Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْفِتَنِ وَأَشْرَاطِ السَّاعَةِ
فتنے اور علامات قیامت
20. باب ذِكْرِ الدَّجَّالِ :
باب: دجال کا بیان۔
حدیث نمبر: 7373
حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ جَابِرٍ الطَّائِيُّ قَاضِي حِمْصَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِيَّ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَابِرٍ الطَّائِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّجَّالَ ذَاتَ غَدَاةٍ، فَخَفَّضَ فِيهِ وَرَفَّعَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ، فَلَمَّا رُحْنَا إِلَيْهِ عَرَفَ ذَلِكَ فِينَا، فَقَالَ: " مَا شَأْنُكُمْ؟ "، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَكَرْتَ الدَّجَّالَ غَدَاةً، فَخَفَّضْتَ فِيهِ وَرَفَّعْتَ حَتَّى ظَنَنَّاهُ فِي طَائِفَةِ النَّخْلِ، فَقَالَ: " غَيْرُ الدَّجَّالِ أَخْوَفُنِي عَلَيْكُمْ إِنْ يَخْرُجْ، وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ، وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ، فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ إِنَّهُ شَابٌّ قَطَطٌ عَيْنُهُ طَافِئَةٌ كَأَنِّي أُشَبِّهُهُ بِعَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قَطَنٍ، فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنْكُمْ، فَلْيَقْرَأْ عَلَيْهِ فَوَاتِحَ سُورَةِ الْكَهْفِ إِنَّهُ خَارِجٌ خَلَّةً بَيْنَ الشَّأْمِ وَالْعِرَاقِ، فَعَاثَ يَمِينًا وَعَاثَ شِمَالًا، يَا عِبَادَ اللَّهِ فَاثْبُتُوا " قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا لَبْثُهُ فِي الْأَرْضِ؟، قَالَ: " أَرْبَعُونَ يَوْمًا يَوْمٌ كَسَنَةٍ، وَيَوْمٌ كَشَهْرٍ، وَيَوْمٌ كَجُمُعَةٍ وَسَائِرُ أَيَّامِهِ كَأَيَّامِكُمْ "، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَسَنَةٍ أَتَكْفِينَا فِيهِ صَلَاةُ يَوْمٍ؟، قَالَ: لَا اقْدُرُوا لَهُ قَدْرَهُ "، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا إِسْرَاعُهُ فِي الْأَرْضِ؟، قَالَ: " كَالْغَيْثِ اسْتَدْبَرَتْهُ الرِّيحُ، فَيَأْتِي عَلَى الْقَوْمِ، فَيَدْعُوهُمْ فَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَجِيبُونَ لَهُ، فَيَأْمُرُ السَّمَاءَ فَتُمْطِرُ، وَالْأَرْضَ فَتُنْبِتُ، فَتَرُوحُ عَلَيْهِمْ سَارِحَتُهُمْ أَطْوَلَ مَا كَانَتْ ذُرًا وَأَسْبَغَهُ ضُرُوعًا، وَأَمَدَّهُ خَوَاصِرَ ثُمَّ يَأْتِي الْقَوْمَ، فَيَدْعُوهُمْ فَيَرُدُّونَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ فَيَنْصَرِفُ عَنْهُمْ، فَيُصْبِحُونَ مُمْحِلِينَ لَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَيَمُرُّ بِالْخَرِبَةِ، فَيَقُولُ: لَهَا أَخْرِجِي كُنُوزَكِ، فَتَتْبَعُهُ كُنُوزُهَا كَيَعَاسِيبِ النَّحْلِ ثُمَّ يَدْعُو رَجُلًا مُمْتَلِئًا شَبَابًا، فَيَضْرِبُهُ بِالسَّيْفِ فَيَقْطَعُهُ جَزْلَتَيْنِ رَمْيَةَ الْغَرَضِ ثُمَّ يَدْعُوهُ، فَيُقْبِلُ وَيَتَهَلَّلُ وَجْهُهُ يَضْحَكُ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ، فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِيَّ دِمَشْقَ بَيْنَ مَهْرُودَتَيْنِ، وَاضِعًا كَفَّيْهِ عَلَى أَجْنِحَةِ مَلَكَيْنِ إِذَا طَأْطَأَ رَأْسَهُ قَطَرَ، وَإِذَا رَفَعَهُ تَحَدَّرَ مِنْهُ جُمَانٌ كَاللُّؤْلُؤِ، فَلَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ يَجِدُ رِيحَ نَفَسِهِ إِلَّا مَاتَ وَنَفَسُهُ يَنْتَهِي حَيْثُ يَنْتَهِي طَرْفُهُ، فَيَطْلُبُهُ حَتَّى يُدْرِكَهُ بِبَابِ لُدٍّ، فَيَقْتُلُهُ ثُمَّ يَأْتِي عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ قَوْمٌ قَدْ عَصَمَهُمُ اللَّهُ مِنْهُ، فَيَمْسَحُ عَنْ وُجُوهِهِمْ وَيُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ، فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَوْحَى اللَّهُ إِلَى عِيسَى إِنِّي قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِي لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ، فَحَرِّزْ عِبَادِي إِلَى الطُّورِ، وَيَبْعَثُ اللَّهُ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ، فَيَمُرُّ أَوَائِلُهُمْ عَلَى بُحَيْرَةِ طَبَرِيَّةَ، فَيَشْرَبُونَ مَا فِيهَا وَيَمُرُّ آخِرُهُمْ، فَيَقُولُونَ: لَقَدْ كَانَ بِهَذِهِ مَرَّةً مَاءٌ، وَيُحْصَرُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى، وَأَصْحَابُهُ حَتَّى يَكُونَ رَأْسُ الثَّوْرِ لِأَحَدِهِمْ خَيْرًا مِنْ مِائَةِ دِينَارٍ لِأَحَدِكُمُ الْيَوْمَ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّه عِيسَى وَأَصْحَابُهُ فَيُرْسِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمُ النَّغَفَ فِي رِقَابِهِمْ، فَيُصْبِحُونَ فَرْسَى كَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ، ثُمَّ يَهْبِطُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى الْأَرْضِ، فَلَا يَجِدُونَ فِي الْأَرْضِ مَوْضِعَ شِبْرٍ إِلَّا مَلَأَهُ زَهَمُهُمْ وَنَتْنُهُمْ، فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ، فَيُرْسِلُ اللَّهُ طَيْرًا كَأَعْنَاقِ الْبُخْتِ، فَتَحْمِلُهُمْ فَتَطْرَحُهُمْ حَيْثُ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ مَطَرًا لَا يَكُنُّ مِنْهُ بَيْتُ مَدَرٍ، وَلَا وَبَرٍ فَيَغْسِلُ الْأَرْضَ حَتَّى يَتْرُكَهَا كَالزَّلَفَةِ، ثُمَّ يُقَالُ لِلْأَرْضِ: أَنْبِتِي ثَمَرَتَكِ وَرُدِّي بَرَكَتَكِ، فَيَوْمَئِذٍ تَأْكُلُ الْعِصَابَةُ مِنَ الرُّمَّانَةِ وَيَسْتَظِلُّونَ بِقِحْفِهَا، وَيُبَارَكُ فِي الرِّسْلِ حَتَّى أَنَّ اللِّقْحَةَ مِنَ الْإِبِلِ لَتَكْفِي الْفِئَامَ مِنَ النَّاسِ، وَاللِّقْحَةَ مِنَ الْبَقَرِ لَتَكْفِي الْقَبِيلَةَ مِنَ النَّاسِ، وَاللِّقْحَةَ مِنَ الْغَنَمِ لَتَكْفِي الْفَخِذَ مِنَ النَّاسِ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ بَعَثَ اللَّهُ رِيحًا طَيِّبَةً، فَتَأْخُذُهُمْ تَحْتَ آبَاطِهِمْ، فَتَقْبِضُ رُوحَ كُلِّ مُؤْمِنٍ وَكُلِّ مُسْلِمٍ وَيَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ يَتَهَارَجُونَ فِيهَا تَهَارُجَ الْحُمُرِ، فَعَلَيْهِمْ تَقُومُ السَّاعَةُ "،
‏‏‏‏ سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صبح کو دجال کا ذکر کیا تو کبھی اس کو گھٹایا اور کبھی بڑھایا (یعنی کبھی اس کی تحقیر کی اور کبھی اس کے فتنہ کو بڑا کہا یا کبھی بلند آواز سے گفتگو کی اور کبھی پست آواز سے) یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ دجال ان درختوں کے جھنڈ میں آ گیا۔ جب ہم پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شام کو آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے چہروں پر اس کا اثر معلوم کیا (یعنی ڈر اور خوف)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کیا حال ہے؟ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے دجال کا ذکر کیا اور اس کو گھٹایا اور بڑھایا یہاں تک کہ ہم کو گمان ہو گیا کہ دجال ان درختوں میں کھجور کے جھنڈ میں موجود ہے (یعنی اس کا آنا بہت قریب ہے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ کو دجال کے سوا اور باتوں کا خوف تم پر زیادہ ہے (فتنوں کا، آپس میں لڑائیوں کا) اگر دجال نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود ہوا تو تم سے پہلے میں اس کو الزام دوں گا اور تم کو اس کے شر سے بچاؤں گا اور اگر وہ نکلا اور میں تم لوگوں میں موجود نہ ہوا تو ہر مرد مسلمان اپنی طرف سے اس کو الزام دے گا اور حق تعالیٰ میرا خلیفہ اور نگہبان ہے ہر مسلمان پر۔ البتہ دجال تو جوان گھونگریالے بالوں والا ہے، اس کی آنکھ میں ٹینٹ ہے گویا کہ میں اس کی مشابہت دیتا ہوں عبدالعزیٰ بن قطن کے ساتھ (عبدالعزیٰ ایک کافر تھا)۔ سو جو شخص تم میں سے دجال کو پائے اس کو چاہیے کہ سورۂ کہف کے شروع کی آیتیں اس پر پڑھے۔ مقرر وہ نکلے گا شام اور عراق کی راہ سے تو خرابی ڈالے گا داہنے اور فساد اٹھائے گا بائیں۔ اے اللہ کے بندو! ایمان پر قائم رہنا۔ اصحاب بولے: یا رسول اللہ! وہ زمین پر کتنی مدت رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چالیس دن تک۔ ایک دن ان میں سے ایک سال کے برابر ہو گا اور دوسرا ایک مہینے کے اور تیسرا ایک ہفتے کے اور باقی دن جیسے یہ تمہارے دن ہیں۔ (تو ہمارے دنوں کے حساب سے دجال ایک برس دو مہینے چودہ دن تک رہے گا)۔ اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جو دن سال بھر کے برابر ہو گا اس دن ہم کو ایک ہی دن کی نماز کفایت کرے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں تم اندازہ کر لینا اس دن میں بقدر اس کے یعنی جتنی دیر کے بعد ان دنوں میں نماز پڑھتے ہو اسی طرح اس دن بھی اندازہ کر کے پڑھ لینا . (اب تو گھڑیاں بھی موجود ہیں ان سے وقت کا اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے۔ نووی رحمہ اللہ کہا: اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں صاف نہ فرماتے تو قیاس یہ تھا کہ اس دن صرف پانچ نمازیں پڑھنا ہی کافی ہوتیں کیونکہ ہر دن رات میں خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں مگر یہ قیاس نص سے ترک کیا گیا ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ عرض تسعین میں جو خط استواء سے نوے درجہ پر واقع ہے اور جہاں کا افق معدل النہار ہے چھ مہینے کا دن اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے تو ایک دن رات سال بھر کا ہوتا ہے پس اگر بالفر‌ض انسان وہاں پہنچ جائے اور جئیے تو سال میں پانچ نمازیں پڑھنا ہوں گی) اصحاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی چال زمین میں کیونکر ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جیسے وہ مینہ جس کو ہوا پیچھے سے اڑاتی ہے سو وہ ایک قوم کے پاس آئے گا تو ان کو کفر کی طرف بلائے گا وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی بات مانیں گے تو آسمان کو حکم کرے گا وہ پانی برسائے گا اور زمین کو حکم کرے گا وہ ان کی گھاس اور اناج اگائے گی۔ تو شام کو گورو (جانور) آئیں گے پہلے سے زیادہ ان کے کوہان لمبے ہوں گے تھن کشادہ ہوں گے کوکھیں تنی ہوئیں (یعنی خوب موٹی ہو کر) پھر دجال دوسری قوم کے پاس آئے گا۔ ان کو بھی کفر کی طرف بلائے گا لیکن وہ اس کی بات کو نہ مانیں گے۔ تو ان کی طرف سے ہٹ جائے گا ان پر قحط سالی اور خشکی ہو گی۔ ان کے ہاتھوں میں ان کے مالوں میں سے کچھ نہ رہے گا اور دجال ویران زمین پر نکلے گا تو اس سے کہے گا: اے زمین! اپنے خزانے نکال۔ تو وہاں کے مال اور خزانے نکل کر اس کے پاس جمع ہو جائیں گے جیسے شہد کی مکھیاں بڑی مکھی کے گرد ہجوم کرتی ہیں۔ پھر دجال ایک جوان مرد کو بلائے گا اور اس کو تلوار سے مارے گا اور دو ٹکڑے کر ڈالے گا جیسا نشانہ دو ٹوک ہو جاتا ہے۔ پھر اس کو زندہ کر کے پکارے گا: سو وہ جوان سامنے آئے گا۔ چہرہ دمکتا ہوا اور ہنستا ہوا دجال اسی حال میں ہو گا کہ ناگاہ حق تعالیٰ عیسٰی بن مریم علیہ السلام کو بھیجے گا۔ عیسٰی علیہ السلام سفید مینار کے پاس اتریں گے دمشق کے شہر میں مشرق کی طرف زرد رنگ کا جوڑا پہنے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے۔ جب عیسٰی علیہ السلام اپنا سر جھکائیں گے تو پسینہ ٹپکے گا۔ اور جب اپنا سر اٹھائیں گے تو موتی کی طرح بوندیں بہیں گی۔ جس کافر کے پاس عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے اس کو ان کے دم کی بھاپ لگے گی وہ مر جائے گا اور ان کے دم کا اثر وہاں تک پہنچے گا جہاں تک ان کی نظر پہنچے گی۔ پھر عیسٰی علیہ السلام دجال کو تلاش کریں گے یہاں تک کہ پائیں گے اس کو باب لد پر (لد شام میں ایک پہاڑ کا نام ہے) سو اس کو قتل کریں گے۔ پھر عیسٰی علیہ السلام ان لوگوں کے پاس آئیں گے جن کو اللہ نے دجال سے بچایا۔ سو شفقت سے ان کے چہروں کو سہلائیں گے اور ان کو خبر کریں گے ان درجوں کی جو بہشت میں ان کے رکھے ہیں۔ وہ اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسٰی علیہ السلام پر وحی بھیجے گا کہ میں نے اپنے ایسے بندے نکالے ہیں کہ کسی کو ان سے لڑنے کی طاقت نہیں تو پناہ میں لے جا میرے مسلمان بندوں کو طور کی طرف اور اللہ بھیجے گا یاجوج اور ماجوج کو اور وہ ہر ایک اونچائی سے نکل پڑیں گے۔ ان میں کے پہلے لوگ طبرستان کے دریا پر گزریں گے اور جتنا پانی اس میں ہو گا سب پی لیں گے۔ پھر ان میں کے پچھلے لوگ جب وہاں آئیں گے تو کہیں گے کبھی اس دریا میں پانی بھی تھا۔ پھر چلیں گے یہاں تک کہ اس پہاڑ تک پہنچیں گے جہاں درختوں کی کثرت ہے یعنی بیت المقدس کا پہاڑ تو وہ کہیں گے البتہ ہم زمین والوں کو قتل کر چکے۔ آؤ اب آسمان والوں کو بھی قتل کریں۔ تو اپنے تیر آسمان کی طرف چلائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان تیروں کو خون میں بھر کر لوٹا دے گا وہ سمجھیں گے کہ آسمان کے لوگ بھی مارے گئے۔ (یہ مضمون اس روایت میں نہیں ہے، اس کے بعد کی روایت سے لیا گیا ہے۔) اور اللہ کے پیغمبر عیسٰی علیہ السلام اور ان کے اصحاب گھرے رہیں گے یہاں تک کہ ان کے نزدیک بیل کا سر افضل ہو گا سو اشرفی سے آج تمہارے نزدیک (یعنی کھانے کی نہایت تنگی ہو گی) پھر اللہ کے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی دعا کریں گے۔ سو اللہ تعالیٰ یاجوج اور ماجوج کے لوگوں پر عذاب بھیجے گا۔ ان کی گردنوں میں کیڑا پیدا ہو گا تو صبح تک سب مر جائیں گے جیسے ایک آدمی مرتا ہے۔ پھر اللہ کے رسول عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی زمین میں اتریں گے توزمین میں ایک بالشت برابر جگہ ان سڑاند اور گندگی سے خالی نہ پائیں گے (یعنی تمام زمین پر ان کی سڑی ہوئی لاشیں پڑی ہوں گی) پھر اللہ تعالیٰ کے رسول عیسٰی علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو حق تعالیٰ چڑیوں کو بھیجے گا بڑے اونٹوں کی گردن کے برابر۔ وہ ان کو اٹھا لے جائیں گے اور ان کو پھینک دیں گے جہاں اللہ کا حکم ہو گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ایسا پانی برسائے گا کہ کوئی گھر مٹی کا اور بالوں کا اس پانی سے باقی نہ رہے گا سو اللہ تعالیٰ زمین کو دھو ڈالے گا یہاں تک کہ زمین کو مثل حوض یا باغ یا صاف عورت کے کر دے گا پھر زمین کو حکم ہو گا کہ اپنے پھل جما اور اپنی برکت کو پھیر دے اور اس دن ایک انار کو ایک گروہ کھائے گا اور اس کے چھلکے کو بنگلہ سا بناکر اس کے سایہ میں بیٹھیں گے اور دودھ میں برکت ہو گی یہاں تک کہ دو دھار اونٹنی آدمیوں کے بڑے گروہ کو کفایت کرے گی اور دو دھار گائے ایک برادری کے لوگوں کو کفایت کرے گی اور دو دھار بکری ایک جدی لوگوں کو کفایت کرے گی۔ سو اسی حالت میں لوگ ہوں گے کہ یکایک حق تعالیٰ ایک پاک ہوا بھیجے گا کہ ان کی بغلوں کے نیچے لگے گی اور اثر کر جائے گی۔ تو ہر مؤمن اور مسلم کی روح کو قبض کرے گی اور برے بدذات لوگ باقی رہ جائیں گے۔ آپس میں بھڑیں گے گدھوں کی طرح ان پر قیامت قائم ہو گی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 7373 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7373  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
فخفض فيه ورافع:
اس کے بارے میں طویل گفتگو فرماتے ہوئے،
آواز کو کبھی پست کیا اور کبھی بلند کیا،
یا کبھی اس کے مقام ومرتبہ کی تحقیر کی کہ وہ کانا ہے،
اللہ کے نزدیک وہ بہت حقیر ہے،
وہ صرف ایک آدمی کو قتل کرسکے گا،
بعد میں قتل ہوگا،
اس کے ساتھی شکست کھا کر قتل ہوجائیں گے اور کبھی اس کے فتنہ اور آزمائش کو بڑا بیان کیااور اس سے خرق عادت کام سرزد ہوں گے،
اس لیے ہر نبی نے اس کے خطرہ سے ڈرایا ہے۔
(2)
غيرالدجال اخوفني عليكم یعنی دجال کے سوا فتنے مجھے زیادہ خوفناک محسوس ہوتے ہیں،
جیسے باہمی خانہ جنگی،
دنیا کی حرص وآز،
گمراہ کرنے والے ضلالت پیشہ رہنما۔
(3)
انا حجيجه:
میں اس کے ساتھ دلیل وحجت سے بات کروں گا،
یہ بات آپ نے محض علی سبیل الفرض کہی تھی،
کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے شاید وہ نموداور ہوچکا ہے،
وگرنہ یہ تو طے ہے،
اس کا ظہور آخری زمانہ میں ہوگا،
جیسا کہ آگے آرہا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسے قتل کریں گے۔
(4)
كاني لمشبهه:
چونکہ دجال جیسی قبیح اور بدشکل،
کسی کی شکل نہیں ہے،
اس لیے آپ نے كاني،
گویا کا لفظ استعمال کیا۔
(5)
فليقرا عليه فواتح سورة الكهف:
اس کے فتنہ سے بچنے کے لیے سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے،
دجال کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لیے ابتدائی تین آیات کا پڑھنا کافی ہے،
اگریہ یا،
دس آیات کرنی چاہییں،
کیونکہ بعد والی آیات میں انسان کی آزمائش وابتلا کا تذکرہ ہے اور زمینی اشیاء کی دلکشی اور رعنائی کا امتحان مقصد کے لیے بیان ہے،
(6)
خلة:
سنگریزوں والاراستہ،
راستہ۔
(7)
عاث:
ماضی کا صیغہ ہے،
کیونکہ اس کے فساد کا وقوع یقینی ہے کہ وہ بہت جلد فساد پھیلائے گا۔
(8)
اقدرواله قدره:
دن کا اندازہ لگاؤ،
جتنی دیر کے بعد ان دنوں نماز پڑھتے ہو،
اتنی دیر کے بعد نمازیں پڑھتے رہنا،
کیونکہ اللہ خرق عادت کے طور پر،
ابتدائی تین دن،
سال،
مہینہ اور ہفتہ کے برابر کردےگا،
سورج یا زمین کی رفتار انتہائی سست کردےگا،
یا وہ ایسے علاقے سے نمودار ہوگا،
جہاں دن رات کا باربار آنا کم ہوتے ہیں۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
جن علاقوں میں دن رات عام طریقہ کے مطابق نہیں ہیں،
وہ نماز اور روزہ کے لیے اندازہ کرلیں گے اور جن علاقوں میں دن اور رات چھ چھ ماہ کے ہیں،
وہاں دن،
رات میں صرف پانچ نمازیں کافی نہیں ہوں گی،
بلکہ چوبیس گھنٹوں میں،
پانچ نمازیں پڑھنی ہوں گی اور اس کے مطابق روزہ رکھنا ہوگا،
اس کے لیے اپنی قریبی علاقہ کے دن،
رات کو سامنے رکھا جائے گا۔
(9)
كالغيث استدبرته الريح:
اس بادلوں کی طرح جس کو ہوا اڑاتی ہے،
یعنی وہ مسافت بہت جلد طے کرے گا،
لوگوں کے امتحان اور آزمائش کے لیے اس سے خارق عادت بہت سے کام سرزد ہوں گے اور یہ سب کچھ اللہ کی مشیت اور ارادہ سے ہوگا۔
(10)
فيصبحون ممحلين:
وہ قحط کا شکار ہوجائیں گے۔
(11)
يعاسيب،
يعسوب کی جمع ہے،
شہد کی مکھیوں کے سردار،
جس کے پیچھے وہ اڑتی ہیں۔
(12)
جزلة،
ٹکڑا،
(13)
رمية الغرض:
تیر کے نشانہ کا فاصلہ،
دونوں ٹکڑوں کے درمیان کافی فاصلہ ہوگا۔
(14)
ينزل عند المنارة البيضاء شرقي دمشق:
وہ دمشق کے مشرق میں سفید منارہ کے پاس اتریں گے،
(15)
بين مهرودتين:
دوزرد چادروں میں،
یعنی ان کا جوڑا انتہائی خوبصورت ہوگا،
(16)
جمان:
چاندی کے دانے یامنکے،
بقول حافظ ابن کثیر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف اٹھایا گیا ہے تو ان کے سر سے پانی کے قطرے گررہے تھے،
اس حالت میں وہ اتریں گے،
جو اس بات کی علامت ہوگی کہ آپ زندہ رہے ہیں،
(17)
فلا يحل لكافر ان يجدريح نفسه الامات،
جس کافر تک عیسی علیہ السلام کے سانس کی مہک پہنچے گی،
وہ موت سے بچ نہیں سکے گا،
اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ فوراً مرجائے گا،
بلکہ مقصد یہ ہے کہ اب وہ زندہ نہیں رہ سکے گا اور دجال کو خصوصی طور پر،
آپ قتل کریں گے،
تاکہ لوگوں کو اس کا خون اپنے بھالے پر دکھائیں،
وگرنہ وہ بھی آپ کے سانس کی بو سے ہلاک ہوجاتا،
اس لیے کسی تاویل کی ضرورت نہیں ہے۔
(18)
لد:
آج کل اسرائیل کا ہوائی اڈہ ہے اور یہ شہر فلسطین کے علاقہ میں،
بیت المقدس کے قریب واقع ہے۔
(19)
يمسح عن وجوههم:
عزت وتکریم کے لیے،
سفر کی وجہ سے ان کے چہروں پر جو گردوغبار ہوگی،
اس کو صاف کریں گے،
یا دجال کے قتل کی خبردےکر،
تبرک وبرکت کے لیے،
غم وحزن اور خوف دور کرنے کے لیے ہاتھ پھیریں گے۔
(20)
عبادالي:
اپنے تکوینی اور تقدیری حکم کو پورا کرنے کے لیے اپنے بندے نکالے ہیں کہ لايدان لاحد بقتالهم،
ان سے جنگ کے لیے کسی کے دوہاتھ یعنی قوت وطاقت نہیں ہے اور جب عباد سے مراد نیک بندے ہو تو ان کی اللہ کی طرف بلاصلہ وواسطہ اضافت کی جاتی ہے،
جیسےعباد الرحمن،
عبده،
عبدالله،
اگر تکوینی حکومت کے پابند مراد ہوں،
جو کافروسرکش ہوتے ہیں تو پھراضافہ کےلیےلام کاواسطہ لایاجاتاہے،
جیسےفرمایا،
بعثناعليكم عبادالنااور اس حدیث میں عبادالي،
اور عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے لیے ہے۔
(21)
حرزعبادي:
میرےبندوں کومحفوظ کرو،
پناہ دوں،
(طورپرلےجاکر) (22)
حدب:
ٹیلہ،
بلندجگہ،
(23)
ينسلون،
دوڑ رہے ہوں گے،
(24)
بحيره طبرية،
اردن کےعلاقہ میں ہے۔
(25)
كجريةطبرية،
شہرہے جس کے قریب بحیرہ واقع ہے اورامام طبرانی،
اس شہر کی طرف منسوب ہیں۔
(26)
كان بهذه مرة ماء:
علامات ونشانات دیکھ کر کہیں گے،
کبھی یہاں پانی رہاہے۔
جبل طورپر عیسیٰ علیہ السلام اور ان ساتھ محصور ہوجائیں گے تو غذائی قلت کی بنا پر،
گائے یا بیل کا سرجو عام گوشت سے سستا ہوتا ہے،
اس کی قیمت بھی سو(100)
دینار تک پہنچ جائےگی۔
(27)
نغف:
وہ کیڑاجواونٹوں اور بکریوں کے ناکوں(نتھنوں)
میں پیدا ہوتاہے۔
(28)
فرسي:
فريس کی جمع ہے،
ہلاک ہونے والے،
بیک وقت سب سے غضب الٰہی کا شکار(فریسہ)
ہوجائیں گے۔
(29)
زهم:
چکناہٹ،
بدبو کے معنی میں بھی آجاتا ہے،
(30)
لايكن منه:
اس بارش سے کوئی اوٹ یا چھت کسی کو بچا نہیں سکے گی،
بارش ہرجگہ،
چھت ٹپک کربھی پہنچ جائے گی،
(31)
زلفةشيتة:
ڈیم۔
(32)
فئام:
گروہ،
جماعت،
قبیلہ کےنیچےبطن (خاندان)
اوراس کے نیچے،
(33)
فخذ،
کنبہ ایک آدمی کا اہل وعیال۔
(34)
تهارج:
اختلاط،
میل ملاپ،
مراد جنسی تعلقات ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7373   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4075  
´فتنہ دجال، عیسیٰ بن مریم اور یاجوج و ماجوج کے ظہور کا بیان۔`
نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا تو اس میں آپ نے کبھی بہت دھیما لہجہ استعمال کیا اور کبھی روز سے کہا، آپ کے اس بیان سے ہم یہ محسوس کرنے لگے کہ جیسے وہ انہی کھجوروں میں چھپا ہوا ہے، پھر جب ہم شام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ہمارے چہروں پر خوف کے آثار کو دیکھ کر فرمایا: تم لوگوں کا کیا حال ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے جو صبح کے وقت دجال کا ذکر فرمایا تھا اور جس میں آپ نے پہلے دھیما پھر تیز لہجہ ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4075]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سورہ کہف کے پہلے رکوع کی تلاوت دجال کے فتنے سے حفاظت کا باعث ہے۔

(2)
علماء کو چاہیے کہ علامات قیامت کی صحیح احادیث عوام کو سنائیں خاص طور پر دجال کے بارے میں انھیں باخبر کریں تاکہ وہ فتنے سے بچ سکیں۔

(3)
دجال کے حکم پر بارش کا برسنا یا قحط پڑجانا اسی طرح ایک آزمائش ہے جس طرح اس کی جنت اور جہنم یا اس کا مردے کو زندہ کرنا۔

(4)
دجال کے ظہور کے زمانے میں دن رات کا موجودہ نظام محدود مدت کے لیے معطل ہوجائے گا۔

(5)
ایک سال کے برابر لمبے دن میں، وقت کا اندازہ کر کے، پورے سال کی نمازیں ادا کرنے کا حکم ہے۔
اس میں اشارہ ہے کہ اس وقت انسانوں کے پاس ایسے ذرائع ہوں گے جن سے وہ وقت کا صحیح اندازہ کرسکیں گے اس میں گھڑی کی ایجاد کی پیش گوئی ہے۔

(6)
اس حدیث سے قطب شمالی اور قطب جنوبی کے ان علاقوں کے بارے میں بھی جہاں سال کے بعض حصوں میں دن رات کا معروف نظام نہیں رہتا۔
ایسے علاقوں میں نماز اور روزے کا اندازہ گھڑی دیکھ کر کیا جائے۔
اگر کوئی شخص خلا میں جائے تو وہاں بھی اسی اصول کو مد نظر رکھے۔

(7)
حضرت عیسی ٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں۔
اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔
اور یہ بھی متفق علیہ مسئلہ ہے کہ وہ دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے۔
اس سے صرف مرزا غلام قادیانی اور اس کے پیروکا ر اختلاف رکھتے ہیں۔

(8)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے بہت سے معاملات معجزانہ کیفیت رکھتے ہیں۔
ان میں سے یہ بھی ہے کہ پہلے کافروں نے انھیں شہید کرنے کی کوشش کی تھی اب کافروں کا ان کی حد نظر میں زندہ رہنا ممکن نہ ہوگا۔

(9)
لد ایک شہر ہے جو فلسطین (موجودہ یہودی ریاست اسرائیل)
میں واقع ہے۔
وہاں ہوائی اڈہ بھی ہے۔
ممکن ہے کہ شہر کے دروازے سے مراد اس کا ہوائی اڈہ ہو جہاں دجال فرار ہونے کی کوشش میں حضرت عیسی ٰ علیہ السلام کے قابو میں آجائے۔

(10)
دجال بھی مسیح کہلاتا ہے مگر وہ جھوٹا مسیح ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام سچے مسیح ہیں جن کے ہاتھ سے وہ جہنم میں رسید ہوگا۔

(11)
یاجوج ماجوج جسمانی لحاظ سے قوی ہیکل ہونگےاور تعداد میں بھی بہت زیادہ ہونگےاس لیے عام انسان ان کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔

(12)
یاجوج ماجوج اس وقت کہاں ہیں؟ یہ معلوم نہیں تاہم وہ یقیناًموجود ہیں اس میں شک نہیں۔

(13)
اہل چین یا اہل روس یا اس کے علاوہ کسی ملک کے باسی لوگوں کو یاجوج ماجوج قراردینا درست نہیں۔

(14)
یاجوج ماجوج اچانک ختم ہوجائینگے۔

(15)
یاجوج ماجوج کی ہلاکت کے بعد نباتات اور حیوانات کی پیداوار میں بہت زیادہ برکت ہوگی۔

(16)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات مدینہ منورہ میں ہوگی۔

(17)
ان کے بعد ان کے خلفاء ہونگے مسلمانوں کی تعداد کم ہوتی جائے گی آخر ایک خاص ہوا سے بچے کھچے مسلمان فوت ہوجائیں گے۔

(18)
قیامت کے ابتدائی مراحل مثلاً:
صور پھونکے جانے پر سب کا مرجانا وغیرہ بہت شدید مراحل ہیں۔
اللہ تعالی مسلمانوں کو ان سے محفوظ رکھے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4075   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2240  
´دجال کے فتنے کا بیان۔`
نواس بن سمعان کلابی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا، تو آپ نے (اس کی حقارت اور اس کے فتنے کی سنگینی بیان کرتے ہوئے دوران گفتگو) آواز کو بلند اور پست کیا ۱؎ حتیٰ کہ ہم نے گمان کیا کہ وہ (مدینہ کی) کھجوروں کے جھنڈ میں ہے، پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے واپس آ گئے، (جب بعد میں) پھر آپ کے پاس گئے تو آپ نے ہم پر دجال کے خوف کا اثر جان لیا اور فرمایا: کیا معاملہ ہے؟ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے صبح دجال کا ذکر کرتے ہوئے (اس کی حقارت اور سنگینی بیان کرتے ہوئے) اپنی آواز کو بلند اور پ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2240]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
فخض فيه ورفع کے معنی ومطلب کے بارے میں دوقول ہیں:
ایک (خفض)،
(حقر)کے معنی میں یعنی اللہ تعالیٰ کے یہاں وہ ذلیل وحقیر ہے،
حتی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو دنیا میں کانا پیداکیا،
نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ دجال اللہ رب العزت کے یہاں اس سے زیادہ ذلیل ہے یعنی وہ اس ایک آدمی کے علاوہ کسی اور کو قتل کرنے پر قدرت نہیں رکھے گا،
بلکہ ایسا کرنے سے عاجز ہوگا،
اس کا معاملہ کمزور پڑ جائے گا،
اور اس کے بعد اس کا اور اس کے اتباع ومویدین کا قتل ہو جائے گا،
اور (رفع) کے معنی اس کے شراور فتنے کی وسعت ہے اور یہ کہ اس کے پاس جوخرق عادت چیزیں ہوں گی وہ لوگو ں کے لیے ایک بڑا فتنہ ہوں گی،
یہی وجہ ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کو اس کے فتنے سے ڈرایا،
دوسرا معنی اس جملے کا یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس کا تذکرہ اتنا زیادہ کیا کہ لمبی گفتگو کے بعد آپﷺ کی آواز کم ہوگئی تاکہ دورانِ گفتگو آپﷺ آرام فرما لیں پھرسب کو اس فتنے سے آگاہ کرنے کے لیے آپ کی آواز بلند ہو گئی۔

2؎:
یعنی میری زندگی کے بعد فتنہ دجال کے وقت میری امت کا نگراں اللہ رب العالمین ہے۔

3؎:
لُد:
بیت المقدس کے قریب ایک شہرہے،
النہایة فی غریب الحدیث میں ہے کہ لُد ملک شام میں ایک جگہ ہے،
یہ بھی کہا گیا ہے کہ فلسطین میں ایک جگہ ہے،
(یہ آج کل اسرائیل کا ایک فوجی اڈہ ہے) 4 ؎:
اُن کے اسلحہ کی مقدار اس قدر زیادہ ہو گی،
یا مسلمانوں کی تعداد اُس وقت اس قدرکم ہو گی۔

5؎:
اس حدیث میں علامات قیامت،
خروج دجال،
نزول عیسیٰ بن مریم،
یاجوج وماجوج کا ظہور اور ان کے مابین ہونے والے اہم واقعات کا تذکرہ ہے،
دجال کی فتنہ انگیزیوں،
یاجوج وماجوج کے ذریعہ پیدا ہونے والے مصائب اور عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں اور ان کی دعاؤں سے ان کے خاتمے کا بیان ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2240