطان نے ابن جریج سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: مجھے قاسم بن ابی بزہ نے سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا جس شخص نے کسی مومن کو عمدا قتل کر دیا اس کے لیے توبہ (کی گنجائش) ہے؟انھوں نے کہا: نہیں (سعید بن جبیرنے) کہا: پھر میں نے ان کے سامنے سورہ فرقان کی یہ آیت تلاوت کی۔"وہ لوگ جو اللہ کے سواکسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور کسی جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے حق کے بغیر قتل نہیں کرتے "آیت کے آخر تک انھوں نے کہا: یہ مکی آیت ہےاس کو اس مدنی آیت نے منسوخ کر دیا: "اور جو کسی مومن کو عمدا قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔
سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا:کیا جس شخص نے کسی مومن کو عمدا قتل کر دیا اس کے لیے توبہ(کی گنجائش) ہے؟انھوں نے کہا: نہیں (سعید بن جبیرنے) کہا: پھر میں نے ان کے سامنے سورہ فرقان کی یہ آیت تلاوت کی۔"وہ لوگ جو اللہ کے سواکسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور کسی جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے حق کے بغیر قتل نہیں کرتے "آیت کے آخر تک انھوں نے کہا: یہ مکی آیت ہےاس کو اس مدنی آیت نے منسوخ کر دیا:"اور جو کسی مومن کو عمدا قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ رہے گا۔ابن ھاشم کی روایت میں ہے،سعید رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں،میں نے سورہ فرقان کی یہ آیت سنائی، إِلَّا مَن تَابَ،مگر جس نے توبہ کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 7545 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7545
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ان احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ مومن کو عمدا قتل کرنے والے کو ابدی جہنمی خیال کرتے تھےاور اس کی توبہ کی قبولیت کے قائل نہیں تھے اور سورۃ فرقان کی آیت،
جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قاتل کی توبہ قبول ہے،
اس کے دو جواب دیتے تھے،
(1)
سورۃ فرقان مکی سورت ہے اور سورۃ نساء مدنی سورت ہے،
اس لیے اس نے مکی آیت کو منسوخ کردیا اور مدنی آیت میں،
توبہ کا ذکر نہیں ہے اور اس کو کسی آیت نےمنسوخ بھی نہیں کیا ہے،
لہٰذا اس کاحکم برقرار ہے،
(2)
سورۃ فرقان کی آیت کا تعلق مشرکوں،
کافروں سے ہے اور اسلام تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے،
لیکن جو انسان مسلمان ہوچکا ہے،
اسلام کے احکام کو سمجھ چکا ہے،
پھر ناحق جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کردیتا ہے،
تو اس کی توبہ قبول نہیں ہے۔
لیکن اس کا جواب یہ ہے،
دونوں آیات میں تضاد نہیں ہے کہ ایک منسوخ بنانے کی ضرورت پڑے،
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ خود،
بعض ان آیات کو جن کو بعض حضرات منسوخ ٹھہراتے تھے،
ناسخ کے ساتھ تطبیق دے کر ان کے نسخ کا انکار فرماتےہیں،
ان آیات میں بھی یہی صورت ہے کہ اگر قاتل توبہ کرتا ہے اور اپنے عمل کی اصلاح کرلیتا ہے،
تو اس کی توبہ قبول ہوگی،
لیکن اگروہ توبہ نہیں کرتا،
کیونکہ سورہ نساء کی آیت میں توبہ کا ذکر نہیں ہے،
تو پھر اگر اللہ تعالیٰ اس کو اپنے فضل و کرم سے معاف نہیں کرتا،
تو اس کی سزا جہنم ہے اور خلود سے مراد طویل عرصہ ہے،
جب وہ اپنے گناہ کی سزابھگت لے گا،
یا اس کے حق میں کسی کی سفارش قبول ہوجائے گی،
تو اس کو جہنم سے نجات مل جائے گی اور اس کی دلیل یہ ہے کہ کفرو شرک سب سے بڑا گناہ ہے،
گر اس سے توبہ،
قابل قبول ہے،
توقتل نفس،
جو اس کے مقابلہ میں چھوٹا گناہ ہے تو اس کی توبہ کیوں قابل قبول نہیں ہے اور خود سورۃ فرقان کی آیت میں لفظ مَن عموم پر دلالت کرتا ہے،
اس میں کافر یا مؤمن کی قید نہیں ہے اور آیت میں لفظ اگر عام ہے،
تو اس کو سبب نزول کے ساتھ خاص نہیں کیا جاتا،
بلکہ لفظ کے عموم کی بنا پر عام ہی رکھا جاتا ہے،
نیز،
راہب کو قتل کرکے،
سو قتل کرنے والے کواگر معافی مل سکتی ہےاور اس کی توبہ قبول ہے،
تو ایک مسلمان کی توبہ کیوں قبول نہیں ہوگی اور علماء کے اس بارے میں مندرجہ ذیل اقوال ملتے ہیں،
(1)
قاتل کی توبہ قبول نہیں ہے،
ابن عباس،
زید بن ثابت،
عبداللہ بن عمر،
ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن،
عبید بن عمیر،
حسن بصری اور ضحاک سے یہی منقول ہے،
لیکن معلوم ہوتاہے،
یہ فتویٰ اس انسان کو دیتے تھے،
جس نے قتل کیا نہیں ہے،
وہ قتل کرنا چاہتاہے،
اس لیے،
ابن عمر،
ابن عباس اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے دوسرا (2)
یہ قول بھی منقول ہےکہ اس کی توبہ قبول ہوگی،
(3)
قاتل کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے،
وہ توبہ کرے یا توبہ نہ کرے،
احناف ائمہ ابو حنیفہ اور اس کے ساتھیوں کا یہی قول ہے۔
(4)
اگر اللہ قاتل کو سزا دینا چاہے،
معاف نہ کرے،
تو پھر سزا یہی ہے،
ابن عباس کا ایک قول یہی ہے،
لیکن جمہور کے نزدیک قاتل کی توبہ قبول ہے اور یہی صحیح موقف ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7545