Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْفَضَائِلِ
انبیائے کرام علیہم السلام کے فضائل
15. باب رَحْمَتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصِّبْيَانَ وَالْعِيَالَ وَتَوَاضُعِهِ وَفَضْلِ ذَلِكَ:
باب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت کا بیان جو بچوں بالوں پر تھی اور اس کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6027
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " قَدِمَ نَاسٌ مِنَ الْأَعْرَابِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: أَتُقَبِّلُونَ صِبْيَانَكُمْ، فَقَالُوا: نَعَمْ، فَقَالُوا: لَكِنَّا وَاللَّهِ مَا نُقَبِّلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَأَمْلِكُ إِنْ كَانَ اللَّهُ نَزَعَ مِنْكُمُ الرَّحْمَةَ "، وقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: مِنْ قَلْبِكَ الرَّحْمَةَ.
ابو اسامہ اور ابن نمیر نے ہشام (بن عروہ) سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س بادیہ سے کچھ لوگ آئےاور انھوں نےپوچھا: کیا آپ لوگ اپنے بچوں کو کچھ بوسہ دیتے ہیں؟لوگوں نے کہا: ہاں، تو ان لوگوں نے کہا: لیکن واللہ! ہم تو اپنے بچوں کو بوسہ نہیں دیتے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اگر اللہ تعالیٰ نے تمھارے اندر سے رحمت نکال دی ہے (تو کیا ہوسکتا ہے!) " ابن نمیر کی روایت میں ہے: "تمھارے دل سے رحمت نکال دی ہے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، کچھ اعرابی لوگ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھنے لگے، کیا تم بچوں کو بوسہ دیتے ہو؟ صحابہ کرام نے کہا، ہاں۔ تو وہ کہنے لگے، لیکن ہم اللہ کی قسم! بوسہ نہیں دیتے تو رسول اللہ نے فرمایا: اور میں کیا کروں، اگر اللہ نے تمہارے دلوں سے رحمت نکال لی ہے۔ ابن خمیر کہتے ہیں، تیرے دل سے رحمت نکال لی ہے۔
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 6027 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6027  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
اپنی چھوٹی اولاد سے بوس و کنار،
ایک طبعی اور فطرتی شفقت و پیار کا نتیجہ ہے اور ان سے پیار و محبت نہ کرنا،
دل کی سختی اور شقاوت کی دلیل ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6027   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3665  
´باپ کو اپنے بچوں خاص کر بیٹیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہئے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ کچھ اعرابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور کہا: کیا آپ لوگ اپنے بچوں کا بوسہ لیتے ہیں؟ لوگوں نے کہا: ہاں، تو ان اعرابیوں (خانہ بدوشوں) نے کہا: لیکن ہم تو اللہ کی قسم! (اپنے بچوں کا) بوسہ نہیں لیتے، (یہ سن کر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے کیا اختیار ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں سے رحمت اور شفقت نکال دی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3665]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اپنے بچوں سے پیار کرنا شفقت و محبت کی علامت ہے۔

(2)
دل اللہ کے قبضے میں ہیں۔
نبی ﷺ وعظ و نصیحت کرتے تھے اور حق کو واضح کر کے بیان فرماتے تھے۔
ہدایت دینا اللہ کا کام ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3665   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5998  
5998. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک دیہاتی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: تم لوگ بچوں کا بوسہ لیتے ہو؟ ہم تو ان کا بوسہ نہیں لیتے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اگر تیرے دل سے اللہ تعالٰی نے جذبہ رحمت نکال دیا ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5998]
حدیث حاشیہ:
(1)
ممکن ہے کہ دیہاتی سے مراد حضرت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ ہوں کیونکہ وہ بھی ذرا سخت طبیعت کے تھے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں سے محبت وپیار کرنے کو رحمت سے تعبیر کیا ہے کیونکہ آپ نے دیہاتی سے فرمایا:
اگر اللہ تعالیٰ نے تیرے دل سے رحمت کھینچ لی ہے تو میں تیرے دل میں جذبۂ رحمت پیدا کرنے پر قادر نہیں ہوں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس قسم کا واقعہ حضرت قیس بن عاصم تمیمی رضی اللہ عنہ اور حضرت حصن بن حذیفہ فزاری رضی اللہ عنہ سے بھی پیش آیا۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ کسی محرم یا اجنبی بچے کا بوسہ لینا یہ شفقت اور پیار کی وجہ سے ہوتا ہے، اس میں لذت یا شہوت کا شائبہ نہیں ہوتا لہٰذا اس کے جائز ہونے میں کوئی شک نہیں، اسی طرح بچوں کو گلے لگانا، انھیں سونگھنا بھی جائز ہے۔
(فتح الباري: 528/10)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5998