صحيح مسلم
كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ
حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب
26. باب ذَمِّ ذِي الْوَجْهَيْنِ وَتَحْرِيمِ فِعْلِهِ:
باب: دو منہ والے منافق کی مذمت۔
حدیث نمبر: 6630
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ ذَا الْوَجْهَيْنِ الَّذِي يَأْتِي هَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ وَهَؤُلَاءِ بِوَجْهٍ ".
اعرج نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بدترین انسانوں میں سے دو رخا شخص (بھی) ہوتا ہے۔ وہ ان لوگوں سے ایک چہرے کے ساتھ ملتا ہے اور ان لوگوں سے دوسرے چہرے کے ساتھ ملتا ہے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"دورخابدترین لوگوں میں سے ہے جو کچھ لوگوں کے پاس جاتا ہے تو اس کا رخ اور ہوتا ہے اور دوسروں کے پاس جاتا ہے تو اور۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 6630 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6630
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب دو آدمیوں یا دو جماعتوں میں اختلاف اور تنازع ہو تو وہ ہر فریق کے پاس جا کر دوسرے فریق کے خلاف بڑھ چڑھ کر باتیں کرتے ہیں،
یا کسی کے ساتھ جب ملتے ہیں،
یا اس کی مجلس میں ہوتے ہیں تو اس کے ساتھ اپنے حسن تعلق کا اظہار کرتے ہیں اور خوشامد و چاپلوسی کی تمام حدود عبور کر جاتے ہیں،
لیکن جب وہ چلا جاتا ہے تو اس کے پیچھے،
اس کی تحقیر و تنقیص اور برائی و بدخواہی کی باتیں کرتے ہیں،
اس کو عربی میں " ذوالوجهين " اور اردو میں "دورخا" کہتے ہیں اور ظاہر ہے،
یہ طرز عمل ایک طرح کی منافقت اور ایک قسم کی دھوکہ بازی ہے اور یہ ایک انتہائی خطرناک اور سنگین جرم ہے،
جس کو آج کل ایک خوبی و کمال سمجھا جاتا ہے اور یہ انسان کی ذہانت و فطانت اور دانشمندی کی علامت بن چکا ہے اور ڈپلومیسی کہلاتا ہے۔
لیکن ایسا انسان آخر کار رسوا اور ذلیل ہوتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6630