صحيح مسلم
كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ
حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب
1. باب بِرِّ الْوَالِدَيْنِ وَأَنَّهُمَا أَحَقُّ بِهِ:
باب: والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور ان دونوں سے کون زیادہ حقدار ہے۔
حدیث نمبر: 6500
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ جَمِيلِ بْنِ طَرِيفٍ الثَّقَفِيُّ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي؟ قَالَ: أُمُّكَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أُمُّكَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أُمُّكَ؟ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أَبُوكَ "، وَفِي حَدِيثِ قُتَيْبَةَ: مَنْ أَحَقُّ بِحُسْنِ صَحَابَتِي، وَلَمْ يَذْكُرِ النَّاسَ.
قتیبہ بن سعید بن جمیل بن طریف ثقفی اور زہیر بن حرب نے کہا: ہمیں جریر نے عمارہ بن قعقاع سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوزرعہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: لوگوں میں سے حسنِ معاشرت (خدمت اور حسن سلوک) کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں۔" اس نے کہا: پھر کون؟ فرمایا: "پھر تمہاری ماں۔" اس نے پوچھا: اس کے بعد کون؟ فرمایا: "پھر تمہاری ماں۔" اس نے پوچھا: پھر کون؟ فرمایا: "پھر تمہارا والد۔" اور قتیبہ کی حدیث میں ہے: میرے اچھے برتاؤ کا زیادہ حقدار کون ہے؟ اور انہوں نے "لوگوں میں سے" کا ذکر نہیں کیا۔
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنےلگا،میری اچھی رفاقت کا سب سے زیادہ حقدار کون انسان ہے؟آپ نےفرمایا،"تیری ماں۔"اس نے پوچھا،"پھر کون؟فرمایا:"تیری والدہ"پوچھا،پھر کون؟فرمایا:"پھر بھی تیری ماں،"اس نے دریافت کیا،پھر کون؟فرمایا،"پھر تیرا باپ۔"
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 6500 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6500
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
حسن صحابتي:
میری بہترین رفاقت یعنی حسن سلوک اور حسن معاشرت اور خدمت۔
فوائد ومسائل:
جامع ترمذی اور سنن ابی داؤد میں اس مفہوم کا سوال معاویہ بن حیدہ قشیری رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا اور اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خدمت اور حسن سلوک کے بارے میں ماں کا حق باپ سے زیادہ اور مقدم ہے،
کیوں ماں صنف نازک اور کمزور ہونے کی وجہ سے اس کی ضرورت مند زیادہ ہے،
جبکہ عام طور پر اس کی رحمدلی اور نرمی کی وجہ سے نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور باپ کے رعب و داب اور گھر کا نگران و نگہبان ہونے کی وجہ سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے،
اس لیے شریعت میں اس کمزور صنف کی خدمت کو زیادہ اہمیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے،
نیز قرآں مجید میں ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتے ہوئے،
خاص طور پر ماں کی ان تین تکلیفوں اور مصیبتوں کا ذکر کیا گیا ہے،
جو حمل،
ولادت جس میں ماں کو موت و حیات کی کشمکش کے انتہائی مشکل اور جانگداز مرحلہ سے گزرنا پڑتا ہے،
پھر دودھ پلانے اور پرورش و پرداخت کا مرحلہ پیش آتا ہے،
جس میں ماں کو اولاد کی خاطر اپنا آرام و سکون تج کرنا پڑتا ہے،
بہت سی چیزوں سے دست کش ہونا پڑتا ہے،
گرم اور سرد موسم کے گرم و سرد حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6500