Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
28. باب مِنْ فَضَائِلِ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6359
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْدِيُّ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ : " خَرَجْنَا مِنْ قَوْمِنَا غِفَارٍ، وَكَانُوا يُحِلُّونَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ، فَخَرَجْتُ أَنَا وَأَخِي أُنَيْسٌ وَأُمُّنَا فَنَزَلْنَا عَلَى خَالٍ لَنَا، فَأَكْرَمَنَا خَالُنَا، وَأَحْسَنَ إِلَيْنَا فَحَسَدَنَا قَوْمُهُ، فَقَالُوا: إِنَّكَ إِذَا عَنْ أَهْلِكَ خَالَفَ إِلَيْهِمْ أُنَيْسٌ، فَجَاءَ خَالُنَا فَنَثَا عَلَيْنَا الَّذِي قِيلَ لَهُ، فَقُلْتُ: أَمَّا مَا مَضَى مِنْ مَعْرُوفِكَ فَقَدْ كَدَّرْتَهُ، وَلَا جِمَاعَ لَكَ فِيمَا بَعْدُ، فَقَرَّبْنَا صِرْمَتَنَا فَاحْتَمَلْنَا عَلَيْهَا وَتَغَطَّى خَالُنَا ثَوْبَهُ، فَجَعَلَ يَبْكِي فَانْطَلَقْنَا حَتَّى نَزَلْنَا بِحَضْرَةِ مَكَّةَ، فَنَافَرَ أُنَيْسٌ عَنْ صِرْمَتِنَا، وَعَنْ مِثْلِهَا فَأَتَيَا الْكَاهِنَ، فَخَيَّرَ أُنَيْسًا فَأَتَانَا أُنَيْسٌ بِصِرْمَتِنَا، وَمِثْلِهَا مَعَهَا، قَالَ: وَقَدْ صَلَّيْتُ يَا ابْنَ أَخِي قَبْلَ أَنْ أَلْقَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثِ سِنِينَ، قُلْتُ: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلَّهِ، قُلْتُ: فَأَيْنَ تَوَجَّهُ؟ قَالَ: أَتَوَجَّهُ حَيْثُ يُوَجِّهُنِي رَبِّي، أُصَلِّي عِشَاءً حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ أُلْقِيتُ كَأَنِّي خِفَاءٌ، حَتَّى تَعْلُوَنِي الشَّمْسُ، فَقَالَ أُنَيْسٌ: إِنَّ لِي حَاجَةً بِمَكَّةَ فَاكْفِنِي، فَانْطَلَقَ أُنَيْسٌ حَتَّى أَتَى مَكَّةَ، فَرَاثَ عَلَيَّ، ثُمَّ جَاءَ، فَقُلْتُ: مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ: لَقِيتُ رَجُلًا بِمَكَّةَ عَلَى دِينِكَ، يَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَهُ، قُلْتُ: فَمَا يَقُولُ النَّاسُ؟ قَالَ: يَقُولُونَ: شَاعِرٌ كَاهِنٌ، سَاحِرٌ، وَكَانَ أُنَيْسٌ أَحَدَ الشُّعَرَاءِ، قَالَ أُنَيْسٌ: لَقَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْكَهَنَةِ فَمَا هُوَ بِقَوْلِهِمْ، وَلَقَدْ وَضَعْتُ قَوْلَهُ عَلَى أَقْرَاءِ الشِّعْرِ فَمَا يَلْتَئِمُ عَلَى لِسَانِ أَحَدٍ بَعْدِي، أَنَّهُ شِعْرٌ، وَاللَّهِ إِنَّهُ لَصَادِقٌ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ، قَالَ: قُلْتُ: فَاكْفِنِي حَتَّى أَذْهَبَ فَأَنْظُرَ، قَالَ: فَأَتَيْتُ مَكَّةَ، فَتَضَعَّفْتُ رَجُلًا مِنْهُمْ، فَقُلْتُ: أَيْنَ هَذَا الَّذِي تَدْعُونَهُ الصَّابِئَ؟ فَأَشَارَ إِلَيَّ، فَقَالَ الصَّابِئَ: فَمَالَ عَلَيَّ أَهْلُ الْوَادِي بِكُلٍّ مَدَرَةٍ وَعَظْمٍ حَتَّى خَرَرْتُ مَغْشِيًّا عَلَيَّ، قَالَ: فَارْتَفَعْتُ حِينَ ارْتَفَعْتُ، كَأَنِّي نُصُبٌ أَحْمَرُ، قَالَ: فَأَتَيْتُ زَمْزَمَ، فَغَسَلْتُ عَنِّي الدِّمَاءَ، وَشَرِبْتُ مِنْ مَائِهَا، وَلَقَدْ لَبِثْتُ يَا ابْنَ أَخِي ثَلَاثِينَ بَيْنَ لَيْلَةٍ، وَيَوْمٍ مَا كَانَ لِي طَعَامٌ إِلَّا مَاءُ زَمْزَمَ، فَسَمِنْتُ حَتَّى تَكَسَّرَتْ عُكَنُ بَطْنِي، وَمَا وَجَدْتُ عَلَى كَبِدِي سُخْفَةَ جُوعٍ، قَالَ: فَبَيْنَا أَهْلِ مَكَّةَ فِي لَيْلَةٍ قَمْرَاءَ إِضْحِيَانَ، إِذْ ضُرِبَ عَلَى أَسْمِخَتِهِمْ، فَمَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ أَحَدٌ، وَامْرَأَتَيْنِ مِنْهُمْ تَدْعُوَانِ إِسَافًا وَنَائِلَةَ، قَالَ: فَأَتَتَا عَلَيَّ فِي طَوَافِهِمَا، فَقُلْتُ: أَنْكِحَا أَحَدَهُمَا الْأُخْرَى، قَالَ: فَمَا تَنَاهَتَا عَنْ قَوْلِهِمَا، قَالَ: فَأَتَتَا عَلَيَّ، فَقُلْتُ: هَنٌ مِثْلُ الْخَشَبَةِ غَيْرَ أَنِّي لَا أَكْنِي، فَانْطَلَقَتَا تُوَلْوِلَانِ، وَتَقُولَانِ: لَوْ كَانَ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ أَنْفَارِنَا، قَالَ: فَاسْتَقْبَلَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَهُمَا هَابِطَانِ، قَالَ: مَا لَكُمَا؟ قَالَتَا: الصَّابِئُ بَيْنَ الْكَعْبَةِ وَأَسْتَارِهَا، قَالَ: مَا قَالَ لَكُمَا؟ قَالَتَا إِنَّهُ قَالَ لَنَا: كَلِمَةً تَمْلَأُ الْفَمَ، وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى اسْتَلَمَ الْحَجَرَ، وَطَافَ بِالْبَيْتِ هُوَ وَصَاحِبُهُ، ثُمَّ صَلَّى، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ، قَالَ أَبُو ذَرٍّ: فَكُنْتُ أَنَا أَوَّلَ مَنْ حَيَّاهُ بِتَحِيَّةِ الْإِسْلَامِ، قَالَ: فَقُلْتُ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: قُلْتُ: مِنْ غِفَارٍ، قَالَ: فَأَهْوَى بِيَدِهِ فَوَضَعَ أَصَابِعَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ، فَقُلْتُ: فِي نَفْسِي كَرِهَ أَنِ انْتَمَيْتُ إِلَى غِفَارٍ، فَذَهَبْتُ آخُذُ بِيَدِهِ، فَقَدَعَنِي صَاحِبُهُ، وَكَانَ أَعْلَمَ بِهِ مِنِّي، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ قَالَ: مَتَى كُنْتَ هَاهُنَا؟ قَالَ: قُلْتُ: قَدْ كُنْتُ هَاهُنَا مُنْذُ ثَلَاثِينَ بَيْنَ لَيْلَةٍ وَيَوْمٍ، قَالَ: فَمَنْ كَانَ يُطْعِمُكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: مَا كَانَ لِي طَعَامٌ إِلَّا مَاءُ زَمْزَمَ، فَسَمِنْتُ حَتَّى تَكَسَّرَتْ عُكَنُ بَطْنِي، وَمَا أَجِدُ عَلَى كَبِدِي سُخْفَةَ جُوعٍ، قَالَ: إِنَّهَا مُبَارَكَةٌ، إِنَّهَا طَعَامُ طُعْمٍ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي فِي طَعَامِهِ اللَّيْلَةَ، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَانْطَلَقْتُ مَعَهُمَا، فَفَتَحَ أَبُو بَكْرٍ بَابًا، فَجَعَلَ يَقْبِضُ لَنَا مِنْ زَبِيبِ الطَّائِفِ، وَكَانَ ذَلِكَ أَوَّلَ طَعَامٍ أَكَلْتُهُ بِهَا، ثُمَّ غَبَرْتُ مَا غَبَرْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ وُجِّهَتْ لِي أَرْضٌ ذَاتُ نَخْلٍ لَا أُرَاهَا إِلَّا يَثْرِبَ، فَهَلْ أَنْتَ مُبَلِّغٌ عَنِّي قَوْمَكَ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَنْفَعَهُمْ بِكَ وَيَأْجُرَكَ فِيهِمْ، فَأَتَيْتُ أُنَيْسًا، فَقَالَ: مَا صَنَعْتَ؟ قُلْتُ: صَنَعْتُ أَنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ، قَالَ: مَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِكَ، فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ فَأَتَيْنَا أُمَّنَا، فَقَالَتْ: مَا بِي رَغْبَةٌ عَنْ دِينِكُمَا، فَإِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ وَصَدَّقْتُ، فَاحْتَمَلْنَا حَتَّى أَتَيْنَا قَوْمَنَا غِفَارًا، فَأَسْلَمَ نِصْفُهُمْ، وَكَانَ يَؤُمُّهُمْ أَيْمَاءُ بْنُ رَحَضَةَ الْغِفَارِيُّ وَكَانَ سَيِّدَهُمْ، وَقَالَ: نِصْفُهُمْ إِذَا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ أَسْلَمْنَا، فَقَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ فَأَسْلَمَ نِصْفُهُمُ الْبَاقِي، وَجَاءَتْ أَسْلَمُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِخْوَتُنَا نُسْلِمُ عَلَى الَّذِي أَسْلَمُوا عَلَيْهِ فَأَسْلَمُوا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " غِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا، وَأسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ ".
ہداب بن خالد ازدی نے کہا: ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں حمید بن ہلال نے عبداللہ بن صامت سے خبر دی، انھوں نے کہا، کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں، میرا بھائی انیس اور ہماری ماں تینوں اپنی قوم غفار میں سے نکلے جو حرام مہینے کو بھی حلال سمجھتے تھے۔ پس ہم اپنے ایک ماموں کے پاس اترے۔ اس نے ہماری خاطر کی اور ہمارے ساتھ نیکی کی تو اس کی قوم نے ہم سے حسد کیا اور (ہمارے ماموں سے) کہنے لگے کہ جب تو اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے تو انیس تیری بی بی کے ساتھ زنا کرتا ہے۔ وہ ہمارے پاس آیا اور اس نے یہ بات (حماقت سے) مشہور کر دی۔ میں نے کہا کہ تو نے ہمارے ساتھ جو احسان کیا تھا وہ بھی خراب ہو گیا ہے، اب ہم تیرے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ آخر ہم اپنے اونٹوں کے پاس گئے اور اپنا اسباب لادا اور ہمارے ماموں نے اپنا کپڑا اوڑھ کر رونا شروع کر دیا۔ ہم چلے، یہاں تک کہ مکہ کے سامنے اترے۔ انیس نے ہمارے اونٹوں کے ساتھ اتنے ہی اور کی شرط لگائی۔ پھر دونوں کاہن کے پاس گئے تو کاہن نے انیس کو کہا کہ یہ بہتر ہے۔ پس انیس ہمارے پاس سارے اونٹ اور اتنے ہی اور اونٹ لایا۔ ابوذر نے کہا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے پہلے تین برس پہلے نماز پڑھی ہے۔ میں نے کہا کہ کس کے لئے پڑھتے تھے؟ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے۔ میں نے کہا کہ کدھر منہ کرتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ادھر منہ کرتا تھا جدھر اللہ تعالیٰ میرا منہ کر دیتا تھا۔ میں رات کے آخر حصہ میں عشاء کی نماز پڑھتا اور سورج طلوع ہونے تک کمبل کی طرح پڑ رہتا تھا۔ انیس نے کہا کہ مجھے مکہ میں کام ہے، تم یہاں رہو میں جاتا ہوں۔ وہ گیا اور اس نے آنے میں دیر کی۔ پھر آیا تو میں نے کہا کہ تو نے کیا کیا؟ وہ بولا کہ میں مکہ میں ایک شخص سے ملا جو تیرے دین پر ہے اور وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھیجا ہے۔ میں نے کہا کہ لوگ اسے کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا کہ لوگ اس کو شاعر، کاہن اور جادوگر کہتے ہیں۔ اور انیس خود بھی شاعر تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے کاہنوں کی بات سنی ہے لیکن جو کلام یہ شخص پڑھتا ہے وہ کاہنوں کا کلام نہیں ہے اور میں نے اس کا کلام شعر کے تمام بحروں پر رکھا تو وہ کسی کی زبان پر میرے بعد شعر کی طرح نہ جڑے گا۔ اللہ کی قسم وہ سچا ہے اور لوگ جھوٹے ہیں۔ میں نے کہا کہ تم یہاں رہو میں اس شخص کو جا کر دیکھتا ہوں۔ پھر میں مکہ میں آیا تو میں نے ایک ناتواں شخص کو مکہ والوں میں سے چھانٹا (اس لئے کہ طاقتور شخص شاید مجھے کوئی تکلیف پہنچائے)، اور اس سے پوچھا کہ وہ شخص کہاں ہے جس کو تم صابی (بےدین) کہتے ہو؟ اس نے میری طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ صابی ہے (جب تو صابی کا پوچھتا ہے) یہ سن کر تمام وادی والوں نے ڈھیلے اور ہڈیاں لے کر مجھ پر حملہ کر دیا، یہاں تک کہ میں بیہوش ہو کر گر پڑا۔ جب میں ہوش میں آ کر اٹھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گویا میں لال بت ہوں (یعنی سر سے پیر تک خون سے سرخ ہوں)۔ پھر میں زمزم کے پاس آیا اور میں نے سب خون دھویا اور زمزم کا پانی پیا۔ پس اے میرے بھتیجے! میں وہاں تیس راتیں یا تیس دن رہا اور میرے پاس سوائے زمزم کے پانی کے کوئی کھانا نہ تھا (جب بھوک لگتی تو میں اسی کو پیتا)۔ پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کی بٹیں (موٹاپے سے) جھک گئیں اور میں نے اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پائی۔ ایک بار مکہ والے چاندنی رات میں سو گئے کہ اس وقت بیت اللہ کا طواف کوئی نہ کرتا تھا، صرف دو عورتیں اساف اور نائلہ کو پکار رہی تھیں (اساف اور نائلہ مکہ میں دو بت تھے اساف مرد تھا اور نائلہ عورت تھی اور کفار کا یہ اعتقاد تھا کہ ان دونوں نے وہاں زنا کیا تھا، اس وجہ سے مسخ ہو کر بت ہو گئے تھے)، وہ طواف کرتی کرتی میرے سامنے آئیں۔ میں نے کہا کہ ایک کا نکاح دوسرے سے کر دو (یعنی اساف کا نائلہ سے)۔ یہ سن کر بھی وہ اپنی بات سے باز نہ آئیں۔ پھر میں نے صاف کہہ دیا کہ ان کے فلاں میں لکڑی (یعنی یہ فخش اساف اور نائلہ کی پرستش کی وجہ سے) اور میں نے کنایہ نہ کیا (یعنی کنایہ اشارہ میں میں نے گالی نہیں دی بلکہ ان مردود عورتوں کو غصہ دلانے کے لئے اساف اور نائلہ کو کھلم کھلا گالی دی، جو اللہ تعالیٰ کے گھر میں اللہ کو چھوڑ کر اساف اور نائلہ کو پکارتی تھیں) یہ سن کر وہ دونوں عورتیں چلاتی اور کہتی ہوئی چلیں کہ کاش اس وقت ہمارے لوگوں میں سے کوئی ہوتا (جو اس شخص کو بے ادبی کی سزا دیتا)۔ راہ میں ان عورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ملے اور وہ پہاڑ سے اتر رہے تھے۔ انہوں نے عورتوں سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ وہ بولیں کہ ایک صابی آیا ہے جو کعبہ کے پردوں میں چھپا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صابی نے کیا کہا؟ وہ بولیں کہ ایسی بات بولا جس سے منہ بھر جاتا ہے (یعنی اس کو زبان سے نہیں نکال سکتیں)۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، یہاں تک حجراسود کو بوسہ دیا اور اپنے ساتھی کے ساتھ طواف کیا اور نماز پڑھی۔ جب نماز پڑھ چکے تو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اول میں نے ہی سلام کی سنت ادا کی اور کہا کہ السلام علیکم یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وعلیک ورحمۃ اللہ۔ پھر پوچھا کہ تو کون ہے؟ میں نے کہا کہ غفار کا ایک شخص ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ جھکایا اور اپنی انگلیاں پیشانی پر رکھیں (جیسے کوئی ذکر کرتا ہے) میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہنا برا معلوم ہوا کہ میں (قبیلہ) غفار میں سے ہوں۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑنے کو لپکا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی (سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ) نے جو مجھ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال جانتے تھے مجھے روکا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمایا کہ تو یہاں کب آیا؟ میں نے عرض کیا میں یہاں تیس رات یا دن سے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھے کھانا کون کھلاتا ہے؟ میں نے کہا کہ کھانا وغیرہ کچھ نہیں سوائے زمزم کے پانی کے۔ پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کے بٹ مڑ گئے اور میں اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمزم کا پانی برکت والا ہے اور وہ کھانا بھی ہے اور کھانے کی طرح پیٹ بھر دیتا ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! آج کی رات اس کو کھلانے کی اجازت مجھے دیجئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی میں بھی ان دونوں کے ساتھ چلا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک دروازہ کھولا اور اس میں سے طائف کی سوکھی ہوئی کشمش نکالیں، یہ پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ میں کھایا۔ پھر میں رہا جب تک کہ رہا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ایک کھجور والی زمین دکھلائی گئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ زمین یثرب کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ (یثرب مدینہ کا نام تھا)، پس تو میری طرف سے اپنی قوم کو دین کی دعوت دے، شاید اللہ تعالیٰ ان کو تیری وجہ سے نفع دے اور تجھے ثواب دے۔ میں انیس کے پاس آیا تو اس نے پوچھا کہ تو نے کیا کیا؟ میں نے کہا کہ میں اسلام لایا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی۔ وہ بولا کہ تمہارے دین سے مجھے بھی نفرت نہیں ہے میں بھی اسلام لایا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی۔ پھر ہم دونوں اپنی ماں کے پاس آئے وہ بولی کہ مجھے بھی تم دونوں کے دین سے نفرت نہیں ہے میں بھی اسلام لائی اور میں نے تصدیق کی۔ پھر ہم نے اونٹوں پر اسباب لادا، یہاں تک کہ ہم اپنی قوم غفار میں پہنچے۔ آدھی قوم تو مسلمان ہو گئی اور ان کا امام ایماء بن رحضہ غفاری تھا وہ ان کا سردار بھی تھا۔ اور آدھی قوم نے یہ کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائیں گے تو ہم مسلمان ہوں گے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے اور آدھی قوم جو باقی تھی وہ بھی مسلمان ہو گئی اور (قبیلہ) اسلم کے لوگ آئے اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم بھی اپنے غفاری بھائیوں کی طرح مسلمان ہوتے ہیں تو وہ بھی مسلمان ہو گئے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غفار کو اللہ نے بخش دیا اور اسلم کو اللہ تعالیٰ نے بچا دیا۔
سیدنا ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں،کہ میں، میرا بھائی انیس اور ہماری ماں تینوں اپنی قوم غفار میں سے نکلے جو حرام مہینے کو بھی حلال سمجھتے تھے۔ پس ہم اپنے ایک ماموں کے پاس اترے۔ اس نے ہماری خاطر کی اور ہمارے ساتھ نیکی کی تو اس کی قوم نے ہم سے حسد کیا اور (ہمارے ماموں سے) کہنے لگے کہ جب تو اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے تو انیس تیری بی بی کے ساتھ زنا کرتا ہے۔ وہ ہمارے پاس آیا اور اس نے یہ بات (حماقت سے) مشہور کر دی۔ میں نے کہا کہ تو نے ہمارے ساتھ جو احسان کیا تھا وہ بھی خراب ہو گیا ہے، اب ہم تیرے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ آخر ہم اپنے اونٹوں کے پاس گئے اور اپنا اسباب لادا اور ہمارے ماموں نے اپنا کپڑا اوڑھ کر رونا شروع کر دیا۔ ہم چلے، یہاں تک کہ مکہ کے سامنے اترے۔ انیس نے ہمارے اونٹوں کے ساتھ اتنے ہی اور کی شرط لگائی۔ پھر دونوں کاہن کے پاس گئے تو کاہن نے انیس کو کہا کہ یہ بہتر ہے۔ پس انیس ہمارے پاس سارے اونٹ اور اتنے ہی اور اونٹ لایا۔ ابوذر نے کہا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے پہلے تین برس پہلے نماز پڑھی ہے۔ میں نے کہا کہ کس کے لئے پڑھتے تھے؟ سیدنا ابوذر ؓ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے۔ میں نے کہا کہ کدھر منہ کرتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ادھر منہ کرتا تھا جدھر اللہ تعالیٰ میرا منہ کر دیتا تھا۔ میں رات کے آخر حصہ میں عشاء کی نماز پڑھتا اور سورج طلوع ہونے تک کمبل کی طرح پڑ رہتا تھا۔ انیس نے کہا کہ مجھے مکہ میں کام ہے، تم یہاں رہو میں جاتا ہوں۔ وہ گیا اور اس نے آنے میں دیر کی۔ پھر آیا تو میں نے کہا کہ تو نے کیا کیا؟ وہ بولا کہ میں مکہ میں ایک شخص سے ملا جو تیرے دین پر ہے اور وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھیجا ہے۔ میں نے کہا کہ لوگ اسے کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا کہ لوگ اس کو شاعر، کاہن اور جادوگر کہتے ہیں۔ اور انیس خود بھی شاعر تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے کاہنوں کی بات سنی ہے لیکن جو کلام یہ شخص پڑھتا ہے وہ کاہنوں کا کلام نہیں ہے اور میں نے اس کا کلام شعر کے تمام بحروں پر رکھا تو وہ کسی کی زبان پر میرے بعد شعر کی طرح نہ جڑے گا۔ اللہ کی قسم وہ سچا ہے اور لوگ جھوٹے ہیں۔ میں نے کہا کہ تم یہاں رہو میں اس شخص کو جا کر دیکھتا ہوں۔ پھر میں مکہ میں آیا تو میں نے ایک ناتواں شخص کو مکہ والوں میں سے چھانٹا (اس لئے کہ طاقتور شخص شاید مجھے کوئی تکلیف پہنچائے)، اور اس سے پوچھا کہ وہ شخص کہاں ہے جس کو تم صابی (بےدین) کہتے ہو؟ اس نے میری طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ صابی ہے (جب تو صابی کا پوچھتا ہے) یہ سن کر تمام وادی والوں نے ڈھیلے اور ہڈیاں لے کر مجھ پر حملہ کر دیا، یہاں تک کہ میں بیہوش ہو کر گر پڑا۔ جب میں ہوش میں آ کر اٹھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گویا میں لال بت ہوں (یعنی سر سے پیر تک خون سے سرخ ہوں)۔ پھر میں زمزم کے پاس آیا اور میں نے سب خون دھویا اور زمزم کا پانی پیا۔ پس اے میرے بھتیجے! میں وہاں تیس راتیں یا تیس دن رہا اور میرے پاس سوائے زمزم کے پانی کے کوئی کھانا نہ تھا (جب بھوک لگتی تو میں اسی کو پیتا)۔ پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کی بٹیں (موٹاپے سے) جھک گئیں اور میں نے اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پائی۔ ایک بار مکہ والے چاندنی رات میں سو گئے کہ اس وقت بیت اللہ کا طواف کوئی نہ کرتا تھا، صرف دو عورتیں اساف اور نائلہ کو پکار رہی تھیں (اساف اور نائلہ مکہ میں دو بت تھے اساف مرد تھا اور نائلہ عورت تھی اور کفار کا یہ اعتقاد تھا کہ ان دونوں نے وہاں زنا کیا تھا، اس وجہ سے مسخ ہو کر بت ہو گئے تھے)، وہ طواف کرتی کرتی میرے سامنے آئیں۔ میں نے کہا کہ ایک کا نکاح دوسرے سے کر دو (یعنی اساف کا نائلہ سے)۔ یہ سن کر بھی وہ اپنی بات سے باز نہ آئیں۔ پھر میں نے صاف کہہ دیا کہ ان کے فلاں میں لکڑی (یعنی یہ فخش اساف اور نائلہ کی پرستش کی وجہ سے) اور میں نے کنایہ نہ کیا (یعنی کنایہ اشارہ میں میں نے گالی نہیں دی بلکہ ان مردود عورتوں کو غصہ دلانے کے لئے اساف اور نائلہ کو کھلم کھلا گالی دی، جو اللہ تعالیٰ کے گھر میں اللہ کو چھوڑ کر اساف اور نائلہ کو پکارتی تھیں) یہ سن کر وہ دونوں عورتیں چلاتی اور کہتی ہوئی چلیں کہ کاش اس وقت ہمارے لوگوں میں سے کوئی ہوتا (جو اس شخص کو بے ادبی کی سزا دیتا)۔ راہ میں ان عورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر ؓ ملے اور وہ پہاڑ سے اتر رہے تھے۔ انہوں نے عورتوں سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ وہ بولیں کہ ایک صابی آیا ہے جو کعبہ کے پردوں میں چھپا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صابی نے کیا کہا؟ وہ بولیں کہ ایسی بات بولا جس سے منہ بھر جاتا ہے (یعنی اس کو زبان سے نہیں نکال سکتیں)۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، یہاں تک حجراسود کو بوسہ دیا اور اپنے ساتھی کے ساتھ طواف کیا اور نماز پڑھی۔ جب نماز پڑھ چکے تو سیدنا ابوذر ؓ نے کہا کہ اول میں نے ہی سلام کی سنت ادا کی اور کہا کہ "السلام عليك يا رسول الله"( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: "وعليك ورحمةالله"۔ پھر پوچھا کہ تو کون ہے؟ میں نے کہا کہ غفار کا ایک شخص ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ جھکایا اور اپنی انگلیاں پیشانی پر رکھیں (جیسے کوئی ذکر کرتا ہے) میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہنا برا معلوم ہوا کہ میں (قبیلہ) غفار میں سے ہوں۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑنے کو لپکا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی (سیدنا ابوبکر ؓ) نے جو مجھ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال جانتے تھے مجھے روکا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمایا کہ تو یہاں کب آیا؟ میں نے عرض کیا میں یہاں تیس رات یا دن سے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھے کھانا کون کھلاتا ہے؟ میں نے کہا کہ کھانا وغیرہ کچھ نہیں سوائے زمزم کے پانی کے۔ پھر میں موٹا ہو گیا یہاں تک کہ میرے پیٹ کے بٹ مڑ گئے اور میں اپنے کلیجہ میں بھوک کی ناتوانی نہیں پاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمزم کا پانی برکت والا ہے اور وہ کھانا بھی ہے اور کھانے کی طرح پیٹ بھر دیتا ہے۔ سیدنا ابوبکر ؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! آج کی رات اس کو کھلانے کی اجازت مجھے دیجئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور سیدنا ابوبکر ؓ بھی میں بھی ان دونوں کے ساتھ چلا۔ سیدنا ابوبکر ؓ نے ایک دروازہ کھولا اور اس میں سے طائف کی سوکھی ہوئی کشمش نکالیں، یہ پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ میں کھایا۔ پھر میں رہا جب تک کہ رہا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ایک کھجور والی زمین دکھلائی گئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ زمین یثرب کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ (یثرب مدینہ کا نام تھا)، پس تو میری طرف سے اپنی قوم کو دین کی دعوت دے، شاید اللہ تعالیٰ ان کو تیری وجہ سے نفع دے اور تجھے ثواب دے۔ میں انیس کے پاس آیا تو اس نے پوچھا کہ تو نے کیا کیا؟ میں نے کہا کہ میں اسلام لایا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی۔ وہ بولا کہ تمہارے دین سے مجھے بھی نفرت نہیں ہے میں بھی اسلام لایا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی۔ پھر ہم دونوں اپنی ماں کے پاس آئے وہ بولی کہ مجھے بھی تم دونوں کے دین سے نفرت نہیں ہے میں بھی اسلام لائی اور میں نے تصدیق کی۔ پھر ہم نے اونٹوں پر اسباب لادا، یہاں تک کہ ہم اپنی قوم غفار میں پہنچے۔ آدھی قوم تو مسلمان ہو گئی اور ان کا امام ایماء بن رحضہ غفاری تھا وہ ان کا سردار بھی تھا۔ اور آدھی قوم نے یہ کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائیں گے تو ہم مسلمان ہوں گے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے اور آدھی قوم جو باقی تھی وہ بھی مسلمان ہو گئی اور (قبیلہ) اسلم کے لوگ آئے اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم بھی اپنے غفاری بھائیوں کی طرح مسلمان ہوتے ہیں تو وہ بھی مسلمان ہو گئے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غفار کو اللہ نے بخش دیا اوراسلم کو اللہ تعالیٰ نے بچا دیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 6359 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6359  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
كانو يحلون الشهر الحرام:
وہ حرمت والے مہینہ کو حلال سمجھتے تھے،
اس میں جنگ و جدال اور قتل و غارت سے باز نہیں آتے تھے،
اس لیے ابوذر اپنی قوم سے کوچ کر گئے اور اپنے ماموں کے ہاں جا ٹھہرے۔
(2)
خالف اليهم انيس:
تیرے پیچھے تیری بیوی کے پاس تیرا بھانجا انیس چلا جاتا ہے،
تیری غیر حاضری میں دونوں بدکاری کرتے ہیں۔
(3)
نشاعلينا:
(قوم کے الزام کا)
ہم پر اظہار کیا،
گویا ان کی بات کو تسلیم کر لیا۔
(4)
لاجماع لك فيما بعد:
اس الزام ترشی اور بدگمانی کے بعد ہم تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتے،
ہمارا تمہارے ساتھ گزارا نہیں ہو سکتا۔
(5)
قربنا صرمتنا:
ہم نے اپنے اونٹوں کی ٹولی کو قریب کیا،
یعنی اونٹوں کو سفر کے لیے تیار کیا۔
(6)
تعظي خالنا:
ہمارے ماموں نے ہمارے فراق کے غم و حزن کی بنا پر اپنے اوپر کیڑا ڈال لیا۔
(7)
فجعل يبكي:
اور ندامت و پشیمانی سے رونے لگے۔
(8)
نزلنا بحضرة مكة:
ہم نے مکہ کے قریب رہائش اختیار کر لی،
مکہ کے اندر سکونت اختیار نہ کی۔
(9)
نافر انيس:
انیس نے فخر و مباہات کا اظہار کیا اور اس پر شرط رکھ کر ایک تیسرے فرد کو فیصل تسلیم کیا۔
(10)
خير انيسا:
اس نے انیس کو برتر قرار دیا،
اس طرح فخر و مباہاۃ کی شرط اس نے جیت لی۔
(11)
قد صليت قبل ان القي رسول الله:
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنے سے پہلے یعنی مسلمان ہونے سے پہلے ہی سے نماز پڑھتا تھا۔
(12)
القيت كاني خفاء:
رات بھر نماز پڑھنے سے آخری حصہ میں تھک ہار کر خفاء چادر کی طرح گر پڑتا اور سورج نکلنے تک بستر پر پڑا رہتا،
فراث علي:
اس نے آنے میں دیر کر دی۔
یعنی جن دنوں یہ لوگ مکہ کے قریب رہائش پذیر تھے،
انیس کسی ضرورت کے تحت مکہ گیا،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا اور اس نے ابوذر کو آپ کی طرح موحد قرار دیا۔
(13)
اقراء الشعر:
قرء،
نوع یا قسم،
قافیہ و بحر۔
(14)
فمايلتئم علي لسان احد بعدي:
میرے بعد بھی کسی کی زبان پر یہ نہیں آ سکے گا،
یعنی میری طرح کوئی اور بھی آپ کے کام کو شعر قرار نہیں دے سکا۔
(15)
تضعفت رجلا منهم:
میں نے ان میں سے کمزور اور ناتواں کا انتخاب کیا،
تاکہ مجھے کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے،
لیکن اس نے میری راہنمائی کرنے کی بجائے الٹا مجھے ہی بے دین ٹھہرا کر لوگوں کو میرے خلاف بھڑکا دیا۔
(16)
نصب احمر:
لال بت،
جاہلیت میں لوگ بتوں کے نام پر جانور ذبح کر کے خون ان پر ڈال دیتے اور وہ خون میں نہا جاتے،
اس طرح حضرت ابوذر مار پیٹ سے خون میں نہا گئے،
(17)
عكن بطني:
عكنة کی جمع ہے،
پیٹ کی سلوٹیں،
موٹا ہونے سے سلوٹیں مٹ گئیں،
سخفة جوع:
بھوک کے سبب پیدا ہونے والی کمزوری و ناتوانی۔
(18)
اضحيان:
روشن و چمکدار رات۔
(19)
اسمختهم:
سماخ کی جمع،
کان کا سوراخ،
یعنی کان پر تھپکی لگانے سے سو گئے،
اساف ونائله:
مذکر و مونث دو بت تھے،
جو صفا اور مروہ پر رکھے گئے تھے،
حضرت ابوذر نے عورتوں کو شرم و عار دلاتے ہوئے کہا،
ان کی آپس میں شادی کر دو،
لیکن وہ اس کے باوجود بیت اللہ میں ان بتوں کو پکارنے سے باز نہ آئیں تو انہوں نے ان کو غصہ دلانے کے لیے ان کو کھلم کھلا گالی دی،
اشارہ کنایہ سے کام نہ لیا۔
(20)
تولولان:
چیختی چلاتی ہوئی،
ہلاکت و تباہی کی بددعا دیتی ہوئی۔
(21)
انفار:
نفر یا نفير کی جمع ہے،
مدد کے لیے اٹھ کھڑے ہونے والے لوگ۔
(22)
كلمة تملا الفم:
ناگفتی بات،
انتہائی قبیح اور بری بات،
منہ کو بند کر دینے والی بات جس کو زبان پر نہ لایا جا سکے۔
(23)
كره ان انتميت الي غفار:
غفار کی طرف نسبت کو ناپسند کیا،
غفاری لوگ،
رہزن اور ڈاکو تھے،
اس لیے آپ کو تعجب ہوا کہ ان میں سے یہ سعید روح نکل آئی،
بلکہ بعض تاریخی روایات سے تو یہ معلوم ہوتا ہے،
ابتدائی دور میں خود ابوذر بہت بڑے رہزن تھے،
کسی قافلہ کو صحیح و سالم گزرنے نہیں دیتے تھے۔
(24)
قد عني:
مجھے روکا،
باز رکھا۔
(25)
طعام طعم:
سیر کرنے والا کھانا اور غذا ہے۔
(26)
غبرت ماعبرت:
اسی حالت میں مکہ میں رہا،
جس قدر رہا۔
(27)
وجهت لي:
مجھے اس کا رخ یا جہت دکھائی گئی ہے۔
(28)
هل انت مبلغ عني قومك:
اس جگہ سے کوچ کر جاؤ اور اپنی قوم میں جا کر اسلام کی تبلیغ کرو اور انہیں اسلام کا پیغام سناؤ،
اس لیے وہ اپنا سامان لاد کر اپنی قوم کے پاس چلے گئے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6359