صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
49. بَابُ مَنْ قَامَ لِجَنَازَةِ يَهُودِيٍّ:
باب: اس شخص کے بارے میں جو یہودی کا جنازہ دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔
حدیث نمبر: 1311
حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" مَرَّ بِنَا جَنَازَةٌ، فَقَامَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقُمْنَا بِهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا جِنَازَةُ يَهُودِيٍّ، قَالَ: إِذَا رَأَيْتُمُ الْجِنَازَةَ فَقُومُوا".
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا ‘ ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ بن مقسم نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ ہمارے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور ہم بھی کھڑے ہو گئے۔ پھر ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم لوگ جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1311 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1311
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کا یہودی کے جنازے کے لیے بھی کھڑے ہوجانا ظاہر کررہا ہے کہ آپ کے قلب مبارک میں محض انسانیت کے رشتہ کی بناپر ہر انسان سے کس قدر محبت تھی۔
یہودی کے جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہونے کی کئی وجوہ بیان کی گئی ہیں۔
آئندہ حدیث میں بھی کچھ ایسا ہی ذکر ہے۔
وہاں آنحضرت ﷺ نے خود اس سوال کا جواب فرمایا۔
ألیست نفسا یعنی جان کے معاملہ میں مسلمان اور غیر مسلمان برابر ہیں۔
زندگی اور موت ہردو پر وارد ہوتی ہیں۔
حضرت جابر کی روایت میں مزید تفصیل موجود ہے۔
"مَرَّتْ جَنَازَةٌ فَقَامَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقُمْنَا مَعَهُ فَقُلْنَا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا يَهُودِيَّةٌ، فَقَالَ:
إِنَّ الْمَوْتَ فَزَعٌ فَإِذَا رَأَيْتُمُ الْجَنَازَةَ فَقُومُوا ". متفق علیہ۔
یعنی ایک جنازہ گزرا جس پر آنحضرت ﷺ اور آپ کی اقتدا میں ہم سب کھڑے ہوگئے۔
بعد میں ہم نے کہا کہ حضور یہ ایک یہودیہ کا جنازہ تھا۔
آپ نے فرمایا کہ کچھ بھی ہو بے شک موت بہت ہی گھبراہٹ میں ڈالنے والی چیز ہے۔
موت کسی کی بھی ہو اسے دیکھ کر گھبراہٹ ہونی چاہیے پس تم بھی کوئی جنازہ دیکھو کھڑے ہوجایا کرو۔
نسائی اور حاکم میں حضرت انس ؓ کی حدیث میں ہے کہ إنما قمنا للملئکةِ۔
ہم فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور احمد میں بھی حدیث ابوموسیٰ سے ایسی ہی روایت موجود ہے۔
پس خلاصۃ الکلام یہ کہ جنازہ کو دیکھ کر بلا امتیاز مذہب عبرت حاصل کرنے کے لیے‘ موت کو یاد کرنے کے لیے‘ فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجانا چاہیے۔
حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1311
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1923
´کافر اور مشرک کے جنازے کے لیے کھڑے ہونے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک جنازہ ہمارے پاس سے گزرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے، اور آپ کے ساتھ ہم بھی کھڑے ہو گئے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ جنازہ (ایک) یہودی عورت کا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”موت ایک قسم کی ہیبت ہے، تو جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ“، یہ الفاظ خالد کے ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1923]
1923۔ اردو حاشیہ: تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث نمبر 1915۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1923
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3174
´میت کے لیے کھڑے ہونے کا مسئلہ۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اچانک ہمارے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ اس کے لیے کھڑے ہو گئے، پھر جب ہم اسے اٹھانے کے لیے بڑھے تو معلوم ہوا کہ یہ کسی یہودی کا جنازہ ہے، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو کسی یہودی کا جنازہ ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”موت ڈرنے کی چیز ہے، لہٰذا جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ۔“ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3174]
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں کھڑ ے ہونے کا حکم ہے۔
لیکن اس کے بعد والی روایت میں صراحت ہے۔
کہ بعد میں نبی کریم ﷺبیٹھنے لگ گئے تھے۔
اس لئے کھڑے ہونے کا حکم منسوخ ہے۔
یا پھردونوں ہی باتیں جائز ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3174