صحيح مسلم
كِتَاب الْفَضَائِلِ
انبیائے کرام علیہم السلام کے فضائل
5. باب بَيَانِ مَثَلِ مَا بُعِثَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْهُدَى وَالْعِلْمِ:
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو ہدایت اور علم لے کر آئے ہیں اس کی مثال۔
حدیث نمبر: 5953
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو عَامِرٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي عَامِرٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ مَثَلَ مَا بَعَثَنِيَ اللَّهُ بِهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الْهُدَى وَالْعِلْمِ، كَمَثَلِ غَيْثٍ أَصَابَ أَرْضًا، فَكَانَتْ مِنْهَا طَائِفَةٌ طَيِّبَةٌ قَبِلَتِ الْمَاءَ فَأَنْبَتَتِ الْكَلَأَ وَالْعُشْبَ الْكَثِيرَ، وَكَانَ مِنْهَا أَجَادِبُ أَمْسَكَتِ الْمَاءَ فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاسَ، فَشَرِبُوا مِنْهَا، وَسَقَوْا، وَرَعَوْا، وَأَصَابَ طَائِفَةً مِنْهَا أُخْرَى، إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لَا تُمْسِكُ مَاءً، وَلَا تُنْبِتُ كَلَأً، فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللَّهِ وَنَفَعَهُ بِمَا بَعَثَنِيَ اللَّهُ بِهِ، فَعَلِمَ، وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ ".
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی مثال جو اللہ نے مجھے ہدایت اور علم دیا، ایسی ہے جیسے زمین پر بارش برسی اور اس (زمین) میں کچھ حصہ ایسا تھا جس نے پانی کو چوس لیا اور چارا اور بہت سا سبزہ اگایا۔ اور اس کا کچھ حصہ کڑا سخت تھا، اس نے پانی کو جمع رکھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اس (پانی) سے لوگوں کو فائدہ پہنچایا کہ انہوں نے اس میں سے پیا، پلایا اور چرایا۔ اور اس کا کچھ حصہ چٹیل میدان ہے کہ نہ تو پانی کو روکے اور نہ گھاس اگائے۔ (جیسے چکنی چٹان کہ پانی لگا اور چل دیا) تو یہ اس کی مثال ہے کہ جس نے اللہ کے دین کو سمجھا اور اللہ نے اس کو اس چیز سے فائدہ دیا جو مجھے عطا فرمائی، اس نے آپ بھی جانا اور دوسروں کو بھی سکھایا اور جس نے اس طرف سر نہ اٹھایا (یعنی توجہ نہ کی) اور اللہ کی ہدایت کو جس کو میں دے کر بھیجا گیا قبول نہ کیا۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ہدایت اور علم اللہ بزرگ و برتر نے مجھے دے کر بھیجا ہے اس کی مثال بارش کی ہے وہ زمین پر برسی، اس کا ایک ٹکڑا زرخیز تھا اس نے پانی کو قبول کیا اس نے گھاس اور بہت سا سبزہ پیدا کی، اس ایک ٹکڑا بنجر تھا اس نے پانی کو روک لیا، اللہ نے لوگوں کو اس سے نفائدہ پہنچایا، لوگوں نے اس پانی پیا، جانوروں کو پلایا، کھیتی کو سیراب کیا اور اس کے ایک اور پر بارش برسی، وہ بس چٹیل میدان تھا، نہ وہ پانی روکتا ہے اور نہ گھاس اگاتا ہے یہ ان لوگوں کی تمثیل ہے جنہوں نے اللہ کے دین کو سمجھا اور اللہ تعالی نے جو کچھ مجھے دیے کر بھیجا ہے اس نے اس کو فائدہ پہنچایا، اس نے خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور ان لوگوں کی تمثیل، جنہوں نے اس کی طرف (علم و ہدایت کر طرف) سر اٹھا کر نہیں دیکھا اور جو ہدایت دے کر مجھے بھیجا گیا ہے اسے قبول نہیں کیا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5953 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5953
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
الكلاء:
تازہ اور خشک سبزہ۔
(2)
العشب:
تازہ سبزہ۔
(3)
اجادب:
جدب کی جمع ہے،
پتھریلی زمین جو پانی کو جذب نہیں کرتی۔
(4)
قيعان:
قاع کی جمع ہے،
ہموار اور چٹیل زمین،
جو نہ پانی کو جذب کرتی ہے اور نہ وہ پانی جمع ہوتا ہے،
(5)
فقه:
اپنے اندر فقاہت اور سوجھ بوجھ پیدا کی۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں آپﷺ کے لائے ہوئے دین و شریعت کو بارش سے تشبیہ دی گئی ہے،
جس کا فیض اور نفع سب کے لیے عام ہے،
لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے قابلیت اور اہلیت کی ضرورت ہے،
جس کے اندر،
اس سے فائدہ اٹھانے کی استعداد اور صلاحیت نہیں ہے،
وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور آپ نے بارش سے فائدہ اٹھانے والی زمین کی تین قسمیں کی ہیں،
پہلی قسم کی زمین وہ جس میں بارش کے پانی کو جذب کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت ہے،
یعنی وہ زرخیز زمین ہے،
جو پانی کو جذب کرتی ہے،
اس لیے بارش کے پانی سے اس میں سبزہ پیدا ہوتا ہے،
اس طرح زمین نے بارش سے خود بھی فائدہ اٹھایا اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچایا،
اس طرح آپ کی شریعت اور ہدایت سے لوگوں کے ایک طبقہ نے خود بھی فائدہ اٹھایا،
اس کو سیکھا اور اس پر عمل کیا،
اس سے مسائل کا استنباط کیا،
دوسروں کو بھی تعلیم و تدریس اور تصنیف و تبلیغ سے فائدہ پہنچایا،
زمین کی دوسری قسم وہ ہے،
جو پتھریلی ہے،
پانی کو جذب کر کے خود فائدہ نہیں اٹھاتی ہے،
لیکن پانی کو روک لیتی ہے،
جس سے لوگ خود بھی پیتے ہیں،
اپنے مویشیوں اور کھیتیوں کو بھی پلاتے ہیں۔
اس طرح کچھ لوگ ہیں جو علم حاصل کرتے ہیں،
اسے محفوظ رکھتے ہیں،
لوگوں تک پہنچاتے ہیں،
لیکن ان میں استنباط کی اہلیت نہیں ہوتی اور زمین کا تیسرا ٹکڑا یا تیسری قسم وہ ہے جس پر بارش ہوتی ہے،
لیکن وہ چٹیل ہے،
نہ پانی جذب کرتی ہے اور نہ ہی پانی کو روکتی ہے،
اس لیے نہ بارش سے فائدہ اٹھاتی ہے اور نہ دوسروں کو فائدہ پہنچاتی ہے،
اس طرح لوگوں کی تیسری قسم وہ ہے جو دین و شریعت کی باتیں سنتے ہیں،
لیکن ان کو یاد کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے،
اس لیے نہ خود اسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور نہ دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں،
آپ نے پہلی دو قسموں کو جمع کر دیا ہے اور تیسری قسم کو الگ بیان فرمایا ہے،
کیونکہ دونوں قسموں نے علم و ہدایت سے کسی نہ کسی اعتبار سے فائدہ اٹھایا،
لیکن تیسری قسم نے کوئی فائدہ ہی نہیں اٹھایا،
نہ خود کچھ حاصل کیا اور نہ دوسروں کو کچھ بتایا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5953
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 150
´رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مثال `
«. . . وَعَنْ أَبِي مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ مِنَ الْهُدَى وَالْعلم كَمثل الْغَيْث الْكثير أصَاب أَرضًا فَكَانَ مِنْهَا نقية قَبِلَتِ الْمَاءَ فَأَنْبَتَتِ الْكَلَأَ وَالْعُشْبَ الْكَثِيرَ وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ أَمْسَكَتِ الْمَاءَ فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاس فَشَرِبُوا وَسقوا وزرعوا وأصابت مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَى إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لَا تُمْسِكُ مَاءً وَلَا تُنْبِتُ كَلَأً فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللَّهِ وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ» . . .»
”. . . سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو علم ہدایت اللہ نے مجھے دے کر بھیجا ہے اس کی مثال کثیر بارش کی طرح ہے (جو زمین کے مختلف قسم کے حصوں پر برسی) بعض ان میں عمدہ اور پاکیزہ حصے پر برسی اس نے پانی کو اپنے اندر جذب کر کے سوکھی اور ہری گھاس کو اگایا (خشک گھاس اس سے ہری اور تروتازو ہو گئی۔ اور بہت سی نئی نئی ہری ہری گھاس پیدا ہو گئی) اور زمین کے سخت اور بنجر ٹکڑے میں بھی وہی بارش پڑی اس نے پانی جمع کر لیا اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو فائدہ پہنچایا لوگوں نے اس کو پیا اور پلایا اور کھیتی کو بھی سیراب کیا زمین کا ایک حصہ بالکل چٹیل میدان تھا نہ تو اس نے پانی ہی کو روکا اور نہ گاس ہی کو اگایا۔ یہی مثال اس شخص کی ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے دین کی سمجھ حاصل کی اور اللہ تعالیٰ نے اس دین سے اس کو نفع پہنچایا۔ اس نے خود سیکھا اور دوسروں کو سکھلایا اور یہی اس شخص کی مثال ہے۔ جس نے اس دین ہدایت اور علم کی طرف سر اٹھا کر دیکھا بھی نہیں اور نہ اس نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو قبول ہی کیا جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں۔“ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 150]
تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 79]،
[صحيح مسلم 5953]
فقہ الحدیث:
➊ دو قسم کے لوگ فائدے میں ہیں:
قرآن و حدیث کو یاد کر کے اس کی تعلیم دینے والے اور قرآن و حدیث کے تفقہ (سوجھ بوجھ) کے ذریعے سے دین اسلام کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والے۔
➋ صحیح العقیدہ عالم کو عام لوگوں پر فضیلت حاصل ہے بشرطیکہ وہ کتاب و سنت پر عمل کرنے والا ہو، ریاکار اور لالچی نہ ہو۔
➌ مسلمان بھائیوں سے تعاون کرنا اور ان کے کام آنا اہل ایمان کی نشانی ہے۔
➍ تفقہ سے مراد فہم سلف صالحین کی روشنی میں قرآن، حدیث اور اجماع پر عمل ہے۔ کتاب و سنت کی مخالفت کرنے والے بعض اہل الرائے اپنے آپ کو فقیہ سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ وہ فقہ و تفقہ سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔
◄ امام بخاری کے استاذ امام علی بن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«التفقه فى معاني الحديث نصف العلم، ومعرفة الرجال نصف العلم»
”حدیث کے مفہوم کا تفقہ آدھا علم ہے اور اسماء الرجال کی پہچان آدھا علم ہے۔“ [المحدث الفاصل بين الراوي والواعي ص32 ح222 و سنده صحيح]
◄ ولید بن حماد اللؤلؤی نامی ایک فقیہ گزرے ہیں جنہیں حافظ ابن حبان نے کتاب الثقات [9؍226] میں ذکر کیا ہے۔ ان کے بارے میں ابوجعفر محمد بن عبید بن عتبہ الکوفی (ثقہ صدوق) فرماتے ہیں:
«وكان من البكائين، ثقة فقيه، لا يفتي بالرأي»
”وہ کثرت سے رونے والوں میں سے تھے، ثقہ فقیہ تھے، رائے سے فتویٰ نہیں دیتے تھے۔“ [صحيح ابي عوانه ج1 ص9 ح12، وسنده صحيح]
◄ افسوس ہے ان لوگوں پر جو کتاب و سنت کا علم ہونے کے باوجود جان بوجھ کر قرآن و حدیث کے خلاف رائے پر فتوے دیتے ہیں اور اپنے آپ کو ”فقیہ“ سمجھے بیٹھے ہیں۔!
◄ ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو سجدوں کے درمیان «رَبِّ اغْفِرْلِيْ رَبِّ اغْفِرْلِيْ» ”اے میرے رب! مجھے بخش دے، اے میرے رب! مجھے بخش دے“، پڑھتے تھے۔ [سنن ابي داود: 874، سنن النسائي: 1070، 1146، مسند ابي داود الطيالسي: 416 وسنده صحيح]
تنبیہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گناہوں سے بالکل پاک اور معصوم ہیں۔ آپ یہ دعا امت کی تعلیم کے لئے پڑھتے تھے یا اس کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! میرے اور گناہوں کے درمیان پردہ ڈال دے۔ ديكهئے: [ميري كتاب الاتحاف الباسم فى تحقيق موطا امام مالك رواية عبدالرحمٰن بن قاسم ح483]
◄ جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ راوی امام مکحول تابعی رحمہ اللہ دو سجدوں کے درمیان «اللهم اغفرلي وارحمني واجبرني وارزقني» ”اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے مضبوط کر دے اور مجھے رزق عطا فرما، پڑھتے تھے۔“ [مصنف ابن ابي شيبه نسخه جديد محققه ج2 ص534 ح8922 و سنده صحيح]
◄ اس کے برعکس محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی کی طرف منسوب کتاب ”الجامع الصغیر“ میں لکھا ہوا ہے:
«وكذلك بين السجدتين يسكت»
”اور اسی طرح دو سجدوں کے درمیان خاموش رہے گا۔“ [ص 88]
اس پر حاشیے میں عبدالحئی لکھنؤی لکھتے ہیں:
«هذا مخالف لما جاء فى الاخبار الصحاح . . .»
”جو صحیح احادیث میں آیا ہے یہ اس کے مخالف ہے۔!“ [شرح الجامع الصغير ص88]
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 150
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 79
´پڑھنے اور پڑھانے والے کی فضیلت کے بیان میں`
«. . . حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ مِنَ الْهُدَى وَالْعِلْمِ، كَمَثَلِ الْغَيْثِ الْكَثِيرِ أَصَابَ أَرْضًا فَكَانَ مِنْهَا نَقِيَّةٌ قَبِلَتِ الْمَاءَ، فَأَنْبَتَتِ الْكَلَأَ وَالْعُشْبَ الْكَثِيرَ، وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ أَمْسَكَتِ الْمَاءَ، فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاسَ فَشَرِبُوا وَسَقَوْا وَزَرَعُوا، وَأَصَابَتْ مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَى إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لَا تُمْسِكُ مَاءً وَلَا تُنْبِتُ كَلَأً، فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللَّهِ وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ "، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: قَالَ إِسْحَاقُ: وَكَانَ مِنْهَا طَائِفَةٌ قَيَّلَتِ الْمَاءَ قَاعٌ يَعْلُوهُ الْمَاءُ وَالصَّفْصَفُ الْمُسْتَوِي مِنَ الْأَرْضِ . . . .»
”. . . حماد بن اسامہ نے برید بن عبداللہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابی بردہ سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوموسیٰ سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال زبردست بارش کی سی ہے جو زمین پر (خوب) برسے۔ بعض زمین جو صاف ہوتی ہے وہ پانی کو پی لیتی ہے اور بہت بہت سبزہ اور گھاس اگاتی ہے اور بعض زمین جو سخت ہوتی ہے وہ پانی کو روک لیتی ہے اس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ وہ اس سے سیراب ہوتے ہیں اور سیراب کرتے ہیں۔ اور کچھ زمین کے بعض خطوں پر پانی پڑتا ہے جو بالکل چٹیل میدان ہوتے ہیں۔ نہ پانی روکتے ہیں اور نہ ہی سبزہ اگاتے ہیں۔ تو یہ اس شخص کی مثال ہے جو دین میں سمجھ پیدا کرے اور نفع دے، اس کو وہ چیز جس کے ساتھ میں مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس نے علم دین سیکھا اور سکھایا اور اس شخص کی مثال جس نے سر نہیں اٹھایا (یعنی توجہ نہیں کی) اور جو ہدایت دے کر میں بھیجا گیا ہوں اسے قبول نہیں کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق نے ابواسامہ کی روایت سے «قيلت الماء» کا لفظ نقل کیا ہے۔ «قاع» اس خطہ زمین کو کہتے ہیں جس پر پانی چڑھ جائے (مگر ٹھہرے نہیں) اور «صفصف» اس زمین کو کہتے ہیں جو بالکل ہموار ہو۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ فَضْلِ مَنْ عَلِمَ وَعَلَّمَ:: 79]
تشریح:
حدیث (78) سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے علم حاصل کرنے کے لیے کتنا بڑا سفر کیا۔ جن لوگوں نے یہ حکایت نقل کی ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے فقہ حنفی سیکھی اور پھر قشیری کو سکھائی یہ سارا قصہ محض جھوٹ ہے۔ اسی طرح بعضوں کا یہ خیال کہ حضرت عیسیٰ یا امام مہدی حنفی مذہب کے مقلد ہوں گے محض بے اصل اور خلاف قیاس ہے۔ حضرت ملا علی قاری نے اس کا خوب رد کیا ہے۔ حضرت امام مہدی خالص کتاب و سنت کے علم بردار پختہ اہل حدیث ہوں گے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 79
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:79
79. حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت و علم مجھے دے کر بھیجا ہے، اس کی مثال تیز بارش کی سی ہے جو زمین پر برسے۔ صاف اور عمدہ زمین تو پانی کو جذب کر لیتی ہے اور بہت سا گھاس اور سبزہ اگاتی ہے، جبکہ سخت زمین پانی کو روکتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ لوگ خود بھی پیتے ہیں اور جانوروں کو بھی سیراب کرتے ہیں اور اس کے ذریعے سے کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں۔ اور کچھ بارش ایسے حصے پر برسی جو صاف اور چٹیل میدان تھا۔ وہ نہ تو پانی کو روکتا ہے اور نہ سبزہ ہی اگاتا ہے۔ پس یہی مثال اس شخص کی ہے جس نے اللہ کے دین میں سمجھ حاصل کی اور جو تعلیمات دے کر اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے، ان سے اسے فائدہ ہوا، یعنی اس نے انہیں خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔ اور یہی اس شخص کی مثال ہے جس نے سر تک نہ اٹھایا اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:79]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ عنوان بالا کو بایں طور پر ثابت کرتے ہیں کہ جس طرح زمین کی سب سے بہترین قسم وہ ہے جو خود بھی نفع اندوز ہو اور دوسروں کو بھی نفع پہنچائے، اسی طرح وہ عالم سب سے افضل ہے جو خود بھی علم کے ثمرات سے فائدہ اٹھائے اور دوسروں کو بھی نفع اٹھانے کے مواقع فراہم کرے۔
(شرح الکرماني: 59/2)
2۔
اس حدیث میں زمین کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں:
ایک وہ جو پانی جذب کرے اور روئیدگی لائے۔
دوسری وہ جو پانی جذب کرنے کی بجائے اسے محفوظ کرے جس سے جانور اور انسان فائدہ اٹھاتے ہیں تیسری وہ جو نہ پانی جذب کرے اور نہ اسے اپنے اندر محفوظ ہی رکھے۔
اسی طرح اہل علم کی بھی تین اقسام ہیں:
بعض وہ حضرات ہیں جنھوں نے احادیث کو سنا اور ان سے مسائل کا استنباط کیا، جیسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ۔
دوسرے وہ جنھوں نے احادیث کو سننے کے بعد ان کو محفوظ کیا لیکن ان سے استنباط نہیں کیا، جیسے ناقلین حدیث۔
تیسرے وہ جنھوں نے احادیث کو نہ محفوظ کیا اور نہ اس پر عمل ہی کیا، جیسے امراء اور جہلا وغیرہ۔
اس طرح مثالیں بھی تین اور اس کے مصداق بھی تین، یعنی ان میں پوری مطابقت ہے۔
3۔
اس تشبیہ میں وجہ شبہ احیاء ہے، یعنی جس طرح عالم اسباب میں زمین کی زندگی اور موت کا تعلق پانی سے ہے کہ بارش ہوگئی تو زمین کو نئی زندگی مل گئی سرسبزی اور شادابی چھا گئی، اسی طرح جب علوم کا فیضان دلوں پر ہوتا ہے تو انھیں بھی نئی زندگی مل جاتی ہے۔
(فتح الباري: 232/1)
4۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر افادہ اور استفادہ تھا، اس لیے آخر میں پہلی دو قسموں کو یعنی جس نے پانی جذب کیا اور جس نے جذب کرنے کے بجائے اسے محفوظ کر لیا۔
ایک ہی شمار کیا گیا ہے کیونکہ یہ دونوں افادے میں برابر ہیں، اگرچہ پہلی قسم میں افادہ اور استفادہ دونوں ہیں، کیونکہ علمی بارش سے دونوں سیراب ہوتے ہیں لیکن نفع کی نوعیت مختلف ہے۔
اور تیسری قسم میں نہ افادہ ہے اور نہ استفادہ، اس لیے آخرمیں اسے مستقل طور پر بیان فرمایا اور اس سے مراد کافر اور جاہل لوگ ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 79