صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
13. باب فِي فَضْلِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا:
باب: ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہماکی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6289
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ : " أَنَّ النَّاسَ كَانُوا يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ، يَبْتَغُونَ بِذَلِكَ مَرْضَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ لوگ اپنے ہدیے بھیجنے کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (کی باری) کا دن ڈھونڈا کرتے تھے، اس طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کرناچاہتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ لوگ اپنے تحفے تحائف دینے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دن کا قصد کرتے تھے تاکہ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل ہو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 6289 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6289
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
يتحرون:
قصد و ارادہ کرتے تھے،
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کے دن کا انتظار کرتے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
صحابہ کرام کو پتہ تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ محبت کرتے ہیں،
اس لیے اس دن تحفہ پیش کرنے سے آپ کو زیادہ مسرت ہو گی اور آپ زیادہ خوش ہوں گے،
اس لیے وہ اس انتظار میں رہتے کہ کب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری آئے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کرنے کی سعادت حاصل کریں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6289
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2574
2574. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے: لوگ اس بات کااہتمام کرتے تھے کہ عائشہ کی باری کے دن اپنے تحائف بھیجیں اور اس طریقے سے وہ رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی چاہتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2574]
حدیث حاشیہ:
خدمت نبوی میں تحفہ اور پھر حضرت عائشہ ؓ کی باری میں پیش کرنا ہر دو امور رسول کریم ﷺ کی خوشی کا باعث تھے۔
راوی کے بیان کا یہی مطلب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2574
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2580
2580. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: لوگ اپنے ہدایا بھیجتے وقت میری باری کے دن کا خیال رکھتے تھے۔ حضرت ام سلمہ ؓ کا بیان ہے کہ میری سوکنوں نے اکھٹے ہوکر آپ ﷺ سے (بطور شکایت) ذکر کیا تو آپ نے ان کو جواب ہی نہ دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2580]
حدیث حاشیہ:
اس لیے کہ صحابہ ؓ اپنی مرضی کے مختار تھے، آپ ﷺ کے مزاج شناس تھے، وہ از خود ایسا کرتے تھے پھر انہیں روکا کیوں کر جاسکتا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2580
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2581
2581. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ک بیویوں کے دو گروپ تھے: ایک گروپ میں حضرت عائشہ ؓ، حضرت حفصہ ؓ، حضرت صفیہ ؓ، حضرت سودہ ؓ تھیں، جبکہ دوسرے گروپ میں حضرت ام سلمہ ؓ کے ساتھ باقی تمام ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین تھیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی (والہانہ) محبت کو جانتے تھے، اس لیے جب کسی کے پاس تحفہ ہوتا اور وہ اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا (تو) اس میں تاخیر کرتا حتیٰ کہ جب رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں تشریف فرماہوتے تو ہدیہ بھیجنے والا رسول اللہ ﷺ کے لیے حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں ہدیہ بھیجتا۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت ام سلمہ ؓ کے گروپ نے مشورہ کرکے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے بات کریں کہ وہ لوگوں سے کہیں کہ جس کسی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2581]
حدیث حاشیہ:
ہوا یہ کہ آنحضرت ﷺ کی بعض بیویاں ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓ کے گھر میں جمع ہوئیں اور یہ کہا کہ تم آنحضرت ﷺ سے عرض کرو کہ آپ اپنے صحابہ کو حکم دیں کہ وہ ہدئیے اور تحائف بھیجنے میں یہ راہ نہ دیکھتے رہیں کہ آنحضرت ﷺ فلاں بیوی کے گھر تشریف لے جائیں تو ہم تحائف بھیجیں، بلکہ بلا قید آپ کسی بیوی کے پاس ہوں بھیج دیا کریں۔
چنانچہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓ نے عرض کیا، لیکن آنحضرت ﷺ نے ان کے معروضہ پر کچھ التفات نہیں فرمایا۔
وجہ التفات نہ فرمانے کی یہ تھی کہ ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کی درخواست معقول نہ تھی۔
تحفہ بھیجنے والے کی مرضی جب چاہے بھیجے، اس کو جبراً کوئی حکم نہیں دیا جاسکتا کہ فلاں وقت بھیجے فلاں وقت نہ بھیجے۔
اس طویل حدیث میں اسی واقعہ کی تفصیل مذکور ہے اور حدیث اور باب میں مطابقت ظاہرہے۔
جہاں تک بیویوں کے حقوق واجبہ کا تعلق تھا آنحضرت ﷺ نے سب کے لیے ایک ایک رات کی باری مقرر فرمائی ہوئی تھی اور اسی کے مطابق عمل درآمد ہورہا تھا۔
چونکہ حضرت عائشہ ؓ کے کچھ خصوصی اوصاف حسنہ تھے اور آپ انہیں کی وجہ سے ان سے زیادہ محبت فرمایا کرتے تھے۔
اس لیے تحائف بھیجنے والے بعض صحابہ ؓ نے یہ سوچا کہ جب حضور ﷺ عائشہ ؓ کی باری میں ان کے ہاں آیا کریں اس وقت ہدیہ تحفہ بھیجا کریں گے۔
اس پر دوسری ازواج مطہرات نے آپ ﷺ کی خدمت میں درخواست کی کہ صحابہ ؓ کو اس خصوصیت سے روک دیں۔
مطالبہ درست نہ تھا لہٰذا آپ ﷺ نے اس پر کوئی توجہ نہ فرمائی حتیٰ کہ حضرت فاطمۃ الزہراء ؓ کو درمیان میں لایاگیا۔
آپ ﷺ نے فرمایا اے میری پیاری بیٹی! کیا تم ان کو دوست نہیں رکھتی جن کو میں دوست رکھتا ہوں۔
اس پر حضرت فاطمہ ؓ نے فرمایا ہاں حضور بے شک میں بھی جسے آپ دوست رکھتے ہیں اس کو دوست رکھتی ہوں۔
اس کے بعد حضرت فاطمہ ہمیشہ حضرت عائشہ ؓ کو دوست رکھتی رہیں۔
حضرت علی ؓ مناقبت عائشہ ؓ میں فرماتے ہیں کہ اللہ جانتا ہے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ دنیا و آخرت میں رسول کریم ﷺ کی بیوی ہیں۔
خدا کی پھٹکار ہو ان بدزبان بے لگام نالائق لوگوں پر جو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی شان میں زبان درازی کریں۔
هداهم اﷲ إلیٰ صراط مستقیم، آمین۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی فضیلت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی صاحبزادی ہیں اور جس طرح حضرت صدیق اکبر ؓ صحابہ کرام میں زیادہ علم و فضل رکھتے تھے ویسے ہی ان کی صاحبزادی بھی عورتوں میں عالمہ اور فاضلہ اور مقررہ تھیں۔
ہزاروں اشعار ان کو برزبان یاد تھے۔
فصاحت اور بلاغت میں کوئی ان کا مثیل نہ تھا۔
وذلك فضل اﷲ یؤتیه من یشاء اور سب سے بڑی فضیلت یہ کہ سرکار رسالت نے ان کو بہت سی خصوصیات کی بنا پر اپنی خاص رفیقہ حیات قرار دیا۔
حضرت جبرائیل ؑ نے آپ کا خاص اکرام کیا۔
و کفی به فضلا حضرت امام بخاری ؒ اس طویل حدیث کو یہاں اس لیے لائے کہ باب کا مضمون اس سے صراحتاً ثابت ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی خاص دوست کو تحفے تحائف اس کی خاص بیوی کی باری میں پیش کرسکتا ہے۔
الحمد للہ اپریل1970ءکی پانچ تاریخ تک کعبہ شریف مکۃ المکرمہ میں یہ پارہ اس حدیث تک پڑھاگیا اور احادیث نبویہ کے لفظ لفظ پر غور و فکر کرکے اللہ سے کعبہ میں دعاءکی گئی کہ وہ مجھے اس کے سمجھنے اور تحقیق حق کے ساتھ اس کا اردو ترجمہ و مختصر جامع شرح لکھنے کی توفیق عطا کرے اور اس باقیات الصالحات کا ثواب عظیم میرے مرحوم بھائی حاجی محمد علی عرف بلاری پیارو قریشی بنگلور کے حق میں بھی قبول کرے جن کی طرف سے حج بدل کرنے کے سلسلے میں مجھ کو زیارت حرمین شریفین کی یہ سعادت نصیب ہوئی۔
ربنا تقبل منا إنك أنت السمیع العلیم
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2581
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2574
2574. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے: لوگ اس بات کااہتمام کرتے تھے کہ عائشہ کی باری کے دن اپنے تحائف بھیجیں اور اس طریقے سے وہ رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی چاہتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2574]
حدیث حاشیہ:
جس دن رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے گھر تشریف فرما ہوتے تو لوگ آپ کو ہدایا اور نذرانے بھیجا کرتے تھے۔
لوگوں کے دلوں میں حضرت عائشہ ؓ کا احترام دو پہلوؤں سے تھا:
٭ رسول اللہ ﷺ کو آپ سے خصوصی تعلق خاطر تھا، اس بنا پر لوگ رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے تھے۔
٭ اپنے علم اور مرتبے کے لحاظ سے بھی ان کا ایک خاص مقام تھا، اس بنا پر لوگوں کا احترام اپنی جگہ پر قابل تعریف تھا۔
خدمت نبوی میں تحفہ اور پھر اسے حضرت عائشہ ؓ کی باری میں پیش کرنا ہر دو امور رسول اللہ ﷺ کی خوشی کا باعث تھے۔
اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ اس طریقے سے جو چیزیں حضرت عائشہ ؓ کے گھر پہنچتی تھیں ان میں سے تمام ازواج کو بھیجتے تھے۔
(فتح الباري: 256/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2574
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2580
2580. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: لوگ اپنے ہدایا بھیجتے وقت میری باری کے دن کا خیال رکھتے تھے۔ حضرت ام سلمہ ؓ کا بیان ہے کہ میری سوکنوں نے اکھٹے ہوکر آپ ﷺ سے (بطور شکایت) ذکر کیا تو آپ نے ان کو جواب ہی نہ دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2580]
حدیث حاشیہ:
لوگ رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی کے لیے یہ اہتمام کرتے تھے کہ حضرت عائشہ ؓ کی باری کے دن کا انتظار کرتے۔
دوسری ازواج کو یہ اہتمام ناگوار گزرا تو انہوں نے مل کر اس کے متعلق احتجاج کیا۔
رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ آپ لوگوں کو تحائف کے متعلق ہدایت کریں کہ وہ کسی خاص دن کا انتظار نہ کیا کریں بلکہ آپ جس گھر میں تشریف فرما ہوں ہدایا وہاں بھیج دیا کریں۔
رسول اللہ ﷺ نے اس بات کی طرف کوئی توجہ نہ دی کیونکہ اس معاملے میں آپ کا کوئی کردار نہ تھا، نہ آپ کے حکم سے لوگوں نے یہ عادت بنائی تھی اور آپ کے لیے انہیں روکنا مناسب بھی نہیں تھا۔
اس احتجاج کی تفصیل اگلی حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2580
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2581
2581. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ک بیویوں کے دو گروپ تھے: ایک گروپ میں حضرت عائشہ ؓ، حضرت حفصہ ؓ، حضرت صفیہ ؓ، حضرت سودہ ؓ تھیں، جبکہ دوسرے گروپ میں حضرت ام سلمہ ؓ کے ساتھ باقی تمام ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین تھیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی (والہانہ) محبت کو جانتے تھے، اس لیے جب کسی کے پاس تحفہ ہوتا اور وہ اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا (تو) اس میں تاخیر کرتا حتیٰ کہ جب رسول اللہ ﷺ حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں تشریف فرماہوتے تو ہدیہ بھیجنے والا رسول اللہ ﷺ کے لیے حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں ہدیہ بھیجتا۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت ام سلمہ ؓ کے گروپ نے مشورہ کرکے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ سے بات کریں کہ وہ لوگوں سے کہیں کہ جس کسی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2581]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس طویل حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی خاص دوست کو تحائف و ہدایا اس کی خاص بیوی کی باری میں پیش کر سکتا ہے۔
یہ تحفہ بھیجنے والے کی مرضی ہے کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے بھیجے، اس پر زبردستی کوئی حکم نہیں ٹھونسا جا سکتا کہ فلاں وقت بھیجے اور فلاں وقت نہ بھیجے۔
(2)
رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے صدیقۂ کائنات حضرت عائشہ ؓ کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔
اللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہو ان نالائق لوگوں پر جو حضرت عائشہ ؓ کے متعلق زبان درازی کرتے ہیں۔
(3)
رسول اللہ ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا:
” آخر یہ حضرت ابوبکر ؓ کی دختر ہیں۔
“ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ شریف الطبع، زیرک و دانا اور معاملہ فہم ہیں جیسا کہ ان کے والد گرامی نہایت شریف اور عقلمند انسان ہیں۔
(فتح الباري: 256/5)
رسول اللہ ﷺ کا مقصد فتنے کا سدباب تھا۔
اگر فریقین دل کی بھڑاس نہ نکالتے تو قصہ دراز ہو جاتا۔
اچھا ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں قصہ کوتاہ (مختصر)
ہو گیا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2581