صحيح مسلم
كِتَاب الرِّقَاقِ
کتاب الرقاق
26. باب أَكثَرِ أَهْلِ الْجَنَّةِ الْفُقَرَاءُ ، وَ أَكثَرِ أَهْلِ النَّارِ النِّسَاءُ ، وَبَيَانِ الْفِتْنَةِ بِالنِّسِاءِ
باب: جنت والے اکثر فقراء ہوں گے اور جہنم والے اکثر عورتیں ہوں گی، اور عورتوں کے فتنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 6948
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي مَسْلَمَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نَضْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ، وَإِنَّ اللَّهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا، فَيَنْظُرُ كَيْفَ تَعْمَلُونَ فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ، فَإِنَّ أَوَّلَ فِتْنَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَتْ فِي النِّسَاءِ ". وَفِي حَدِيثِ ابْنِ بَشَّارٍ: لِيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ.
محمد بن مثنیٰ اور محمد بن بشار نے ہمیں حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: ہمیں محمد بن جعفر نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: ہمیں شعبہ نے ابوسلمہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے ابونضرہ سے سنا، وہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے تھے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلاشبہ دنیا بہت میٹھی اور ہری بھری ہے اور اللہ تعالیٰ اس میں تمہیں (تم سے پہلے والوں کا) جانشیں بنانے والا ہے، پھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو، لہذا تم دنیا (میں کھو جانے سے) بچتے رہنا اور عورتوں (کے فتنے میں مبتلا ہونے سے) بچ کر رہنا، اس لیے کہ بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں (کے معاملے) میں تھا۔" اور بشار کی حدیث میں ہے: "تاکہ وہ دیکھے کہ تم کس طرح عمل کرتے ہو۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں،آپ نے فرمایا:"دنیا شیریں اور سر سبز و شاداب ہے اور اللہ تعالیٰ تمھیں اس میں ایک دوسرے کا جانشین بنانے والا ہے تاکہ وہ جائزہ لے تم کیسے عمل کرتے ہو۔ چنانچہ دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچ کر رہو۔ کیونکہ بنو اسرائیل کا پہلا امتحان عورتوں کے ذریعہ ہوا تھا:"ابن بشار کی حدیث میں ہے:"تاکہ وہ دیکھے تم کس طرح عمل کرتے ہو۔" یعنی "فَيَنظُر" کی جگہ "لِيَنظُرَ"ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 6948 کے فوائد و مسائل
الشيخ مبشر احمد رباني حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 6948
فوائد و مسائل
SR سوال: کیا یہ کہا جا سکتا کہ انسان اس دنیا میں اللہ کا خلیفہ اور نائب ہے؟ ER
جواب: خلیفہ عربی زبان کا لفظ ہے اور یہ «فعيلة» کے وزن پر ہے، جب ایک کے بعد دوسرا اس کے قائم قام ہو تو عرب کہتے ہیں «خلف فلان فلانا» فلاں شخص فلان کا خلیفہ و نائب ہوا۔
✿ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں آدم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:
« ﴿وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً﴾ »
” اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا: ” میں بلاشبہ زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔“ [2-البقرة:30]
↰ اس سے مراد پوری ذریت آدم ہے یعنی ایسی قوم پیدا کرنے والا ہوں جو ایک دوسرے کے جانشین ہوں گے نہ کہ اللہ کے جانشین ہوں گے (معاذ اللہ)
◈ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«اي قوما يخلف بعضهم بعض قرنا بعد قرن وجيلا بعد جيل»
” خلیفہ سے مراد یہ ہے کہ ان کے یکے بعد دیگرے بعض کے بعض جانشین ہوں گے اور ایک زمانے کے بعد دوسرے زمانے میں یونہی صدیوں تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔“
✿ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ایک اور مقام پر فرمایا:
« ﴿وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ »
” اللہ کی ہستی تو وہی ہے جس نے تمھیں زمین میں خلیفہ بنایا اور بعض کے بعض پر درجات بلند کیے تاکہ جو کچھ اس نے تمھیں دے رکھا ہے اس میں تمھیں آزمائش کرے۔ یقیناً آپ کا رب جلد سزا دینے والا ہے اور یقیناً وہ بخشنے والا مہربان بھی ہے۔“ [6-الأنعام:165]
✿ ایک اور جگہ فرمایا:
« ﴿أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَـهٌ مَعَ اللَّـهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ﴾ »
” کون ہے وہ جو بے قرار شخص کی دعا کو قبول کرے جب وہ بےقرار اس سے فریاد کرے اور اس کی مصیبت کو ٹال دے اور کون ہے جو زمین میں تمہیں خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی معبود بھی ہے؟ تم لوگ غور و فکر بہت کم کرتے ہو۔“ [27-النمل:62]
✿ ایک مقام پر فرمایا:
« ﴿وَلَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُمْ مَلَائِكَةً فِي الْأَرْضِ يَخْلُفُونَ﴾ »
” قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کرے اور تمہیں زمین میں جانشین بنا دے، پھر دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔“ [43-الزخرف:60]
❀ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إن الدنيا حلوة خضرة وإن الله مستخلفكم فيها فينظر كيف تعملون .»
” بےشک دنیا میٹھا سبزہ ہے اور بےشک اللہ تعالیٰ تمہیں اس دنیا میں خلیفہ بنانے والا ہے تاکہ وہ دیکھے تم کیسے عمل کر تے ہو۔“ [صحيح مسلم، كتاب الرقاق: باب اكثر اهل الحنة الفقراء 6948، مسند احمد 3/ 22]
◈ اس حدیث کی شرح میں شیخ مسلم بن محمود السلفی فرماتے ہیں:
«اي جاعلكم خلفاء من القرون الذين قبلكم فينظر هل تعلمون بطاعة ام بمعصية وشهواتكم .»
” یعنی وہ تمہیں پہلے لوگوں کے خلیفہ بنانے والا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ تم اس کی اطاعت کرتے ہو یا اس کی نافرمانی اور اپنی خواہشات پر عمل کرتے ہے۔“ [تعليق على صحيح مسلم 4/ 501]
↰ مذکورہ بالا آیات و احادیث سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ «إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً» میں خاص آ دم علیہ السلام مراد نہیں ہیں بلکہ ان کی تمام اولاد مراد ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ یکے بعد دیگرے اس زمین پر حکومت و خلافت عطا کرتا ہے۔
◈ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والظاهر أنه لم يرد آدم عينا، إذ لو كان ذلك، لما حسن قول الملائكة: ﴿أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها وَيَسْفِكُ الدِّماءَ﴾ فإنهم أرادوا: أن من هذا الجنس من يفعل ذلك .»
” ظاہر بات ہے کہ صرف آدم علیہ السلام کی ذات یہاں مراد نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو فرشتوں کا یہ قول بہتر نہیں تھا۔ ” تو زمین میں ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد اور خون ریزی کرے گا۔“ فرشتوں نے اس بات کا ارادہ کیا تھا کہ جنس آ دم میں سے ایسے لوگ ہیں جو فساد اور خونریزی کر یں گے۔“ [تفسير ابن كثير: ص 49]
◈ علامہ ابوحفص عمر بن علی المعروف ابن عادل الدمشقی فرماتے ہیں:
” مفسرین نے اس بات میں دو وجہوں پر اختلاف کیا ہے کہ آدم علیہ السلام کو خلیفہ کیوں کہا گیا۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی گئی ہے کہ جب اللہ نے زمین سے جنوں کو نکالا اور آدم علیہ السلام کو آباد کیا تو آدم علیہ السلام ان جنوں کے خلیفہ ہو گئے جو پہلے ہو گزرے، اس لیے کہ آدم علیہ السلام ان کے بعد میں آئے۔“
◈ اور دوسری وجہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خلیفہ اس لیے قرار دیا:
«لأنه يخلف الله في الحكم بين خلقه، وهو المروي عن ابن مسعود وابن عباس والسدي، وهذا الرأي متأكد بقوله: ﴿إنا جعلناك خليفة في الأرض فاحكم بين الناس بالحق﴾ » [ص: 26]
” وہ اللہ کی مخلوق کے درمیان اللہ کا حکم نافذ کرے گا اور یہ بات عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اور مفسر سدی سے روایت کی گئی ہے اور یہ رائے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے موکد ہوتی ہے:
” بے شک ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے آپ لوگوں کے درمیان حق سے فیصلہ کریں گے۔“ [اللباب فى علوم الكتاب 1/ 501، 500]
↰ مفسرین کی ان توجیہات سے معلوم ہو ا کہ انسان اللہ تعالیٰ کا نائب نہیں ہے۔ اسے خلیفہ یا تو اس لیے کہا گیا کہ یکے بعد دیگرے بعض افراد بعض کے جانشین ہیں اور ایک زمانے کے بعد دوسرے زمانے میں یہ سلسلہ جاری و ساری ہے یا پھر اس لیے کہ انسان اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون لوگوں کے درمیان نافذ کرتا ہے اور اسے عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
◈ حافظ صلاح الدین یوسف حفظ اللہ «إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً» کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
” خلیفہ سے مراد ایسی قوم ہے جو ایک دوسرے کے بعد آئے گی اور یہ کہنا کہ انسان اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے اور نائب ہے، غلط ہے۔“ [تفسير احسن الكلام: ص 17]
↰ بعض علماء نے جو انسان کو اللہ کا نائب و خلیفہ قرار دیا ہے تو اس سے مراد اللہ کے احکامات کا نفاذ کرنے والا ہے۔
◈ مولانا عبدالرحمان کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
” یہاں علی الاطلاق خلیفہ (نائب، قائم مقام) کا لفظ استعمال ہو ا ہے، صراحتاً یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ آدم اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے یا کسی دوسری مخلوق کا۔ بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ خلیفہ چونکہ وہ شخص ہوتا ہے جو کسی کے مرنے یا عدم موجودگی کی صورت میں اس کے اختیارات سنبھالتا ہے اور اللہ تو «حي لا يموت» اور ہمہ وقت حاضر ہے۔ لہذٰا آدم اللہ کے خلیفہ نہیں تھے بلکہ جنوں کے خلیفہ تھے۔ پھر ایک ایسی روایت بھی ملتی ہے کہ انسان کی پیدائش سے پیشتر اس زمین پر جن آباد تھے جو فتنہ و فساد اور قتل و غارت کرتے رہتے تھے تو اللہ نے فرشتوں کا لشکر بھیج کر ان جنوں کو سمندروں کی طرف دھکیل دیا اور آدم علیہ السلام ان کے خلیفہ ہوئے اور بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ خلافت یا نیابت کے لیے موت یا عدم موجوگی ضروری نہیں، بلکہ کوئی بااختیار ہستی اپنی موجوگی میں بھی کسی کو کچھ اختیارات تفویض کر کے اسے اپنا خلیفہ یا نائب بنا سکتی ہے کہ وہ اس کی منشا کے مطابق ان اختیارات کو استعمال کرے۔ ہمارے خیال میں دوسری رائے راجح ہے کیونکہ اس کی تائید ایک آیت سے بھی ہو جاتی ہے اور دنیا میں موجود سفارتی نظام سے بھی محولہ آیت کا ترجمہ یوں ہے: ” ہم نے امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی اور انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس بار عظیم کے اٹھانے سے ڈر گئے مگر انسان نے اسے اٹھا لیا کیونکہ انسان تو انہی جیسا ظالم واقع ہو ا ہے۔“ [الاحزاب: 72] اور تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہاں امانت سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے فرائض و احکام کی تعمیل اور ان کے نفاذ کا بار ہے اور اس کا دوسرا نظام، نظام خلافت ہے۔“ [تيسير القرآن: 1/ 389]
↰ مفسرین کی اس توضیح سے معلوم ہو ا کہ انسان کے خلیفہ ہونے کا یا تو یہ مفہوم ہے کہ یہ زمین پر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل، اطاعت و فرماں برداری اور شرعی قواعد و ضوابط کا نفاذ کرتا ہے یا پھر یہ ایک دوسرے کے بعد اس زمین پر وارد ہوتے ہیں اور صدیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے اور تا قیام قیامت جاری رہے گا۔ جیسا کہ امام ابن کثیر کے حوالے سے اور کئی ایک آیات قرآنیہ کے حوالے سے اوپر گزر چکا ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص انسان کو اللہ کا نائب یا خلیفہ اس معنوں میں لے کہ اللہ تعالیٰ کے کام انسان کرتا ہے اور اس کے افعال میں نائب ہے تو یہ معنی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ صحیح فہم نصیب فرمائے اور سلف صالحین کے منہج پر قائم و دائم رکھے۔ «آمين!»
احکام و مسائل، حدیث/صفحہ نمبر: 13
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6948
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
دنیا میں اللہ تعالیٰ نے دو خصوصیتیں رکھی ہیں،
وہ قلب و جگر کو شیریں ہو کر متاثر کرتی ہے اور سر سبزوشاداب ہو کر نظروں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے،
اس طرح قلب و نظر دونوں اس سے متاثر ہوتے ہیں،
حالانکہ اس کی مٹھاس اور سر سبزی جلد ہی فنا کا شکار ہوجاتی ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں دشمنوں نے للبعام کے مشورہ سے اسرائیلی لشکر میں حسین وجمیل نوجوان عورتیں بھیجی تھیں،
جن سے بعض فوجیوں نے بد کاری کر لی تھی،
جس کی بنا پر ان پر طاعون کا عذاب آیاتھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6948
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2191
´قیامت تک واقع ہونے والی چیزوں کے بارے میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی پیش گوئی۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عصر کچھ پہلے پڑھائی پھر خطبہ دینے کھڑے ہوئے، اور آپ نے قیامت تک ہونے والی تمام چیزوں کے بارے میں ہمیں خبر دی، یاد رکھنے والوں نے اسے یاد رکھا اور بھولنے والے بھول گئے، آپ نے جو باتیں بیان فرمائیں اس میں سے ایک بات یہ بھی تھی: ”دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں خلیفہ بنائے گا ۱؎، پھر دیکھے گا کہ تم کیسا عمل کرتے ہو؟ خبردار! دنیا سے اور عورتوں سے بچ کے رہو“ ۲؎، آپ نے یہ بھی فرمایا: ”خبردار! حق جان ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2191]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی تم کو پچھلی قوموں کا وارث ونائب بنائے گا،
یہ نہیں کہ انسان اللہ کا خلفیہ ونائب ہے یہ غلط بات ہے،
بلکہ اللہ خود انسان کا خلیفہ ہے جیساکہ خضرکی دعامیں ہے (والخلیفةبعد)
2؎:
یعنی تمہارے دین کے کاموں کے لیے دنیا جس قدر مفید اور معاون ہو اسی قدر اس کی چاہت کرو،
اور عورتوں کی مکاری اور ان کی چالبازی سے ہوشیار رہو۔
3؎:
اس حدیث سے بہت سارے فوائد حاصل ہوئے:
(1)
کھڑے ہوکر وعظ و نصیحت کرنا مسنون ہے۔
(2)
انسان بھول چوک کا شکار ہوتاہے،
یہاں تک کہ صحابہ کرام بھی اس سے محفوظ نہ رہے۔
(3)
اظہار حق کے لیے لوگوں کا ڈر و خوف مانع نہ ہو۔
(4) دنیا اورعورتوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
(5) عہد توڑنا قیامت کے دن رسوائی کا باعث ہوگی۔
(6) انسان پیدائش سے لے کر مرنے تک ایمان و کفر کی آزمائش سے گزر تاہے۔
(7) غصہ کے مختلف مراحل ہیں۔
(8) قرض کا لین دین،
کس انداز سے ہو۔
(9) غصہ کی حالت میں انسان کیا کرے؟
(10) دنیا سے اس کا کس قدر حصہ باقی رہ گیا ہے۔
(سند میں (علی بن زید بن جدعان) ضعیف ہیں،
اس لیے یہ حدیث اس سیاق سے ضعیف ہے،
لیکن اس حدیث کے کئی ٹکڑوں کے صحیح شواہد موجود ہیں،
دیکھیے: (الصحیحة: 486،
و 911)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2191