Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب التَّوْبَةِ
توبہ کا بیان
10. باب فِي حَدِيثِ الإِفْكِ وَقَبُولِ تَوْبَةِ الْقَاذِفِ:
باب: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر جو تہمت ہوئی تھی اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 7022
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ يُتَّهَمُ بِأُمِّ وَلَدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِعَلِيٍّ اذْهَبْ فَاضْرِبْ عُنُقَهُ "، فَأَتَاهُ عَلِيٌّ، فَإِذَا هُوَ فِي رَكِيٍّ يَتَبَرَّدُ فِيهَا، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: اخْرُجْ فَنَاوَلَهُ يَدَهُ فَأَخْرَجَهُ، فَإِذَا هُوَ مَجْبُوبٌ لَيْسَ لَهُ ذَكَرٌ فَكَفَّ عَلِيٌّ عَنْهُ، ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ لَمَجْبُوبٌ مَا لَهُ ذَكَرٌ ".
ابو اسامہ نے ہشام بن عروہ سے روایت کی، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب میرے معاملے میں وہ باتیں کہی گئیں جو کہی گئیں اور مجھے اس معاملے کا علم نہ تھا، (اس وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ شہادتین پڑھیں، اللہ کی حمد و ژنا کی جو اس کے شایان شان ہے، پھر فرمایا: "اس (حمد و ثنا) کے بعد! مجھے ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری اہلیہ پر بہتان لگایا اور میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ میری اہلیہ کے خلاف کبھی کوئی برائی میرے علم میں نہیں آئی۔ وہ (صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ) جس کے بارے میں انہوں نے تہمت لگائی ہے، اللہ کی قسم! مجھے اس کے بارے میں کسی برائی کا علم نہیں، وہ کبھی میرے گھر نہیں آیا مگر اس وقت جب میں موجود تھا اور میں کبھی سفر کی وجہ سے (مدینہ سے) غیر حاضر نہیں رہا مگر وہ بھی (اس سفر میں) میرے ساتھ (مدینہ س) غیر حاضر تھا۔" اور پورے واقعے سمیت حدیث بیان کی اور اس میں یہ (بھی) ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں داخل ہوئے اور میری خادمہ سے پوچھا۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں ان میں کوئی ایک عیب بھی نہیں جانتی، اس کے سوا کہ وہ سو جایا کرتی تھیں اور بکری اندر آتی اور ان کا آٹا یا کہا: ان کا خمیر (جو آٹے میں ملایا جاتا ہے) کھا جاتی۔ ہشام کو شک ہوا ہے۔۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ساتھی نے جھڑکیاں دیں اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بالکل سچ بتاؤ، حتی کہ اس معاملے میں ان لوگوں نے اسے تحقیر آمیز باتیں کہیں تو اس نے جواب میں کہا: سبحان اللہ! اللہ کی قسم! میں ان کے بارے میں بالکل اسی طرح جانتی ہوں جس طرح سنار خالص سونے کو جانتا ہے۔ (ان میں ذرہ برابر کھوٹ نہیں، وہ خالص سونا ہیں۔) اور یہ معاملہ اس شخص تک پہنچا جس کے بارے میں یہ بات کہی گئی تو اس نے کہا: سبحان اللہ! اللہ کی قسم! میں نے آج تک کسی عورت کی خلوت گاہ کا پردہ بھی نہیں اٹھایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: وہ اللہ عزوجل کی راہ میں قتل ہو کر شہید ہو گیا۔ اور اس حدیث میں مزید یہ بات بھی ہے کہ جن لوگوں نے (بہتان پر مبنی) باتیں کی تھیں ان میں مسطح، حمنہ اور حسان (بن ثابت) رضی اللہ عنہم تھے۔ اور منافق عبداللہ بن ابی وہ شخص تھا جو (سیدھے سادھے واقعے کے اندر سے) جھوٹے الزام نکالتا تھا اور (بہتان کی جھوٹی کہانی کی صورت میں) انہیں یکجا کرتا تھا۔ اسی نے اس بہتان تراشی میں سب سے بڑا کردار سنبھالا اور (اس کے بعد) حمنہ رضی اللہ عنہا تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،جب میرے بارے میں الزام تراشی کی گئی اور مجھے اس کا علم ہی نہ تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطاب فرمانے کے لیے اٹھے کلمہ شہادت پڑھا، پھر اللہ کے شایان شان اس کی حمد و ثناءبیان کی، پھر فرمایا:"امابعد! مجھے ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو، جنہوں نے میری اہلیہ پر تہمت تراشی کی ہے، اللہ کی قسم! میں نے کبھی اپنی بیوی میں کوئی برائی نہیں دیکھی اور وہ جس شخص کے ساتھ ان پر تہمت تراشی کی ہے۔اللہ کی قسم! میں نے کبھی اپنی بیوی میں کوئی برائی نہیں دیکھی اور جس شخص کے ساتھ ان پر تہمت لگائی ہے واللہ! میں نے اس میں بھی کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی اور وہ کبھی میرے گھر میں میری عدم موجودگی میں نہیں آیا اور جب میں کسی سفر میں گھر سے غائب ہوا تو وہ بھی میرے ساتھ ہی گھر سے باہر گیا۔"اس کے بعد پورا واقعہ بیان کیا اور اس میں یہ بھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور میری لونڈی سے پوچھا تو اس نے کہا، واللہ! میں نے اس میں کوئی عیب نہیں دیکھا ہاں اتنی بات ہے۔ وہ سو جاتی ہے اور گھریلو بکری آکر اس کا گوندھا ہو آٹا کھاجاتی ہے یا خمیرہ آٹا کھا جاتی ہے تو آپ کے بعض احباب نے لونڈی کو ڈانٹا اور کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچ سچ بتا حتی کہ انھوں نے تہمت کی تصریح بھی کی تو اس نے حیرت واستعجاب سے کہا، سبحان اللہ! اللہ کی قسم! میں تو ان کی حقیقت کو اس طرح جانتی ہوں، جس طرح سنار خالص سونے کی سرخ ڈالی کو جانتا ہے۔ یعنی ان میں کوئی عیب نہیں ہے اور جب اس آدمی تک بات پہنچی،جس کے ساتھ تہمت لگائی گئی تھی تو اس نے کہا، سبحان اللہ!واللہ!میں نے تو کبھی کسی عورت کا ستر نہیں کھولا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں،وہ اللہ کی راہ میں شہید ہو گیا تھا اور اس میں یہ اضافہ بھی ہے جن لوگوں نے یہ تہمت لگائی تھی وہ مسطح حمنہ اور حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے،رہا منافق عبد اللہ بن ابی تو وہ اس کو کرید کر نکالتا اور پھیلاتا تھا، اس کا اس میں بڑا حصہ ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 7022 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7022  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
ابنوااهلي:
میری بیوی پرعیب اورتہمت لگائی۔
(2)
اسقطوالهابه:
اس کو یہ بات کھل کر کہی یا اسے نازیبا الفاظ کہے۔
(3)
يستوشيه:
پوچھ پوچھ کر اور کرید کراس کو نکالتا تھا،
پھر اس کو پھیلاتا تھا،
تشہیر کرتا تھا۔
فوائد ومسائل:
(1)
اجنبی لوگ،
باپردہ عورت کی خدمت کرسکتے ہیں اور عورت اونٹ پر سوار ہو کر کجاوہ میں بیٹھ سکتی ہے اور سفر میں اپنے خاوند کے ساتھ جا سکتی ہے،
خواہ وہ جنگی سفر ہی کیوں نہ ہو۔
(2)
عورت سفر میں اپنے زیورات پہن سکتی ہے اور قضائےحاجت کے لیےشوہر کی اجازت کے بغیر جنگل میں جاسکتی ہے۔
(3)
انسان کو اپنی چیز کا دھیان رکھنا چاہیے اور اس کو ضائع ہونے سے بچانا چاہیے،
گمشدگی کی صورت میں اس کو تلاش کرنا چاہیے۔
(4)
بعض آدمیوں کو لشکر سے پیچھے رکھنا چاہیے،
تاکہ پیچھے رہ جانے والی چیز یا لشکر سے بچھڑ جانے والے کو لشکر کے ساتھ ملایا جاسکے۔
(5)
اگر کوئی انسان،
خاص کر کوئی عورت کسی جگہ اپنے گھر والوں سے بچھڑ جائے تو وہ اس جگہ ٹھہرے تاکہ اس کوتلاش کرنا آسان ہو۔
(6)
اجنبی عورتوں کے ساتھ حسن ادب سے پیش آنا اور ان سے صرف بقدر ضرورت گفتگوکرنا اور خلوت میں اس کے ساتھ چلنے کی ضرورت پیش آجائے تو اس کے آگے آگے چلنا،
تاکہ اس کے جسم کا کوئی حصہ اس کو نظر نہ آئے اور عورت اجنبی مرد سے اپنا چہرہ ڈھانپ لے گی چاہے وہ نیک و متقی انسان ہی کیوں نہ ہو۔
(7)
قابل احترام شخصیت کے ساتھ ایثارو قربانی کا معاملہ کرنا اور اس کی خاطر مشقت وکلفت برداشت کرنا،
حضرت صفوان خود پیدل چلے اور حضرت عائشہ کو سوار کیا۔
(8)
خاوند کا اپنی بیوی کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کرنا اور محبت سے پیش آنا اور اس پر کوئی الزام لگے تو لطف و کرم میں کمی کرنا،
تاکہ بیوی محسوس کرکے اسی کی وجہ دریافت کرے اور اپنی کوتاہی کا ازالہ یا معذرت کرے۔
(9)
بیمار پر اگر کوئی تہمت لگے تو اس کے سامنے اس کا اظہار نہ کیا جائے،
تاکہ اس کی بیماری میں اضافہ نہ ہو اور اپنے طور پر اس تہمت کی تحقیق و تفتیش کرنا تاکہ حقیقت حال سے آگاہی حاصل ہو اور بلا تحقیق کسی کو جرم نہ کرار دیا جائے۔
(10)
بیوی کا اپنے خاوند کے ساتھ نازوتدلل کا رویہ،
اس کی تعظیم و تکریم کے منافی نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7022