Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ
ذکر الہی، دعا، توبہ، اور استغفار
21. باب دُعَاءِ الْكَرْبِ:
باب: مصیبت کے وقت کی دعا۔
حدیث نمبر: 6921
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ سَعِيدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ عِنْدَ الْكَرْبِ: " لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ "،
معاذ بن ہشام نے کہا: مجھے میرے والد نے قتادہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوعالیہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کرب کے وقت یہ دعا کیا کرتے تھے: "اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں جو سب سے عظیم ہے، سب سے زیادہ حلم والا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں جو عرش عظیم کا مالک ہے۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں جو آسمانوں کا مالک، زمینوں کا مالک اور عزت والے عرش کا مالک ہے۔"
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پریشانی کے وقت یہ کلمات پڑھتے۔"اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ بڑی عظمت والا،بردبار ہے۔ کوئی مالک و معبود نہیں اللہ کے سوا وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔ کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا، اللہ آسمانوں کا مالک ہے اور زمین کا مالک ہے اور عرش کریم کا مالک ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 6921 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6921  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس میں زمین سے لے کر عرش تک کے مالک سے،
جو رب ہونے کے ساتھ ساتھ حلیم ہے،
اپنی فکرو پریشانی کے ازالہ کی درخواست ہے اور رب ہونے کی حیثیت سےوہی مشکل کشا اور حاجت روا ہے،
اس لیے اس سے یہ درخواست کی جا سکتی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6921   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3883  
´مصیبت کے وقت دعا کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سخت تکلیف کے وقت یہ (دعا) پڑھتے تھے: «لا إله إلا الله الحليم الكريم سبحان الله رب العرش العظيم سبحان الله رب السموات السبع ورب العرش الكريم» اللہ حلیم (برد بار) و کریم (کرم والے) کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، پاکی بیان کرتا ہوں عرش عظیم کے رب اللہ کی، پاکی بیان کرتا ہوں ساتوں آسمان اور عرش کریم کے رب اللہ کی۔‏‏‏‏ وکیع کی ایک روایت میں ہے کہ ہر فقرے کے شروع میں ایک ایک بار «لا إله إلا الله» ہے۔ ۱؎ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3883]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
مذکورہ بالا دعا دووسری روایت کے مطابق اسی طرح بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ (لا اله الا الله الحليم الكريم لا اله الا الله رب العرش العظیم لا اله الاا لله رب السموات السبع ورب العرش الكريم) (لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ، وَرَبِّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ)
 صحيح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت سے بھی اس کی تایئد ہوتی ہے حوالے کے لئے دیکھئے تحقیق وتخریج حدیث ہذا۔

(2)
کسی بھی مصیبت اور تکلیف کے وقت یہ دعا مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ اس سے نجات دیتا ہے مثلا درد بیماری آگ لگ جائے یا پانی میں ڈوبنے کا خطرہ ہو یا کوئی اچانک حادثہ پیش آجائے تو یہ دعا پڑھنی چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3883   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3435  
´تکلیف و مصیبت کے وقت کیا پڑھے؟`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے: «لا إله إلا الله الحليم الحكيم لا إله إلا الله رب العرش العظيم لا إله إلا الله رب السموات والأرض ورب العرش الكريم» کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے اللہ بلند و بردبار کے، اور کوئی معبود برحق نہیں سوائے اس اللہ کے جو عرش عظیم کا رب (مالک) ہے اور کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے اس اللہ کے جو آسمانوں اور زمینوں کا رب ہے اور قابل عزت عرش کا رب ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3435]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کوئی معبود برحق نہیں ہے سوا ئے اللہ بلند وبردبار کے،
اور کوئی معبود برحق نہیں سوائے اس اللہ کے جو عرش عظیم کا رب (مالک) ہے اور کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے اس اللہ کے جو آسمانوں اور زمینوں کا رب ہے اور قابل عزت عرش کا رب ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3435   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7426  
7426. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ سب کچھ جاننے والا بڑا بردبار ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ عرش عظیم کا مالک ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو آسمانوں کا مالک زمین کا رب اور عرش کریم کا مالک ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7426]
حدیث حاشیہ:
عرش عظیم ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔
خدا جانے تاویل کرنے والوں نے اس پر کیوں غورنہیں کیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7426   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7431  
7431. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ مصیبت اور پریشانی کے وقت درج زیل کلمات کے ساتھ دعا فرمایا کرتے تھے: اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہی صاحب عظمت اور بردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہی عرش عظیم کا مالک ہے اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہی آسمانوں اور عرش کریم کا مالک ہے۔۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7431]
حدیث حاشیہ:
ا س میں عرش عظیم کا ذکرہے باب سے یہی مناسبت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7431   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6346  
6346. حضرت ابن عباس ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پریشانی کی حالت میں یہ دعا پڑھتے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو صاحب عظمت اور بردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو عرش عظیم کا مالک ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو زمین و آسمان اور عرش کریم کا مالک ہے۔ وہب نے کہا: ہم سے شعبہ نے قتادہ کے واسطے سے اسی طرح بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6346]
حدیث حاشیہ:
(1)
کسی بھی پریشانی اور مصیبت کے وقت اگر یہ ذکر کیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس سے نجات دیتا ہے، مثلاً:
درد، بیماری یا آگ وغیرہ لگ جائے یا پانی میں ڈوب جانے کا خطرہ ہو یا کوئی اچانک حادثہ پیش آ جائے تو اس ذکر کو پڑھنا مسنون ہے۔
(2)
اگرچہ اس میں دعا کا ذکر نہیں ہے لیکن اگر کوئی ذکر کرتے وقت اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اسے سوال کرنے والوں سے زیادہ اور بہتر بدلہ دیتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ذکر کے آخر میں کہتے:
اے اللہ! اس کے شر کو دور کر دے۔
(الأدب المفرد، حدیث: 702)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پریشانی کے وقت درج ذیل دعا بھی منقول ہے:
اے اللہ! میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں۔
مجھے پلک جھپکنے کے برابر بھی میرے نفس کے سپرد نہ کر۔
میرے تمام حالات کو درست کر دے۔
تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔
(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5090)
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پریشانی کے وقت درج ذیل دعا پڑھنے کی تلقین کی تھی:
(اَللهُ اَللهُ رَبِّي، لَا أُشركُ بِه شيئا)
اللہ اور صرف اللہ میرا رب ہے۔
میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتی۔
(سنن ابن ماجة، الدعاء، حدیث: 3882)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6346   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7426  
7426. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ پریشانی کے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ سب کچھ جاننے والا بڑا بردبار ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ عرش عظیم کا مالک ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں جو آسمانوں کا مالک زمین کا رب اور عرش کریم کا مالک ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7426]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الدعوات میں اس حدیث پر ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے۔
(باب الدعاء عند الكرب)
"پریشانی کے وقت کی دعا"یہ دعا تکلیفیں،مصیبتیں اور پریشانیاں دور کرنے کے لیے اکسیرکی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس میں توحید کی تینوں قسموں کا ذکر ہے یعنی یہ دعا توحید الوہیت، توحید ربوبیت اور توحید الاسماء والصفات پر مشتمل ہےاس دعا میں اللہ تعالیٰ کے عرش کی دو صفات ہیں۔
ایک یہ کہ وہ عظیم ہے جو اس کے بڑے اور وسیع ہونے کی علامت ہے اوردوسری صفت کریم ہے جو اس کے حسین و جمیل اور خوبصورت ہونے سے عبارت ہے یعنی مقدار اور معیار کے اعتبار سے قابل تعریف ہے۔
عرش کے عظیم و کریم ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اس کا رب ہے۔
یہ نسبت اس کی خصوصیت وامتیاز پر دلالت کرتی ہے۔
وہ خصوصیت اورامتیاز یہ ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہے اور وہ ذات باری تعالیٰ کے لیے محل استواء ہے۔

واضح رہے کہ لغت عرب میں بادشاہ کے لیے مخصوص تخت کو عرش کہا جاتا ہے جیسا کہ ملکہ سبا کے متعلقہ قرآن میں ہے کہ اس کا ایک عظیم الشان تخت تھا۔
(النمل: 23)
شریعت کی اصطلاح میں اس سے مراد وہ عظیم تخت ہے جس پر اللہ تعالیٰ مستوی ہے اور یہ عرش تمام مخلوقات سے اوپر اور تمام مخلوقات سے بڑا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کی تین صفات بیان کی ہیں۔
عظیم وہ بہت بڑا ہے۔
کریم وہ عزت والا ہے۔
مجید وہ از حد بزرگی والا ہے۔
اور کرسی عرش کے علاوہ ہے۔
قرآن کریم کے بیان کے مطابق کرسی زمین اور آسمانوں سے بڑی ہے۔
(البقرة: 255)
اللہ تعالیٰ کا عرش کرسی سے کہیں زیادہ بڑا اور بزرگی والا ہے اللہ تعالیٰ اس عرش عظیم کا مالک ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ عرش کی عظمت ووسعت بیان کرنے کے لیےیہ حدیث لائے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7426   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7431  
7431. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ مصیبت اور پریشانی کے وقت درج زیل کلمات کے ساتھ دعا فرمایا کرتے تھے: اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہی صاحب عظمت اور بردبار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہی عرش عظیم کا مالک ہے اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہی آسمانوں اور عرش کریم کا مالک ہے۔۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7431]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کے مطابق عرش کے متعلق صراحت ہے کہ وہ عظیم اور کریم ہے۔
اس سے پہلے بھی بیان کر چکے ہیں۔
کہ عرش عظیم تمام مخلوقات کے لیے بطور چھت ہے اور قرآن کریم میں ہےکہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔

اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت علو کو ثابت کیا ہے۔
لیکن شارح صحیح بخاری علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کیے ہوئے عنوان کے مطابق نہیں ہےاس کا تعلق گزشتہ عنوان سے ہے۔
شاید کاتب نے غلطی سے اس حدیث کو یہاں بیان کردیا ہے۔
(عمدة القاري: 627/16)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کے لیے جہت کی نفی کو اس حدیث سے ثابت کیا ہے۔
(فتح الباري: 516/13)

ہمارے نزدیک علامہ عینی اور ابن منیر کا موقف محل نظر علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کی بات سے ان لوگوں کو تقویت پہنچ سکتی ہے جن کا دعوی ہے کہ صحیح بخاری ایک زیر تالیف کتاب تھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اسے مکمل نہ کر پائے تھے کہ داعی اجل کولبیک کہہ دیا حالانکہ یہ ایک بے بنیاد مفروضہ ہے کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سولہ سال کی مدت میں چھ لاکھ احادیث سے منتخب کر کے صحیح بخاری کو مرتب کیا پھر اسے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ امام علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ اور امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے پیش کیا ان سب شیوخ نے اس مبارک مجموعے کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور اس کی صحت کے متعلق شہادت دی۔
اس کے بعد نوے (90)
ہزار تلامذہ نے صحیح بخاری کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے براہ راست سنا ایسے حالات میں یہ ناممکن ہے کہ مذکورہ حدیث کا تعلق گزشتہ عنوان سے ہے کسی کاتب نے غلطی سے اسے یہاں بیان کردیا ہے دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی باریک بینی اوروقت فہم کا ادراک علامہ عینی نہیں کر سکے چنانچہ ہم پہلے بیان کر آئے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت علو ثابت کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے دو عنوان قائم کیے ہیں پہلے باب میں استواء علی العرش بیان کیا تھا جوعلو ذات باری تعالیٰ کے لیے واضح دلیل ہے اور مذکورہ عنوان میں ایک دوسری حیثیت سے اسے ثابت کیا ہے کہ ذات باری کی طرف عروج ملائکہ اور صعودکلمات ہوتا ہے۔
یہ دونوں چیزیں علو باری تعالیٰ کی واضح دلیل ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے صعود کلمات طیبات کو ثابت کیا ہے چنانچہ حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کرنے کے لیے تم جو تسبیح و تہلیل کرتے ہوتو یہ کلمات اللہ کے عرش کے ہاں پہنچ کر اس کے گرد گھومتے ہیں اور شہد کی مکھیوں کی طرح ان کی بھنبھناہٹ ہوتی ہے وہ اللہ کے حضور کہنے والے کا ذکر کرتے ہیں۔
(سنن ابن ماجة، الأدب، حدیث: 3809)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پریشانی کے وقت مذکورہ کلمات کہتے تو یہ کلمات بھی اللہ تعالیٰ کے عرش کا طواف کرتے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے صعود کلمات (کلمات کا اوپر کی طرف چڑھنا)
ثابت کیا ہے جو علو باری تعالیٰ کی دلیل ہے۔

شارح صحیح بخاری ابن منیر کے متعلق تویہی کہا جا سکتا ہے کہ قائل کے قول کی ایسی تشریح کی جائے جسے وہ خود پسند نہیں کرتا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اللہ تعالیٰ کے لیے جہت فوق ثابت کرنے کے لیے مستقل دو عنوان قائم کیے ہیں لیکن ابن منیر لکھتے ہیں کہ امام بخاری نے اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کے لیے جہت کی نفی کو ثابت کیا ہے۔
دراصل جو لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے کسی جہت کا انکار کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کو جہت کے ساتھ موصوف کردیا تو اللہ تعالیٰ کا جسم لازم آئے گا اور تمام جسم تو باہم ایک جیسے ہوتے ہیں اس سے تمثیل لازم آئے گی اس وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کے لیے جہت کا انکار کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے لیے جہت فوق کہنے والوں کی طرف سے جواب دیا جاتا ہے کہ اس جسم سے وہ چیز مراد ہے جو مختلف چیزوں سے مل کرو جود میں آتی ہے اور ان اجزا کے بغیر وہ چیز قائم نہیں رہ سکتی؟ اللہ تعالیٰ کے لیے اس قسم کا جسم کوئی بھی ثابت نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفت علو کے اثبات سے ایسا جسم ثابت ہوتا ہے جو بذات خود قائم ہے اور اپنے شایان شان صفات سے متصف ہے۔
اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ ابن منیر کا دعوی ثبوت کے بغیر ہے اور اللہ تعالیٰ یقیناً ایک ذات ہے جو بذات خود قائم اور باکمال صفات سے متصف ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بات کو ثابت کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7431