ابو اسامہ نے ہشام بن عروہ سے روایت کی، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: جب میرے معاملے میں وہ باتیں کہی گئیں جو کہی گئیں اور مجھے اس معاملے کا علم نہ تھا، (اس وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ شہادتین پڑھیں، اللہ کی حمد و ژنا کی جو اس کے شایان شان ہے، پھر فرمایا: "اس (حمد و ثنا) کے بعد! مجھے ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری اہلیہ پر بہتان لگایا اور میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ میری اہلیہ کے خلاف کبھی کوئی برائی میرے علم میں نہیں آئی۔ وہ (صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ) جس کے بارے میں انہوں نے تہمت لگائی ہے، اللہ کی قسم! مجھے اس کے بارے میں کسی برائی کا علم نہیں، وہ کبھی میرے گھر نہیں آیا مگر اس وقت جب میں موجود تھا اور میں کبھی سفر کی وجہ سے (مدینہ سے) غیر حاضر نہیں رہا مگر وہ بھی (اس سفر میں) میرے ساتھ (مدینہ س) غیر حاضر تھا۔" اور پورے واقعے سمیت حدیث بیان کی اور اس میں یہ (بھی) ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں داخل ہوئے اور میری خادمہ سے پوچھا۔ اس نے کہا: اللہ کی قسم! میں ان میں کوئی ایک عیب بھی نہیں جانتی، اس کے سوا کہ وہ سو جایا کرتی تھیں اور بکری اندر آتی اور ان کا آٹا یا کہا: ان کا خمیر (جو آٹے میں ملایا جاتا ہے) کھا جاتی۔ ہشام کو شک ہوا ہے۔۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ساتھی نے جھڑکیاں دیں اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بالکل سچ بتاؤ، حتی کہ اس معاملے میں ان لوگوں نے اسے تحقیر آمیز باتیں کہیں تو اس نے جواب میں کہا: سبحان اللہ! اللہ کی قسم! میں ان کے بارے میں بالکل اسی طرح جانتی ہوں جس طرح سنار خالص سونے کو جانتا ہے۔ (ان میں ذرہ برابر کھوٹ نہیں، وہ خالص سونا ہیں۔) اور یہ معاملہ اس شخص تک پہنچا جس کے بارے میں یہ بات کہی گئی تو اس نے کہا: سبحان اللہ! اللہ کی قسم! میں نے آج تک کسی عورت کی خلوت گاہ کا پردہ بھی نہیں اٹھایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: وہ اللہ عزوجل کی راہ میں قتل ہو کر شہید ہو گیا۔ اور اس حدیث میں مزید یہ بات بھی ہے کہ جن لوگوں نے (بہتان پر مبنی) باتیں کی تھیں ان میں مسطح، حمنہ اور حسان (بن ثابت) رضی اللہ عنہم تھے۔ اور منافق عبداللہ بن ابی وہ شخص تھا جو (سیدھے سادھے واقعے کے اندر سے) جھوٹے الزام نکالتا تھا اور (بہتان کی جھوٹی کہانی کی صورت میں) انہیں یکجا کرتا تھا۔ اسی نے اس بہتان تراشی میں سب سے بڑا کردار سنبھالا اور (اس کے بعد) حمنہ رضی اللہ عنہا تھی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،جب میرے بارے میں الزام تراشی کی گئی اور مجھے اس کا علم ہی نہ تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطاب فرمانے کے لیے اٹھے کلمہ شہادت پڑھا، پھر اللہ کے شایان شان اس کی حمد و ثناءبیان کی، پھر فرمایا:"امابعد! مجھے ان لوگوں کے بارے میں مشورہ دو، جنہوں نے میری اہلیہ پر تہمت تراشی کی ہے، اللہ کی قسم! میں نے کبھی اپنی بیوی میں کوئی برائی نہیں دیکھی اور وہ جس شخص کے ساتھ ان پر تہمت تراشی کی ہے۔اللہ کی قسم! میں نے کبھی اپنی بیوی میں کوئی برائی نہیں دیکھی اور جس شخص کے ساتھ ان پر تہمت لگائی ہے واللہ! میں نے اس میں بھی کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی اور وہ کبھی میرے گھر میں میری عدم موجودگی میں نہیں آیا اور جب میں کسی سفر میں گھر سے غائب ہوا تو وہ بھی میرے ساتھ ہی گھر سے باہر گیا۔"اس کے بعد پورا واقعہ بیان کیا اور اس میں یہ بھی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور میری لونڈی سے پوچھا تو اس نے کہا، واللہ! میں نے اس میں کوئی عیب نہیں دیکھا ہاں اتنی بات ہے۔ وہ سو جاتی ہے اور گھریلو بکری آکر اس کا گوندھا ہو آٹا کھاجاتی ہے یا خمیرہ آٹا کھا جاتی ہے تو آپ کے بعض احباب نے لونڈی کو ڈانٹا اور کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچ سچ بتا حتی کہ انھوں نے تہمت کی تصریح بھی کی تو اس نے حیرت واستعجاب سے کہا، سبحان اللہ! اللہ کی قسم! میں تو ان کی حقیقت کو اس طرح جانتی ہوں، جس طرح سنار خالص سونے کی سرخ ڈالی کو جانتا ہے۔ یعنی ان میں کوئی عیب نہیں ہے اور جب اس آدمی تک بات پہنچی،جس کے ساتھ تہمت لگائی گئی تھی تو اس نے کہا، سبحان اللہ!واللہ!میں نے تو کبھی کسی عورت کا ستر نہیں کھولا، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں،وہ اللہ کی راہ میں شہید ہو گیا تھا اور اس میں یہ اضافہ بھی ہے جن لوگوں نے یہ تہمت لگائی تھی وہ مسطح حمنہ اور حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے،رہا منافق عبد اللہ بن ابی تو وہ اس کو کرید کر نکالتا اور پھیلاتا تھا، اس کا اس میں بڑا حصہ ہے۔