Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ
ذکر الہی، دعا، توبہ، اور استغفار
20. باب اسْتِحْبَابِ الدُّعَاءِ عِنْدَ صِيَاحِ الدِّيكِ:
باب: مرغ کی بانگ کے وقت دعا کا استحباب۔
حدیث نمبر: 6920
حَدَّثَنِي قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا سَمِعْتُمْ صِيَاحَ الدِّيَكَةِ فَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ، فَإِنَّهَا رَأَتْ مَلَكًا، وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَهِيقَ الْحِمَارِ فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِنَّهَا رَأَتْ شَيْطَانًا ".
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم مرغ کی بانگ سنو تو اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرو، کیونکہ (اس وقت) اس نے ایک فرشتے کو دیکھا ہے اور جب تم گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جب تم مرغوں کی آواز سنو تو اللہ سے اس کے فضل و کرم کا سوال کرو، کیونکہ انھوں نے فرشتے کو دیکھا ہے اور جب تم گدھے کا چلانا سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ میں آؤ کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے،"

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 6920 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6920  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
ديكة:
ديك کی جمع ہے،
مرغ۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
نیک لوگوں کے سامنے دعا کرنا پسندیدہ ہے،
کیونکہ فرشتے کو دیکھ کر جب مرغ نے اذان کہی اور ہم نے دعا کی،
تاکہ فرشتے آمین کہے تواس سے معلوم ہوا،
نیک لوگوں کا دعا میں شریک ہونا قبولیت کا زیادہ امکان رکھتا ہے اور شیطان چونکہ نقصان پہنچانےکی کوشش کرتا ہے،
اس لیے اس سے پناہ مانگنے کی ضرورت ہے اور یہ خاصہ اللہ تعالیٰ نے ان جانوروںمیں رکھ دیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6920   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3303  
´مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہیں جن کو چرانے کے لیے پہاڑوں کی چوٹیوں پر پھرتا رہے`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا سَمِعْتُمْ صِيَاحَ الدِّيَكَةِ فَاسْأَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ فَإِنَّهَا رَأَتْ مَلَكًا، وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَهِيقَ الْحِمَارِ فَتَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِنَّهُ رَأَى شَيْطَانًا . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب مرغ کی بانگ سنو تو اللہ سے اس کے فضل کا سوال کیا کرو، کیونکہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے اور جب گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ: 3303]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3303 باب: «بَابُ خَيْرُ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب میں مسلمانوں کے بہترین مال کا ذکر فرماتے ہیں جس مال کو انہوں نے بکریاں قرار دیا ہے، اور حدیث جو پیش فرمائی ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس میں بکریوں کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے، بظاہر ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کافی مشکل دکھائی دیتی ہے۔
دراصل امام بخاری رحمہ اللہ کا یہاں مقصود یہ ہے کہ مسلمانوں کا بہترین مال بکریاں ہی ہیں جن کے ذریعے اس کے معاش کا بھی بہترین بندوبست ہو جاتا ہے، دوسری قابل توجہ مناسبت یوں بھی ہے کہ جانوروں میں دو قسم کے جانور ہیں، ایک میں اللہ تعالی نے خیر و برکت رکھی ہے اور دوسرے جانوروں میں ایزا رسائی ہوتی ہے۔ ترجمۃ الباب سے ان جانوروں کا ذکر ہے جو برکت والے ہوتے ہیں، اور ذیل میں چند احادیث ان جانوروں پر پیش فرمائی ہیں، جن میں ایزا کا ہونا ثابت ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب میں غور کرنے کے بعد جو مناسبت ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ احادیث میں واضح طور پر اس کا اشارہ موجود ہے کہ کوئی شخص اکیلا پہاڑوں پر ہو اور وہ اذان دے اور تکبیر کہے تو اس کے ساتھ فرشتے شامل ہو جاتے ہیں، اور روایات میں اس کا بھی ذکر موجود ہے کہ اذان کی آواز جہاں تک پہنچے سننے والا قیامت میں اس کی گواہی دے گا جیسا کہ بکری کے چرواہے نے پہاڑ پر بکریاں چرائیں، جب نماز کا وقت ہو گا تو وہ اذان بھی دے گا اور تکبیر بھی پڑھے گا، پھر نماز قائم کرے گا، اس موقع پر بکری نے جو اذان سنی اذان دینے والے کے لئے وہ قیامت میں گواہی دیں گی، حالانکہ ترجمۃ الباب سے یہ بات واضح ہے کہ بکری مسلمان کے دنیادی فائدہ میں زیادہ موثر ہے، بعین اسی طرح مرغ جس کا دنیاوی فائدہ بکری کی بنسبت کم ہے مگر مرغا بھی بروز قیامت گواہی دے گا۔
مولانا ابوالقاسم بنارسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اصل باب تو آیت قرآنیہ کا باب « ﴿وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ﴾ [لقمان: 10] » ہی ہے، اور وہ باب جو زیر بحث ہے (یعنی خیر مال المسلم الخ) اس کے ضمن میں دوسرے باب سے پہلا باب عام زمینی جانداروں کے متعلق ہے جس میں اس باب اور اس کے تابع ضمنی باب کی سب احادیث شامل ہیں، اور دوسرا باب اس امر کی تنبیہ کے لئے ہے، ان زمینی جانوروں میں بعض جانور مبارک ہیں، یعنی ان سے نیک سبق حاصل ہوتا ہے اور بعض منحوس ہیں، ان سے ایذا پہنچتی ہے۔ مبارک جانوروں میں سے ایک تو بکری ہے کہ آدمی فتنہ کے وقت اس کو باہر جنگل میں چرانے کے سبب فتنہ سے محفوظ رہتا ہے، اور دوسرا مرغ ہے، یہ سحر کے وقت اذان دیتا ہے، منحوس جانوروں میں ایک گدھا ہے کہ اس کی عادات بھی خراب ہیں اور آواز بھی منکر ہے، ایک چوہا ہے جو گھر کے اسباب اور کھیتوں کو بہت نقصان پہنچاتا ہے، ایک چھپکلی ہے کہ موذی ہے، ایک سانپ ہے جو زہریلا جانور ہے۔ ان سب (مبارک و منحوس) جانوروں کا ذکر اس باب زیر بحث میں کیا گیا ہے اور ترجمۃ الباب گو خاص ہے لیکن ان مذکورہ بالا جانوروں کو اس سے برابر تعلق ہے، کیوں کہ جو مبارک جانور ہیں ان کا تو جنسیت کے لحاظ سے تعلق ہے، اور جو منحوس ہیں ان کا ضدیت کی رو سے تعلق ہے، اور یہ امر کہ کسی شے کے ذکر میں اس کی جنس یا ضد کو ذکر کرنا قرآن مجید میں عام طور پر ہے اور فقہاء کے نزدیک متعارف ہے پس مناسبت ہو گئی، (ترجمۃ الباب اور حدیث میں)۔ (حل مشکلات بخاری، ص: 287-286)
مزید اگر غور کیا جائے تو ترجمۃ الباب اور حدیث میں ایک اور بھی مناسبت کا پہلو دکھائی دیتا ہے۔
ترجمۃ الباب میں بہتر مال کا ذکر ہے جو بکریوں کو قرار دیا جارہا ہے، کیونکہ بکریاں دودھ گوشت اور خرد و نوش کے اعتبار سے ایک مکمل غذا کا سامان ہے، مگر اس کے برعکس مرغا، گوشت کیلئے تو کام آ سکتا ہے مگر بکریوں کے فوائد کے برابر اس کے فوائد دنیاوی نہیں ہیں، لہذا اس کو بہترین مال میں شمار نہیں کیا جا سکتا ہے، یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت قائم ہوتی نظر آتی ہے۔
فائدہ:
بعض حضرات خصوصا منکرین حدیث یا پھر وہ لوگ جو قرآن و حدیث کو مادی عینک سے پرکھنے کے عادی ہیں، وہ حضرات ان احادیث کا کھلم کھلا انکار کرتے نظر آتے ہیں، کیونکہ ان احادیث کا ادراک آنکھوں سے ہونا ممکن نہیں بلکہ یہ امور غیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایمان والوں کی ذمہ داریوں میں یہ ایک اہم ترین ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کو بغیر کسی تاویل کے قبول کریں، یہ بات قطعیت کے ساتھ ہے کہ اسلام میں جو کچھ بھی نازل ہوا وہ درحقیقت ایک اہم اور اٹل فیصلہ ہے، یہ ایک الگ بات ہے کہ بیان کردہ حقیقتوں سے ہم ناواقف ہوں۔ ہمیں ایسے موڑ پر ایمان لانا چاہئے نہ کہ تاویلات کے جھوٹے سہارے پر فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنا چاہیے۔
عبداللہ بن علی النجدی القصیمی رقمطراز ہیں:
«فهذا بيان الأحاديث نبوية صحيحة قد أشكلت على كبار العلماء، قد أشكل بعضها طبيًا، وبعضها فلكيًا، وبعضها علميًا، وبعضها حسيًا، وبعضها دينيًا، فجعل فريق فكذبها و ردها و تحمل على رواتها، ولم يصب فى ذالك. (مقدمة مشكلات الأحاديث النبوية)»
یعنی صحیح احادیث کا جو بیان ہے یقینا بعض کبار علماء پر مشکل ہوتا ہے (اس کے اعتراضات کے جوابات دینا کیوں کہ) بعض احادیت کا تعلق طب کے ساتھ ہوتا ہے، بعض کا تعلق (علم) فلکیات سے ہوتا ہے، اور بعض کا تعلق (خاص) علمی ہوا کرتا ہے، اور بعض کا تعلق کسی حس کے ساتھ ہوتا ہے، اور بعض کا تعلق دین کے ساتھ ہوتا ہے، پس ایک فریق ان میں سے (ناسمجھی کی بناء پر) ان احادیث کو جھٹلاتا ہے اس کے روات کے تحمل کی بنا پر ہے اور اس میں وہ صواب کی طرف نہیں جاتا۔
امام قصیمی کی وضاحت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ احادیث کا تعلق صرف عبادات سے نہیں ہوتا بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا تعلق دنیا کے ہر شعبے کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جو احادیث ذکر فرمائی ہیں ان کا تعلق (Zoology) جانوروں سے ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر اہل علم ان فنون سے نا آشنائی کی وجہ سے تذبذب کا شکار رہتے ہیں، خصوصا وہ حضرات جن کا وطیرہ ہی حدیث پر طعن کرنا ہوتا ہے۔ گدھے کی آواز کی وجہ شیطان کو دیکھنا یا پھر مرغے کی بانگ کی وجہ فرشتوں کا دیکھنا، بظاہر یہ ایک ایسا امر ہے جو سمجھ میں نہ آنے والا ہے، مگر جب ہم غور کریں تو بہت سے ایسے جانور ہیں جو بعض امور میں ان کا ادراک انسانوں کے ادراک سے کئی گناہ زیادہ ہوتا ہے، مثلا چیل کا انتہائی بلندی پر ہونے کے باوجود مرغی یا مچھلی کا ادراک ہو جانا، چیونٹی کی قوت شامہ کو دیکھئے، مور کی قوت سامعہ کو دیکھئے، چیل کی نظر کی قوت کا کیا کہنا جو انسانوں سے کئی گناہ زیادہ دور ہے، کتے کا قوت شامہ کو دیکھئے کہ خاموش سیٹی جو انسان کو نہ سنائی دے مگر وہ جانور دور سے ہی اس کی سماعت کرے، مور میلوں دور کی آواز کا احاطہ کر لیتا ہے، چیونٹی بہت دور سے خوشبو سونگھ لیتی ہے۔ چیونٹی کی ایک قسم کاشتکار بھی ہے، چیونٹیوں کی ایک قسم بھیس بدلنے والے بھی ہے جسے (Basiceros) کہا جاتا ہے۔
چیونٹیوں میں ایک عجیب قسم کی چیونٹیاں ہیں جو غلاموں کی تجارت کرتی ہیں، یعنی چیونٹیوں میں جب ایک بستی کے سپاہیوں کو اندازہ ہو جائے کہ وہ بآسانی دوسری بستی کو زیر کر سکتے ہیں تو وہ ان کے شکار پر اتر آتے ہیں، بستی پر حملہ کر کے ملکہ کو قتل کر دیا جاتا ہے، مال غنیمت میں شیرہ اپنے پیٹ میں ذخیرہ کرنے والی چیونٹیاں سمیٹتی ہیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کا لاروا بھی اٹھا کر اپنی بستی میں لے جاتے ہیں، ان لاروؤں سے نکلنے والی چیونٹیاں غلاموں کا سا کام کرتی ہیں۔ چیونٹیوں میں ایک زبردست قسم بھی موجود ہے جس طرح ہم انسانوں میں سپاہی بھیس بدلنے والے ہوتے ہیں بعین اسی طرح چیونٹیوں میں بھی سپاہی بھیس بدلنے والے ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں کے نزدیک ایک کیڑا جسے بمبار بھنورا کہا جاتا ہے، یہ کیڑا اپنے دفاع کیلئے اور دشمنوں کے وار سے بچنے کیلئے کیمیائی طریقہ استعمال کرتا ہے جو کہ بہت عجیب سے عجیب تر ہے۔
تفصیل کیلئے دیکھئے:
➊ Bert Holldobler - Edward O, Wilson, The Ants Harvard University Press 1990, S 176-177, USO
➋ Natural History 1/94, Greogory Paulson and Roger D, Akre.
➌ Science, Volume 262, 22th Oct 1993.
➍ چیونٹی ایک معجزہ، ہارون یحییٰ۔
اس کے علاوہ آپ بندروں کی طرف غور کیجئے، یہ بھی اللہ تعالی کی عجیب مخلوق ہے جس کے اطوار اور سکنات انسانوں سے ملتے ہیں، انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی شرح فیض الباری کے حاشیہ میں ایک واقعہ درج ہے کہ:
ایک بندر اپنے گلے میں پھندا ڈال کر درخت پر لٹک گیا تو اس کا دم گھٹ گیا، معا ایک اور بندر آیا، اس نے اس کے گلے کی رسی کھول دی اور اس نے یہ سمجھا کہ یہ مر چکا ہے۔ اس نے اس کے ارد گرد چکر لگانا شروع کر دیا، تھوڑی دیر بعد وہ ایک طرف گیا تو ادھر سے ایک بڑے بندر کو اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لے آیا، اس بندر نے اسکی نبض دیکھی، پھر جو بندر اس کو اٹھا کر لایا تھا اس سے کوئی بات کی تو وہ اسے اٹھاکر جہاں سے لے لایا تھا وہیں چھوڑ آیا اور واپس آتے ہوئے اپنے ہاتھ میں کوئی بوٹی لایا جس کا کچھ حصہ اس کی ناک میں اور کچھ اس کے منہ میں داخل کر دیا، وہ اسی وقت اٹھ بیٹھا۔ (فیض الباری، ج4، ص 76 حاشیہ)
مولانا حکیم محمد عبداللہ صاحب ایک بڑا عجیب واقعہ ذکر کرتے ہیں، آپ کا بیان ہے کہ:
مجھے میرے دوست ڈاکٹر ایس جے رائے صاحب نے بتایا کہ میرے ایک کرم فرما نے مجھے بتایا کہ میں نے اجمیر کے علاقہ میں ایک جنگل میں سانپ اور نیولا کی لڑائی دیکھی، نیولا کمزور تھا، سانپ نے کئی بار اسے ڈسا، مگر جونہی نیولے پر زہر کا اثر ہوا تو وہ داؤ بچا کر بھاگا، تھوڑی دور جا کر ایک بوٹی کو توڑ کر کھانے لگا اور کچھ وقفہ بعد اسی سانپ سے مقابلہ کو آ دھمکا، یوں تین بار ہوا اور وہ نیولا بوٹی کے پتے کھا کر مقابلہ کرتا رہا حتی کہ اس سانپ کو اس نے جان سے مار ڈالا، میں سمجھا کہ یہ بوٹی زہر کا تریاق ہے، چنانچہ میں نے اس کا تجربہ کیا تو اسے بالکل درست پایا۔ (جڑی بوٹیاں، ج1، ص 18-19)
جدید تحقیقات نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ یہ درخت پودے وغیرہ خوشی اور غمی بھی محسوس کرتے ہیں، انہیں تکلیف بھی ہوتی ہے، حالانکہ چند سال قبل اس قسم کی تحقیق کا کوئی نشان بھی نہ تھا۔ لیکن احادیث میں اس بات کا ذکر یقینی طور پر موجود ہے۔ الحمد للہ آج جدید سائنس نے اسے بھی قبول کر لیا۔ علامہ شبیر عثمانی اللہ تعالی کے اس قانون اور قدرت پر عقلی و نقلی جوابات دیتے ہوئے اپنی کتاب اسلام اور معجزات میں رقمطراز ہیں کہ:
آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انگریز ماہر علم بصارت نے انسان کی جلد میں قوت باصرہ راز پر روشنی ڈالی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ انسان کے بدن کی جلد کے نیچے چھوٹے چھوٹے ذرات پائے جاتے ہیں جو سارے جسم میں پھیلے ہوئے ہیں، یہ ذرے ننھی ننھی آنکھیں ہیں، ان میں اسی طرح تصویر اتر آتی ہے جس طرح آنکھ کی پتلی میں اترتی ہے۔ یہ خیال کہ انسان کی کھال بھی اسی طرح دیکھتی ہے جس طرح آنکھیں، کوئی نیا نہیں ہے۔ آپ جب کسی نابینا شخص کو بازار میں بھیٹر سے ہو کر گزرتے دیکھتے ہیں تو تعجب کرتے ہیں کہ یہ تو اندھا ہے، اسے راستہ کس طرح سوجھتا ہے۔ انسان کی پیشانی کی جلد کے متعلق یہ خیال ہے کہ اس میں قوت باصرہ موجود ہے۔ یہ دماغ کو اسی طرح پیغام پہنچاتی ہے۔
ڈاکٹر فرگول کا بیان ہے کہ آج سے ہزاروں سال پیشتر آنکھوں کے بغیر پڑھنے کا ہنر اپنے کمال کو پہنچا ہوا تھا اور عام طور پر رائج تھا۔ لیکن جب انسان کو یہ معلوم ہوا کہ وہ آنکھوں سے بھی وہی کام لے سکتا ہے جو بدن کی جلد سے لیتا ہے تو اس نے جلد سے دیکھنے کا طریق ترک کر دیا، اور بالآخر جلد سے دیکھنے کی قابلیت اس میں سے مفقود ہو گئی۔ اگر اس حس کو دوبارہ ترقی دی جائے تو تعجب نہیں ہے کہ اس کے ذریعہ سے اندھے بھی دیکھنے لگیں۔
بہر حال سائنس کی ترقی خوارق کی تفہیم میں بہت کچھ مدد دے رہی ہے، اور اسی لیے ہم یہ امید رکھنے میں حق بجانب ہیں کہ کچھ عرصہ کے بعد ان شاء اللہ تعالی سائنس کے پجاری خوارق کی تسلیم کے لیے گردن جھکا دیں گے۔
ابھی چند روز پہلے جب یہ سنتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے درخت جھک گئے، یا انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایماء سے وہ اپنی جگہ سے سرک گئے تو ملحدین ان قصوں کی اساطیر الاولین کہہ کر ہنسی اڑاتے تھے اور ان بیانات کو پرانے مسلمانوں کی خوش اعتقادی یا وہم پرستی پر حمل کرتے تھے۔ لیکن آج ماہرین علم نباتات نے نباتاتی زندگی کے جو حیرت انگیز حالات ظاہر کیے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ درخت اور پودے فی الواقع زندگی کے وہ تمام حسیات و تاثرات اپنے اندر رکھتے ہیں جو ابھی تک ذی روح مخلوق کی خصوصیت سمجھے جاتے تھے۔ ہر شخص جو نباتاتی زندگی سے کچھ بھی واقفیت رکھتا ہے جانتا ہے کہ پودے اور پھول بھی اپنی غذا کھاتے، اپنا پانی پیتے اور اپنی نیند سوتے ہیں۔ ان میں بھی جنسوں کا وصل و جفت ہوتا ہے، ان کی بھی نسل چلتی ہے اور ان میں بھی پڑھاپا آتا ہے اور وہ بھی بالآخر موت کے چنگل میں پھنستے ہیں۔
لیکن بہت کم لوگ یہ یقین کرنے کے لیے تیار ہوں گے کہ پودے دیکھنے اور سننے کی بھی قدرت رکھتے ہیں، آپس میں بات چیت بھی کرتے ہیں، ان پر عشق و محبت کا وار چلتا ہے، رنج و غم ان کو بھی ستاتا ہے اور وہ بھی ہماری طرح جذبات و حسیات سے تاثر پذیر ہوتے ہیں۔
آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض پودے اور پھول محض ہاتھ لگا دینے سے سکڑ جاتے ہیں اور ذرا سے اشارے سے بند ہو جاتے ہیں۔ اس ذکی الحسی کی وجہ سے ایک پودے کا نام ہی چھوئی موئی پڑ گیا ہے۔
یہ تو وہ حالات ہیں کہ ہر انسان اپنی چشم عریاں سے دیکھ سکتا ہے، لیکن آپ ہی کے ایک ہموطن ماہر سائنس یعنی سر جگدیش چندر بوس نے اپنی مدت العمر کے تجربات سے پودوں اور درختوں کے جو حالات اپنے ایجاد کردہ عجیب و غریب آلات کے ذریعہ معلوم کیے ہیں ان سے علم نباتات میں حیرت انگیز انقلاب پیدا ہو گیا ہے۔
آپ تو پھول میں سوائے رنگ و بو کے اور کوئی راز فطرت نہیں پاتے لیکن آپ سر جگدیش چندر بوس کی جدید تصنیف کا اگر مطالعہ کریں جو پلانٹ آٹوگرافس اینڈ دیر ریویلیشنز (Plant autographs and their revelations) کے نام سے حال ہی میں شائع ہوئی ہے تو آپ کو معلوم ہو کہ اس ماہر فن نے پودوں پر کس کس قسم کے تجربات کر کے کیسے کیسے حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں اور ان سے فطرت کے کیسے کیسے راز ہائے سربستہ معلوم ہوئے ہیں، ان حالات کے دیکھنے اور معلوم کرنے سے بے اختیار زبان پر یہ شعر جاری ہو جاتا ہے:
برگ درختان سبز در نظر ہوشیار
ہر ورقے دفترے ست معرفت کرد گار
مختلف قسم کی ادویہ کا پودوں پر بعینہ وہی اثر مرتب ہوتا ہے جو انسان یا جانور پر ہوتا ہے۔ کلورو فارم پودے کو بھی اسی طرح بیہوش کر سکتا ہے جس طرح ہمیں آپ کو۔
ایک ایسا آلہ سر بوس نے بنایا ہے جس سے پودے کی حالت خواب کا آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔
سب سے زیادہ ذکی الحس پودہ مائی موزہ ہے کہ ایک ذرا سی بدلی چھا جانے سے وہ اونگھنے لگتا ہے، اور شعاع آفتاب پڑھنے سے فی الفور چاق و چوبند ہو جاتا ہے۔ حالت خواب و بیداری کے تجربے اس پودے پر خوب کیے جاتے ہیں۔
اس کے بر خلاف جھنگا پھول کا پودہ ہے جو دریائے گنگا کے کنارے بنگال میں زیادہ ہوتا ہے۔ یہ دن کے وقت خواب استراحت میں رہتا ہے اور شب میں اپنی پوری بہار دکھتا ہے۔ افریقہ میں ناریل کے ایسے درخت ہیں جو ساحل سمندر کی سخت اور تیز ہوا کی وجہ سے ایک طرف کو بالکل جھکے ہوئے ہوتے ہیں لیکن صبح کے وقت جب یہ ہوا نہیں چلتی یہ درخت بالکل سیدھے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس وقت ان کے پھل توڑنا بڑا دشوار کام ہے، لیکن وقت مقررہ پر یہ سب پھر جھک جاتے ہیں اور دوسری صبح کو پھر اسی طرح سیدھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
بنگال کے اس تاڑ کے درخت کا حال تو اکثر لوگوں کو معلوم ہو گا جو کہ طلوع آفتاب کے ساتھ بیدار ہوتا تھا اور تدریجا زمین سے اٹھ کر سیدھا کھڑا ہو جاتا تھا۔ لیکن جوں جوں سورج ڈھلتا جاتا تھا یہ درخت بھی جھکنے لگتا تھا اور غروب آفتاب کے ساتھ یہ بھی سر بسجود ہو جاتا تھا۔
کیا نباتات کے متعلق یہ جدید انکشافات اور سر بوس کی تصانیف پڑھ کر کسی انصاف پسند طالب حق کو یہ جرأت ہو سکتی ہے کہ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مستند و معتبر حقائق کی تکذیب کر دے جو نباتات میں حس و شعور، ارادہ نطق اور جذبات محبت وغیرہ کی موجودگی پر دلالت کرتے ہیں۔
مزید دیمک کی مثال پر غور کیجیے، دیمک کے گھروندے کی طرف دیکھئے اور اس کے سائز کا موازنہ فرمائیں، دیمک بڑی کامیابی کے ساتھ بڑے بڑے گھروندے تعمیر کرتے ہیں، دیمک نے ایک گھروندا بنایا جو بڑی کامیابی کے ساتھ تعمیر ہوا جو ایک ایسا پروجیکٹ ہے کہ دیمک کے جسم سے 300 گنا بڑا ہے، اور سب سے کمال کی بات اور حیران کن یہ ہے کہ دیمک اندھی ہوتی ہے۔
ہارون یحییٰ حفظہ اللہ رقمطراز ہیں:
آپ اگر ہزاروں بینائی سے محروم افراد کو اکھٹا کر لیں اور ان کے ہاتھوں میں تمام قسم کے تکنیکی اوزار دے دیں پھر بھی آپ ان دیمکوں کی تعمیر کردہ کالونی میں شامل ایک گھروندے جیسا گھروندہ بھی تیار نہ کروا سکیں گے۔ (اللہ کی نشانیاں، ص 51)
حیرت انگیز بات، کابلی مکھی بھنبھیری کے پر:
اس مکھی کے پر بہت پتلے ہونے کے باوجود بہت مضبوط ہوتے ہیں، اس میں تقریبا 1000 (ایک ہزار) خانے ہوتے ہیں۔ اس طرح کی بٹی ہوئی سختی کے باعث اس جانور کے پر پھٹے ہوئے نہیں اور وہ ہوا کے دباؤ کی مزاحمت کرتے ہیں۔ میونخ اولمپک سٹیڈیم کی چھت بھی اسی اصول کے تحت تعمیر کی گئی ہے۔ (223 # For man of understanding by Haroon Yahya pg)
اس تمام گفتگو کا حاصل یہی ہے کہ اللہ تعالی نے مختلف جانوروں میں مختلف صلاحیتیں اور خوبیاں رکھی ہیں، بعض کا ادراک ہمارے لئے آسان ہے اور بعض کا ادراک مشکل ترین ہے بلکہ کچھ چیزوں کا ادارک ناممکن ہے کیوں کہ وہ غیب اور ایمانیات سے تعلق رکھتی ہیں، ہمیں ان احکامات پر جو شریعت نے بتائے ہیں ایمان لانا انتہائی ضروری ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں سانپ کا بھی ذکر موجود ہے، جس کی خاصیت یہ ہے کہ وہ حمل گرا دیتا ہے اور اندھا کر دیتا ہے، الحمد للہ آج کی تحقیقات نے ثابت کیا ہے کہ Africa کے جنگل میں یہ سانپ بھی موجود ہیں، اس کا محققین نے Spitting snack تھوکنے والا سانپ نام رکھا ہے، لہذا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جن باتوں کا ذکر فرمایا ہمیں اسے تسلیم کرنا چاہئے اور انکار کر کے اپنے اعمال کو برباد ہونے سے بچانا چاہیے۔
سراج الدین علی بن احمد الانصاری معروف ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فيه دلالة ان الله جعل للديك ادراكا كما جعله للحمير، و ان كل نوع من الملائكة والشياطين موجودان، وهذا معلوم فى الشرع قطعا و المنكر بشيئ منها كافر. (التوضيح شرح الجامع الصحيح، ج19، ص 243)»
(ان احادیث میں) دلالت ہے کہ اللہ تعالی نے جس طرح گدھے میں ایک مخصوص ادراک رکھا ہے مرغ کیلئے بھی (مخصوص) ادارک موجود ہے، اور فرشتے اور شیاطین کی تمام انواع موجود ہیں، اور یہ شریعت سے قطعیت کے ساتھ معلوم ہیں، جو اس کا کچھ بھی انکار کرے گا وہ کافر ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 478   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3303  
3303. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب تم مرغ کی آواز سنو تو اللہ سے اس کا فضل طلب کرو کیونکہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے۔ اور جب گدھے کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ کے ذریعے سے شیطان کی پناہ مانگو کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3303]
حدیث حاشیہ:
حافظ نے کہا اس حدیث سے مرغ کی فضیلت نکلی۔
ابوداؤد نے بہ سند صحیح نکالا مرغ کو برامت کہو وہ نماز کے لیے بلاتا ہے یعنی نماز کے وقت جگادیتا ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ نیک لوگوں کی صحبت میں دعا کرنا مستحب ہے۔
کیوں کہ قبول ہونے کی امید زیادہ ہوتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3303   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3303  
3303. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب تم مرغ کی آواز سنو تو اللہ سے اس کا فضل طلب کرو کیونکہ اس نے فرشتے کو دیکھا ہے۔ اور جب گدھے کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ کے ذریعے سے شیطان کی پناہ مانگو کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3303]
حدیث حاشیہ:

مرغ میں کچھ خصوصیت ہے جو دوسرے جانوروں میں نہیں پائی جاتی کہ اسے رات کی پہچان ہوتی ہے کیونکہ رات چھوٹی ہو یابڑی، اس کی اذان میں خطا نہیں ہوتی اور وہ فجر سے پہلے اور بعد بدستور اذانیں کہتا ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے فہم وادراک دیا ہے۔
اسی طرح گدھے کوبھی ادراک ہے۔
ایک روایت میں ہے:
مرغ کو بُرا بھلا مت کہو کیونکہ وہ تمھیں نماز کے وقت بیدار کرتا ہے۔
(سن أبي داود، الأدب، حدیث: 5101)
ایک دوسری روایت میں ہے:
جب کتا بھونکے تو بھی شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو۔
(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5103)

مرغ کی آواز کے وقت اللہ کا فضل مانگنے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ اس وقت فرشتے آمین کہتے ہیں اور بندے کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں، نیز وہ بندے کے عجز و انکسار پر گواہ بن جائیں گے۔
(فتح الباري: 425/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3303