Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
83. بَابُ مَا جَاءَ فِي قَاتِلِ النَّفْسِ:
باب: جو شخص خودکشی کرے اس کی سزا کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 1363
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" مَنْ حَلَفَ بِمِلَّةٍ غَيْرِ الْإِسْلَامِ كَاذِبًا , مُتَعَمِّدًا فَهُوَ كَمَا قَالَ، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ عُذِّبَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا ‘ ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین پر ہونے کی جھوٹی قسم قصداً کھائے تو وہ ویسا ہی ہو جائے گا جیسا کہ اس نے اپنے لیے کہا ہے اور جو شخص اپنے کو دھار دار چیز سے ذبح کر لے اسے جہنم میں اسی ہتھیار سے عذاب ہوتا رہے گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1363 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1363  
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ جو شخص خودکشی کرے اس کی سزا کا بیان اور حدیث میں اس کی سزا کا ذکر وارد ہوا ہے۔ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے مبہم باب قائم فرمایا کہ خودکشی کرنے والے پر نماز پڑھی جائے یا نہ۔
ابن المنیر فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ رحمہ الله کی عادت یہ ہے کہ جب ان کو کسی امر میں توقف ہوتا ہے اس پر مبہم باب قائم فرماتے ہیں۔ گویا کہ وہ طریق اجتہاد پر متنبہ کرنا چاہتے ہیں اور امام مالک سے منقول ہے کہ قاتل نفس کی توبہ قبول نہیں ہوتی اور اس کا تقاضہ ہے کہ اس پر نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی یہی منشا ہے۔ سنن نسائی کی حدیث میں اس امر کا اشارہ ملتا ہے کہ خودکشی کرنے والے کا جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپ نے فرمایا لیکن میں اس کا جنازہ نہیں پڑھوں گا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازے کی نمازنہیں پڑھی، مگر صحابہ نے پڑھ لی۔ اس سے مراد یہ ہوا کہ بطور عبرت کے جو امام ہو یا متقی وہ نماز نہ پڑھے باقی لوگ پڑھ لیں کیونکہ خودکشی کرنے والا خارج ملت نہیں ہے اسی مسئلے پر امام نووی رحمہ اللہ نے بھی صحیح مسلم میں ایک باب قائم کیا ہے۔جس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ خودکشی کرنے والا کافر نہیں ہوتا۔
صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ صحیح مسلم کی شرح میں فرماتے ہیں کہ:
جمہور کا رحجان اس طرف ہے کہ اس پر نماز پڑھی جائے گی اور یہ کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکشی کرنے والے پر جنازہ نہیں پڑھا تاکہ لوگوں کے لیے تنبیہ کا باعث ہو۔ [منة المنعم، ج2، ص78]
اس مسئلے پردلالت ایک اور حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کا ذکر ابن عساکر رحمہ اللہ اپنی کتاب تاریخ ابن عساکر میں فرماتے ہیں:
ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میری ماں کو سخت تکلیف پہنچی اور انہوں نے افطار نہیں کیا اور اسی حالت میں مر گئی تو کیا میں اس پر نماز پڑھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اس پر نماز پڑھو اور یقیناًً تمہاری ماں نے اپنے تئیں اپنے آپ کو قتل کیا۔ [تاريخ دمشق، ج9، ص104]
لٰہذا تاریخ ابن عساکر کی مذکورہ بالا روایت سے واضع ہوا کہ جو شخص خود کشی کرتا ہے اس کی نماز جنازہ ادا کی جا سکتی ہے۔ محمد ذکریا کاندھلوی لکھتے ہیںِ:
«ويؤيد مذهب الجمهور ماتقدم من رواية النسائي: اما انا فلا أصلي»
جمہور کے مذہب کی تائید مذکورہ حدیث سے ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا ذکر سنن نسائی میں ہے کہ لیکن میں نہیں پڑھوں گا۔‏‏‏‏
امام نووی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«وأجاب الجمهور عن هذا الحديث بأن النبى صلى الله عليه وسلم لم يصل عليه بنفسه زجرًا للناس عن مثل فعله، وصلّت عليه الصحابة . . .» [المنهاج، ج7، ص47]
یعنی جمہور نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خودکشی کرنے والے پر نماز جنازہ نہیں پڑھی تاکہ لوگوں پر تنبیہ ہو جائے (کہ یہ گناہ سخت ترین ہے) اور اس پر صحابہ نے نماز پڑھی یہ بالکل اسی طرح سے ہے کہ مقروض کی نماز جنازہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں ادا کی لیکن صحابہ نے ادا کی کیونکہ یہ تنبیہ لوگوں کو ہو جائے جو قرض کی ادائیگی میں تساہل برتتے ہیں۔
ابن بطال رحمہ الله فرماتے ہیں:
«اجمع الفقهاء و اهل السنة ان من قتل نفسه لا يخرج بذالك من الاسلام، و انه يصلي عليه و اثمه عليه و يدفن فى مقابر المسلمين، و لم يكره الصلاة عليه الا عمر بن عبد العزيز و الاوزاعي فى خاصة انفسهما، والصواب: قول الجماعة، لأنه صلى الله عليه وسلم بين الصلاة على المسلمين، ولم يستثن منهم أحدا فيصلي على جميعهم: الاخيار والاشرار، الا الشهداء الذين اكرمهم بعد بالشهادة» [شرح ابن بطال، ج249/2، التوضيح شرح الجامع الصحيح، ج10، ص137]
یعنی اہل سنت اور فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو خودکشی کرے وہ اسلام سے خارج نہیں ہے۔ اس پر نماز پڑھی جائے گی اور (خودکشی کرنے کا) گناہ اسی پر ہو گا اور وہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہو گا، اور ایسے لوگوں پر کسی نے بھی نماز جنازہ پڑھنے پر کراہت نہیں کی سوائے عمر بن عبدالعزیز اور امام اوزاعی کے اور یہ صرف ان دونوں کے ساتھ ہی خاص ہے (یعنی اور کوئی اس کا قائل نہیں) اور صحیح یہ ہے کہ جماعت کا کہنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر نماز پڑھنے کو واضح کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم میں کسی کو مستثنیٰ نہیں قرار دیا۔ پس سب پر نماز پڑھی جائے گی، چاہے وہ برے ہوں یا نیک، سوائے شہداء کے جن پر اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا شہادت کے ذریعے۔
مندرجہ بالا اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ وقت کا امام خودکشی کرنے والے کی نماز نہ پڑھے اس کی جگہ پر دوسرے لوگ نماز پڑھ لیں تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔
ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام اور اہل فضل کے لیے کراہیت ہے کہ (خودکشی کرنے والے پر) نماز پڑھیں اور اسی طرح سے ہر کبیرہ گناہ کا مرتکب ایمان سے خارج نہیں ہے یہ زجر ہے ان پر پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز نہیں پڑھی جس نے اپنے تئیں قتل کر دیا نیزے کے ذریعے۔ [التوضيح لشرح الجامع الصحيح، ج10، ص127، تحفة الفقهاء، ج1، ص248، 249، الاختيار، ج1، ص169]

ایک اشکال اور اس کا جواب:
امام قرطبی رحمہ اللہ نے یہاں ایک اشکال وارد فرمایا ہے کہ مرتے وقت کافر ہو گیا ہوگا۔ اسی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی۔ کیونکہ جو مسلم ہوتا ہے اگر وہ خودکشی بھی کر لے تو تمام علماء کے نزدیک اس پر نماز پڑھی جائے گی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ سنن نسائی میں وضاحت کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان موجود ہے: «انا اصلي عليه» مگر میں نہیں پڑھوں گا نماز۔‏‏‏‏
دراصل یہاں پر صحابہ کو منع نہیں کیا جا رہا کہ وہ نہ پڑھیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اپنے لیے فرمایا تھا کہ میں نہیں پڑھوں گا۔ لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پڑھ لی۔
محمد بن علی الایتوبی حفظہ اللہ رقمطراز ہیں:
«فدل على انه مسلم وليس بكافر، وأما تركه صلى الله عليه وسلم الصلاة عليه مع كونه مسلمًا، زجرًا بغيره لئلّا يتجاسروا بقتل أنفسهم» [ذخيرة العقبيٰ فى شرح المجتبيٰ، ج19، ص264، 265]
یعنی یہ دلیل ہے کہ وہ (خودکشی کرنے والا) مسلمان تھا نہ کہ کافر۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز نہیں پڑھی اس کے مسلمان ہوتے ہوئے اس لیے کہ لوگوں کو تنبیہ ہو جائے تاکہ وہ اپنے تئیں اپنے آپ کو قتل نہ کریں۔‏‏‏‏
لٰہذا ترجمۃالباب اور حدیث میں مناسبت یہ ہوئی کہ خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ عام آدمی تو پڑھ لیں مگر اہل فضل اور امام وقت نہ پڑھیں۔۔ یہی منشاء ترجمۃالباب کی۔ «والله عالم»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 271   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1363  
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک ایسا آدمی لایا گیا جس نے برچھی سے خود کو قتل کر لیا تھا تو آپ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی، (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2262(978)
لیکن سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
میں تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھتا۔
(سنن النسائي، الجنائز، حدیث: 1966)
لیکن آپ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو اس سے نہیں روکا تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ اثرورسوخ رکھنے والے علماء اور مقتدا حضرات اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں تاکہ دوسروں کو اس سے عبرت حاصل ہو، کیونکہ ہمارے پاس اب اسے سزا اور تنبیہ کے لیے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
امام بخاری ؒ کا یہی رجحان معلوم ہوتا ہے۔
(2)
اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی قسم اٹھانے کی دو صورتیں ہیں:
٭ اگر میں نے فلاں کام کیا تو میں یہودی ہوں یا نصرانی ہوں۔
یہ ایک قسم ہے۔
اگر توڑے گا تو کفارہ دے گا۔
اگر وہ جانتے ہوئے کام کرے گا کہ وہ واقعی یہودی ہو یا نصرانی ہو جائے تو ایسی صورت میں وہ دین اسلام سے خارج قرار پائے گا۔
اگر ایسی صورت نہیں تو اس قول بد کی شناعت و قباحت تو باقی رہے گی، لیکن وہ کافر نہیں ہو گا۔
٭ اس دوسری ملت کی قسم اٹھائے کہ مجھے یہودیت یا نصرانیت کی قسم کہ ایسا کام کروں گا، اس وقت یہ قول جھوٹ پر محمول ہو گا۔
اس سے وہ کافر نہیں ہو گا، کیونکہ اس کے دل میں دوسرے مذہب کی تعظیم تو نہیں، تاہم قسم کے طور پر ایسا ایسا کہنا تعظیم پر دلالت ضرور کرتا ہے۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1363