وکیع، عبداللہ بن نمیر اور ابومعاویہ نے کہا: ہمیں اعمش نے سعد بن عبیدہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوعبدالرحمٰن سلمی سے اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن بیٹھے ہوئے تھے، اور آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس سے آپ زمین کرید رہے تھے، پھر آپ نے اپنا سر اقدس اٹھا کر فرمایا: "تم میں سے کوئی ذی روح نہیں مگر جنت اور دوزخ میں اس کا مقام (پہلے سے) معلوم ہے۔" انہوں (صحابہ) نے عرض کی: اللہ کے رسول! پھر ہم کس لیے عمل کریں؟ ہم اسی (لکھے ہوئے) پر تکیہ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، تم عمل کرو، ہر شخص کے لیے اسی کی سہولت میسر ہے جس (کو خود اپنے عمل کے ذریعے حاصل کرنے) کے لیے اس کو پیدا کیا گیا۔" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: "تو وہ شخص جس نے (اللہ کی راہ میں) دیا اور اچھی بات کی تصدیق کی" سے لے کر "تو ہم اسے مشکل زندگی (تک جانے) کے لیے سہولت دیں گے" تک پڑھا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن تشریف فر تھے اور آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، جس سے آپ کرید رہے تھےچنانچہ آپ نے سر اٹھا کر فرمایا:"تم میں سے ہر جاندار (شخص کی جگہ جنت اور دوزخ میں جانی جا چکی ہے۔"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے پوچھا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو پھر عمل کس لیے ہیں؟ تو کیا ہم بھروسہ نہ کر لیں؟آپ نے فرمایا:"نہیں عمل کرتے رہو کیونکہ ہر ایک کو اس کی توفیق ملے گی۔جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔"پھر آپ نے پڑھا۔"جس نے اللہ کی راہ میں تقوی اختیار کیا، اچھی بات (دعوت اسلام قبول کر لیا تو ہم اس کے لیے دشواری اور تکلیف والی زندگی (دوزخ) کی طرف چلنا آسان کردیں گے۔"(اللیل آیت نمبر5تا10)