صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
25. بَابُ الْكَفَنِ مِنْ جَمِيعِ الْمَالِ:
باب: کفن کی تیاری میت کے سارے مال میں سے کرنا چاہیے۔
حدیث نمبر: 1274
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَكِّيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ , قَالَ:" أُتِيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمًا بِطَعَامِهِ , فَقَالَ: قُتِلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ وَكَانَ خَيْرًا مِنِّي فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ مَا يُكَفَّنُ فِيهِ إِلَّا بُرْدَةٌ، وَقُتِلَ حَمْزَةُ أَوْ رَجُلٌ آخَرُ خَيْرٌ مِنِّي فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ مَا يُكَفَّنُ فِيهِ إِلَّا بُرْدَةٌ، لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ قَدْ عُجِّلَتْ لَنَا طَيِّبَاتُنَا فِي حَيَاتِنَا الدُّنْيَا، ثُمَّ جَعَلَ يَبْكِي".
ہم سے احمد بن محمد مکی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے ‘ ان سے ان کے باپ سعد نے اور ان سے ان کے والد ابراہیم بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک دن کھانا رکھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ (غزوہ احد میں) شہید ہوئے ‘ وہ مجھ سے افضل تھے۔ لیکن ان کے کفن کے لیے ایک چادر کے سوا اور کوئی چیز مہیا نہ ہو سکی۔ اسی طرح جب حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے یا کسی دوسرے صحابی کا نام لیا ‘ وہ بھی مجھ سے افضل تھے۔ لیکن ان کے کفن کے لیے بھی صرف ایک ہی چادر مل سکی۔ مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے چین اور آرام کے سامان ہم کو جلدی سے دنیا ہی میں دے دئیے گئے ہوں پھر وہ رونے لگے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1274 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1274
حدیث حاشیہ:
امام المحدثین ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا کہ حضرت مصعب اور حضرت امیر حمزہ ؓ کا کل مال اتنا ہی تھا۔
بس ایک چادر کفن کے لیے تو ایسے موقع پر سارا مال خرچ کرنا چاہیے۔
اس میں اختلاف ہے کہ میت قرض دار ہوتو صرف اتنا کفن دیا جائے کہ سترپوشی ہوجائے یا سارا بدن ڈھانکا جائے۔
حافظ ابن حجر نے اس کو ترجیح دی ہے کہ سارا بدن ڈھانکا جائے ایسا کفن دینا چاہیے۔
حضرت مصعب بن عمیر ؓ قریشی جلیل القدر صحابی ہیں رسول کریم ﷺ نے ہجرت سے پہلے ہی ان کو مدینہ شریف بطور معلم القرآن ومبلغ اسلام بھیج دیا تھا۔
ہجرت سے پہلے ہی انہوں نے مدینہ میں جمعہ قائم فرمایا جب کہ مدینہ خود ایک گاؤں تھا۔
اسلام سے قبل یہ قریش کے حسین نوجوانوں میں عیش وآرام میں زیب وزینت میں شہرت رکھتے تھے مگر اسلام لانے کے بعد یہ کامل درویش بن گئے۔
قرآن پاک کی آیت رِجَال ﴿صَدَقُوا مَا عَاهَدُو اللّٰہَ عَلَیهِ﴾ (الأحزاب: 23)
ان ہی کے حق میں نازل ہوئی۔
جنگ احد میں یہ شہید ہوئے۔
(رضي اللہ عنه وأرضاہ)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1274
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1274
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے ایک ضعیف حدیث کے الفاظ کو بطور عنوان استعمال کیا ہے، وہ اگرچہ سند کے اعتبار سے کمزور ہے، لیکن اس کا مضمون صحیح تھا، اس لیے صحیح روایت سے اسے ثابت کیا ہے، یعنی کفن کے اخراجات اس کے ترکے سے پورے کیے جائیں۔
اس میں غسل، خوشبو، قبر کی خریداری، کھودنے کی مزدوری، وہاں تک لے جانے کا کرایہ سب اخراجات کفن کا حصہ ہیں اور انہیں میت کے سرمائے سے پورا کیا جائے گا۔
اگر ان اخراجات کو پورا کرنے کے بعد کچھ بچ جائے تو میت کا قرض وغیرہ اتارا جائے، پھر ثلث مال سے اس کی وصیت کو پورا کیا جائے۔
اس کے بعد اس کی جائیداد ورثاء میں تقسیم ہو گی۔
(2)
عنوان سے حدیث کی مطابقت بایں طور پر ہے کہ حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت حمزہ ؓ کا جمع ترکہ صرف ایک چادر ہی تھا، اسے کفن میں استعمال کیا گیا۔
رسول اللہ ﷺ نے یہ دریافت نہیں فرمایا کہ ان کے ذمے کوئی قرض وغیرہ تو نہیں۔
ضرورت کے وقت شارع کا خاموش رہنا ہی بیان کی دلیل، یعنی اس مسئلے کو ثابت کرنا ہے کہ میت کے ترکے سے اولین ترجیح اس کے کفن دفن کے اخراجات ہیں۔
اگر اس سے کچھ بچ رہے تو قرضہ وغیرہ اتارا جائے، بصورت دیگر اس کے تمام ترکے کو کفن دفن کے اخراجات میں صرف کر دیا جائے۔
اس میں اختلاف ہے کہ اگر میت مقروض ہو اور اتنا قرض ہے کہ اس کا تمام مال قرض کی ادائیگی میں خرچ ہو سکتا ہے تو کفن کے لیے کتنا کپڑا لیا جائے؟ اتنا کفن کافی ہے جس سے ستر پوشی ہو سکے یا تمام بدن کو ڈھانکنے کے لیے کپڑا لینا چاہیے؟ حافظ ابن حجر ؒ نے اس بات کو راجح قرار دیا ہے کہ اس کے مال سے پورا بدن ڈھانپنے کے لیے کپڑا خریدا جائے۔
(فتح الباري: 181/3) (3)
ہمارے ہاں جہلاء قل خوانی، تیسرا، ساتواں اور چالیسواں، نیز قرآن خوانی کے اخراجات میت کے مال سے ادا کرتے ہیں۔
یہ سب بدعات ہیں اور ان میں شمولیت کرنے والے بالغ حضرات ان اخراجات کے ذمہ دار ہیں، کیونکہ ایسا کرنا میت کے حقوق میں شامل نہیں کہ ان کی ادائیگی کے لیے اس کا مال خرچ کیا جائے۔
اسی طرح اس کے مال سے کسی کو حج یا عمرے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔
یہ بھی صحیح نہیں۔
ہاں، اگر ورثاء اجازت دیں تو باقی ماندہ مال سے حج وغیرہ کے اخراجات پورے کیے جا سکتے ہیں۔
والله أعلم۔
(4)
ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ اگر شادی شدہ لڑکی فوت ہو جائے تو اسے کفن پہنانے کی ذمہ داری اس کے والدین پر ہے۔
یہ ایک جاہلانہ رسم ہے جسے ختم ہونا چاہیے، بلکہ خاوند کو چاہیے کہ وہ اس قسم کی ضروریات کو پورا کرے، والدین پر بوجھ نہ ڈالا جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1274