Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب التَّوْبَةِ
توبہ کا بیان
6. باب غَيْرَةِ اللَّهِ تَعَالَى وَتَحْرِيمِ الْفَوَاحِشِ:
باب: اللہ تعالیٰ کی غیرت کا بیان اور بےحیائی کے کاموں کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 6994
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ، وَلَيْسَ أَحَدٌ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ، وَلَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْعُذْرُ مِنَ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ أَنْزَلَ الْكِتَابَ وَأَرْسَلَ الرُّسُلَ ".
) عبدالرحمٰن بن یزید نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی نہیں جسے اللہ سے بڑھ کر مدح پسند ہو، اسی بنا پر اس نے اپنی مدح فرمائی اور کوئی نہیں جو اللہ سے بڑھ کر غیرت مند ہو، اسی بنا پر اس نے تمام فواحش حرام کر دیں اور کوئی نہیں جسے اللہ سے بڑھ کر (بندوں کا اس سے) معذرت کرنا پسند ہو، اسی بنا پر اس نے کتاب نازل فرمائی اور پیغمبروں کو بھیجا۔"
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ عزوجل سے زیادہ کسی کو تعریف پسند نہیں ہے، اس وجہ سے اس نے خود اپنی تعریف فرمائی ہے۔اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی غیور نہیں ہے، اس بنا پر اس نے بے حیائیوں کو حرام ٹھہرایا ہے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی کو عذر قبول کرنا یا عذر و بہانہ ختم کرنا پسند نہیں ہے، اس خاطر اس نے کتابیں اتاری ہیں اور رسول بھیجے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 6994 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6994  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
وليس احداحب اليه العذر من الله:
عذر کا معنی معذرت بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو معذرت پیش کرنا بہت پسند ہے،
کیونکہ یہ توبہ ہی کی ایک صورت ہے اور توبہ کا طریقہ بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں اور رسولوں کا انتظام فرمایا ہے اور عذر کامعنی،
اس کا عذر اور بہانہ ختم کرنا بھی مراد ہوسکتا ہے اور اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابوں اور رسولوں کا انتظام فرمایا ہے،
تاکہ کسی کے پاس کوئی عذر اور بہانہ نہ رہ جائے کہ مجھے توپتہ نہیں تھا،
میں تو بے خبراور ناآشناتھا،
تیری ہدایات وتعلیمات سے آگاہ نہ تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6994   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7403  
´اللہ تعالیٰ کا (سورۃ آل عمران میں) ارشاد اور اللہ اپنی ذات سے تمہیں ڈراتا ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَا مِنْ أَحَدٍ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ، وَمَا أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ الْمَدْحُ مِنَ اللَّهِ . . .»
. . . عبداللہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی بھی اللہ سے زیادہ غیرت مند نہیں اور اسی لیے اس نے فواحش کو حرام قرار دیا ہے اور اللہ سے زیادہ کوئی تعریف پسند کرنے والا نہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7403]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7403 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ}
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں جن آیات مبارکہ کا ذکر فرمایا ہے اس میں نفس کا ذکر ہے مگر تحت الباب جو حدیث سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں نفس کا کوئی ذکر نہیں ہے، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ اپنی عادت کے مطابق حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں اس میں نفس کے الفاظ موجود ہیں، بعض حضرات نے اپنی غفلت کے سبب کہا کہ:
«ليس فى الحديث ذكر النفس، و لعل البخاري أقام استعمال أحد مقام النفس.»
یعنی بعض حضرات نے کہا کہ حدیث میں لفظ ذکر نفس موجود نہیں ہے، شاید امام بخاری رحمہ اللہ لفظ «أحد» کو نفس کی جگہ استعمال فرما رہے ہوں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس بات کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«وكل هذه غفلة عن مراد البخاري، فان ذكر النفس ثابت فى هذا الحديث الذى أورده، و ان كان لم يقع فى هذه الطريق لكنه أشار إلى ذالك كعادته، . . . . . و لذالك مدح نفسه، و هذا القدر هو المطابق للترجمة.» [فتح الباري لابن حجر: 234/14]
حدیث میں نفس کا ذکر نہیں ہے، شاید کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے لفظ «أحد» کو نفس کی جگہ استعمال فرمایا ہو۔

حافظ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ سب کچھ غفلت پر مبنی ہے امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد کی بابت، پس نفس کا جو ذکر ہے وہ اس حدیث میں ثابت ہے جس کا ذکر اس حدیث میں نہیں کیا گیا، بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے اپنی عادت کے مطابق دوسری حدیث کی طرف جس میں یہ الفاظ موجود ہیں: «كذالك مدح نفسه» پس یہیں سے مطابقت ہے باب سے حدیث کی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 318   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6991  
حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی کو تعریف پسندیدہ نہیں ہے، اسی وجہ سے اس نے خود اپنی تعریف کی ہے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی باغیرت نہیں ہے۔ اسی وجہ سے اس نے بے حیائیوں سے روکا ہے، ان کو حرام قراردیا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6991]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اللہ تعالیٰ اپنے مخلوقات کی مدح وثناء کا محتاج نہیں ہے اور نہ ہی اس کی مدح سے اسے کچھ مفاد حاصل ہوتا ہے اور نہ حمدو ثناء کے ترک سے اسے کچھ نقصان پہنچتا ہے،
لیکن اس کی تعریف و توصیف اور حمدو ثناء سے انسان کو اجرو ثواب ملتا ہے،
اس کے درجات و مراتب بلند ہوتے ہیں،
اس طرح اللہ تعالیٰ انسان کے درجات اور مراتب بلند کرنے کی خاطر اپنی مدح اور تعریف پسند کرتا ہے اس کی اپنی کوئی غرض یا مفاد اس سے وابستہ نہیں ہے۔
لیکن انسان یہ نہیں جانتا،
مجھے اس کی حمدو ثناء کن الفاظ سے کرنا چاہیے،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو سکھانے اور بتانے کے لیے اپنی خود تعریف بیان کی،
تاکہ انسان اس کے مطابق تعریف کرے،
اجرو ثواب حاصل کرے،
اس کے اندر گناہوں سے پرہیز کرنے کا جذبہ ابھرے اور اس کے حقوق و فرائض کوادا کرنے کا ملکہ پیدا ہو،
خیال رہے،
اللہ کی محبت اور غیرت اس کے شایان شان ہے،
انسان کی محبت اور غیرت جیسی نہیں ہے،
اس لیے یہ تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان سے مراد ان کے نتائج اور ثمرات یا لوازم ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6991   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7403  
7403. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی بھی غیرت مند نہیں، اسی لیے اس نے فواحش کو حرام قرار دیا ہے، نیز اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی کو مدح و تعریف پسند نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7403]
حدیث حاشیہ:
آدمی کے لیے یہ عیب ہے کہ اپنی تعریف پسند کرے لیکن پروردگار کے حق میں یہ عیب نہیں ہے کیونکہ وہ تعریف کے سزا وار ہے۔
اس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔
اس حدیث کی مطابقت باب سے اس طرح ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو لا کر اس کے دوسرے طریق کی طرف اپنی عادت کے موافق اشارہ کیا۔
یہ طریق تفسیر سورہ انعام میں گزر چکا ہے۔
اس میں اتنا زائد ہے ولذلك مدح نفسه تو نفس کا اطلاق پروردگار پر ثابت ہوا۔
کرمانی نے اس پر خیال نہیں کیا اور جس حدیث کی شرح کتاب التفسیر میں کر آئے تھے اس کو یہاں بھول گئے۔
انہوں نے کہا مطابقت اس طرح سے ہے کہ احد کا لفظ بھی نفس کے لفظ کے مثل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7403   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5220  
5220. سیدنا عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی سے بڑھ کر کوئی دوسرا غیرت مند نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے بے حیائی کے کاموں کو حرام کیا۔ اور اللہ تعالٰی سے بڑھ کر کوئی دوسرا اپنی تعریف پسند کرنے والا نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5220]
حدیث حاشیہ:
(1)
غیرت اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جس طرح دوسری صفات ہیں۔
ہم اسے ظاہر پر محمول کرتے ہیں اور اس کی کوئی تاویل نہیں کرتے۔
(2)
اللہ تعالیٰ کا مدح کو پسند کرنا لوگوں کی مصلحت کے لیے ہے تاکہ وہ اس پر لوگوں کو ثواب عطا فرمائے کیونکہ جب لوگ اللہ تعالیٰ کی تعریف کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی تعریف ملأ اعلیٰ میں کرتا ہے۔
ویسے اللہ تعالیٰ لوگوں کی مدح و ثنا سے بے نیاز ہے۔
لوگوں کی مدح اللہ تعالیٰ کو نفع نہیں دیتی اور نہ اس کا ترک ہی اسے نقصان دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی مدح میں تسبیح و تحلیل اور دیگر اذکار ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5220   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7403  
7403. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی بھی غیرت مند نہیں، اسی لیے اس نے فواحش کو حرام قرار دیا ہے، نیز اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی کو مدح و تعریف پسند نہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7403]
حدیث حاشیہ:

آدمی کے لیے یہ عیب اور نقص ہے کہ وہ اپنی تعریف خود کرے یا کسی دوسرے سے اپنی تعریف پسند کرے لیکن اللہ تعالیٰ کے حق میں یہ عیب نہیں کیونکہ وہ تعریف کے لائق ہے۔
اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
مخلوق میں سے کوئی بھی کماحقہ اس کی تعریف نہیں کر سکتا۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے اللہ! میں تیری اس طرح تعریف نہیں کرسکتا جس قدر تو نے خود اپنی تعریف کی ہے۔
(جامع الترمذي، الدعوات، حدیث: 3566)

اس حدیث کے عنوان سے اس طرح مطابقت ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جسے انھوں نے کتاب التفسیر میں بیان کیا ہے۔
اس میں یہ الفاظ ہیں:
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف خود کی ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4634)
اس روایت میں نفس کا اطلاق پروردگار پر ہوا ہے۔
علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ روایت پرغور نہیں کیا بلکہ وہ اسے بھول گئے ہیں، اس لیے انھوں نے مطابقت ان الفاظ میں بیان کی کہ اس روایت میں "احد" کا لفظ نفس کی طرح ہے۔
(فتح الباري: 470/13)
کتاب التفسیر میں مروی روایت میں ذات باری تعالیٰ کے لیے لفظ نہیں نفس کا استعمال ہوا ہے، اس سے مراد ذات مقدسہ ہے۔
بعض لوگوں نے اس کی صفات کے بغیر صرف اذیت مراد لی ہے یا ان کے نزدیک اس سے مراد صرف صفت باری تعالیٰ ہے، یہ دونوں باتیں حقیقت کے خلاف ہیں۔
(مجموع الفتاویٰ: 292/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7403