Note: Copy Text and to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ
فتنے اور علامات قیامت
21. باب فِي صِفَةِ الدَّجَّالِ وَتَحْرِيمِ الْمَدِينَةِ عَلَيْهِ وَقَتْلِهِ الْمُؤْمِنَ وَإِحْيَائِهِ:
باب: دجال کے وصف اور اس پر مدینہ کی حرمت اور اس کا مومن کو قتل اور زندہ کرنے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 7375
حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَالْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ، وَالسِّيَاقُ لِعَبْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا حَدِيثًا طَوِيلًا عَنِ الدَّجَّالِ، فَكَانَ فِيمَا حَدَّثَنَا، قَالَ: " يَأْتِي وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْهِ أَنْ يَدْخُلَ نِقَابَ الْمَدِينَةِ، فَيَنْتَهِي إِلَى بَعْضِ السِّبَاخِ الَّتِي تَلِي الْمَدِينَةَ، فَيَخْرُجُ إِلَيْهِ يَوْمَئِذٍ رَجُلٌ هُوَ خَيْرُ النَّاسِ، أَوْ مِنْ خَيْرِ النَّاسِ، فَيَقُولُ لَهُ: أَشْهَدُ أَنَّكَ الدَّجَّالُ الَّذِي حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثَهُ؟، فَيَقُولُ الدَّجَّالُ: أَرَأَيْتُمْ إِنْ قَتَلْتُ هَذَا ثُمَّ أَحْيَيْتُهُ أَتَشُكُّونَ فِي الْأَمْرِ؟، فَيَقُولُونَ: لَا، قَالَ: فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يُحْيِيهِ، فَيَقُولُ: حِينَ يُحْيِيهِ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ فِيكَ قَطُّ أَشَدَّ بَصِيرَةً مِنِّي الْآنَ، قَالَ: فَيُرِيدُ الدَّجَّالُ أَنْ يَقْتُلَهُ، فَلَا يُسَلَّطُ عَلَيْهِ، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: يُقَالُ إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ هُوَ الْخَضِرُ عَلَيْهِ السَّلَام "،
صالح نے ابن شہاب سے روایت کی کہا: مجھے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بتایا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ دجال کے بارے میں لمبی گفتگو فرمائی۔ اس میں آپ نے ہمارے سامنے جو بیان کیا اس میں (یہ بھی) تھا کہ آپ نے فرمایا: "وہ آئے گا اس پرمدینہ کے راستے حرام کردیےگئے ہوں گے۔وہ مدینہ سے متصل ایک نرم شوریلی زمین تک پہنچے گا اس کے پاس ایک آدمی (مدینہ سے) نکل کر جائے گا۔جولوگوں میں سے بہترین یا بہترین لوگوں میں سے ایک ہو گا اور اس سے کہے گا۔میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گفتگو میں ہمیں بتایا تھا۔تودجال (اپنے ساتھ موجود لوگوں سے) کہے) گا تم لوگوں کا کیا خیال ہے کہ اگر میں اس شخص کو قتل کردوں اور پھر اسے زندہ کردوں تو کیا اس معاملے میں تمھیں کوئی شک (باقی) رہے گا؟وہ کہیں گے نہیں۔وہ اس شخص کو قتل کرے گا اور دوبارہ زندہ کردے گا۔جب وہ اس شخص کو زندہ کرے گاتو وہ اس سے کہے گا۔اللہ کی قسم!تمھارے بارے میں مجھے اب سے پہلے اس سے زیادہ بصیرت کبھی حاصل نہیں تھی۔فرمایا: دجال اسے قتل کرنا چاہے گا لیکن اسے اس شخص پر تسلط حاصل نہیں ہو سکے گا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت، امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے بیان کرتے ہیں سب کے الفاظ ملتے جلتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے بارے میں طویل حدیث بیان فرمائی، جو کچھ آپ نے ہمیں سنایا، اس میں یہ بھی تھا۔"وہ آئے گا اور مدینہ کے اندرونی راستوں پر اس کا داخلہ ممنوع ہے۔چنانچہ وہ مدینہ کے قریبی شوریلے بنجر علاقہ تک پہنچے گا سو اس دن اس کے پاس سب لوگوں سے بہتر یا بہترین لوگوں میں سے ایک آدمی جائے گا اور اسے کہے گا میں گواہی دیتا ہوں تو وہی دجال ہے، جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا تو دجال کہے گا، اے لوگو! بتاؤ،اگر میں اسے قتل کردوں، پھر اس کو زندہ کردوں تو کیا تم میرے بارے میں شک میں رہو گے؟وہ کہیں گے نہیں تو وہ اس کو قتل کردے گا، پھر اس کو زندہ کرے گا تو جب اس کو زندہ کر چکے گا وہ آدمی کہے گا، اللہ کی قسم! آج سے زیادہ میں کبھی بھی تیرے بارے میں بصیرت نہیں رکھتا تھا تو وہ دجال اس کو قتل کرنا چاہے گا، تو اسے اس پر قابو نہیں دیا جائے گاامام مسلم کے شاگرد ابو اسحاق (ابراہیم بن سفیان) کہتے ہیں، یہ آدمی خضر ؑ ہے۔
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 7375 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7375  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
نقاب،
نقب کی جمع ہے،
درہ،
راستہ،
(2)
سباخ،
سبخة کی جمع ہے،
شوریلی زمین۔
(3)
يقولون لي:
اس کے ساتھی یہودی کہیں گے،
تیرے معاملہ میں شک نہیں رہے گا،
اگر مسلمان مراد ہیں تو معنی ہوگا،
تیرے دجل وفریب میں کوئی شک نہیں رہے گا۔
(4)
يقال هذا،
هوالخضر:
قائل کون ہے،
اس کی تعیین نہیں ہے،
ہاں،
یہ ان لوگوں کا نظریہ ہے،
جو حضرت خضر علیہ السلام کو زندہ مانتے ہیں،
اس کے سوا کوئی دلیل نہیں ہے۔
جبکہ اگلی حدیث میں آرہا ہے،
رجل من المومنينوہ اس دور کے مومنوں میں سے ہوگا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7375   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1882  
1882. حضرت ابو سعیدخدری ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دجال کے متعلق ایک طویل حدیث بیان کی۔ اس حدیث میں یہ بھی فرمایا: جب دجال آئے گا تو مدینہ طیبہ سے باہر ایک شوریلی زمین میں ٹھہرے گا۔ کیونکہ اس پر مدینہ طیبہ کے اندر آنا حرام کردیا گیا ہے۔ پھر اہل مدینہ سے وہ شخص اس کے پاس جائے گا جو اس وقت کے تمام لوگوں سے بہتر ہوگا وہ کہے گا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے ہمیں آگاہ کیا تھا۔ دجال کہےگا: بتاؤ!اگر میں اسے قتل کرکے دوبارہ زندہ کردوں تو کیا تم پھر بھی میرے معاملے میں شک کرو گے؟لوگ کہیں گے: نہیں، چنانچہ وہ، اس شخص کو قتل کردے گا اور پھر زندہ کرے گا تو وہ شخص کہے گا: اللہ کی قسم!اب تو میں اور زیادہ تیرے حال سے واقف ہوگیا ہوں۔ دجال کہے گا: میں پھر اسے قتل کرتا ہوں لیکن پھر وہ اس پر قابو نہیں پاسکے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1882]
حدیث حاشیہ:
حقیقت میں دجال کی یہ مجال نہیں کہ کسی کو مار کر پھر جلا سکے، یہ تو خاص صفت الٰہی ہے مگر اللہ پاک ایمان والوں کو آزمانے کے لیے دجال کے ہاتھ پر یہ نشانی ظاہر کردے گا۔
نادان لوگ دجال کی خدائی کے قائل ہوجائیں گے لیکن جو سچے ایمان دار ہیں اوراپنے معبود حقیقی کو پہچانتے ہیں وہ اس سے متاثر نہ ہوں گے بلکہ اس کے کافر دجال ہونے پر ان کا ایمان اور بڑھ جائے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1882   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7132  
7132. سیدنا ابو سعید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک دن نبی ﷺ نے ہم سے دجال کے متعلق ایک طویل حدیث بیان فرمائی۔ آپ کے ارشادات میں سے یہ بھی تھا کہ آپ نے فرمایا: دجال آئے گا اور اس کے لیے ناممکن ہوگا کہ وہ مدینہ طیبہ کے راستوں میں داخل ہو، چنانچہ مدینہ طیبہ کے قریب کسی شور یلی زمین پر قیام کرے گا۔ اس دن اس کے پاس ایک مرد مومن جائے گا جو سب لوگوں سے بہتر ہوگا: وہ کہے گا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کی خبر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دی تھی۔ اس پر دجال کہے گا: تم ہی بتاؤ اگر میں اسے قتل کر دوں، پھر اسے زندہ کروں تو کیا تمہیں میرے معاملے میں کوئی شک وشبہ باقی رہے گا؟ لوگ کہیں گے: نہیں، چنانچہ دجال اس کو قتل کر دےگا، پھر اسے زندہ کر لے گا۔ اب وہ آدمی کہے گا: اللہ کی قسم! آج سے زیادہ مجھے تیرے معاملے میں پہلے اتنی بصیرت کبھی حاصل نہیں تھی۔ اس کے بعد دجال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7132]
حدیث حاشیہ:
امت کا یہ بہترین شخص ہوگا جس کے ذریعہ دجال کو شکست فاش ہوگی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7132   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1882  
1882. حضرت ابو سعیدخدری ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دجال کے متعلق ایک طویل حدیث بیان کی۔ اس حدیث میں یہ بھی فرمایا: جب دجال آئے گا تو مدینہ طیبہ سے باہر ایک شوریلی زمین میں ٹھہرے گا۔ کیونکہ اس پر مدینہ طیبہ کے اندر آنا حرام کردیا گیا ہے۔ پھر اہل مدینہ سے وہ شخص اس کے پاس جائے گا جو اس وقت کے تمام لوگوں سے بہتر ہوگا وہ کہے گا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے ہمیں آگاہ کیا تھا۔ دجال کہےگا: بتاؤ!اگر میں اسے قتل کرکے دوبارہ زندہ کردوں تو کیا تم پھر بھی میرے معاملے میں شک کرو گے؟لوگ کہیں گے: نہیں، چنانچہ وہ، اس شخص کو قتل کردے گا اور پھر زندہ کرے گا تو وہ شخص کہے گا: اللہ کی قسم!اب تو میں اور زیادہ تیرے حال سے واقف ہوگیا ہوں۔ دجال کہے گا: میں پھر اسے قتل کرتا ہوں لیکن پھر وہ اس پر قابو نہیں پاسکے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1882]
حدیث حاشیہ:
(1)
عصر حاضر کے دجالوں نے ایسی ایجادات بنا ڈالی ہیں کہ چند گھنٹوں میں ساری دنیا کا چکر لگا لیتے ہیں پھر حقیقی دجال جس وقت آئے گا اس وقت نہ جانے ایجادات کا سلسلہ کہاں تک پہنچ چکا ہو گا، اس لیے تھوڑی سی مدت میں اس کا روئے زمین کا چکر لگانا کوئی بعید نہیں، البتہ مدینہ طیبہ اور مکہ مکرمہ میں اس کا سرکاری طور پر داخلہ ممنوع ہو گا۔
مدینہ طیبہ کی شوریلی زمین پر اپنے ڈیرے لگائے گا۔
لوگ خوف کے مارے اس کی ہاں میں ہاں ملائیں گے لیکن اس کے دجال ہونے میں، پھر دین سے خارج ہونے میں انہیں ذرہ بھر بھی شک نہیں ہو گا۔
(2)
دجال میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ کسی کو مار کر دوبارہ زندہ کر سکے کیونکہ مُردوں کو زندہ کرنا تو اللہ کی صفت ہے لیکن اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا امتحان لینے کے لیے دجال کے ہاتھوں یہ کرشمہ ظاہر کرے گا تاکہ اہل ایمان اور منافقین کے درمیان خط امتیاز ثابت ہو، چنانچہ اس کی شعبدہ بازی دیکھ کر نادان لوگ اس کی الوہیت کے قائل ہو جائیں گے لیکن سچے اہل ایمان اس سے ذرہ بھر متاثر نہیں ہوں گے بلکہ اس کے کافر اور دجال ہونے پر ان کا ایمان اور زیادہ بڑھ جائے گا۔
(3)
اس حدیث پر کتاب الفتن میں ہم تفصیل سے گفتگو کریں گے۔
بإذن اللہ
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1882   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7132  
7132. سیدنا ابو سعید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک دن نبی ﷺ نے ہم سے دجال کے متعلق ایک طویل حدیث بیان فرمائی۔ آپ کے ارشادات میں سے یہ بھی تھا کہ آپ نے فرمایا: دجال آئے گا اور اس کے لیے ناممکن ہوگا کہ وہ مدینہ طیبہ کے راستوں میں داخل ہو، چنانچہ مدینہ طیبہ کے قریب کسی شور یلی زمین پر قیام کرے گا۔ اس دن اس کے پاس ایک مرد مومن جائے گا جو سب لوگوں سے بہتر ہوگا: وہ کہے گا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کی خبر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں دی تھی۔ اس پر دجال کہے گا: تم ہی بتاؤ اگر میں اسے قتل کر دوں، پھر اسے زندہ کروں تو کیا تمہیں میرے معاملے میں کوئی شک وشبہ باقی رہے گا؟ لوگ کہیں گے: نہیں، چنانچہ دجال اس کو قتل کر دےگا، پھر اسے زندہ کر لے گا۔ اب وہ آدمی کہے گا: اللہ کی قسم! آج سے زیادہ مجھے تیرے معاملے میں پہلے اتنی بصیرت کبھی حاصل نہیں تھی۔ اس کے بعد دجال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7132]
حدیث حاشیہ:

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ دجال ایک نوجوان کو بلائے گا۔
اور اس کے دو ٹکڑے کردے گا۔
جس طرح نشانہ لگانے کی غرض سے لگائی گئی چیز دو ٹکڑے ہو جاتی ہے پھر اسے زندہ کر کے بلائے گا۔
تو وہ نوجوان چمکتے دمکتے اور مسکراتے چہرے کے ساتھ اس کی طرف چلا آئے گا۔
(صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 2937(7373)

دجال کی شعبدہ بازی بار بار نہیں چلے گی وہ جو کام ایک مرتبہ کرے گا۔
اسے دوبارہ نہیں کر سکے گا۔
حدیث میں مذکورہ شخص امت کا بہترین مومن ہو گا جس کے ذریعے سے دجال کو شکست فاش ہوگی۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ دجال مدینہ طیبہ میں داخل نہیں ہو سکے گا۔
اس کی وضاحت آئندہ حدیث میں ہو گی۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7132