صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
77. بَابُ هَلْ يُخْرَجُ الْمَيِّتُ مِنَ الْقَبْرِ وَاللَّحْدِ لِعِلَّةٍ:
باب: باب کہ میت کو کسی خاص وجہ سے قبر یا لحد سے باہر نکالا جا سکتا ہے؟
حدیث نمبر: 1351
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: لَمَّا حَضَرَ أُحُدٌ دَعَانِي أَبِي مِنَ اللَّيْلِ , فَقَالَ:" مَا أُرَانِي إِلَّا مَقْتُولًا فِي أَوَّلِ مَنْ يُقْتَلُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنِّي لَا أَتْرُكُ بَعْدِي أَعَزَّ عَلَيَّ مِنْكَ غَيْرَ نَفْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ عَلَيَّ دَيْنًا فَاقْضِ , وَاسْتَوْصِ بِأَخَوَاتِكَ خَيْرًا , فَأَصْبَحْنَا فَكَانَ أَوَّلَ قَتِيلٍ , وَدُفِنَ مَعَهُ آخَرُ فِي قَبْرٍ، ثُمَّ لَمْ تَطِبْ نَفْسِي أَنْ أَتْرُكَهُ مَعَ الْآخَرِ فَاسْتَخْرَجْتُهُ بَعْدَ سِتَّةِ أَشْهُرٍ، فَإِذَا هُوَ كَيَوْمِ وَضَعْتُهُ هُنَيَّةً غَيْرَ أُذُنِهِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو بشر بن مفضل نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے حسین معلم نے بیان کیا ‘ ان سے عطاء بن ابی رباح نے ‘ ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب جنگ احد کا وقت قریب آ گیا تو مجھے میرے باپ عبداللہ نے رات کو بلا کر کہا کہ مجھے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سب سے پہلا مقتول میں ہی ہوں گا اور دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دوسرا کوئی مجھے (اپنے عزیزوں اور وارثوں میں) تم سے زیادہ عزیز نہیں ہے ‘ میں مقروض ہوں اس لیے تم میرا قرض ادا کر دینا اور اپنی (نو) بہنوں سے اچھا سلوک کرنا۔ چنانچہ جب صبح ہوئی تو سب سے پہلے میرے والد ہی شہید ہوئے۔ قبر میں آپ کے ساتھ میں نے ایک دوسرے شخص کو بھی دفن کیا تھا۔ پر میرا دل نہیں مانا کہ انہیں دوسرے صاحب کے ساتھ یوں ہی قبر میں رہنے دوں۔ چنانچہ چھ مہینے کے بعد میں نے ان کی لاش کو قبر سے نکالا دیکھا تو صرف کان تھوڑا سا گلنے کے سوا باقی سارا جسم اسی طرح تھا جیسے دفن کیا گیا تھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1351 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1351
حدیث حاشیہ:
جابر ؓ کے والد عبداللہ ؓ آنحضرت ﷺ کے سچے جاں نثار تھے اور ان کے دل میں جنگ کا جوش بھرا ہوا تھا۔
انہوں نے یہ ٹھان لی کہ میں کافروں کو ماروں گا اور مروں گا۔
کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک خواب بھی دیکھا تھا کہ مبشربن عبداللہ جو جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے وہ ان کو کہہ رہے تھے کہ تم ہمارے پاس ان ہی دنوں میں آنا چاہتے ہو۔
انہوں نے یہ خواب آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بیان کیا۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری قسمت میں شہادت لکھی ہوئی ہے۔
چنانچہ یہ خواب سچا ثابت ہوا۔
اس حدیث سے ایک مومن کی شان بھی معلوم ہوئی کہ اس کو آنحضرت ﷺ سب سے زیادہ عزیز ہوں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1351
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1351
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس سبب کے پیش نظر میت کو نکالا جا سکتا ہے، اس کا تعلق میت کے بجائے اس کے کسی عزیز سے بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ حضرت جابر ؓ کے والد گرامی کو صرف ان کی خواہش کی تکمیل کے پیش نظر نکالا گیا، اس ضرورت کا تعلق میت سے نہیں تھا، کیونکہ اگر کسی کو دوسرے کے ساتھ دفن کر دیا جائے تو اسے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچتا۔
صرف حضرت جابر ؓ کو ان کا دوسرے کے ساتھ دفن ہونا اچھا نہ لگا، اس لیے انہوں نے نکال کر دوسری جگہ دفن کر دیا۔
(2)
واضح رہے کہ حضرت جابر ؓ کے والد گرامی کے ساتھ دفن ہونے والے شہید حضرت عمرو بن جموح ؓ تھے جو ان کے والد محترم کے مخلص دوست اور بہنوئی تھے۔
ان کی بہن ہند بنت عمرو اپنے بھائی عبداللہ بن عمرو اور اپنے خاوند عمرو بن جموح کو اونٹ پر لاد کر مدینہ منورہ لے آئی تھی تاکہ انہیں جنت البقیع میں دفن کیا جائے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے انہیں واپس میدانِ اُحد میں بھیج دیا اور وہیں دفن کرنے کا حکم دیا۔
(فتح الباري: 275/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1351