صحيح مسلم
كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ
حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب
14. باب ثَوَابِ الْمُؤْمِنِ فِيمَا يُصِيبُهُ مِنْ مَرَضٍ أَوْ حُزْنٍ أَوْ نَحْوِ ذَلِكَ حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا:
باب: مومن کو کوئی بیماری یا تکلیف پہنچے تو اس کا ثواب۔
حدیث نمبر: 6571
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ ، وَبِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عِمْرَانُ أَبُو بَكَرٍ ، حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ : " أَلَا أُرِيكَ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: هَذِهِ الْمَرْأَةُ السَّوْدَاءُ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: إِنِّي أُصْرَعُ وَإِنِّي أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللَّهَ لِي، قَالَ: إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَكِ الْجَنَّةُ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَكِ، قَالَتْ: أَصْبِرُ، قَالَتْ: فَإِنِّي أَتَكَشَّفُ فَادْعُ اللَّهَ أَنْ لَا أَتَكَشَّفَ، فَدَعَا لَهَا ".
عطاء بن ابی رباح نے حدیث بیان کی، کہا: ایک دن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: کیا میں تمہیں اہل جنت میں سے ایک عورت نہ دکھاؤں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں! انہوں نے کہا: یہ سیاہ فام عورت ہے، یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! مجھ پر مرگی کا دورہ پڑتا ہے جس سے (کبھی) میرا لباس کھل جاتا ہے۔ آپ میرے لیے اللہ سے دعا کیجئے۔ آپ نے فرمایا: "اگر تم چاہو تو اس پر صبر کرو اور تمہارے لیے جنت ہے اور اگر تم چاہو تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تم کو صحت عطا فرمائے۔" اس عورت نے کہا: میں صبر کروں گی، اس نے کہا: میرا لباس کھل جاتا ہے، آپ اللہ سے یہ دعا فرما دیں کہ میرا لباس نہ کھلے، تو آپ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔
حضرت عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،مجھے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:کیا میں تمہیں جنتی عورت نہ دکھاؤں؟میں نےکہا:کیوں نہیں،انہوں نے کہا،یہ سیاہ فام عورت،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکرکہنے لگی،مجھے مرگی کادورہ پڑتا ہے۔اور میرا ستر کھل جاتاہے،آپ میرے لیے اللہ سے دعا فرمائیں،آپ نے فرمایا:"اگر تو چاہے تو صبرکر،تجھےجنت مل جائےگی اور اگر تو چاہے تو میں اللہ سے دعا کر دیتا ہوں،وہ تجھے صحت بخشے۔"اس نے کہا،میں صبر کروں گی اور کہا میں بے پردہ ہوجاتی ہوں تو آپ اللہ سے دعا فرمائیں،میں بےپردہ نہ ہوں،چنانچہ آپ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 6571 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6571
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے اگر انسان کے اندر صبر و ثبات کا جذبہ موجزن ہے اور وہ تکلیف و بیماری پر صبر کر سکتا ہے اور کمزوری کا خطرہ نہیں ہے تو اس کے لیے علاج و معالجہ کروانا ضروری نہیں ہے لیکن اگر وہ اس پر قائم نہیں رہ سکتا،
یا اس سے اس کے معاملات متاثر ہوتے ہیں تو پھر اس کو علاج کروانا چاہیے،
اس کے لیے علاج کروانا ہی بہتر ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6571
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5652
5652. حضرت عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: کیا میں تجھے ایک جنتی عورت نہ دکھاؤں؟ میں نے کہا: ضرور دکھائیں۔ انہوں نے کہا: اس سیاہ فارم عورت نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے اس وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے آپ میرے لیے اللہ تعالٰی سے دعا کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تو چاہے تو صبر کر، اس کے عوض تجھے جنت ملے گی اور ”اگر تو چاہتی ہے تو میں اللہ تعالٰی سے دعا کر دیتا ہوں کہ تجھے تندرستی دے۔“ اس نے کہا: میں صبر کروں گی۔ پھر اس نے عرض کی کہ مرگی کے دورے کے دوران میں میرا ستر کھل جاتا ہے آپ میرے لیے اللہ سے دعا کریں کہ میرا ستر نہ کھلا کرے تو آپ ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5652]
حدیث حاشیہ:
بزار کی روایت میں یوں ہے کہ وہ عورت کہنے لگی میں شیطان خبیث سے ڈرتی ہوں کہیں مجھ کا ننگا نہ کرے۔
آپ نے فرمایا کہ تجھ کو یہ ڈر ہو تو کعبے کے پردے کو آن کر پکڑ لیا کر۔
وہ جب ڈرتی تو کعبے کے پردے سے لٹک جاتی مگر یہ لا علاج رہی۔
امام ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ جب پچیس سال کی عمر میں مرگی کا عارضہ ہو تو وہ لا علاج ہو جاتی ہے۔
مولانا عبدالحئی مرحوم فرنگی محلی جو مشہور عالم ہیں بعارضہ مرگی35 سال کی عمر میں انتقال فرما گئے۔
رحمه اللہ (وحیدی)
حافظ صاحب فرماتے ہیں وفیه دلیل علیٰ جواز ترك التداوین و فیه أن علاج الأمراض کلھا بالدعا ء و الالتجاء إلی اللہ و أنجح و أنفع من العلاج بالعقاقیر و أن تاثیر ذالك و انفعال البدن عنه أعظم من تأثیر الأدویة البدنة الخافرة (فتح الباري)
یعنی اس حدیث میں اس امر پر بھی دلیل ہے کہ دواؤں سے علاج ترک کر دینا بھی جائز ہے اور یہ کہ تمام بیماریوں کا علاج دعاؤں سے اللہ کی طرف رجوع کرنا ادویات سے زیادہ نفع بخش علاج ہے اور بدن ادویات سے زیادہ دعاؤں کا اثر قبول کرتا ہے اوراس میں شک وشبہ کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔
اس لیے دعائیں مومن کا آخر ی ہتھیار ہیں۔
یا اللہ! بصمیم قلب دعا ہے کہ مجھ کو جملہ امراض قلبی و قالبی سے شفائے کاملہ عطا فرما۔
آمین ثم آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5652
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5652
5652. حضرت عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: کیا میں تجھے ایک جنتی عورت نہ دکھاؤں؟ میں نے کہا: ضرور دکھائیں۔ انہوں نے کہا: اس سیاہ فارم عورت نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے اس وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے آپ میرے لیے اللہ تعالٰی سے دعا کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تو چاہے تو صبر کر، اس کے عوض تجھے جنت ملے گی اور ”اگر تو چاہتی ہے تو میں اللہ تعالٰی سے دعا کر دیتا ہوں کہ تجھے تندرستی دے۔“ اس نے کہا: میں صبر کروں گی۔ پھر اس نے عرض کی کہ مرگی کے دورے کے دوران میں میرا ستر کھل جاتا ہے آپ میرے لیے اللہ سے دعا کریں کہ میرا ستر نہ کھلا کرے تو آپ ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5652]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عورت کا نام ام زفر تھا اور اسے مرگی کا دورہ شیاطین کی دراندازی کی وجہ سے پڑتا تھا، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ وہ کہنے لگی:
مجھے شیطان خبیث سے ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں وہ مجھے ننگا نہ کر دے۔
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرما دی۔
آئندہ جب اسے شیطان کی طرف سے خطرہ محسوس ہوتا تو وہ غلافِ کعبہ کو پکڑ لیتی۔
(مسند البزار: 191/12، رقم: 5073)
اس عورت نے علاج معالجہ چھوڑ دیا اور اپنی بیماری پر صبر کیا، نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تمام بیماریوں کا علاج دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے سے بھی ہو سکتا ہے بلکہ یہ طریقۂ علاج ادویات کے علاج سے زیادہ نفع بخش ہے۔
انسانی بدن، ادویات سے زیادہ دعاؤں کا اثر قبول کرتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے، بلکہ دعا تو مومن کے لیے بہت بڑا ہتھیار ہے۔
بہرحال مصیبت پر صبر کرنا حصول جنت کا ذریعہ ہے اور رخصت اختیار کرنے کے بجائے سختی کو اختیار کرنا بہت بڑے مقام کا باعث ہے بشرطیکہ وہ جانتا ہو کہ مصیبت کا دورانیہ طویل ہونے کی صورت میں وہ صبر کرے گا اور ہر حالت میں صبر سے کام لے گا۔
(2)
اس حدیث میں اگرچہ شیطان کی دراندازی سے مرگی کا ذکر ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے علاوہ مرگی کو اس پر قیاس کیا۔
دوسری مرگی ریاح اور گردش خون کے رک جانے سے ہوتی ہے اور اس دوران میں اعضائے رئیسہ اپنی کارکردگی کھو بیٹھتے ہیں، اس لیے انسان بے ہوش ہو جاتا ہے۔
بعض اوقات ردی بخارات دماغ میں چڑھ جاتے ہیں اور اسے متاثر کر دیتے ہیں۔
بہرحال مرگی کی دونوں قسموں کو اگر انسان خندہ پیشانی سے برداشت کرے تو اسے اللہ کے ہاں جنت ملنے کی بشارت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5652