Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
30. بَابُ إِحْدَادِ الْمَرْأَةِ عَلَى غَيْرِ زَوْجِهَا:
باب: عورت کا اپنے خاوند کے سوا اور کسی پر سوگ کرنا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 1279
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ , قَالَ: تُوُفِّيَ ابْنٌ لِأُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الثَّالِثُ دَعَتْ بِصُفْرَةٍ فَتَمَسَّحَتْ بِهِ , وَقَالَتْ" نُهِينَا أَنْ نُحِدَّ أَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثٍ إِلَّا بِزَوْجٍ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سلمہ بن علقمہ نے اور ان سے محمد بن سیرین نے کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے ایک بیٹے کا انتقال ہو گیا۔ انتقال کے تیسرے دن انہوں نے صفرہ خلوق (ایک قسم کی زرد خوشبو) منگوائی اور اسے اپنے بدن پر لگایا اور فرمایا کہ خاوند کے سوا کسی دوسرے پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1279 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1279  
حدیث حاشیہ:
(1)
غم و الم کی وجہ سے عورتوں کا ترک زینت کرنا سوگ کہلاتا ہے۔
موت کی وجہ سے سوگ کرنا بالاتفاق مشروع ہے۔
پھر یہ سوگ حق زوج کی وجہ سے واجب ہے اور دوسروں کی وفات کی بنا پر جائز ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ شدتِ غم و الم کی وجہ سے خاوند کے علاوہ کسی بھی دوسری عزیز و قریبی کے لیے بھی سوگ ہو سکتا ہے۔
شارع ؑ نے اسے جائز قرار دیا ہے، واجب نہیں۔
اور یہ تین دن سے زیادہ جائز نہیں۔
ان دنوں میں اگر خاوند اس سے اپنی خواہش کا اظہار کرے تو اسے پورا کرنا اس کی ذمہ داری ہے، اس سوگ کو بطور آڑ استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
(2)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں غير زوج کے الفاظ سے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ضروری نہیں کہ خاوند کے سوا فوت ہونے والا شخص کوئی قریبی رشتہ دار ہو تب ہی سوگ جائز ہے بلکہ کسی اجنبی تعلق دار کی وفات پر بھی سوگ کیا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 187/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1279