حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ , قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ مَرَّ مَعَ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرٍ مَنْبُوذٍ: فَأَمَّنَا فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ , فَقُلْنَا: يَا أَبَا عَمْرٍو مَنْ حَدَّثَكَ؟ , قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا.
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1322
حدیث حاشیہ:
اس باب کا مقصد یہ بتانا ہے کہ نماز جنازہ بھی نماز ہے اور تمام نمازوں کی طرح اس میں وہی چیزیں ضروری ہیں جو نمازوں کے لیے ہونی چاہئیں۔
اس مقصد کے لیے حدیث اور اقوال صحابہ وتابعین کے بہت سے ٹکڑے ایسے بیان کئے ہیں جن میں نماز جنازہ کے لیے ”نماز“ کا لفظ ثابت ہوا اور حدیث واردہ میں بھی اس پر نماز ہی کا لفظ بولا گیا جب کہ آنحضرت ﷺ امام ہوئے اور آپ ﷺ کے پیچھے صحابہ ﷺ نے صف باندھی۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر کوئی مسلمان جس پر نماز جنازہ پڑھنی ضروری تھی اور اس کو بغیر نماز پڑھائے دفن کردیا گیا تو اس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1322
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1037
´قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
شعبی کا بیان ہے کہ مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ایک قبر الگ تھلگ دیکھی تو اپنے پیچھے صحابہ کی صف بندی کی اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ شعبی سے پوچھا گیا کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی۔ تو انہوں نے کہا: ابن عباس رضی الله عنہما نے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1037]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ لوگ باب کی حدیث کاجواب یہ دیتے ہیں کہ یہ نبی اکرمﷺ کے لیے خاص تھا کیونکہ مسلم کی روایت میں ہے (إن هذه القبور مملوؤة مظالم على أهلها وأن الله ينورها لهم بصلاة عليهم) ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی صلاۃ قبرکو منورکرنے کے لیے تھی اوریہ دوسروں کی صلاۃ میں نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا قبرپر صلاۃِجنازہ پڑھنا مشروع نہیں جمہوراس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ جن لوگوں نے آپ کے ساتھ قبرپر صلاۃِجنازہ پڑھی آپ نے انھیں منع نہیں کیا ہے کیونکہ یہ جائزہے اور اگریہ آپ ہی کے لیے خاص ہوتادوسروں کے لیے جائزنہ ہوتا توآپ انھیں ضرور منع فرما دیتے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1037
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1326
1326. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ ایک قبر کے پاس تشریف لائے تو لوگوں نے عرض کیا:اسے گزشتہ رات دفن کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ہم نے آپ کے پیچھے صف بندی کی، پھر آپ نے اس پر نماز جنازہ ادا کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1326]
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
کیونکہ ابن عباس اس واقعہ کے وقت بچے ہی تھے۔
مگر آپ ﷺ کے ساتھ برابر صف میں شریک ہوئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1326
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 857
857. حضرت شعبی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے اس شخص نے خبر دی جو نبی ﷺ کی معیت میں ایک ایسی قبر سے گزرے جو دوسری قبروں سے الگ تھلگ تھی، رسول اللہ ﷺ نے ان کی امامت کرائی اور انہوں نے صف بندی کی۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے ابوعمرو سے سوال کیا کہ تجھے کس نے بیان کیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: مجھے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے خبر دی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:857]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت فرمایا ہے کہ بچے اگرچہ نابالغ ہوں مگر8-10 سال کی عمر میں جب وہ نماز پڑھنے لگیں تو ان کو وضو کرنا ہوگا اور وہ جماعت و عیدین وجنائز میں بھی شرکت کر سکتے ہیں جیسا کہ یہاں اس روایت میں حضرت ابن عباس ؓ کا ذکر ہے جوابھی نابالغ تھے مگر یہاں ان کا صف میں شامل ہونا ثابت ہے پس اگرچہ بچے بالغ ہونے پر ہی مکلف ہوں گے مگر عادت ڈالنے کے لیے نابالغی کے زمانہ ہی سے ان کو ان باتوں پر عمل کرانا چاہیے حضرت مولانا وحید الزماں صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ حضرت امام بخاری ؒ نے صاف یوں نہیں کہا کہ لڑکوں پر وضو واجب ہے یا نہیں کیونکہ صورت ثانی میں لڑکوں کی نماز بے وضو درست ہوتی اور صورت اولی میں لڑکوں کو وضو اور نماز کے ترک پر عذاب لازم آتا صرف اس قدر بیان کر دیا جتنا حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکے آنحضرت ﷺ کے زمانے میں نماز وغیرہ میں شریک ہوتے اور یہ ان کی کمال احتیاط ہے۔
اہل حدیث کی شان یہی ہونی چاہیے کہ آیتِ کریمہ ﴿لَاتُقَدِّمُوابَینَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُولِه﴾ (الحجرات: 1)
(للہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو)
کے تحت صرف اسی پر اکتفا کریں جو قرآن وحدیث میں وارد ہو آگے بے جا رائے، قیاس، تاویل فاسدہ سے کام نہ لیں خصوصاً نص کے مقابلہ پر قیاس کرنا ابلیس کا کام ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 857
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1340
1340. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے ایک شخص کی نماز جنازہ پڑھی جو رات دفن کیا گیا تھا۔ آپ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ اٹھے اور آپ نے اس شخص کے متعلق دریافت کیا اور فرمایا:”یہ کون ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا:یہ فلاں شخص ہے جسے گزشتہ رات دفن کیا گیا تھا، چنانچہ آپ نے اور آپ کے صحابہ کرام نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1340]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ رات کو دفن کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
بلکہ بہتر یہی ہے کہ رات ہو یا دن مرنے والے کے کفن دفن میں دیرنہ کی جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1340
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1319
1319. حضرت شعبی سی روایت ہے، انھوں نے کہا:مجھے اس شخص نے خبردی جو نبی ﷺ کے پاس موجود تھا کہ آپ ایک الگ تھلگ قبر پر تشریف لائے اور صحابہ ؓ کی صف بندی فرمائی۔ آپ نے چار تکبیریں کہیں۔ شیبانی کہتے ہیں:میں نے دریافت کیا:اے ابو عمروشعبی!تم سے کس نے بیان کیا؟ تو انھوں نے کہا:حضرت ابن عباس ؓ نے(یہ حدیث بیان کی تھی) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1319]
حدیث حاشیہ:
(1)
پہلے عنوان میں یہ صراحت نہ تھی کہ دو صفوں سے زیادہ صفیں بھی بنائی جا سکتی ہیں، اس بنا پر وضاحت سے اس عنوان میں بتایا گیا ہے کہ دو صفوں سے زیادہ صفیں بنانا بھی جائز ہے، نیز عطاء ؒ کا موقف ہے کہ جنازے کے لیے صف بندی کی سرے سے ضرورت ہی نہیں، جیسا کہ مصنف عبدالرزاق میں اس کی تفصیل ہے۔
حضرت ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے دریافت کیا کہ جنازہ کے لیے نماز کی طرح صف بندی کرنا ضروری ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:
اس کے لیے صف بندی کی ضرورت نہیں، بلکہ تکبیریں کہہ کر میت کے لیے دعائیں کرنا ہی کافی ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
امام بخاری ؒ نے عنوان میں لفظ صفوف لا کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جنازے کے لیے تین صفیں بنانا مستحب ہے۔
اس کے لیے ایک صریح حدیث بھی ہے کہ جس جنازے میں کم از کم تین صفیں ہوں اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔
(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3166)
ایک روایت میں ہے کہ اس میت کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
(فتح الباري: 239/3)
لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے جو حدیث پیش کی ہے اس میں محمد بن اسحاق نامی ایک راوی مدلس ہے، اس نے کسی روایت میں بھی تصریح سماع نہیں کی۔
اس بنا پر ایسی ضعیف روایت سے استحباب ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
(2)
امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث میں مطابقت واضح نہیں، کیونکہ عنوان میں میت کے لیے جنازہ پڑھتے وقت صفیں باندھنے کا ذکر ہے، لیکن احادیث میں قبر پر یا غائبانہ جنازہ پڑھنے کا ذکر ہے۔
اس کا جواب علامہ کرمانی ؒ نے دیا ہے کہ جنازے سے مراد میت ہے، وہ مدفون ہو یا غیر مدفون، نیز جب غائبانہ نماز جنازہ کے لیے صفیں باندھی جاتی ہیں تو حاضر میت کے لیے بطریق اولیٰ صفیں باندھنا ہوں گی۔
وهو المقصود۔
اس لیے عنوان اور احادیث میں کوئی منافات نہیں۔
(فتح الباري: 239/3) (3)
ان احادیث سے غائبانہ نماز جنازہ بھی ثابت ہوتا ہے، اگرچہ امام بخاری ؒ نے اس کے لیے الگ عنوان بندی نہیں کی۔
اسی طرح حضرت عمران بن حصین ؓ سے مروی ایک حدیث میں بھی اس کا ذکر ہے۔
(مسند أحمد: 431/4)
بعض حضرات غائبانہ نمازِ جنازہ کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور نجاشی کا جنازہ غائبانہ پڑھنا رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت کہتے ہیں کیونکہ بعض روایات میں ہے کہ نماز جنازہ پڑھتے وقت رسول اللہ ﷺ کے لیے زمین کے تمام پردے ہٹا دیے گئے تھے اور نجاشی کی میت آپ کے سامنے تھی، لیکن یہ روایت محض اوہام و خیالات میں سے ہے۔
اس کی کچھ حقیقت نہیں۔
(المجموع: 253/5) (4)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ اگر غائب شخص ایسے شہر میں فوت ہوا ہو جہاں اس کی نماز جنازہ نہ ادا کی گئی ہو تو پھر اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے، لیکن احادیث میں اس کی کوئی صراحت نہیں کہ نجاشی کی نماز جنازہ اس کے شہر میں نہیں پڑھی گئی تھی۔
(فتح الباري: 241/3)
ہمارے نزدیک غائبانہ نماز جنازہ ہر ایک کے لیے مشروع نہیں۔
اگر کسی کی سیاسی، مذہبی، علمی یا سماجی خدمات ہوں تو اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے نجاشی کے علاوہ کسی اور صحابی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا، حالانکہ متعدد صحابہ کرام ؓ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں مدینہ سے باہر فوت ہوئے ہیں۔
اس کی مزید وضاحت ہم شہید کی نماز جنازہ کے بیان میں کریں گے۔
إن شاءالله۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1319
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1321
1321. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک ایسی قبر کے پاس سے گزرے جس میں رات کے وقت میت کو دفن کیا گیا تھا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا:”اسے کب دفن کیا گیا تھا؟“ لوگوں نے عرض کیا:گزشتہ رات۔ آپ ﷺ نے فرمایا:”تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟“ لوگوں نے عرض کیا:ہم نے اسے اندھیری رات میں دفن کیا تھا اور آپ کو اس وقت بیدار کرنا مناسب خیال نہ کیا،چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور ہم نے آپ کے پیچھے صف بندی کی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا:میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا، پھر آپ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1321]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابن عباس ؓ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں بالغ نہ ہوئے تھے، جیسا کہ خود ان کا اپنا بیان ہے کہ میں حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ شریک سفر تھا اور اس وقت میں قریب البلوغ تھا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عہد نبوی میں بالغ نہیں ہوئے تھے۔
اس بنا پر حدیث کی عنوان سے مطابقت واضح ہے۔
اس کی مزید وضاحت باب: 59 میں ہو گی جو بایں الفاظ ہے:
(باب صلاة الصبيان مع الناس علی الجنائز)
”بچوں کا لوگوں کے ہمراہ نماز جنازہ ادا کرنا۔
“ (2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بچوں کو نماز کی عادت ڈالنے کے لیے نماز باجماعت میں شرکت کرنے کا شوق پیدا کرنا چاہیے تاکہ وہ فریضہ نماز سے مانوس ہو جائیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1321
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1326
1326. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ ایک قبر کے پاس تشریف لائے تو لوگوں نے عرض کیا:اسے گزشتہ رات دفن کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ ہم نے آپ کے پیچھے صف بندی کی، پھر آپ نے اس پر نماز جنازہ ادا کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1326]
حدیث حاشیہ:
(1)
قبل ازیں امام بخارى ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا:
(باب صفوف الصبيان مع الرجال في الجنائز)
”نماز جنازہ میں مردوں کے ساتھ بچوں کا صف بندی کرنا“ اس کا مطلب یہ تھا کہ جنازہ پڑھتے وقت بچوں کو مردوں سے علیحدہ صف بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ وہ ان کے ساتھ ہی کھڑے ہوں گے۔
وہاں ان کا نماز پڑھنا بھی ذکر ہوا تھا لیکن اس کی حقیقت ثانوی اور ضمنی تھی۔
اس مقام پر مستقل طور پر بچوں کا مردوں کے ہمراہ نماز پڑھنا ذکر کیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بچے اکیلے نماز جنازہ نہیں پڑھ سکتے۔
اگر پڑھیں گے تو میت کا حق ادا نہیں ہو گا، کیونکہ ان پر نماز فرض ہی نہیں تو ان کے نماز پڑھنے سے فرض کفایہ کیونکر ادا ہو سکتا ہے، اس لیے بچے نماز جنازہ مردوں کے ساتھ ہی ادا کر سکتے تھے۔
اس کے برعکس دوسری فرض نماز صرف بچے ادا کر سکتے ہیں۔
جیسا کہ حضرت انس ؓ کا رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان کو جنازے کے ساتھ جانے کی فضیلت بیان کرنے کے بعد ذکر کیا ہے تاکہ وضاحت کی جائے کہ اس فضیلت کو حاصل کرنے میں بچے بھی شامل ہیں لیکن ان کے جنازہ پڑھنے سے فرض کفایہ ساقط نہیں ہو گا۔
والله أعلم۔
(فتح الباري: 253/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1326
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1340
1340. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے ایک شخص کی نماز جنازہ پڑھی جو رات دفن کیا گیا تھا۔ آپ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ اٹھے اور آپ نے اس شخص کے متعلق دریافت کیا اور فرمایا:”یہ کون ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا:یہ فلاں شخص ہے جسے گزشتہ رات دفن کیا گیا تھا، چنانچہ آپ نے اور آپ کے صحابہ کرام نے اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1340]
حدیث حاشیہ:
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بات پر ڈانٹا کہ آدمی کو رات کے وقت دفن کیا جائے، ہاں اگر کوئی مجبوری ہو تو الگ بات ہے۔
(صحیح ابن حبان: 41/6)
لیکن صحیح مسلم کی روایت میں اس کا سبب بیان ہوا ہے کہ کسی نے اپنے مرنے والے عزیز کا کفن اچھا نہ بنایا اور رات ہی دفن کر دیا تاکہ اس کی حرکت پر پردہ رہے، تو رسول اللہ ﷺ نے رات کو دفن کرنے سے منع کر دیا اور میت کو اچھا کفن پہنانے کی تلقین فرمائی۔
(صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2185(943)
اس روایت میں ایک اور سبب کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔
وہ یہ کہ آپ نے اس گمان کی وجہ سے منع فرمایا کہ نماز جنازہ میں رات کے وقت لوگ کم تعداد میں شریک ہوں گے، لہذا اگر نماز جنازہ دن کے وقت پڑھ لی گئی ہو اور کسی عذر کی وجہ سے رات کو دفن کرنا پڑے تو ایسا کرنا ممنوع نہیں۔
مذکورہ حدیث سے بھی رات کے وقت دفن کرنے کا جواز معلوم ہوتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق لوگوں سے کوئی باز پرس نہیں کی تھی، بلکہ آپ کو اطلاع نہ دینے کی بنا پر انہیں پوچھا تھا، اس لیے رات کے وقت دفن کرنے میں چنداں حرج نہیں۔
حضرت علی ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ کو رات کے وقت دفن کیا تھا۔
(المصنف لابن أبي شیبة: 346/3)
امام بخاری ؒ نے رات کے وقت جواز دفن ثابت کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے، تاہم اگر دن کے وقت دفن کرنا شہرت و ریا کاری کے پیش نظر ہو تو شرعا یہ عمل بھی پسندیدہ نہیں۔
والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1340