Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
76. بَابُ الإِذْخِرِ وَالْحَشِيشِ فِي الْقَبْرِ:
باب: اذخر اور سوکھی گھاس قبر میں بچھانا۔
حدیث نمبر: 1349
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" حَرَّمَ اللَّهُ مَكَّةَ فَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَا لِأَحَدٍ بَعْدِي، أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ لَا يُخْتَلَى خَلَاهَا، وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا، وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا، وَلَا تُلْتَقَطُ لُقَطَتُهَا إِلَّا لِمُعَرِّفٍ"، فَقَالَ الْعَبَّاسُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِلَّا الْإِذْخِرَ لِصَاغَتِنَا وَقُبُورِنَا؟، فَقَالَ: إِلَّا الْإِذْخِرَ، وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِقُبُورِنَا وَبُيُوتِنَا، وَقَالَ أَبَانُ بْنُ صَالِحٍ: عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لِقَيْنِهِمْ وَبُيُوتِهِمْ.
ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا۔ کہا ہم سے خالد حذاء نے ‘ ان سے عکرمہ نے ‘ ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرم کیا ہے۔ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے (یہاں قتل و خون) حلال تھا اور نہ میرے بعد ہو گا اور میرے لیے بھی تھوڑی دیر کے لیے (فتح مکہ کے دن) حلال ہوا تھا۔ پس نہ اس کی گھاس اکھاڑی جائے نہ اس کے درخت قلم کئے جائیں۔ نہ یہاں کے جانوروں کو (شکار کے لیے) بھگایا جائے اور سوا اس شخص کے جو اعلان کرنا چاہتا ہو (کہ یہ گری ہوئی چیز کس کی ہے) کسی کے لیے وہاں سے کوئی گری ہوئی چیز اٹھانی جائز نہیں۔ اس پر عباس رضی اللہ عنہ نے کہا لیکن اس سے اذخر کا استثناء کر دیجئیے کہ یہ ہمارے سناروں کے اور ہماری قبروں میں کام آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مگر اذخر کی اجازت ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت میں ہے۔ ہماری قبروں اور گھروں کے لیے۔ اور ابان بن صالح نے بیان کیا ‘ ان سے حسن بن مسلم نے ‘ ان سے صفیہ بنت شیبہ نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا تھا۔ اور مجاہد نے طاؤس کے واسطہ سے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ الفاظ بیان کئے۔ ہمارے قین (لوہاروں) اور گھروں کے لیے (اذخر اکھاڑنا حرم سے) جائز کر دیجئیے۔

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1349 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1349  
حدیث حاشیہ:
پس آپ نے اذخرنامی گھاس اکھاڑنے کی اجازت دے دی۔
تشریح:
اس حدیث سے جہاں قبر میں اذخر یا کسی سوکھی گھاس کا ڈالنا ثابت ہوا۔
وہاں حرم مکۃ المکرمہ کا بھی اثبات ہوا۔
اللہ نے شہر مکہ کو امن والا شہر فرمایا ہے۔
قرآن مجید میں اسے بلد امین کہا گیا ہے۔
یعنی وہ شہر جہاں امن ہی امن ہے‘ وہاں نہ کسی کا قتل جائز ہے نہ کسی جانور کا مارنا جائز حتیٰ کہ وہاں کی گھاس تک بھی اکھاڑنے کی اجازت نہیں۔
یہ وہ امن والا شہر ہے جسے خدا نے روز ازل ہی سے بلد الامین قرار دیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1349   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1349  
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس روایت سے ثابت کیا ہے کہ اذخر اور خشک گھاس کو قبر میں بچھایا جا سکتا ہے۔
اگرچہ حدیث میں ایک خاص گھاس اذخر کا ذکر ہے، تاہم دیگر خشک گھاس کی اقسام کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔
اذخر کی تخصیص اس لیے ہے کہ سرزمین حجاز میں یہی بکثرت پائی جاتی ہے۔
ابتدائی طور پر آگ جلانے کے لیے یہ گھاس استعمال ہوتی تھی، نیز گھروں اور قبروں میں بچھانے کے لیے اسے استعمال کیا جاتا تھا، اس لیے سرزمین حرم میں خود بخود اُگنے والی اس گھاس کو کاٹنے کی اجازت دی گئی۔
(2)
قین سے مراد کاریگر ہے۔
اس میں زرگر اور لوہار دونوں آ جاتے ہیں۔
(3)
امام بخاری ؒ نے حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت کو خود متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، العلم، حدیث: 112)
اسی طرح صفیہ بنت شیبہ کی روایت سنن ابن ماجہ میں متصل سند سے ذکر کی گئی ہے۔
(سنن ابن ماجة، المناسك، حدیث: 3109)
حضرت مجاہد کی روایت کو بھی امام بخاری ؒ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، جزاءالصید، حدیث: 1834) (4)
حافظ ابن حجر ؒ نے ان روایات کو ذکر کرنے سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ امام بخاری حضرت عکرمہ کی روایت کو ترجیح دینا چاہتے ہیں، کیونکہ حضرت ابو ہریرہ اور حضرت صفیہ ؓ کی بیان کردہ روایت بھی اس کے ہم آہنگ ہے۔
(فتح الباري: 273/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1349