صحيح مسلم
كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ
حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب
6. باب صِلَةِ الرَّحِمِ وَتَحْرِيمِ قَطِيعَتِهَا:
باب: ناتا توڑنا حرام ہے۔
حدیث نمبر: 6525
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْعَلَاءَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي قَرَابَةً أَصِلُهُمْ وَيَقْطَعُونِي، وَأُحْسِنُ إِلَيْهِمْ وَيُسِيئُونَ إِلَيَّ، وَأَحْلُمُ عَنْهُمْ وَيَجْهَلُونَ عَلَيَّ، فَقَالَ: لَئِنْ كُنْتَ كَمَا قُلْتَ، فَكَأَنَّمَا تُسِفُّهُمُ الْمَلَّ، وَلَا يَزَالُ مَعَكَ مِنَ اللَّهِ ظَهِيرٌ عَلَيْهِمْ مَا دُمْتَ عَلَى ذَلِكَ ".
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی: اللہ کے رسول! میرے (بعض) رشتہ دار ہیں، میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں اور وہ مجھ سے تعلق توڑتے ہیں، میں ان کے ساتھ نیکی کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں، میں بردباری کے ساتھ ان سے درگزر کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جہالت کا سلوک کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: "اگر تم ایسے ہی ہو جیسے تم نے کہا ہے تو تم ان کو جلتی راکھ کھلا رہے ہو اور جب تک تم اس روش پر رہو گے، ان کے مقابلے میں اللہ کی طرف سے ہمیشہ ایک مددگار تمہارے ساتھ رہے گا۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک انسان نے عرض کیا،اے اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )!میرے کچھ قرابت دار ہیں،میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ مجھ سے تعلق توڑتے ہیں،میں ان سے احسان کرتا ہوں اور وہ مجھ سے بدسلوکی کرتے ہیں اور میں ان سے تحمل اور بردباری کا برتاؤ کرتا ہوں اور وہ مجھ سے اشتعال انگیز،جاہلانہ طرز عمل سے پیش آتے ہیں تو آپ نے فرمایا:"اگر تو واقعی ایسا طرز عمل اختیار کرتا ہے،جیسا تو نے بتایا ہے تو گویا تو ان کے منہ میں گرم راکھ رکھ رہا ہے اور ان کے مقابلہ میں ہمیشہ تیرے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک معاون ومددگار رہے گا،جب تک تیرا رویہ برقرار رہے گا۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 6525 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6525
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
يجهلون علي:
جهل،
حلم کے مقابلہ میں ہے،
اس لیے اس سے مراد اشتعال انگیز سلوک ہے،
جس سے انسان کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور وہ اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکتا،
اس لیے مراد لڑائی جھگڑا بھی ہو سکتا ہے۔
(2)
تسفهم:
اسف البعير سے ماخوذ ہے،
یعنی اونٹ کو خشک گھاس چرائی۔
(3)
المل:
گرم راکھ،
یعنی تو ان کو گرم راکھ کھلا رہا ہے،
جس طرح گرم راکھ کھانے والے کو تکلیف ہوتی ہے،
اسی طرح ان قطع رحم کرنے والوں کو گناہ ملے گا۔
(4)
من الله ظهير:
اللہ کی طرف سے معاون و مددگار۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی رشتہ دار کی بدسلوکی اور قطع رحمی،
دوسرے رشتہ دار کے لیے بدسلوکی اور قطع رحمی کی وجہ جواز نہیں بن سکتی،
کیونکہ اگر ایک رشتہ دار برا طرز عمل اختیار کرتا ہے،
یا تعلقات کو توڑتا ہے تو اس کا وبال اسی پر پڑے گا اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا گویا اس کو گرم راکھ کھلانا ہے،
جس کی اذیت اور تکلیف سے وہی دوچار ہو گا،
اچھا سلوک کرنے والا یا تحمل و بردباری کا وطیرہ اختیار کرتے ہوئے،
صلہ رحمی کرنے والا تو اللہ کے ہاں معزز اور محترم ٹھہرتا ہے اور اس کو اللہ کی طرف سے معین اور مددگار ملتا ہے اور بخاری شریف میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
"وہ آدمی صلہ رحمی کا حق ادا نہیں کرتا جو اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بدلہ میں صلہ رحمی کرتا ہے،
جو اس کے ساتھ صلہ رحمی کا وطیرہ اپناتے ہیں،
صلہ رحمی کا حق ادا کرنے والا دراصل وہ ہے جو اس حالت میں صلہ رحمی کرتا ہے،
جبکہ اس کا رشتہ دار اس کے ساتھ قطع رحمی کا معاملہ کرتا ہے،
یعنی اس کے حقوق تلف کرتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6525