حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ ، عَنْ أَبَي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى عَنْ الْبَرَاءِ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ، قَالَ: " اللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَحْيَا وَبِاسْمِكَ أَمُوتُ "، وَإِذَا اسْتَيْقَظَ، قَالَ: " الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ ".
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6887
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
زندگی،
کام،
کاج اور عمل سے تعبیر ہے اور بیداری میں انسان کاروبار حیات میں مصروف ہوتا ہے اور موت،
مہلت عمل کے ختم ہو جانے کا نام ہے اور نیند میں انسان کاروبار حیات سے فارغ ہو جاتا ہے،
اس لیے اس دعا میں نیند کو مرنے سے بیداری کو زندہ ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے،
اور اس طرح روز مرہ کے سونے جاگنے کو حیات بعد الموت کی یاددہانی اور اس کی تیاری کی فکر کا ذریعہ بنایاگیا ہے اور اس حقیقت کو دعا کی صورت میں ذہن نشین کرایا گیا ہے کہ موت و حیات کا مالک اللہ ہے،
میں اس کی مشیت سے زندہ ہوں اور وہ جب چاہے گا میری زندگی کا چراغ گل کر دے گا،
اس لیے انسان کو اپنی حیات مستعار کے شب و روز اللہ کی ہدایت و تعلیمات کے مطابق گزارنے چاہئیں اور اس کے احکام و فرامین کو نظر انداز کرنے یا ان کی مخالفت کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6887
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 247
´رات کو وضو کر کے سونے والے کی فضیلت`
«. . . عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَتَيْتَ مَضْجَعَكَ فَتَوَضَّأْ وُضُوءَكَ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَى شِقِّكَ الْأَيْمَنِ، ثُمَّ قُلْ: اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ، فَإِنْ مُتَّ مِنْ لَيْلَتِكَ فَأَنْتَ عَلَى الْفِطْرَةِ، وَاجْعَلْهُنَّ آخِرَ مَا تَتَكَلَّمُ بِهِ "، قَالَ: فَرَدَّدْتُهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا بَلَغْتُ اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ قُلْتُ: وَرَسُولِكَ، قَالَ: لَا، وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ . . . .»
”. . . براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہy، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم اپنے بستر پر لیٹنے آؤ تو اس طرح وضو کرو جس طرح نماز کے لیے کرتے ہو۔ پھر داہنی کروٹ پر لیٹ کر یوں کہو «اللهم أسلمت وجهي إليك، وفوضت أمري إليك، وألجأت ظهري إليك، رغبة ورهبة إليك، لا ملجأ ولا منجا منك إلا إليك، اللهم آمنت بكتابك الذي أنزلت، وبنبيك الذي أرسلت» ”اے اللہ! میں نے اپنا چہرہ تیری طرف جھکا دیا۔ اپنا معاملہ تیرے ہی سپرد کر دیا۔ میں نے تیرے ثواب کی توقع اور تیرے عذاب کے ڈر سے تجھے ہی پشت پناہ بنا لیا۔ تیرے سوا کہیں پناہ اور نجات کی جگہ نہیں۔ اے اللہ! جو کتاب تو نے نازل کی میں اس پر ایمان لایا۔ جو نبی تو نے بھیجا میں اس پر ایمان لایا۔“ تو اگر اس حالت میں اسی رات مر گیا تو فطرت پر مرے گا اور اس دعا کو سب باتوں کے اخیر میں پڑھ۔ براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس دعا کو دوبارہ پڑھا۔ جب میں «اللهم آمنت بكتابك الذي أنزلت» پر پہنچا تو میں نے «ورسولك» (کا لفظ) کہہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں (یوں کہو) «ونبيك الذي أرسلت» . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ فَضْلِ مَنْ بَاتَ عَلَى الْوُضُوءِ:: 247]
� تشریح:
سیدالمرسلین حضرت امام بخاری قدس سرہ نے کتاب الوضوء کی آیت کریمہ «إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ» [5-المائدة:6] سے شروع فرمایا تھا اور اب کتاب الوضو کو سوتے وقت وضو کرنے کی فضیلت پر ختم فرمایا ہے۔ اس ارتباط کے لیے حضرت امام قدس سرہ کی نظر غائر بہت سے امور پر ہے اور اشارہ کرنا ہے کہ ایک مرد مومن کی صبح اور شام، ابتدا و انتہا، بیداری و شب باشی سب کچھ باوضو ذکر الٰہی پر ہونی چاہئیے۔ اور ذکر الٰہی بھی عین اسی نہج اسی طور طریقہ پر ہو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلیم فرمودہ ہے۔ اس سے اگر ذرا بھی ہٹ کر دوسرا راستہ اختیار کیا گیا تو وہ عنداللہ مقبول نہ ہو گا۔ جیسا کہ یہاں مذکور ہے کہ رات کو سوتے وقت کی دعائے مذکورہ میں صحابی نے آپ کے تعلیم فرمودہ لفظ کو ذرا بدل دیا تو آپ نے فوراً اسے اس کی کمی و بیشی کو گوارا نہیں فرمایا۔ آیت کریمہ «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ» [49-الحجرات:1] کا یہی تقاضا اور دعوت اہل حدیث کا یہی خلاصہ ہے۔ تعجب ہے ان مقلدین جامدین پر جو محض اپنے مزعومہ مسالک کی حمایت کے لیے حضرت سید المحدثین امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی درایت و فقاہت پر لب کشائی کرتے ہیں اور آپ کی تخفیف و تنقیص کر کے اپنی دریدہ ذہنی کا ثبوت دیتے ہیں۔
کتاب الوضو ختم کرتے ہوئے ہم پھر ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ فن حدیث شریف میں حضرت امام بخاری قدس سرہ امت کے اندر وہ مقام رکھتے ہیں جہاں آپ کا کوئی مثیل و نظیر نہیں ہے۔ آپ کی جامع الصحیح یعنی صحیح بخاری وہ کتاب ہے جسے امت نے بالاتفاق «اصح الكتب بعد كتاب الله» قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ظاہر ہے کہ ائمہ مجتہدین رحمۃ اللہ علیہم کا بھی امت میں ایک خصوصی مقام ہے ان کی بھی ادنیٰ تحقیر گناہ کبیرہ ہے۔ سب کو اپنے اپنے درجہ پر رکھنا اور سب کی عزت کرنا تقاضائے ایمان ہے۔ ان میں سے کس کو کس پر فضیلت دی جائے اور اس کے لیے دفاتر سیاہ کئے جائیں یہ ایک خبط ہے۔ جو اس چودہویں صدی میں بعض مقلدین جامدین کو ہو گیا ہے۔ اللہ پاک نے پیغمبروں کے متعلق بھی صاف فرما دیا ہے۔ «تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ» [2-البقرة:253] پھر ائمہ کرام و اولیائے عظام و محدثین ذوی الاحترام کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ ان کے متعلق یہی اصول مدنظر رکھنا ہو گا۔
«هر گلے را رنگ و بوئے ديگر است»
یااللہ! کس منہ سے تیرا شکر ادا کروں کہ تو نے مجھ ناچیز حقیر فقیر گنہگار شرمسار ادنیٰ ترین بندے کو اپنے حبیب پاک گنبد خضراءکے مکین صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مقدس بابرکت کتاب کی خدمت کے لیے توفیق عطا فرمائی، یہ فضل تیرا محض و کرم ہے ورنہ «من آنم كه من مولائے كريم!»
اس مقدس کتاب کے ترجمہ و تشریحات میں نہ معلوم مجھ سے کس قدر لغزشیں ہوئی ہوں گی۔ کہاں کہاں میرا قلم جادہ اعتدال سے ہٹ گیا ہو گا۔
الہ العالمین! میری غلطیوں کو معاف فرما دے اور اس خدمت کو قبول فرما کر میرے لیے، میرے والدین و اساتذہ و اولاد و جملہ معاونین کرام و ہمدردان عظام کے لیے باعث نجات بنا دے اور اسے قبول عام عطا فرما کر اپنے بندوں بندیوں کے لیے باعث رشد و ہدایت فرما۔
الحمدللہ! کہ آج شروع ماہ جمادی الثانی 1387ھ میں بخاری شریف کے پہلے پارہ کے ترجمہ و تشریحات سے فراغت حاصل ہوئی۔ اللہ پاک پوری کتاب کا ترجمہ و تشریحات مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اور قدر دانوں کو اس سے ہدایت اور ازدیاد ایمان نصیب کرے۔ «آمين.»
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 247
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6311
6311. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: جب تو بستر پر آنے کا ارادہ کرے تو وضو کر جیسے نماز کے لیے نماز وضو کرتا ہے پھر دائیں کروٹ پر لیٹ کر یہ دعا پڑھ: اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو تیری اطاعت میں دے دیا، اپنا سب کچھ تیرے سپرد کر دیا، اپنے معاملات تیرے حوالے کر دیے تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور تجھ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے۔ تیرے سوا کوئی پناہ گاہ یا نجات کی جگہ نہیں، میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی اور تیرے نبی کو تسلیم کیا جو تو نے مبعوث کیا۔ اس کے بعد اگر تو مرجائے تو دین اسلام پر مرے گا لہذا تم ان کلمات کو آخری بات بتاؤ جنہیں اپنی زبان سے ادا کرو۔ میں نے ان کلمات کو دہراتے وقت یوں کہہ دیا: ”میں تیرے اس رسول پر ایمان لایا جسے تو نے بھیجا۔“ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں (نہیں اس طرح کہو:) میں تیرے نبی ایمان لایا جسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6311]
حدیث حاشیہ:
اس سے ثابت ہوا کہ اثر ماثورہ ادعیہ واذکار میں از خود کمی وبیشی کرنا درست نہیں ہے ان کو ہو بہو مطابق اصل ہی پڑھنا ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6311
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6313
6313. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک آدمی کو حکم دیا دوسری روایت کے مطابق ایک آدمی کو وصیت فرمائی: ”جس وقت تو بستر پر آنے کا ارادہ کرے تو یہ دعا پڑھ“: ”اے اللہ! میں نے اپنی ذات کو تیرے تابع کر دیا اور اپنے تمام معاملات کو تیرے حوالے کر دیا۔ میں نے اپنا چہرہ تیری طرف متوجہ کیا اور اپنی پشت کو تیری طرف جھکا دیا ثواب کی امید رکھتے ہوئے اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے۔ تیرے سوا نہ کوئی پناہ گاہ ہے اور نہ جائے نجات۔ میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جسے تو نے نازل فرمایا اور تیرے اس نبی پر ایمان لایا جسے تو نے بھیجا۔“ اگر تو ایسی حالت پر مرگیا تو فطرت اسلام پر مرے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6313]
حدیث حاشیہ:
معانی ومطالب کے لحاظ سے یہ دعا بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے طوطے کی رٹ سے کچھ نتیجہ نہ ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6313
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6315
6315. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو دائیں کروٹ پر لیٹ کر دعا پڑھتے: اے اللہ! میں نے اپنی جان تیرے سپرد کر دی اور اپنا چہرہ تیری طرف متوجہ کر دیا۔ اپنا معاملہ تیرے حوالے کر دیا اور اپنی پشت تیری طرف جھکا دی۔ یہ سب کچھ تیرا شوق رکھتے ہوئے اور تجھ سے ڈرتے ہوئے کیا۔ تیرے سوا نہ کوئی پناہ گاہ ہے اور نہ مقام نجات۔ میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے اتاری اور تیرے اس نبی کو مان لیا جسے تو نے مبعوث کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص یہ کلمات پڑھے پھر اسی رات فوت ہو جائے تو فطرت اسلام پر فوت پوگا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6315]
حدیث حاشیہ:
چونکہ حدیث ہذا میں رھبة کا لفظ آیا ہے حضرت امام بخاری نے اس کی مناسبت سے لفظ استرھبوهم (سورۃ اعراف)
کی بھی تفسیر کر دی ان جادوگروں نے جو حضرت موسیٰ کے مقابلہ پر آئے تھے اپنے جادو سے سانپ بنا کر لوگوں کو ڈرانا چاہا ﴿وَجَاءُوا بِسِحْرٍ عَظِيمٍ﴾
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6315
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7488
7488. سیدنا براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اے فلاں! جب تم اپنے بستر پر جاؤ یہ دعا ہڑھا کرو: ”اے اللہ! میں نے اپنے بستر کو تیرے سپرد کر دیا اور اپنا رخ تیری طرف موڑ دیا میں نے اپنا معاملہ تیرے حوالے کر دیا تجھ سے ڈرتے ہوئے اور تیری طرف رغبت کرتے ہوئے یہ سب کچھ کیا۔ تیرے سوا کوئی پناہ اور جائے نجات نہیں۔ اے اللہ! میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی ہے اور تیرے نبی کو مان لیا جو تو نے بھیجا ہے۔“ اگر تواس رات فوت ہو جائے تو فطرت اسلام پر تمہاری موت ہوگی اور اگر صبح کو زندہ اٹھے تو تجھے اجر وثواب ملے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7488]
حدیث حاشیہ:
لفظ بکتابك الذي أنزلت سے باب کا مطلب ثابت ہوا کہ قرآن مجید اللہ کا اتارہ ہوا کلام ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7488
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3876
´بستر پر لیٹتے وقت کیا دعا پڑھے؟`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: ”جب تم سونے لگو یا اپنے بستر پر جاؤ تو یہ دعا پڑھا کرو: «اللهم أسلمت وجهي إليك وألجأت ظهري إليك وفوضت أمري إليك رغبة ورهبة إليك لا ملجأ ولا منجى منك إلا إليك آمنت بكتابك الذي أنزلت ونبيك الذي أرسلت» ”اے اللہ! میں نے اپنا چہرہ (یعنی نفس) تجھ کو سونپ دیا، اپنی پیٹھ تیرے سہارے پر لگا دی، اور اپنا کام تیرے سپرد کر دیا، امیدی ناامیدی کے ساتھ تیری ذات پر بھروسہ کیا، سوائے تیرے سوا کہیں اور کوئی جائے پناہ اور جائے نجات نہیں، میں تیری کتاب پر جسے تو نے نازل کیا، ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3876]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت براء بن عاذب ؓ کو فرمایا تھا۔
کہ سوتے وقت نماز کے وضو کی طرح وضو کرکے دایئں کروٹ لیٹ کر یہ دعا پڑھنا۔
مزید یہ دعا فرمائی تھی کہ دوسرے اذکار کے بعد سب سے آخر میں یہ دعا پڑھنا (صحیح البخاري، الدعوات، باب إذا بات طاھراً، حدیث: 6311)
(2)
سوتے وقت یہ دعا پڑھنے سے ایمان کی تجدید ہوجاتی ہے۔
اس لئے یہ دعا پڑھ کر سونا چاہیے-
(3)
وضو کرکے دعا پڑھنے سے ظاہری وباطنی طہارت حاصل ہوتی ہے جو اللہ کو بہت پسند ہے۔
(4)
اللہ پر توکل بہت اہم اور افضل عمل ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3876
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3394
´آدمی جب اپنے بستر پر سونے کے لیے جائے تو کیا دعا پڑھے؟`
براء بن عازب رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: کیا میں تمہیں ایسے کچھ کلمات نہ سکھاؤں جنہیں تم اپنے بستر پر سونے کے لیے جانے لگو تو کہہ لیا کرو، اگر تم اسی رات میں مر جاؤ تو فطرت پر (یعنی اسلام پر) مرو گے اور اگر تم نے صبح کی تو صبح کی، خیر (اجر و ثواب) حاصل کر کے، تم کہو: «اللهم إني أسلمت نفسي إليك ووجهت وجهي إليك وفوضت أمري إليك رغبة ورهبة إليك وألجأت ظهري إليك لا ملجأ ولا منجى منك إلا إليك آمنت بكتابك الذي أنزلت ونبيك الذي أرسلت» ”اے اللہ! میں نے اپنی جان تیرے حوالے کر دی، میں اپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3394]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی میں نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں وہی کہو،
انہیں بدلو نہیں۔
چاہے یہ الفاظ قرآن کے نہ بھی ہوں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3394
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3574
´باب`
براء بن عازب رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اپنے بستر پر سونے کے لیے جاؤ تو جس طرح نماز کے لیے وضو کرتے ہو ویسا ہی وضو کر کے جاؤ، پھر داہنے کروٹ لیٹو، پھر (یہ) دعا پڑھو: «اللهم أسلمت وجهي إليك وفوضت أمري إليك وألجأت ظهري إليك رغبة ورهبة إليك لا ملجأ ولا منجا منك إلا إليك آمنت بكتابك الذي أنزلت ونبيك الذي أرسلت» ”اے اللہ! میں تیرا تابع فرمان بندہ بن کر تیری طرف متوجہ ہوا، اپنا سب کچھ تجھے سونپ دیا، تجھ سے ڈرتے ہوئے اور رغبت کرتے ہوئے میں نے تیرا سہارا لیا، نہ تو میری کوئی امید گاہ ہے اور نہ ہی کوئی جائے نجات، میں تیری اس کتاب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3574]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے اللہ! میں تیرا تابع فرمان بندہ بن کر تیری طرف متوجہ ہوا،
اپنا سب کچھ تجھے سونپ دیا،
تجھ سے ڈرتے ہوئے اور رغبت کرتے ہوئے میں نے تیرا سہارا لیا،
نہ تو میری کوئی امید گاہ ہے اور نہ ہی کوئی جائے نجات،
میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جو تونے اتاری ہے اور تیرے اس نبی پر ایمان لایا جسے تو نے بھیجا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3574
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:247
247. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”جب تم اپنی خوابگاہ میں جاؤ تو پہلے نماز کا سا وضو کرو، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ کر یہ دعا پڑھو: اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ اے اللہ! تیرے ثواب کے شوق میں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے، میں نے خود کو تیرے سپرد کر دیا اور اپنا کام تجھے سونپ دیا، نیز تجھے اپنا پشت پناہ بنا لیا۔ تجھ سے بھاگ کر کہیں پناہ اور ٹھکانہ نہیں مگر تیرے ہی پاس۔ اے اللہ! میں اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے اتاری اور تیرے اس نبی پر یقین کیا جسے تو نے بھیجا۔ اب اگر تم اس رات مر جاؤ تو فطرتِ اسلام پر مرو گے، نیز یہ دعائیہ کلمات سب باتوں سے فارغ ہو کر (بالکل سوتے وقت) پڑھو۔”حضرت براء ؓ کہتے ہیں کہ میں نے یہ کلمات آپ کے سامنے دہرائے۔ جب میں اس جگہ پہنچا: (اللَّهُمَّ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ) تو اس کے بعد میں نے (وَرَسُولِكَ) کہہ دیا تو آپ نے فرمایا: ”نہیں،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:247]
حدیث حاشیہ:
1۔
معلوم ہوا کہ ادعیہ مسنونہ اور اذکار ماثورہ میں جو الفاظ رسول اللہ ﷺ سے منقول ہیں ان میں تصرف درست نہیں۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ مجھے اللہ کی طرف سے جامع کلمات عطا ہوئے ہیں۔
اس جامیعت وخصومیت کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے حضرت براء بن عازب ؓ کو (نبيك)
کے بجائے (رسولك)
پڑھنے سے اس بنا پر منع فرمایا کہ نبی میں جو جامعیت ہے وہ رسول میں نہیں، کیونکہ رسول کا اطلاق فرشتوں پر بھی ہوا ہے، حالانکہ وہ نبی نہیں، نیز ان دعائیہ کلمات میں نبوت ورسالت کے دونوں اوصاف کا ذکر ہے، جبکہ (رسولك)
کہنے سے صرف ایک وصف کا ذکر ہوتا ہے۔
(فتح الباري: 466/1)
اس حدیث سے قبل از نیند باوضو ہونے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، نیز واضح رہے کہ یہ وضو نماز کا نہیں بلکہ اسے وضوءِ احداث کہتے ہیں۔
حدیث میں ہر قسم کے وضو کو"شطر الإیمان" کا درجہ دیاگیا ہے۔
اس پر یہ سوال ہوتا ہے کہ اگرکوئی شخص پہلے سے باوضو ہوتوکیا وہ بھی سونے کے وقت دوبارہ وضو کرے؟ اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ بظاہر حدیث الباب سے تجدید وضو کا مفہوم معلوم ہوتا ہے، یعنی اگرچہ وہ طہارت سے ہو پھر بھی وضو کرے، تاہم احتمال اس امر کا بھی ہے کہ نیند کے وقت امر وضو حالتِ حدث ہی کے ساتھ خاص ہو۔
(فتح الباري: 465/1)
علامہ عینی کی رائے یہ ہے کہ اگر پہلے سے باوضو ہے تو وہ پہلا وضو ہی کافی ہے، کیونکہ مقصود طہارت کی حالت میں سونا ہے، مبادا اگررات کو موت آجائے تو بے طہارت مرے، نیز اس وضو کی برکت سے اس کو اچھے اور سچے خواب نظرآئیں گے اور وہ شیطانی اثرات سے بھی محفوظ رہے گا۔
(عمدة القاري: 698/2)
3۔
دائیں جانب کو ترجیح دینا تمام مواقع میں شریعت کو زیادہ پسند ہے، اسی طرح سوتے وقت دائیں کروٹ پسند کی گئی ہے کہ ایسا کرنے سے دل معلق رہتا ہے۔
نیند کا استغراق نہیں ہوتا، اس صورت میں انسان سہولت اور عجلت سے بیدار ہوسکتا ہے۔
(الموت على الفِطْرَةِ)
کا مطلب یہ ہے کہ جس فطری حالت میں انسان گناہوں کے بغیر دنیا میں آیا تھا، اسی حالت پر گناہوں کی آلائش کے بغیر ہی واپس لوٹ جائے گا۔
واللہ أعلم۔
4۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھاہے کہ حضرت امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث پر کتاب الوضو کو اس لیے ختم کیا ہے کہ یہ انسان کے زمانہ بیداری کا آخری وضو ہوتا ہے، نیز حدیث کے مطابق کلمات مذکورہ کو بیداری کے آخری کلمات قراردیا ہے، لہذا اس سے امام بخاری ؒ نے ختم کتاب کی طرف اشارہ کردیا۔
(فتح الباري: 466/1)
امام بخاری ؒ کا طریقہ کار یہ ہے کہ کتاب کے اختتام پر آخرت کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور موت کی یاد دہانی کراتے ہیں، چنانچہ یہاں بھی (فَإِنْ مِتَّ)
کے الفاظ سے وضاحت کے ساتھ اس کی طرف اشارہ کردیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 247
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6311
6311. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: جب تو بستر پر آنے کا ارادہ کرے تو وضو کر جیسے نماز کے لیے نماز وضو کرتا ہے پھر دائیں کروٹ پر لیٹ کر یہ دعا پڑھ: اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو تیری اطاعت میں دے دیا، اپنا سب کچھ تیرے سپرد کر دیا، اپنے معاملات تیرے حوالے کر دیے تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور تجھ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے۔ تیرے سوا کوئی پناہ گاہ یا نجات کی جگہ نہیں، میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی اور تیرے نبی کو تسلیم کیا جو تو نے مبعوث کیا۔ اس کے بعد اگر تو مرجائے تو دین اسلام پر مرے گا لہذا تم ان کلمات کو آخری بات بتاؤ جنہیں اپنی زبان سے ادا کرو۔ میں نے ان کلمات کو دہراتے وقت یوں کہہ دیا: ”میں تیرے اس رسول پر ایمان لایا جسے تو نے بھیجا۔“ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں (نہیں اس طرح کہو:) میں تیرے نبی ایمان لایا جسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6311]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلقین کردہ الفاظ میں نبوت اور رسالت دونوں منصب جمع ہو جاتے ہیں جبکہ صحابی نے جن الفاظ کو دہرایا اس میں صرف رسالت کا منصب آتا ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”وہی الفاظ ادا کرو جو میں نے تعلیم دیے ہیں۔
“ (2)
اس سے ثابت ہوا کہ ادعیہ ماثورہ اور اذکار مسنونہ میں اپنی طرف سے کمی بیشی کرنا درست نہیں بلکہ انہی الفاظ پر اکتفا کیا جائے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں کیونکہ ان میں وہ خاصیت ہے جو دوسرے الفاظ میں نہیں، نیز امام بخاری رحمہ اللہ نے رات کو با وضو سونے کی فضیلت بیان کی ہے۔
اس میں ان احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں اس فضیلت کی صراحت ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”جو آدمی رات باوضو ہو کر اللہ کا ذکر کرتے ہوئے سوتا ہے، پھر رات کو بیدار ہو کر اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا کرتا ہے۔
“ (سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5042)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6311
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6313
6313. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ایک آدمی کو حکم دیا دوسری روایت کے مطابق ایک آدمی کو وصیت فرمائی: ”جس وقت تو بستر پر آنے کا ارادہ کرے تو یہ دعا پڑھ“: ”اے اللہ! میں نے اپنی ذات کو تیرے تابع کر دیا اور اپنے تمام معاملات کو تیرے حوالے کر دیا۔ میں نے اپنا چہرہ تیری طرف متوجہ کیا اور اپنی پشت کو تیری طرف جھکا دیا ثواب کی امید رکھتے ہوئے اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہوئے۔ تیرے سوا نہ کوئی پناہ گاہ ہے اور نہ جائے نجات۔ میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جسے تو نے نازل فرمایا اور تیرے اس نبی پر ایمان لایا جسے تو نے بھیجا۔“ اگر تو ایسی حالت پر مرگیا تو فطرت اسلام پر مرے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6313]
حدیث حاشیہ:
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ بستر پر دراز ہونے سے پہلے اپنے ازار اور تہبند کے کنارے سے اسے جھاڑے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد بستر پر کون سی چیز آئی۔
(صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6320)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں تین سنتوں کا بیان ہے:
٭ باوضو ہو کر سونا۔
٭ دائیں پہلو پر سونا جیسا کہ دوسری روایت میں ہے۔
٭ سوتے وقت اللہ کا ذکر کرنا۔
پھر انہوں نے کرمانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ دعا ان تمام اشیاء پر مشتمل ہے جن پر اجمالی طور پر ایمان لانا ضروری ہے، اور وہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی کتابیں اور اس کے بھیجے ہوئے انبیاء کرام علیہم السلام ہیں۔
(فتح الباري: 136/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6313
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6315
6315. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو دائیں کروٹ پر لیٹ کر دعا پڑھتے: اے اللہ! میں نے اپنی جان تیرے سپرد کر دی اور اپنا چہرہ تیری طرف متوجہ کر دیا۔ اپنا معاملہ تیرے حوالے کر دیا اور اپنی پشت تیری طرف جھکا دی۔ یہ سب کچھ تیرا شوق رکھتے ہوئے اور تجھ سے ڈرتے ہوئے کیا۔ تیرے سوا نہ کوئی پناہ گاہ ہے اور نہ مقام نجات۔ میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جو تو نے اتاری اور تیرے اس نبی کو مان لیا جسے تو نے مبعوث کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص یہ کلمات پڑھے پھر اسی رات فوت ہو جائے تو فطرت اسلام پر فوت پوگا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6315]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی کہ جب تو اپنے بستر پر آئے تو اس سے پہلے نماز کا سا وضو کرو، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ کر مذکورہ دعا پڑھو، پھر فرمایا:
”اگر تم اسی رات فوت ہو گئے تو فطرتِ اسلام پر فوت ہو گے اور اگر صبح کی تو خیر و برکت سے ہمکنار ہو گے۔
“ (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 247) (2)
دائیں پہلو پر سونے میں بہت سے طبی فوائد بھی ہیں، اللہ تعالیٰ اس پر عمل کی توفیق دے۔
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا اور یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6315
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7488
7488. سیدنا براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اے فلاں! جب تم اپنے بستر پر جاؤ یہ دعا ہڑھا کرو: ”اے اللہ! میں نے اپنے بستر کو تیرے سپرد کر دیا اور اپنا رخ تیری طرف موڑ دیا میں نے اپنا معاملہ تیرے حوالے کر دیا تجھ سے ڈرتے ہوئے اور تیری طرف رغبت کرتے ہوئے یہ سب کچھ کیا۔ تیرے سوا کوئی پناہ اور جائے نجات نہیں۔ اے اللہ! میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی ہے اور تیرے نبی کو مان لیا جو تو نے بھیجا ہے۔“ اگر تواس رات فوت ہو جائے تو فطرت اسلام پر تمہاری موت ہوگی اور اگر صبح کو زندہ اٹھے تو تجھے اجر وثواب ملے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7488]
حدیث حاشیہ:
1۔
عنوان سابق میں اللہ تعالیٰ کا حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ ہم کلام ہونا بیان ہوا تھا اور اس باب میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اپنے علم کے مطابق نازل کیا ہے اور یہ قرآن کریم حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر مبارک پر نازل ہوا جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے گفتگو کی اور انھیں قرآن کریم اتارنے کا حکم دیا۔
اس طرح دونوں عنوانوں میں مناسبت ہے۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اسے اتارا گیا ہے، پیدا نہیں کیا گیا۔
نازل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام حادث ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔
مخلوق کی صفات سے کسی طرح سے بھی مشابہ نہیں ہے۔
اس حدیث میں اس کتاب پر ایمان لانے کا ذکر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے، اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان ثابت کیا ہے۔
بہرحال قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے کلام پر مشتمل ہے اور وہ اس کا نازل کیا ہوا ہےکسی اعتبار سے بھی مخلوق نہیں ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7488