Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ
کتاب: علم کے بیان میں
47. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً} :
باب: اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تشریح میں کہ تمہیں تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
حدیث نمبر: 125
حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ سُلَيْمَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَرِبِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ مَعَهُ، فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنْ الْيَهُودِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَسْأَلُوهُ، لَا يَجِيءُ فِيهِ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَنَسْأَلَنَّهُ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، مَا الرُّوحُ؟ فَسَكَتَ، فَقُلْتُ: إِنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، فَقُمْتُ، فَلَمَّا انْجَلَى عَنْهُ، قَالَ: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85"، قَالَ الْأَعْمَشُ: هَكَذَا فِي قِرَاءَتِنَا.
ہم سے قیس بن حفص نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے، ان سے اعمش سلیمان بن مہران نے ابراہیم کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے علقمہ سے نقل کیا، انہوں نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے کھنڈرات میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی چھڑی پر سہارا دے کر چل رہے تھے، تو کچھ یہودیوں کا (ادھر سے) گزر ہوا، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپ سے روح کے بارے میں کچھ پوچھو، ان میں سے کسی نے کہا مت پوچھو، ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو تمہیں ناگوار ہو (مگر) ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم ضرور پوچھیں گے، پھر ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا، اے ابوالقاسم! روح کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی، میں نے (دل میں) کہا کہ آپ پر وحی آ رہی ہے۔ اس لیے میں کھڑا ہو گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (وہ کیفیت) دور ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (قرآن کی یہ آیت جو اس وقت نازل ہوئی تھی) تلاوت فرمائی (اے نبی!) تم سے یہ لوگ روح کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اور تمہیں علم کا بہت تھوڑا حصہ دیا گیا ہے۔ (اس لیے تم روح کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے) اعمش کہتے ہیں کہ ہماری قرآت میں «وما اوتوا» ہے۔ ( «‏‏‏‏وما اوتيتم» ‏‏‏‏) نہیں۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 125 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 125  
تشریح:
چونکہ توارۃ میں بھی روح کے متعلق یہ ہی بیان کیا گیا کہ وہ خدا کی طرف سے ایک چیز ہے، اس لیے یہودی معلوم کرنا چاہتے تھے کہ ان کی تعلیم بھی توراۃ کے مطابق ہے یا نہیں؟ یا روح کے سلسلہ میں یہ بھی ملاحدہ وفلاسفہ کی طرح دور از کار باتیں کہتے ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال آپ سے مکہ شریف میں بھی کیا گیا تھا، پھر مدینہ کے یہودی نے بھی اسے دہرایا۔ اہل سنت کے نزدیک روح جسم لطیف ہے جو بدن میں اسی طرح سرایت کئے ہوئے ہے، جس طرح گلاب کی خوشبو اس کے پھول میں سرایت کئے ہوتی ہے۔ روح کے بارے میں ستر اقوال ہیں۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب الروح میں ان پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ روح خالص ایک لطیف شئے ہے، اس لیے ہم اپنی موجودہ زندگی میں جو کثافت سے بھرپور ہے کسی طرح روح کی حقیقت سے واقف نہیں ہو سکتے، اکابر اہل سنت کی یہی رائے ہے کہ ادب کا تقاضا یہی ہے کہ روح کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے، بعض علماء کی رائے ہے کہ «من امر ربي» سے مراد روح کا عالم امر سے ہونا ہے جو عالم ملکوت ہے، جمہور کا اتفاق ہے کہ روح حادث ہے جس طرح دوسرے تمام اجزا حادث ہیں۔ حضرت امام قدس سرہ کا منشائے باب یہ ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی بڑا عالم فاضل محدث مفسر بن جائے مگر پھر بھی انسانی معلومات کا سلسلہ بہت محدود ہے اور کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ وہ جملہ علوم پر حاوی ہو چکا ہے۔ «الا من شاءالله»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 125   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:125  
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد پیش کردہ آیت کا شان نزول بیان کرنا نہیں، کیونکہ وہ اس حیثیت سے کتاب التفسیر میں اسے بیان کریں گے یہاں کتاب العلم میں غالباً اس لیے لائے ہیں کہ ہمیں جو علم ملا ہے اس پر قطعاً مغرور نہیں ہونا چاہے کیونکہ ہماری مجہولات، معلومات سے کہیں زیادہ ہیں۔
اس لیے سائل کو چاہیے کہ اسے جب کوئی علمی ضرورت درپیش ہو تو سوال کرنے میں کوئی حجاب نہ ہو اور نہ عالم ہی کو اس کا جواب دینے میں کوئی تکلف مانع ہو نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ غیب کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔
اس کے سوا کوئی نبی، فرشتہ یا ولی عالم الغیب نہیں۔

قران مجید میں لفظ روح کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے مثلاً:
(1)
۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام کے لیے۔
﴿نـزلَ بِهِ الرُّوحُ الأمِينُ﴾ (الشعراء26: 193)
(2)
۔
قران مجید کے لیے۔
﴿وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا﴾ (الشوری42: 52) (3)
۔
روح انسانی کے لیے۔
﴿فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا﴾ (تحریم 66: 12)
متعلقہ آیت میں روح سے مراد روح انسانی ہے جو پورے بدن میں پھیلی ہوئی ہے اور بدن کی حرکت اس روح کی مرہون منت ہے۔
اس کی حقیقت اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا لہٰذا ہمیں بھی اس کے متعلق لب کشائی سے اجتناب کرنا چاہیے۔

اس روایت کے آخر میں امام اعمش کی ایک قرآءت کا ذکر ہے کہ انھوں نے اسے غائب کے صیغے سے پڑھا ہے امام اعمش کے ایک شاگرد عبدالواحد اس طرح نقل کرتے ہیں، جبکہ متواتر قراءت مخاطب کے صیغے کے ساتھ ہے۔
حضرت اعمش کے باقی شاگردوں نے جمہور کی قراءت کے مطابق ہی نقل کیا ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4721، و التوحید، حدیث: 7456)
امام اعمش کی مذکورہ قرآءت شاذ ہے۔
امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآءت کی چند اقسام ذکرکی ہیں۔
متواتر، مشہور، آحاد، شاذ، موضوع اور مدرج وغیرہ انھوں نے قرآءت شاذ کے سلسلے میں امام اعمش اور یحییٰ بن وثاب کا حوالہ بھی دیا۔
(الإتقان: 75/2-
77)


اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت کی شان نزول یہود کا سوال ہے جبکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار قریش کے سوال کرنے پر یہ آیت نازل ہوئی۔
جو حضرات علوم قرآن سے شغف رکھتے ہیں انھوں نے اسباب نزول کے متعلق بہت نادر اور قیمتی مباحث نقل کیے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے:
(1)
۔
سبب نزول کے متعلق اگر مختلف روایات ہیں تو صحیح روایت کا اعتبار ہو گا۔
(2)
۔
اگرمتعدد صحیح روایات منقول ہیں تو وجوہ ترجیح کی بنیاد پر کسی ایک کو راجح قراردیا جائے گا۔
(3)
۔
اگر صحت اور سبب ترجیح میں مساوی ہوں تو وہاں انھیں جمع کرنے کی کوئی صورت پیدا کی جائے گی۔

اگر جمع ممکن نہ ہو تو تعدد نزول پر محمول کیا جائے گا۔
(مباحث فی علوم القرآن ص: 90،91)
مذکورہ روایت میں اس آیت کی شان نزول یہود کا سوال بیان ہوا ہے اور یہی راجح ہے، کیونکہ صحیح بخاری کا مقام جامع ترمذی کے مقابلے میں بلند و بالا ہے لیکن اصحاب "تدبر" کے ہاں قرآن فہمی کے لیے احادیث کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ان کے نزدیک احادیث وحی الٰہی ہی ہیں، بالخصوص صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی احادیث کے ساتھ مذاق و استخفاف ان کا محبوب مشغلہ ہے، چنانچہ ان حضرات نے "تدبرحدیث" کی آڑ میں پہلے تو شان نزول کی اہمیت کو کم کیا پھر سورہ بنی اسرائیل کے مکی یا مدنی ہونے کا شاخسانہ کھڑا کیا بعد ازیں امام اعمش کی قرآءت کا مذاق اڑایا آخر میں اس روایت پر بے سروپا ہونے کی پھبتی کسی اور بایں الفاظ اس حدیث کے متعلق زہراگلا البتہ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ایسی بے سروپا روایت بخاری نے اپنی صحیح میں کیوں لے لی۔
(تدبر حدیث: 225/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 125   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7059  
حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جبکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، ایک کھیت میں چل رہا تھا اور آپ نے کھجور کی چھڑی کا سہارا لیا ہوا تھا تو آپ یہودیوں کے ایک گروہ کے پاس سے گزرے تو انھوں نے ایک دوسرے سے کہا، ان سے روح کے بارے میں سوال کرو، دوسروں نے کہا:" تمھیں ان سے یہ سوال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔؟وہ تمھیں ایسا جواب نہ دے دیں، جو تمھیں ناپسندہو، دوسروں نے کہا، ان سے سوال کرو تو ان میں بعض... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:7059]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
مارابكم اليه:
تم کو اس سوال پر کس شک وشبہ نے آمادہ کیا ہے۔
(2)
لا يستقبلكم بشيء:
تمہیں وہ کوئی ایسا جواب نہ دے دیں،
جو تمھیں ناپسند ہو،
جس سے اس کی نبوت ثابت ہوتی ہے۔
فوائد ومسائل:
جس روح کے بارے میں یہود نے قریش کے اکسانے پر سوال کیا تھا،
اس سے کیا مراد ہے،
اس کے بارے میں اختلاف ہے،
بعض کے نزدیک اس سےمرادروحیات ہے،
جس سے انس و حیوان اور جن زندہ ہیں،
بعض کے نزدیک،
جبریل ہے اور بعض کے نزدیک عیسٰی علیہ السلام اور بعض کے نزدیک مرادوحی ہے،
جس سے قلب وروح کوزندگی حاصل ہوتی ہےاور وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا سے،
اس آخری قول کی تائید ہوتی ہےاوروحی کی حقیقت وہ جان سکتا ہے،
جس پر اس کانزول ہوتا ہے،
دوسروں کے لیے اس کا سمجھنا ممکن نہیں ہے۔
اس حدیث کی بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے یہ سوال براہ راست یہود نے مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد کیا تھاجیسا کہ صراحتا آرہاہے فی حرث المدينه لیکن یہ آیت سورۂ بنی اسرائیل کی ہے جس سے معلوم ہوا یہ سوال مشرکین مکہ نے کیا تھا تو اس حدیث سےمعلوم ہوا ہے یہودیوں نے قریش مکہ کو بتایا کہ وہ یہ سوال کریں پھر ہجرت کے بعد براہ راست سوال کیا تو پھر نزول الوحی کا معنی ہوگا آپ کے توجہ پہلے نازل شدہ آیت کی طرف مبذول کی گئی ہے کہ کسی مزید جواب کی ضرورت نہیں ہے اتنا جواب ہی کافی ہے اس لئے تعدد نزول آیت دوبارہ اتری کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7059   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4721  
4721. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ نبی ﷺ کے ہمراہ ایک کھیت میں جا رہا تھا جبکہ آپ کھجور کی ایک چھڑی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اتنے میں چند یہودی سامنے سے گزرے اور آپس میں کہنے لگے: اس سے روح کے متعلق سوال کرو۔ کسی نے کہا: کیوں، آخر ایسی کیا ضرورت ہے؟ اور کسی نے کہا: ممکن ہے وہ تمہیں ایسی بات کہہ دے جو تمہیں ناگوار گزرے۔ آخر یہی طے ہوا کہ پوچھو تو سہی، چنانچہ انہوں نے آپ سے پوچھا: روح کیا چیز ہے؟ نبی ﷺ خاموش رہے اور انہیں کوئی جواب نہ دیا۔ میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی آنے لگی ہے۔ میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ جب وحی ختم ہوئی تو آپ نے یہ آیت پڑھی: اور وہ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ آپ ان سے کہہ دیں کہ روح میرے رب کا امر ہے اور تمہیں تو بس تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4721]
حدیث حاشیہ:
روح کو امر رب یعنی پروردگار کا حکم فرمایا اوراس کی حقیقت بیان نہیں کی۔
کیونکہ اگلے پیغمبروں نے بھی اس کی حقیقت بیان نہیں کی اور یہودیوں نے باہم یہی کہا کہ اگر روح کی حقیقت بیان نہ کریں تو یہ بے شک پیغمبر ہیں اگر بیان کریں تو ہم سمجھ لیں گے کہ حکیم ہیں پیغمبر نہیں ہیں۔
ابن کثیر نے کہا روح ایک مادہ ہے لطیف ہوا کی طرح اور بدن کے ہر جزو میں اس طرح حلول کئے ہوئے ہے جیسے پانی ہری بھری شاخوں میں۔
یہ روح حیوانی کی حقیقت ہے اور روح انسانی یعنی نفس ناطقہ وہ بدن سے متعلق ہے حکم الٰہی سے جب موت آتی ہے تو یہ تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔
تفصیل کے لئے حضرت امام ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب الروح کا مطالعہ کیا جائے۔
سند میں مذکور علقمہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ ہیں۔
انس بن مالک اوراپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں۔
ان سے مالک بن انس اور سلیمان بن بلال نے روایت کی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4721   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7456  
7456. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے ایک کھیت میں جا رہا تھا جبکہ آپ ﷺ کھجور کی ایک چھڑی کے سہارے چل رہے تھے۔ آپ چند یہودیوں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: ان سے روح کے متعلق دریافت کرو۔ ایک نے کہا: ان سے روح کے متعلق مت پوچھو۔ آخر انہوں نے آپ سے روح کے متعلق پوچھ ہی لیا تو آپ چھڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے جبکہ میں آپ کے پیچھے تھا۔ میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: اور لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ ان سے فرما دیں کہ روح تو میرے رب کا امر ہے اور تمہیں بہت کم علم دیا گیا ہے۔ پھر ان یہودیوں نے ایک دوسرے سے کہا: ہم نے تمہیں خبردار کر دیا تھا کہ ان سے کچھ نہ پوچھو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7456]
حدیث حاشیہ:
(تفصیل آئندہ آنے والی حدیث میں ملاحظہ ہو)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7456   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7462  
7462. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ مدینہ طیبہ کے ایک کھیت میں نبی ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی کا سہارا لیے جا رہے تھے۔ اتنے میں ہم یہودیوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرے تو انہوں نے آپس میں کہا: ان سے روح کے متعلق پوچھو۔ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا: ان سے نہ پوچھو، مبادا ایسا جواب دیں جو تمہیں ناگوار ہو، اس کے باوجود کچھ یہودیوں نے کہا: ہم ضرور پوچھیں گے چنانچہ ان میں سے ایک آدمی نے اٹھ کر کہا: ہم ضرور پوچھیں گے چنانچہ ان میں سے ایک آدمی نے اٹھ کر کہا: اے ابو القاسم! روح کیا چیز ہے؟ نبی ﷺ اس (کو جواب دینے) سے خاموش رہے تو مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: وہ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دیجیے روح میرے رب کا امر ہے اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ اعمش نے کہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7462]
حدیث حاشیہ:
مشہورقراءت میں وما أوتیتم ہے۔
روح کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا وہ حقیقت ہے کہ اس قدر کدو کاوش کے باوجود آج تک دنیا کو روح کا حقیقی علم نہ ہو سکا۔
یہودی اس معقول جواب کو سن کر بالکل خاموش ہوگئے کیونکہ آگے قیل وقال کا دروازہ ہی بند کر دیا گیا۔
آیت (قُلْ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي)
میں روح کی حقیقت کو واضح کر دیا گیا کہ وہ جاندار بے قدر و بے قیمت ہوکر رہ جاتا ہے۔
روح کے بارے میں فلاسفہ اور موجودہ سائنس دانوں نے حو کچھ کہا ہے وہ سب تخمینی باتیں ہیں چونکہ یہ سلسلہ ذکرروح حدیث میں امر رب کا ذکر ہے اسی لیے اس حدیث کو یہاں لایا گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7462   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7297  
7297. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک مرتبہ نبی ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے کسی کھیت میں تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ کھجور کی ایک شاخ کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اس دوران میں آپ یہودیوں کے گروہ کے پاس سے گزرے تو ان میں سے کسی نے کہا: ان سے روح کے متعلق سوال کرو؟ لیکن دوسروں نے کہا: ان سے کچھ نہ پوچھو، ایسا نہ ہو کہ وہ ایسی بات سنا دیں جو تمہیں ناگوار ہو۔ آخر وہ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے ابو القاسم! ہمیں روح کے متعلق بتائیں۔ آپ ﷺ تھوڑی دیر کھڑے دیکھتے رہے۔ میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ میں تھوڑی دور ہٹ گیا یہاں تک کہ وحی کا نزول پورا ہوگیا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں۔آپ فر دیں کہ روح میرے رب کا امر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7297]
حدیث حاشیہ:
ان یہودیوں نے آپس میں یہ صلاح کی تھی کہ ان سے روح کا پوچھو۔
اگر یہ روح کی کچھ حقیقت بیان کریں جب تو سمجھ جائیں گے کہ یہ حکیم ہیں‘ پیغمبر نہیں ہیں۔
چونکہ کسی پیغمبر نے روح کی حقیقت بیان نہیں کی۔
اگر یہ بھی بیان نہ کریں تو معلوم ہوگا کہ پیغمبر ہیں۔
اس پر بعضوں نے کہا نہ پوچھو‘ اس لیے کہ اگر انہوں نے بھی روح کی حقیقت بیان نہیں کی تو ان کی پیغمبری کا ایک اور ثبوت پیدا ہوگا اور تم کو نا گوار گزرے گا۔
روح کی حقیقت میں آدم علیہ السلام سے لے کر تا ایں دم ہزارہا حکیموں نے غور کیا اور اب تک اس کی حقیقت معلوم نہیں ہوئی۔
اب امریکہ کے حکیم روح کے پیچھے پڑے ہیں لیکن ان کو بھی اب تک پوری حقیقت دریافت نہ ہو سکی‘ پر اتنا تو معلوم ہو گیا کہ بیشک روح ایک جوہر ہے جس کی صورت ذی روح کی صورت کی سی ہوتی ہے۔
مثلاً آدمی کی روح اس کی صورت پر‘ کتے کی روح اس کی صورت پر اور یہ جو ہر ایک لفطیف جوہر ہے جس کا ہر جزو جسم حیوانی کے ہر جز میں سما جاتا ہے اور بوجہ شدت لطافت کے اس کو نہ پکڑ سکتے ہیں نہ بند کر سکتے ہیں۔
روح کی لطافت اس درجہ ہے کہ شیشہ میں سے بھی پار ہو جاتی ہے حالانکہ ہوا اور پانی دوسرے اجسام لطیفہ اس میں سے نہیں نکل سکتے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے۔
اس نے روح کو اپنی ذات مقدس کا ایک نمونہ اس دنیا میں رکھا ہے تا کہ جو لوگ صرف محسوسات کو مانتے ہیں وہ روح پر غور کر کے مجردات یعنی جنوں اور فرشتوں اور پروردگار کا بھی مانیں کیونکہ روح کے وجود سے انکار کرنا یہ ممکن نہیں ہو سکتا ہے۔
ہر آدمی جانتا ہے کہ ساٹھ برس ادھر میں فلانے ملک میں گیا تھا میں نے یہ یہ کام کئے تھے حالانکہ اس ساٹھ برس میں اس کا بدل کئی بار بدل گیا۔
یہاں تک کہ اس کا کوئی جزو قائم نہیں رہا‘ پھر وہ چیز کیا ہے جو نہیں بدلی اور جس پر میں کا اطلاق ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے آدمیوں کا عجز دکھانے کے لیے روح کی حقیقت پوشیدہ کر دی۔
پیغمبروں کو اتنا ہی بتلایا گیا کہ وہ پروردگار کا امر یعنی حکم ہے۔
مثلاً ایک آدمی کہیں کا حاکم ہوا تعلق دار یا تحصیلدار ڈپٹی کلکٹر پر اس کی موقوفی کا حکم بادشاہ پاس سے صادر ہو جائے۔
دیکھو وہ شخص وہی رہتا ہے جو پہلے تھا اس کی کوئی چیز نہیں بدلتی لیکن موقوفی کے بعد اس کو تعلقدار یا تحصیلدار یا ڈپٹی کلکٹر نہیں کہتے۔
آخر کیا چیز اس میں سے جاتی رہی‘ وہی حکم بادشاہ کا جاتا رہا۔
اسی طرح روح بھی پروردگار کا ایک حکم ہے یعنی حیوۃ کی صفت کا ظہور ہے۔
جہاں یہ حکم اٹھ گیا‘ حیوان مر گیا اس کا جسم وغیرہ سب ویسا ہی رہتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7297   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4721  
4721. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ نبی ﷺ کے ہمراہ ایک کھیت میں جا رہا تھا جبکہ آپ کھجور کی ایک چھڑی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اتنے میں چند یہودی سامنے سے گزرے اور آپس میں کہنے لگے: اس سے روح کے متعلق سوال کرو۔ کسی نے کہا: کیوں، آخر ایسی کیا ضرورت ہے؟ اور کسی نے کہا: ممکن ہے وہ تمہیں ایسی بات کہہ دے جو تمہیں ناگوار گزرے۔ آخر یہی طے ہوا کہ پوچھو تو سہی، چنانچہ انہوں نے آپ سے پوچھا: روح کیا چیز ہے؟ نبی ﷺ خاموش رہے اور انہیں کوئی جواب نہ دیا۔ میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی آنے لگی ہے۔ میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ جب وحی ختم ہوئی تو آپ نے یہ آیت پڑھی: اور وہ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ آپ ان سے کہہ دیں کہ روح میرے رب کا امر ہے اور تمہیں تو بس تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4721]
حدیث حاشیہ:

کچھ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال قریش مکہ نے یہود مدینہ کے کہنے پر کیا تھا۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3140)
مگر صحیح بخاری کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال یہود مدینہ ہی نے کیا تھا جیساکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں (خَرِبِ المَدينَةِ)
مدینہ کے کھنڈرات کی تصریح ہے۔
(صحیح البخاری، العلم، حدیث: 125)
ممكن ہے کہ ان آیات کا نزول مکرر ہو۔
ایک روایت میں صراحت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو یہودی کہنے لگے:
ہمیں بہت علم دیا گیا ہے۔
ہمیں تورات دی گئی ہے اور جسے تورات مل گئی تو اسے بہت بھلائی مل گئی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
آپ ان سے کہہ دیں:
اگرمیرے پروردگار کی باتیں لکھنے کےلیے سمندر سیاہ بن جائے تو سمندر ختم ہوجائے گا مگرمیرے پروردگار کی باتیں ختم نہیں ہوں گی، خواہ اتنی ہی اور بھی سیاہی لائی جائے۔
(الکھف: 109/18 و جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3140)

جس روح کے متعلق یہود نے سوال کیا تھا اس سے کون سی روح مراد ہے۔
اس سلسلے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بہت سے اقوال نقل کیے ہیں:
۔
روح انسان۔
۔
روح حیوان
۔
جبریل علیہ السلام۔
۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام
۔
قرآن۔
۔
فرشتہ۔
۔
وحی الٰہی۔
۔
خاص مخلوق، پھر انھوں نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اس سے مراد روح انسان ہے۔
(فتح الباري: 511/8)

حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
روح انسانی ایک ایسی چیز ہے جس کے متعلق سب جانتے اور اسے تسلیم کرتے ہیں۔
اس کا تذکرہ قرآن نے جہاں بھی کیا ہے وہاں اس کے لیے لفظ "نفس" استعمال کیاہے، لفظ "روح" استعمال نہیں کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس روح کے متعلق یہود مدینہ نے سوال کیا تھا اس سے مراد وہ روح ہے جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہے:
﴿يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَـئِكَةُ صَفَّاً﴾ یعنی حضرت جبریل علیہ السلام روح انسانی مراد نہیں۔
(النباء: 38، وکتاب الروح، ص: 243)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تحقیق کومرجوح قراردیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہود کا سوال روح انسانی کے متعلق تھا۔
(فتح الباري: 513/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4721   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7297  
7297. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک مرتبہ نبی ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے کسی کھیت میں تھا جبکہ رسول اللہ ﷺ کھجور کی ایک شاخ کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اس دوران میں آپ یہودیوں کے گروہ کے پاس سے گزرے تو ان میں سے کسی نے کہا: ان سے روح کے متعلق سوال کرو؟ لیکن دوسروں نے کہا: ان سے کچھ نہ پوچھو، ایسا نہ ہو کہ وہ ایسی بات سنا دیں جو تمہیں ناگوار ہو۔ آخر وہ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے ابو القاسم! ہمیں روح کے متعلق بتائیں۔ آپ ﷺ تھوڑی دیر کھڑے دیکھتے رہے۔ میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ میں تھوڑی دور ہٹ گیا یہاں تک کہ وحی کا نزول پورا ہوگیا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں۔آپ فر دیں کہ روح میرے رب کا امر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7297]
حدیث حاشیہ:

یہودیوں نے باہمی مشورے سے یہ بات طے کی کہ نبی آخرالزمان (صلی اللہ علیہ وسلم)
سے روح کے متعلق سوال کیا جائے، اگرروح کی حقیقت بیا ن کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دانشور اور حکیم ہیں پیغمبر نہیں ہیں کیونکہ کسی پیغمبر نے روح کی حقیقت بیان نہیں کی۔
اگر روح کی حقیقت بیان نہ کریں تو پیغمبر ہیں۔
کچھ یہودیوں نے کہا:
ان سے یہ سوال نہ کیا جائے کیونکہ اگر انھوں نےروح کی حقیقت بیان نہ کی تو یہ ان کے رسول ہونے کا ایک اور ثبوت مل جائے گا جو تمھیں ناگوار گزرے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ اس روح کی ماہیت کا علم کسی کو نہیں ہو سکا۔
مغربی دانشور اس کے متعلق تحقیق کر رہے ہیں لیکن ابھی تک انھیں کوئی سراہا ہاتھ نہیں آسکا، بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ علم کسی کو نہیں ہو سکا۔
مغربی دانشور اس کے متعلق تحقیق کر رہے ہیں لیکن ابھی تک انھیں کوئی سراہا ہاتھ نہیں آسکا، بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ روح ایک ایسا لطف جوہر ہے جوذی روح کی شکل وصورت جیسا ہوتا ہے اور اس کا ہر جز جسم حیوانی کے ہرجز میں سما جاتا ہے۔
بہرحال یہ اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا راز ہے جس پر کوئی بھی مطلع نہیں ہو سکتا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
کہہ دیجئے!روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمھیں تو بس تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔
(بني إسرائیل: 85)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اس قسم کے سوالات محض تکلفات ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ انسان کی عملی زندگی ہی سے اس کا کوئی تعلق ہے، اس لیے ایسے سوالات پوچھنے سے بچنا چاہیے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7297   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7456  
7456. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ مدینہ طیبہ کے ایک کھیت میں جا رہا تھا جبکہ آپ ﷺ کھجور کی ایک چھڑی کے سہارے چل رہے تھے۔ آپ چند یہودیوں کے پاس سے گزرے تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: ان سے روح کے متعلق دریافت کرو۔ ایک نے کہا: ان سے روح کے متعلق مت پوچھو۔ آخر انہوں نے آپ سے روح کے متعلق پوچھ ہی لیا تو آپ چھڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے جبکہ میں آپ کے پیچھے تھا۔ میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: اور لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ ان سے فرما دیں کہ روح تو میرے رب کا امر ہے اور تمہیں بہت کم علم دیا گیا ہے۔ پھر ان یہودیوں نے ایک دوسرے سے کہا: ہم نے تمہیں خبردار کر دیا تھا کہ ان سے کچھ نہ پوچھو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7456]
حدیث حاشیہ:

یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس روح کے متعلق سوال کیا تھا اس سے کیا مراد ہے؟ اس کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے۔
مفسرین میں سے اکثریت کا کہنا ہے کہ اس سے مراد ارواح بنی آدم ہیں۔
جب وہ (روح)
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو اسے عذاب کیوں ہوتا ہے؟ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس سے مراد حضرت جبریل علیہ السلام ہیں بعض مفسرین کے خیال کے مطابق اس سے مراد وہ فرشتہ ہے جس کی جسامت تمام مخلوق کے برابر ہے۔
ہمارے نزدیک اس سے مراد وہ جان ہے جو ہر جاندار کے جسم میں ہوتی ہے اور جب تک وہ جسم میں موجود رہے جاندار زندہ رہتا ہے اور اس کے نکلنے سے وہ مر جاتا ہے انسان نے اس کے متعلق بہت تحقیق کی ہے تاہم ابھی تک اس کی حقیقت جاننے سے قاصر ہی رہا ہے۔

واضح رہے کہ قرآن نے اسے نفس سے تعبیر کیا ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ روح پر لفظ نفس کا اطلاق اس وقت ہوتا ہے جب وہ بدن میں موجود ہو اور جب نکل جائے تو اسے روح کہا جاتا ہے۔
آیت کریمہ میں "أمر" سے مراد مامور ہے۔
لغت عرب میں یہ استعمال عام ہے۔

اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ روح اللہ تعالیٰ کے امر سے ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے پائی گئی ہے۔
امر اللہ روح نہیں بلکہ روح اس کی مخلوق ہے۔
اللہ تعالیٰ کا حکم روح سے پہلے ہے۔
اللہ تعالیٰ کے احکام کا تعلق اللہ کی صفات سے ہے جو قدیم ہیں البتہ روح سے اس کا تعلق حادث ہے اور روح اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور امر اللہ کے علاوہ ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7456   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7462  
7462. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ مدینہ طیبہ کے ایک کھیت میں نبی ﷺ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی کا سہارا لیے جا رہے تھے۔ اتنے میں ہم یہودیوں کی ایک جماعت کے پاس سے گزرے تو انہوں نے آپس میں کہا: ان سے روح کے متعلق پوچھو۔ان میں سے کچھ لوگوں نے کہا: ان سے نہ پوچھو، مبادا ایسا جواب دیں جو تمہیں ناگوار ہو، اس کے باوجود کچھ یہودیوں نے کہا: ہم ضرور پوچھیں گے چنانچہ ان میں سے ایک آدمی نے اٹھ کر کہا: ہم ضرور پوچھیں گے چنانچہ ان میں سے ایک آدمی نے اٹھ کر کہا: اے ابو القاسم! روح کیا چیز ہے؟ نبی ﷺ اس (کو جواب دینے) سے خاموش رہے تو مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: وہ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دیجیے روح میرے رب کا امر ہے اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ اعمش نے کہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7462]
حدیث حاشیہ:

مشہور قراءت میں (وَمَا أُوتِيتُم)
ہے یعنی تمھیں بہت تھوڑا علم دیا گیا البتہ امام اعمش کی قراءت میں (وَمَا أُوتُوا)
یعنی ماضی غائب کا صیغہ ہے اور یہ قراءت شاذ ہے۔

روح کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔
فلا سفہ نے اس کے متعلق جو کہا ہے وہ سب تخمینی جو کہا ہے وہ سب تخمینی باتیں ہیں موجود سائنس دانوں کو سخت محنت کے باوجود اس کے متعلق کوئی حقیقی علم نہیں ہو سکا۔
اس وقت کے یہودی اس معقول جواب کو سب کر بالکل خاموش ہو گئے کیونکہ اس جواب نے قیل و قال کا دروازہ ہی بند کر دیا آیت کریمہ میں روح کی حقیقت کو واضح کر دیا گیا ہے کہ وہ ایک امر رب ہے جب تک وہ کسی حیوان میں ہے اس کی قدر و قیمت ہے اور جب وہ اس سے الگ ہو جاتی ہے تو وہی حیوان بے قدر اور بے قیمت ہو کر رہ جاتا ہے۔
یہودیوں کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لیا جائے کیونکہ ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ روح کی حقیقت کوئی شخص نہیں جانتا اگر یہ حضرت اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو روح کی حقیقت بیان نہیں کریں گے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ حدیث میں ذکر کردہ آیت کریمہ سے اپنا مدعا ثابت کیا ہے کہ روح کا وجود اللہ تعالیٰ کے امر کے مرہون منت ہے۔
اللہ تعالیٰ کا امر ایک الگ حقیقت ہے جو غیر مخلوق ہے اور روح جو اس کی وجہ سے معرض وجود میں آئی ہے وہ مخلوق ہے اور اللہ تعالیٰ کا امر اس روح کی تخلیق سے پہلے موجود تھا البتہ اس امر کا تعلق اس روح سے حادث ہے۔
اس روح کو اللہ تعالیٰ نے کلمہ کن سے ہی پیدا کیا ہے۔
یہی بات عنوان میں بیان کی گئی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7462