Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
33. باب مِنْ فَضَائِلِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلاَمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6381
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ ، قَالَ: " كُنْتُ بِالْمَدِينَةِ فِي نَاسٍ فِيهِمْ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ فِي وَجْهِهِ أَثَرٌ مِنْ خُشُوعٍ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، هَذَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ يَتَجَوَّزُ فِيهِمَا، ثُمَّ خَرَجَ، فَاتَّبَعْتُهُ، فَدَخَلَ مَنْزِلَهُ وَدَخَلْتُ فَتَحَدَّثْنَا، فَلَمَّا اسْتَأْنَسَ، قُلْتُ لَهُ: إِنَّكَ لَمَّا دَخَلْتَ قَبْلُ، قَالَ رَجُلٌ: كَذَا وَكَذَا، قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ مَا لَا يَعْلَمُ، وَسَأُحَدِّثُكَ لِمَ ذَاكَ رَأَيْتُ رُؤْيَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَصَصْتُهَا عَلَيْهِ، رَأَيْتُنِي فِي رَوْضَةٍ ذَكَرَ سَعَتَهَا، وَعُشْبَهَا، وَخُضْرَتَهَا، وَوَسْطَ الرَّوْضَةِ عَمُودٌ مِنْ حَدِيدٍ أَسْفَلُهُ فِي الْأَرْضِ، وَأَعْلَاهُ فِي السَّمَاءِ فِي أَعْلَاهُ عُرْوَةٌ، فَقِيلَ لِي: ارْقَهْ، فَقُلْتُ لَهُ: لَا أَسْتَطِيعُ، فَجَاءَنِي مِنْصَفٌ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: وَالْمِنْصَفُ الْخَادِمُ، فَقَالَ: بِثِيَابِي مِنْ خَلْفِي وَصَفَ أَنَّهُ رَفَعَهُ مِنْ خَلْفِهِ بِيَدِهِ، فَرَقِيتُ حَتَّى كُنْتُ فِي أَعْلَى الْعَمُودِ، فَأَخَذْتُ بِالْعُرْوَةِ، فَقِيلَ لِيَ: اسْتَمْسِكْ فَلَقَدِ اسْتَيْقَظْتُ وَإِنَّهَا لَفِي يَدِي، فَقَصَصْتُهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: تِلْكَ الرَّوْضَةُ الْإِسْلَامُ، وَذَلِكَ الْعَمُودُ عَمُودُ الْإِسْلَامِ، وَتِلْكَ الْعُرْوَةُ عُرْوَةُ الْوُثْقَى، وَأَنْتَ عَلَى الْإِسْلَامِ حَتَّى تَمُوتَ، قَالَ: وَالرَّجُلُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ ".
معاذ بن معاذ نے کہا: ہمیں عبداللہ بن عون نے محمد بن سیرین سے حدیث بیان کی، انھوں نے قیس بن عباد سے روایت کی، کہا: میں مدینہ منورہ میں کچھ لوگوں کےساتھ تھا جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی تھے، پھر ایک شخص آیا جس کے چہرے پر خشوع کا اثر (نظر آتا) تھا، لوگوں میں سے ایک نے کہا: یہ اہل جنت میں سے ایک آدمی ہے۔اس آدمی نے دو رکعت نماز پڑھی جن میں اختصار کیا پھر چلاگیا۔میں بھی اس کے پیچھے گیا، پھر وہ اپنے گھر میں داخل ہوگیا، میں بھی (اجازت) لے کر اندر گیا، پھر ہم نے آپس میں باتیں کیں۔جب وہ کچھ میرے ساتھ مانوس ہوگئے تو میں نے ان سے کہا: جب آپ (کچھ دیر) پہلے مسجد میں آئے تھے تو آپ کے متعلق ایک شخص نے اس طرح کہاتھا۔انھوں نے کہا: سبحان اللہ!کسی شخص کے لئے مناسب نہیں کہ وہ کوئی بات کہے جس کا اسے پوری طرح علم نہیں اورمیں تمھیں بتاتا ہوں کہ یہ کیونکر ہوا۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک خواب دیکھا اور وہ خواب آپ کے سامنے بیان کیا۔میں نے اپنے آپ کو ایک باغ میں دیکھا۔انھوں نے اس باغ کی وسعت، اس کے پودوں اور اس کی شادابی کے بارے میں بتایا۔باغ کے وسط میں لوہے کا ایک ستون تھا، اس کا نیچے کا حصہ زمین کے اندر تھا اور اسکے اوپر کا حصہ آسمان میں تھا، اس کے اوپر کی جانب ایک حلقہ تھا، مجھ سے کہا گیا: اس پرچڑھو۔میں نے کہا؛میں اس پر نہیں چڑھ سکتا، پھر ایک منصف آیا۔ابن عون نے کہا: منصف (سے مراد) خادم ہےاس نے میرے پیچھے سے میرے کپڑے تھام لیے اور انھوں (عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ) نے واضح کیا کہ اس نے اپنے ہاتھ سے انھیں پیچھے سےاوپر اٹھایا تو میں اوپر چڑھ گیا یہاں تک کہ میں ستون کی چوٹی پر پہنچ گیا اور حلقے کو پکڑ لیا تو مجھ سےکہا گیا: اس کو مضبوطی سے پکڑ رکھو اور وہ میرے ہاتھ ہی میں تھا کہ میں جاگ گیا۔میں نے یہ (خواب) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ باغ اسلام ہے۔ اور وہ ستون اسلام کا ستون ہے اور وہ حلقہ (ایمان کا) مضبوط حلقہ ہے اور تم موت تک اسلام پر رہو گے۔" (قیس بن عباد نے) کہا: اور وہ شخص عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تھے۔
قیس بن عباد رحمۃ ا للہ علیہ بیان کرتے ہیں،میں مدینہ منورہ میں کچھ لوگوں کےساتھ تھا جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی تھے،پھر ایک شخص آیا جس کے چہرے پر خشوع کا اثر(نظر آتا) تھا،لوگوں میں سے ایک نے کہا:یہ اہل جنت میں سے ایک آدمی ہے۔اس آدمی نے دو رکعت نماز پڑھی جن میں اختصار کیا پھر چلاگیا۔میں بھی اس کے پیچھے گیا،پھر وہ اپنے گھر میں داخل ہوگیا،میں بھی (اجازت) لے کر اندر گیا،پھر ہم نے آپس میں باتیں کیں۔جب وہ کچھ میرے ساتھ مانوس ہوگئے تو میں نے ان سے کہا:جب آپ(کچھ دیر) پہلے مسجد میں آئے تھے تو آپ کے متعلق ایک شخص نے اس طرح کہاتھا۔انھوں نے کہا:سبحان اللہ!کسی شخص کے لئے مناسب نہیں کہ وہ کوئی بات کہے جس کا اسے پوری طرح علم نہیں اورمیں تمھیں بتاتا ہوں کہ یہ کیونکر ہوا۔میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک خواب دیکھا اور وہ خواب آپ کے سامنے بیان کیا۔میں نے اپنے آپ کو ایک باغ میں دیکھا۔انھوں نے اس باغ کی وسعت،اس کے پودوں اور اس کی شادابی کے بارے میں بتایا۔باغ کے وسط میں لوہے کا ایک ستون تھا،اس کا نیچے کا حصہ زمین کے اندر تھا اور اسکے اوپر کا حصہ آسمان میں تھا،اس کے اوپر کی جانب ایک حلقہ تھا،مجھ سے کہا گیا:اس پرچڑھو۔میں نے کہا؛میں اس پر نہیں چڑھ سکتا،پھر ایک منصف آیا۔ابن عون نے کہا:منصف(سے مراد) خادم ہےاس نے میرے پیچھے سے میرے کپڑے تھام لیے اور انھوں(عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے واضح کیا کہ اس نے اپنے ہاتھ سے انھیں پیچھے سےاوپر اٹھایا تو میں اوپر چڑھ گیا یہاں تک کہ میں ستون کی چوٹی پر پہنچ گیا اور حلقے کو پکڑ لیا تو مجھ سےکہا گیا:اس کو مضبوطی سے پکڑ رکھو اور وہ میرے ہاتھ ہی میں تھا کہ میں جاگ گیا۔میں نے یہ (خواب) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"وہ باغیچہ اسلام ہے اور وہ ستون،اسلام کا ستون ہے اور وہ کنڈا عروہ وثقیٰ(مضبوط کنڈا) ہے اور تم موت تک اسلام پر قائم رہو گے اور وہ آدمی عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 6381 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6381  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
ما ينبغي لاحد ان يقول مالايعلم:
کسی کو کوئی بات بلا سند و دلیل نہیں کرنی چاہیے،
انہوں نے تجھے یہ تو بتا دیا کہ یہ جنتی ہے،
لیکن اس کی دلیل اور سند بیان نہیں کی،
اس لیے میں تمہیں اس کا سبب اور پس منظر بتاتا ہوں،
تاکہ تم بات دلیل سے کر سکو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6381   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3920  
´خواب کی تعبیر کا بیان۔`
خرشہ بن حرر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ آیا تو مسجد نبوی میں چند بوڑھوں کے پاس آ کر بیٹھ گیا، اتنے میں ایک بوڑھا اپنی لاٹھی ٹیکتے ہوئے آیا، تو لوگوں نے کہا: جسے کوئی جنتی آدمی دیکھنا پسند ہو وہ اس شخص کو دیکھ لے، پھر اس نے ایک ستون کے پیچھے جا کر دو رکعت نماز ادا کی، تو میں ان کے پاس گیا، اور ان سے عرض کیا کہ آپ کی نسبت کچھ لوگوں کا ایسا ایسا کہنا ہے؟ انہوں نے کہا: الحمدللہ! جنت اللہ کی ملکیت ہے وہ جسے چاہے اس میں داخل فرمائے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک خواب دیکھا تھا، میں نے دیکھا، گویا ایک شخص میرے پاس آیا،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3920]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے سے پہلے یہودی مذہب پر تھےاور ان کے بہت بڑے عالم تھے۔

(2)
دین پر مرتے وقت دم تک قائم رہنا نجات کا باعث ہے۔

(3)
شہادت کے منصب کو پھسلواں پہاڑ سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ جس طرح پھسلن والے پہاڑ پر چڑھنا مشکل ہوتا ہے اسی طرح جہاد کرکے شہادت حاصل کرنا، مشکل ہے لیکن وہ پہاڑ کی طرح بلند اور عظیم مقام ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3920   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6383  
خرشہ بن حر رحمۃ ا للہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں مدینہ منورہ کی مسجد کے اندر ایک حلقے میں بیٹھا ہوا تھا،کہا:اس میں خوبصورت ہیت والے ایک حسین وجمیل بزرگ بھی موجود تھے۔وہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے،کہا:انھوں نے ان لوگوں کو خوبصورت احادیث سنانی شروع کردیں،کہا: جب وہ کھڑے ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ جس کو ایک جنتی کا دیکھنا اچھا معلوم ہو، وہ اس کو دیکھے۔ میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ اللہ کی قسم میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور ان کا گھر دیکھوں گا۔ پھر میں ان کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6383]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
جواد:
جادة کی جمع ہے،
دال پر شد ہے،
شاہراہ عام،
وہ کھلا راہ جس پر لوگ چلتے ہوں۔
(2)
جواد،
منهج:
شاہراہ عام جو مستقیم اور سیدھی ہو۔
کیونکہ نهج سیدھے راستہ کو کہتے ہیں،
کھلا،
واضح اور سیدھا راستہ۔
(3)
زجل بي:
مجھے پھینک دیا،
یعنی اوپر چڑھا دیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6383   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3813  
3813. حضرت قیس بن عباد سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں مسجد نبوی میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بزرگ مسجد میں داخل ہوئے جن کے چہرے پر خشوع کے اثرات تھے۔ لوگوں نے کہا: یہ بزرگ جنتی ہیں۔ انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں۔ ان میں اختصار کیا۔ پھر وہ باہر چلے گئے تو میں ان کے پیچھے ہو لیا اور عرض کی: جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگوں نے کہا تھا کہ یہ بزرگ جنتی ہیں۔ انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! کسی کے لیے ایسی بات منہ سے نکالنا جائز نہیں جسے وہ نہ جانتا ہو۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ لوگ ایسا کیوں کہتے ہیں؟ دراصل میں نے نبی ﷺ کے عہد مبارک میں ایک خواب دیکھا اور آپ ﷺ سے اسے بیان کیا۔ میں نے دیکھا گویا میں ایک باغ میں ہوں۔ انہوں نے اس کی کشادگی اور شادابی بیان کی۔ پھر کہا: اس باغ کے درمیان ایک لوہے کا ستون ہے جس کا نچلا حصہ زمین میں اور اوپر والا آسمان میں ہے، اوپر کی طرف ایک کنڈا لگا ہوا ہے۔ خواب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3813]
حدیث حاشیہ:

حضرت عبداللہ بن سلام ؓ جب خواب سے بیدار ہوئے تھے تو عروہ وثقیٰ کو تھامے ہوئے تھے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ کنڈا پکڑنے کے بعد اور اسے چھوڑنے سے پہلے بیدار ہوگئے، یعنی کنڈا پکڑنے اور بیدارہونے میں کوئی فاصلہ واقع نہیں ہواتھا یا بیدا رہونے کےبعد مٹھی بھرے ہوئے تھے جیسا کہ کوئی چیز پکڑے ہوئے ہیں۔

اس عروہ وثقیٰ سے مراد ایمان ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اب جو شخص طاغوت سے کفر کرے اوراللہ پر ایمان لائے تو اس نے ایسے مضبوط حلقے کو تھام لیا جو ٹوٹ نہیں سکتا۔
(البقرة: 256/2)

اس حدیث میں حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کی فضیلت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا:
تم مرتے دم تک اسلام پر قائم رہو گے۔
واللہ اعلم۔
(فتح الباري: 166/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3813   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7014  
7014. حضرت عبداللہ بن سلام ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے خواب میں دیکھا گویا میں ایک باغ میں ہوں اور باغ کے درمیان ایک ستون ہے اور ستون کے اوپر ایک کڑا ہے۔ مجھے کہا گیا: اس پر چڑھ جاؤ۔ میں نے کہا: مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے۔ اس دوران میں میرے پاس ایک خادم آیا۔ اس نے میرے کپڑے اٹھائے تو میں اوپر چڑھ گیا اور میں نے کڑے کو پکڑ لیا۔ میں اسے پکڑے ہوئے تھا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے یہ خواب نبی ﷺ سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا: وہ باغ، اسلام کا باغ تھا، وہ ستون اسلام کا ستون تھا اور وہ حلقہ عروہ وثقیٰ تھا۔ تم ہمیشہ اسلام پر مضبوطی سے جمے رہو گے یہاں تک کہ تمہاری وفات ہو جائے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7014]
حدیث حاشیہ:
اہل تعبیر کہتے ہیں کہ حلقہ اور عروہ سے مراد پکڑنے والے کی دینی قوت اور اس کا اخلاق ہے۔
حدیث میں عروہ ثقی سے درج ذیل آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے۔
جو شخص طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو اس نے ایسے مضبوط حلقے کو تھام لیا جو کسی صورت میں ٹوٹ نہیں سکتا۔
(البقرة: 256/2)
حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بیدار ہوئے تو عروہ ثقی ان کے ہاتھ میں تھا۔
شارحین نے دو طرح سے اس کا مفہوم بیان کیا ہے۔
میں اسے پکڑے ہوئے تھا کہ میری آنکھ کھل گئی یعنی خواب میں اسے پکڑے ہوئے تھا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ بیداری کے وقت اللہ تعالیٰ کی قدرت سے حلقے اور کڑے کو پکڑے ہوئے تھے۔
اللہ تعالیٰ کے لیے ایسا کرنا مشکل نہیں۔
(عمدة القاري: 295/16)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7014